سارے رنگ

 اتوار 29 مئ 2022
قرضوں سے کبھی مسئلے حل نہیں ہوتے، اور ہماری حالت تو اب ایسی ہے کہ ایک سے قرض لے کر دوسرے کی ادائی کرتے ہیں۔ فوٹو : فائل

قرضوں سے کبھی مسئلے حل نہیں ہوتے، اور ہماری حالت تو اب ایسی ہے کہ ایک سے قرض لے کر دوسرے کی ادائی کرتے ہیں۔ فوٹو : فائل

قومی خزانہ کون ڈکار رہا ہے۔۔۔؟
خانہ پری
ر۔ ط۔ م

منہ زور مہنگائی اچھے اچھوں کے لیے مسائل پیدا کرنے لگی ہے۔۔۔!

یوں تو قیمتیں ہمیشہ سے بڑھتی آئی ہیں، لیکن اس کے تناسب میں ہر گزرتے وقت کے ساتھ تیزی آتی جا رہی ہے۔ ماجرا یہ ہے کہ پہلے چیزوں کے دام ازبر ہوا کرتے تھے، اب تو جب بازار میں جائیے، ہر بار ایک نئے بھائو میں چیز مل رہی ہوتی ہے۔

ایسے میں دام کیا خاک یاد ہوں گے۔ ہم معاشیات کے گورکھ دھندوں کی ’جان کاری‘ فقط اتنی ہی رکھتے ہیں، جتنا کہ شاید کوئی عام شہری۔۔۔ کہتے ہیں کہ مہنگائی دراصل عوام کی معاشی استطاعت سے تعلق رکھتی ہے، جب عوام کا معیارِ زندگی بلند ہو اور ان کی ’قوتِ خرید‘ سلامت ہو، تو پھر مہنگائی کوئی مسئلہ نہیں۔۔۔! لیکن اگر آمدنی اُتنی ہی ہے یا اس رفتار سے نہیں بڑھ رہی کہ جس تیزی سے اشیائے ضروریہ کے نرخ بلند ہو رہے ہیں، تو اس فرق کو ماہرین ’مہنگائی‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔

دوسری طرف ہم ایک عرصے سے دیکھ رہے ہیں کہ ملکی معیشت روز بہ روز پستی کی طرف گام زَن ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں نسبتاً معاشی استحکام سا محسوس ہوا، بہت سے لوگ اس ترقی کو ’مصنوعی‘ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ گیارہ ستمبر 2001ء کے واقعات کے بعد کا ایک حادثاتی نتیجہ تھا، جب ملک سے باہر کے شہریوں نے بڑے پیمانے پر روپیا بھجوایا، ہم اِس بحث میں نہیں پڑتے، لیکن کبھی قرضے نہ لینے اور روزانہ نہ جانے کتنے کروڑوں اور اربوں روپے کی ہیرا پھیری روکنے کے دعوے کرنے والے عمران خان 2018ء میں وزیراعظم بنے، تو معاشی ابتری بڑھنے لگی۔

انھوں نے قوم سے خطاب کر کے کہا تھا ’’آپ کو گھبرانا نہیں ہے!‘‘ لیکن قوم کوئی جاگیردار اور وڈیرہ شاہی کی پروردہ سیاست دان تو نہیں ہے کہ نہ گھبراتی۔۔۔! مہنگائی اور بے روزگاری کے شکنجوں میں کسے ہوئے لوگوں کی تو چیخیں نکل گئیں۔۔۔! کہا گیا کہ پچھلی حکومتوں نے ’مصنوعی‘ طریقے سے معیشت کو ’سہارا‘ دیا ہوا تھا۔۔۔! اچھا، اگر یہ سب کر کے عمران خان غیرملکی قرضے نہ لیتے، تو ہمیں کچھ سمجھ میں بھی آتا کہ چلیے عوام کی اس تکلیف کا ملک کو کم سے کم یہ فائدہ تو ہو رہا ہے کہ ہم اب اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے لائق ہونے لگے ہیں یا ہو جائیں گے۔

لیکن ایسا بھی تو نہیں ہو ناں۔ اپنے جلسوں میں قرض لینے پر خودکُشی کرنے پر ترجیح دینے والے عمران خان نے بھی پچھلی حکومتوں کی طرح غیرملکی قرض لیا اور شاید (اپنے دعوے کے مطابق) یومیہ کروڑہا روپوں کی کرپشن بھی روکی ہوگی، لیکن نہ جانے اس کا فائدہ معیشت کو کیوں نہ مل سکا؟ اِن کی حکومت میں شاید چینی اور آٹے کی ذخیرہ اندوزی سے قوم پر نسل درنسل مسلط روایتی اشرافیہ نے اربوں روپے بھی نہ ڈکارے ہوں گے، لیکن نتیجہ صفر ہی نکلا اور عمران خان کو پسند کرنے والوں کی ایک بہت بڑی تعداد اُن کی ناکام ’تبدیلی‘ کے باعث ان سے خفا ہوئی، لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں تھا کہ وہ باقی دو روایتی موروثی سیاسی جماعتوں کے حامی ہوگئے۔

خیر، بات کہیں اور نکل جائے گی، ہم معاشی خودکفالت کا ذکر کر رہے تھے۔۔۔ کہنے کو دنیا جہاں کی نعمتیں ہمارے ملک میں موجود ہیں، لیکن اشیائے ضروریہ کے لیے محتاجگی کا یہ عالم ہے کہ بٹوارے سے پہلے پنجاب کا جو حصہ پورے ہندوستان کی غذائی ضروریات پوری کرتا تھا وہ آج صرف پاکستان کی ضروریات پوری کرنے سے بھی قاصر ہے۔۔۔ زرعی ملک ہونے کے باوجود کوئی دیرپا حکمت عملی ہی موجود نہیں ہے۔

حکومتیں عدم استحکام اور سیاسی جوڑتوڑ میں اس قدر مصروف کر دی جاتی ہیں کہ انھیں قوم کی نیّا پار لگانے کی فرصت ہی نہیں ملتی، زراعت کیا، تعلیم وصنعت سمیت کسی بھی شعبے میں کوئی دوراندیشی ہی نہیں۔ شاید ملک کی اشرافیہ اور مخصوص خاندانوں کے بار بار اقتدار میں آنے والے وڈیروں اور جاگیرداروں کی مسلسل حکومت کے گروہی مفادات اب انتہا کو پہنچ چکے ہیں۔ یہ عناصر ہر برسراقتدار جماعت میں پائے جاتے ہیں۔

ان کے اقتدار کا مقصد اپنی جاگیروں، صنعتوں اور مِلوں کے مفادات کا تحفظ ہوتا ہے۔۔۔ پھر یہی لوگ ریاستی تعمیر وترقی کے کاموں میں اخلاص سے زیادہ اِس کے ذریعے ملنے والے اپنے ’کھانچے‘ اور مفادات پر زیادہ توجہ دیتے ہیں، جس کے لیے پھر وہ معیشت کے گہرے نقصان کی بھی کوئی پروا نہیں کرتے، کیوں کہ انھیں اپنی شوگر ملوں، فلور ملوں اور اندرون وبیرون ملک کاروبار جمانے ہوتے ہیں۔ اپنے خاندان اور کمپنی کے لیے ریاست سے مراعات اور چھوٹ لینی ہوتی ہیں، محصولات میں ڈنڈی مارنی ہوتی ہے، تاکہ امریکا، لندن اور دبئی وغیرہ میں موجود کروڑوں روپے کی جائیداد اربوں کی اور اربوں کے کاروبار کو کھربوں روپے کا بنا سکیں۔۔۔!

یہاں ملک کی فکر بھلا کس کو ہوتی ہے۔۔۔؟ یہی وجہ ہے کہ قومی خزانہ خالی ہوتا جاتا ہے اور ہم بار بار ’آئی ایم ایف‘، ’عالمی بینک‘ اور امریکا سمیت بعضے دوست ممالک کے پاس بھی خالی کشکول لیے پہنچ جاتے ہیں۔۔۔ انتہا یہ ہے کہ ہمارے بجٹ میں واجب الادا قرضوں کا سود دینے کے لیے بھی باقاعدہ رقم مختص کی جاتی ہے اور پھر ہم خسارے درخسارے کرتے ہوئے مزید قرضوں کی آس پر جیے چلے جاتے ہیں، حالاں کہ غالبؔ بھی کہہ گئے ؎

قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن

قرضوں سے کبھی مسئلے حل نہیں ہوتے، اور ہماری حالت تو اب ایسی ہے کہ ایک سے قرض لے کر دوسرے کی ادائی کرتے ہیں اور پھر دوسرے سے لے کر تیسری اور چوتھے سے لے کر پانچویں کی قسط بھرتے ہیں۔۔۔ آج ہندوستانی روپیا ہمارے ڈھائی روپے سے زیادہ کا ہے۔۔۔ 24 برس ہمارا حصہ رہنے والے بنگلادیش کا ٹَکا بھی سو دو روپے سے متجاوز ہے۔

حد تو یہ ہے کہ بدترین جنگوں میں تباہ حال افغانستان کا سکہ بھی لگ بھگ سوا دو پاکستانی روپے کا ہے۔۔۔ یہ بہت سادہ سی باتیں ہیں، لیکن کون سوچے، جنھیں سوچنا چاہیے، ان کے بچے، خاندان، کاروبار اور جائیداد سبھی کچھ ملک سے باہر ہے! باقی رہ گئے ہم جیسے عوام۔۔۔ تو یہاں پورے پورے خاندان روزی روٹی کے گھن چکر میں ایسے پھنسا دیے گئے ہیں کہ ان کے پاس ایسی ’’فضولیات‘‘ پر بات کرنے کے لیے وقت ہی نہیں ہے!

کراچی کی شامیں
کلثوم مہر، کراچی

شام کا وقت ہر کسی پر اپنے مزاج کے مطابق ہی اثر کرتا ہے، کوئی شام کے لمحات میں گہری اداسی میں ڈوب جاتا ہے، تو کوئی خوش گوار احساس سے دوچار ہوتا ہے کوئی شام کو دن سے بچھڑنے سے تشبیہ دیتا ہے اور ہجر کا پہلو دکھاتا ہے، تو کوئی رات سے ملن کا کہہ کر شام کو وصل کا لمحہ سمجھتا ہے۔ اردو ادب میں شام پر کئی اشعار بھی ملتے ہیں، اس میں کوئی اپنی شام انتظار میں گزارتا ہے جیسے؎

وہ نہ آئے گا ہمیں معلوم تھا اس شام بھی
کچھ سوچ کر مگر انتظار کرتے رہے
تو کوئی شام کسی کے نام کرنے کو بے تاب رہتا ہے؎
کبھی تو آسمان سے چاند اترے جام ہو جائے
تمھارے نام کی ایک خوب صورت شام ہو جائے

گویا ہر کوئی اپنے جذبات اور مزاج کے مطابق ہی شام کے لیے الفاظ کشید کرتا ہے۔ کوئی شام کو قتالہ، تو کوئی سُہانہ کہتا ہے۔ ہمیں تو شام سے ہمیشہ ایک اپنائیت سی محسوس ہوئی، ایک خوش گوار اداسی سے بھر پور شام، اور اگر بات موسم گرما میں کراچی کی شاموں کی، کی جائے تو دنیا کے کم ہی کسی حصے میں اتنا حسین وقت اترتا ہوگا، جب ساحلِ سمندر سے ہوائیں ٹکرا در و بام کو چھوتی ہوئی پاس آتی ہیں، تو یوں محسوس ہوتا ہے گویا محبوب کا پیغام لائی ہوں، ان لمحوں میں اگر چائے کی ایک پیالی اور ہاتھ میں کتاب بھی ہو تو حسین زندگی ہزار دفعہ جینے کو جی مچلتا ہے، اسی موقع کی مناسبت سے شعر ہے؎

ہم زندگی سے جب تنگ آیا کرتے ہیں
اپنے ساتھ ایک شام منایا کرتے ہیں

تو اپنے ساتھ شام منانے کے لمحہ سے زیادہ خوب صورت پل میری نظر میں تو کوئی نہیں ہے۔ شام میں کوئی تو ایسی بات ہے ہی کہ اسی وقت کو چرانے تک کی بات کی جاتی ہے ؎

تمھارے شعر کا موسم بڑا سہانا لگے
میں ایک شام چرا لوں اگر برا نہ لگے

کچھ تو ایسا ہے کہ شاعر محبوبہ کو شام ہی سے تشبیہ دے دیتا ہے، اسی حوالے سے مشہور زمانہ گیت ہے جو اکثر شام میں سماعتوں تک پہنچتا تھا؎

یہ شام اور تیرا نام دونوں کتنے ملتے جلتے ہیں
تیرا نام نہیں لوں گا، بس تجھ کو شام کہوں گا

مانا کہ ہمارے کراچی میں ماحولیاتی اور صوتی آلودگی نے کوفت کا شکار کر رکھا ہے، حد درجہ مصروفیت کے باعث چین و سکون ناپید ہے، بے امنی کی صورت حال بھی بے چین کیے رکھتی ہے، ممکن ہے انھی حالات کے تناظر میں شاعر نے کہا ہوگا کہ

اب تو چپ چاپ شام آتی ہے
پہلے چڑیوں کے شور ہوتے تھے

چڑیاں تواب بھی شور مچاتی ہیں، شاید ہم ہی نہیں سن پا رہے، تفریح ذہنی تناؤ کو کم کرنے اور جسمانی صحت کے لیے ضروری سمجھی جاتی ہے، مصروف زندگی سے کچھ لمحات چرا کر اگر ان حسین شاموں کے نام کر دیے جائیں، تو کوئی حرج بھی نہیں، بلکہ اگر کہا ان کو یوں کہا جائے کہ یہ ضروری ہے تو زیادہ بہتر رہے گا۔

شہر کراچی کو وفا دار میسر آجائیں، تو اس حسین شہر کا حُسن جو کئی وجوہات کی وجہ سے ماند پڑ گیا ہے، وہ دوبارہ نکھر کر سامنے آسکتا ہے، مسائل کے حل کے لیے لائحہ عمل طے کر کے معیشت کی اس ریڑھ کی ہڈی کو بچانے کے لیے اس کے مسائل کا سد باب کرنا نہایت ضروری ہیں۔ شہر کے باسیوں کو امن و سکون کے ساتھ تفریح کے مناسب مواقع فراہم کر کے شاموں کی رونقیں مکمل طور پر بحال کی جائیں، تو یہاں کی پر لطف رومانی سہانی ہوائیں دل و دماغ کو چھو کر خوش گوار احساس پیدا کریں گی۔

۔۔۔

ماں سے یوں ملتا، جیسے ’عمر قید‘ کامجرم!
محمد علم اللہ، نئی دلی

ہمارے ہوش سنبھالتے ہی ایک عجیب ’غریب الوطنی‘ ہمارا مقدر بن گئی۔۔۔ یعنی بچپنا ٹھیک سے شروع بھی نہ ہوا تھا کہ تربیت اور تعلیم کے نام پر اٹھا کر گاؤں سے پرے ایک ’اچھے مکتب‘ میں پھینک دیا گیا۔۔۔ یہاں ہفتے کے سات میں سے چھے دن اِس انتظار میں گزرتے کہ جمعے کو ہم اپنے گھر جائو ں گا۔۔۔ بہت دیر تک امّاں سے لپٹا رہوں گا، پاس بیٹھ کر انھیں ہی دیکھتا رہوں گا۔۔۔

بہن بھائیوں سے ہفتے بھر کی جمع کی ہوئی ڈھیر ساری باتیں کروں گا، مگر ساتواں دن بھی اس عالَم میں گزرتا کہ اس کا ایک پہر تو گھر پہنچتے پہنچتے ہی بیت چکا ہوتا اور دوپہر تک یہ سارے ارمان آدھے بھی نہیں نکل پاتے تھے کہ تیسرے پہر واپسی کا وقت ہوا جاتا۔۔۔ اور ہمارے ابّا کسی جیلر کی طرح یہ حکم لے کر نازل ہو جاتے کہ ’’جلدی چلو۔۔۔! تمھیں شام سے پہلے ہاسٹل چھوڑ کر آنا ہے۔۔۔!‘‘

اور میں خود کو ’عمر قید‘ کا ایسا قیدی سمجھتا، جسے اپنے اماں بابا اور بہن بھائیوں سے ملنے کے واسطے فقط کچھ گھڑیاں میسر آگئی تھیں۔۔۔ یعنی جس ’دن‘ کے انتظار میں پورے چھے دن کاٹے تھے، وہ دن بھی پورا کہاں ملتا تھا، بس یہ چند گھنٹے ہی ہوتے تھے، باقی سارا وقت تو آنے اور جانے کی نذر ہو جاتا۔۔۔ اور سچ پوچھیے تو چُھٹی کی خوشی صرف تبھی تک رہتی، جب تک وہ رات ہوتی، جس کے بعد آنے والی صبح چھٹی ملنی ہوتی تھی یا پھر بس صبح کا وہ کچھ سمے، جب میں اپنے گھر کی چوکھٹ پار کرتا۔۔۔ اس کے بعد تو گھڑی کی ٹِک ٹِک گویا ہماری الٹی گنتی شروع کر دیتی تھی۔

اس لیے میں دوبارہ واپسی کی فکر میں ہلکان ہوا جاتا تھا۔ اس طرح مجھے ہر ہفتے اپنی ماں سے بچھڑنے کے کرب سے گزرنا ہوتا تھا۔ ابا تو ہاسٹل چھوڑ کر واپس چلے جاتے، لیکن میری آنکھیں اُس رات اِس قدر بھیگی رہتی تھیںکہ آٹھ فُٹ کی بلندی پر نصب چھت کی کڑیاں تک بار بار دھندلائی جاتی تھیں۔ کبھی تو باہر رات بھیگتی اور اندر آنسوئوں سے میرا چہرہ۔۔۔ لیکن اس کے سوا کوئی راستہ بھی تو نہ تھا۔۔۔ پھر نہ جانے کب مولوی ہاسٹل کی راہ داری سے پکارا کرتا: ’’کیا میّتوں کی طرح پڑے ہو! اٹھو! نماز کا وقت ہو رہا ہے۔۔۔!‘‘

پھر موذن مائک پر دو چار پھونکیں مار کر چیک کرتا اور پھر صدائے فجر بلند ہوتی۔۔۔ آس پاس کے بستروں پر بکھرے ہوئے طلبا کچھ تو خوفِ خداوندی اور کچھ مولوی کی وحشیانہ مار کے خوف سے اللہ کے گھر کی طرف دوڑ لگا دیتے۔

میرا چہرہ تو پہلے ہی آنسوؤں سے ’باوضو‘ ہوتا، پھر بھی فریضے کی ادائی کے لیے کنویں سے نکلے یخ بستہ پانی کو چہرے اور ہاتھوں پر ڈالنے لگتا۔۔۔ سردی کے ٹھٹھر سے نکلی ہوئی ایک سسکی، کلیجے سے نکلی ہوئی غم کی سسکی میں مدغم ہو جاتی۔۔۔ اور میں خود کو حوصلہ دیتا کہ چلو، دوبارہ گھر جانے کے بیچ میں حائل سات راتوں میں سے ایک رات تو کم ہو ئی!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔