کیا طالبان اپنے انتہا پسند گروہوں کو کنٹرول کر پائیں گے؟

شاہد حمید  بدھ 5 مارچ 2014
یقینی طور پر طالبان کی شوریٰ نے ہی جنگ بندی کا یہ فیصلہ کیا ہے تاہم اس کے پس پردہ مختلف محرکات تھے جن کی بنا پر یہ اعلان کیا گیا۔    فوٹو: فائل

یقینی طور پر طالبان کی شوریٰ نے ہی جنگ بندی کا یہ فیصلہ کیا ہے تاہم اس کے پس پردہ مختلف محرکات تھے جن کی بنا پر یہ اعلان کیا گیا۔ فوٹو: فائل

پشاور: مرکزی حکومت ، طالبان کے ساتھ مذاکراتی عمل شروع ہونے سے ہی ایک مطالبہ مسلسل کر رہی تھی کہ طالبان جنگ بندی کا اعلان کریں کیونکہ جنگی حالات میں مذاکرات نہیں ہوسکتے اور اگر ہوں بھی تو ان کے کامیابی سے ہم کنار ہونے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں تاہم طالبان کی جانب سے جنگ بندی کا اعلان نہیں ہو رہا تھا، البتہ جب طالبان نے جنگ بندی کا اعلان کیا تو اسے یقینی طور پر بڑی پیش رفت قراردیا گیا۔ 

یہی وجہ ہے کہ حکومت نے بھی اس کے جواب میں جنگ بندی کا اعلان کرتے ہوئے فضائی حملے روک دیئے تاہم دونوں جانب سے جنگ بندی کا اعلان ہونے کے باوجود ان خدشات کا اظہار کیا جا رہاتھا کہ تیسری قوت کچھ ایسا نہ کردے کہ جس سے مذاکرات کے لیے یہ سازگار ماحول ایک مرتبہ پھر خراب ہو جائے اور پیر کے روز اسلام آباد کی کچہری میں خود کش دھماکے نے ان خدشات کو درست ثابت کردیا ہے ،گو کہ طالبان نے نہ صرف یہ کہ اسلام آباد دھماکہ سے لاتعلقی کا اعلان کیا ہے بلکہ انہوں نے خیبرایجنسی میں بھی دھماکے سے لاتعلقی ظاہر کی ہے تاہم ایسے حالات میں جبکہ اب تک ہونے والے ایسے تمام واقعات کی ذمہ داری ٹی ٹی پی ہی قبول کرتی آئی ہے ایسے میں ان کی جانب سے اعلان لاتعلقی کس قدر اثر رکھتا ہے اس کا اندازہ اب حکومت اور سکیورٹی فورسز کے ردعمل ہی سے ہوگا۔

طالبان نے اچانک جنگ بندی کا اعلان کیا جس کے حوالے سے بتایا گیا کہ اس بات کا فیصلہ ان کی شوریٰ کے اجلاس میں کیا گیا، یقینی طور پر طالبان کی شوریٰ نے ہی جنگ بندی کا یہ فیصلہ کیا ہے تاہم اس کے پس پردہ مختلف محرکات تھے جن کی بنا پر یہ اعلان کیا گیا، اس ضمن میں یقینی طور پر سکیورٹی فورسز کی جانب سے کیے جانے والے فضائی حملے بھی بڑی اہمیت رکھتے ہیں کیونکہ ان حملوں کے نتیجے میں عسکریت پسندوں کو کافی نقصان پہنچا اور اگر یہ حملے یونہی جاری رہتے تو اس کے نتیجے میں ان کا مزید نقصان بھی ہوتا تاہم اس سے ہٹ کر یہ بات بھی بڑی اہم ہے کہ انہی دنوں میں طالبان کی مذاکراتی کمیٹی کے اہم رکن مولانا سمیع الحق عمرہ کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب بھی گئے اور ان کی سعودی عرب میں موجودگی کے دوران ہی تحریک طالبان نے جنگ بندی کا اعلان کردیا جس کے حوالے سے یہ کہا جارہا ہے کہ چونکہ سعودی عرب کے افغانستان کے طالبان کے ساتھ روابط موجود ہیں اور افغانستان کے طالبان کا اثرو رسوخ پوری طرح پاکستان کے طالبان پر ہے اس لیے مولانا سمیع الحق کے دورہ سعودی عرب کے دوران ان روابط کا استعمال کیا گیا جس کے نتیجے میں طالبان کی جانب سے جنگ بندی ممکن ہوسکی۔

ایسا ہوا ہے یا نہیں ہوا تاہم دونوں صورتوں میں ٹی ٹی پی اور حکومت کی جانب سے جنگ بندی کو اس لیے اہم پیش رفت قراردیا جا رہا تھا کہ اب تک ایسا کوئی باقاعدہ اقدام دیکھنے میں نہیں آیا تھا تاہم اس جنگ بندی کے نتیجے میں اس بات کا امکان پیدا ہوگیا تھا کہ اب مذاکرات کا وہ سلسلہ جو رک گیا تھا وہ ایک مرتبہ پھر شروع ہو جائے گا اور جنگ بندی رہی تو یہ کامیابی سے آگے بھی بڑھتا چلا جائے گا تاہم اسلام آباد دھماکے نے صورت حال تبدیل کردی ہے۔

یقینی طور پر مرکزی حکومت اور اس کے انٹیلی جنس ادارے اس سلسلے میں اپنی کاروائی کریں گے جس کے نتیجے میں یہ واضح ہو سکے گا کہ اسلام آباد کچہری کے واقعہ میں کون ملوث ہے تاہم اس وقت تک کی صورت حال یہ ہے کہ ساری انگلیاں ٹی ٹی پی ہی کی طرف اٹھ رہی ہیں کیونکہ خود کش حملے اور ایسی کاروائیاں اب تک ٹی ٹی پی ہی کی جانب سے کی جاتی رہی ہیں لیکن اگر ٹی ٹی پی کے اس دعوے میں سچائی ہے کہ مذکورہ واقعہ میں تحریک طالبان ملوث نہیں ہے تو اس صورت میں جہاں ایک جانب مرکزی حکومت اور اس کے انٹیلی جنس ادارے اس بات کی کھوج لگائیں گے کہ اس واقعہ کے ذمہ دار کون ہیں تو دوسری جانب تحریک طالبان کو بھی ان خفیہ ہاتھوں اور تیسری قوت کو بے نقاب کرنے کے حوالے سے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے جو مذاکرات کے لیے بنے اس سازگار ماحول کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں کیونکہ یہ باتیں اب تک سامنے آتی رہی ہیں کہ تحریک طالبان کے ساتھ منسلک مختلف گروپ عسکریت پسندانہ کاروائیوں کے حوالے سے تو تحریک طالبان کے جھنڈے تلے اکھٹے تھے تاہم بات چیت اور مذاکرات کے حوالے سے ان کے تحفظات موجود ہیں اور اگر انہی تحفظات کی بنیاد پر کسی ایسے ہی گروپ نے یہ کاروائی کی ہے تو اس کا نقصان ٹی ٹی پی کو بھی ہوگا اور پورے ملک کو بھی، اس لیے جہاں سکیورٹی اداروں کو کنٹرول کرنا مرکزی حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے تو دوسری جانب ایسے گروپ جو ٹی ٹی پی کے ساتھ منسلک ہیں ان کو کنٹرول میں رکھنا اور اسی کنٹرول کے ساتھ معاملات کو آگے بڑھانا ٹی ٹی پی کی ذمہ داری ہے اور جب تک دونوں جانب سے ذمہ داریاں نہیں نبھائی جائیں گی تب تک معاملات آگے کیسے بڑھ سکتے ہیں ؟

پاکستان تحریک انصاف نے ڈرون حملوں کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے پشاور سے نیٹو سپلائی کے راستے بند کردیئے تھے اور ان راستوں میں اپنے پارٹی ورکر بٹھاتے ہوئے انھیں اس راستے آنے، جانے والے ٹرکوں کی تلاشی کی ذمہ داری کا فریضہ سونپ دیا تھا جو یقینی طور پر غلط طریقہ تھا، مذکورہ دھرنا جب شروع کیا گیا تو شاید ہی تحریک انصا ف کی قیادت اور اس کے ورکروں کے تصور میں بھی یہ بات ہو کہ یہ معاملہ اتنا طول پکڑ جائے گا، تاہم ایسا ہوا جس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ تحریک انصاف اوراس کی اتحادی جماعتوں کو وہ راستہ دکھائی نہیں دے رہا تھا جسے اختیار کرتے ہوئے وہ آبرومندانہ طریقہ سے یہ دھرنا ختم کرسکیں ، تاہم پشاور ہائی کورٹ کے ایک فیصلہ نے یہ آبرومندانہ راستہ انھیں فراہم کردیا جس میں ہدایت کی گئی کہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی گاڑیوں کی تلاشی کا سلسلہ بند کیا جائے، گو کہ مذکورہ فیصلہ میں نیٹو کی گاڑیوں کا کوئی تذکرہ نہیں تھا تاہم جو فیصلہ دیا گیا وہ اس اعتبار سے دھرنا دینے والوں کے لیے ٹیکنیکل تھا کہ اگر وہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی گاڑیوں کو روکتے ہوئے ان کے کاغذات کی چیکنگ کرتے ہیں تو یہ ہائی کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی ہوتی اور اگر وہ ایسا نہیں کرتے اور اس آڑ میں نیٹو کو رسد پہنچانے والی کوئی گاڑی نکل جاتی ہے تو ان پر تنقید ہوتی اس لیے ان کے لیے مناسب راستہ یہی تھا کہ اس فیصلہ کی چھتری تلے آتے ہوئے اپنا وہ دھرنا ختم کردیں جو 97 ایام تک جاری رہا ۔

تاہم جب پشاور ہائی کورٹ کے فیصلہ کے تحت نیٹو سپلائی کے خلاف دھرنا ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تو اس موقع پر تحریک انصاف کی قیادت نے اپنی اتحادی جماعتوں ،عوامی جمہوری اتحاد اور جماعت اسلامی کو اعتماد میں لینا ضروری نہیں سمجھا اور ستانوے دنوں سے جاری یہ دھرنا تحریک انصاف کی کور کمیٹی کے فیصلہ پر ختم کردیا گیا حالانکہ رسماً ہی سہی لیکن مشورہ ضرور کیا جاتا جو یقینی طور پر تحریک انصاف ہی کے ہم خیال ہوتے تاہم پی ٹی آئی نے یہ تکلف نہیں کیا جس کے نتیجے میں مذکورہ دونوں پارٹیوں میں ناراضگی پائی جاتی ہے اور ان کے بعض رہنما قومی وطن پارٹی کے اس موقف کو دہراتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ تحریک انصاف ، اتحادیوں سے مشاورت کے بغیر فیصلے کرتی ہے اور یہ موقف ایسے موقع پرسامنے آنا جبکہ اپوزیشن پارٹیاں بار ، بار حکومت سازی کے حوالے سے نمبرز گیم کی بات کر رہی ہوں کسی بھی طور تحریک انصاف اور اس کی صوبائی حکومت کے لیے سود مند نہیں ہو سکتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔