پاکستان میں پام آئل کی کاشت

سید عاصم محمود  اتوار 29 مئ 2022
عالمی شہرت دینے میں ایک پاکستانی سائنس داں نے بھی اہم کردار ادا کیا ۔  فوٹو : فائل

عالمی شہرت دینے میں ایک پاکستانی سائنس داں نے بھی اہم کردار ادا کیا ۔ فوٹو : فائل

پچھلے ایک برس میں وطن عزیز سمیت پوری دنیا میں کھانا پکانے کا تیل المعروف بہ کوکنگ آئل دوگنا تگنا مہنگا ہو چکا۔

2019ء میں ایک لیٹر تیل کی قیمت 225 روپے تھی۔وہ اب سوا پانچ سو روپے لیٹر تک جا پہنچا ہے۔کوکنگ آئل عام استعمال کی شے ہے۔اس کے مہنگا ہونے سے غریب آدمی براہ راست متاثر ہوتا اور اس کا ماہانہ بجٹ گڑبڑا جاتا ہے۔

کوکنگ آئل مہنگا ہونے کی بنیادی وجہ پام آئل، سویابین آئل،السی  اور سن فلاور یا سورج مکھی کے تیل کی قلت ہے۔یہی تیل دنیا کا بیشتر کوکنگ آئل بناتے ہیں۔ان میں سب سے اہم پام آئل ہے۔

مہنگائی کی وجوہ

پام آئل کی قلت یوں ہوئی کہ ملائشیا میں آب و ہوائی تبدیلیوں اور افرادی قوت کی کمی  کے سبب اس کی پیداوار گھٹ گئی،جبکہ انڈونیشیا میں اس کی کھپت میں اضافہ ہو گیا۔یہ دونوں ملک دنیا کا 85 فیصد پام آئل پیدا کرتے ہیں۔چناں چہ دونوں ممالک میں پام آئل سے وابستہ مسائل نے عالمی سطح پہ اس تیل کی قیمت بڑھا دی۔

دیگر تیلوں کی قیمت طلب میں اضافے اور روس یوکرائن جنگ نے بڑھائی۔یہ دونوں ممالک اناج کا گڑھ سمجھے جاتے ہیں اور جنگ نے سارا سپلائی نظام منجمند کر کے رکھ دیا۔پاکستان میں ڈالر کی قدر میں اضافے نے بھی اپنے اثرات ڈالے۔ڈالر کے مقابلے میں بھارتی روپیہ تگڑا ہے،اس باعث وہاں کوکنگ آئل ڈیرھ سو روپے فی لیٹر دستیاب ہے۔

پاکستان :بہ لحاظ پانچواں بڑا ملک

پاکستان زرعی ملک ہے۔افسوس ناک بات مگر یہ کہ یہاں کھانا پکانے کا تیل بنانے والی زرعی اشیا بہت کم پیدا کی جاتی ہیں۔اس لیے پاکستان مجبور ہے کہ ہر سال ساٹھ پینسٹھ لاکھ ٹن کھانا پکانے کا تیل باہر سے منگوائے۔اس خریداری پہ سالانہ چھ سات ارب ڈالر کا قیمتی زرمبادلہ لگ جاتا ہے۔

اگر ہمارے کسان یہ تیل پیدا کرنے والی زرعی اشیا اگانے پہ توجہ دیں تو نہ صرف انھیں خاطر خواہ آمدن ہو گی بلکہ پاکستان بھی زرمبادلہ بچا سکے گا۔فی الوقت انڈونیشیا، بھارت، چین اور ملائشیا کے بعد پاکستان پام آئل کی کھپت کے لحاظ سے پانچواں بڑا ملک ہے۔پاکستان میں اکثر آئل کمپنیاں پام آئل ہی سے کوکنگ آئل تیار کرتی ہیں۔

پام آئل دنیا بھر میں مقبول ترین کوکنگ آئل کیونکر بنا، اس کی داستان دلچسپ و حیرت انگیزہے۔کم ہی اہل وطن جانتے ہیں کہ اس تیل کو بین الاقوامی شہرت بخشنے میں ایک پاکستانی سائنس داں نے بھی اہم کردار ادا کیا۔درحقیقت انہی کی کوششوں سے پام آئل کی وسیع پیمانے پہ پیداوار ممکن ہو سکی۔یوں وہ اربوں انسانوں کو سستا اور معیاری کوکنگ آئل فراہم کرنے کا ذریعہ بن گئے۔

دو درخت

پام آئل دو درختوں…افریقی پام آئل( Elaeis guineensis) اور امریکی پام آئل(Elaeis oleifera ) کے پھل و گٹھلی سے حاصل ہوتا ہے۔یہ دونوں درخت نباتات کے ایک بڑے خاندان، نخلیہ(Arecaceae) کا حصّہ ہیں۔کھجور، ناریل اور سپاری(چھالیہ)کے درخت اس خاندان کے اہم دیگر ارکان ہیں۔اگرچہ اس نباتی خاندان میں کل 2600ارکان ہیں۔تاہم پام آئل صرف دو درختوں ہی سے حاصل ہوتا ہے۔

افریقی پام آئل درخت مغربی اور جنوب مغربی افریقا کے ممالک میں پایا جاتا ہے۔امریکی پام آئل وسطی اور جنوبی امریکا کے ملکوں میں ملتا ہے۔ان ملکوں میں کم ازکم پانچ ہزار برس سے پام آئل درخت کے پھل وگٹھلی سے تیل نکالا جا رہا ہے۔تاہم یہ تیل بیرون ممالک میں زیادہ مقبول نہیں ہو سکا۔

انگریز جنوب مشرقی ایشیا لائے

انیسویں صدی میں انگریز اور دیگر یورپی افریقا و جنوبی امریکا جا پہنچے۔انھوں نے وہاں کھیت بنائے اور ان کی پیداوار لوٹ کر اپنے وطن لے جانے لگے۔ 1860ء میں مغربی افریقا میں کھیتی باڑی کرنے والے انگریز زمیندار افریقی پام آئل کے پودے جنوب مشرقی ایشیا لے گئے۔وہاں ملائشیا اور انڈونیشیا ان پودوں کے نئے مسکن بنے۔ان ملکوں میں نمی بکثرت تھی جس میں یہ درخت پھلتا پھولتا ہے۔تاہم بڑے پیمانے پہ اسے اگانے کا تجربہ ناکام رہا ۔لہذا افریقی پام آئل درخت کی حیثیت آرائشی ہی رہ گئی۔

ہندوستانی مزدوروں کی آمد

انگریز آخر یہ جاننے کی کوشش کرنے لگے کہ پام آئل درخت پنپ کیوں نہیں پاتے؟تحقیق سے افشا ہوا کہ ان میں پولی نیشن کا فقدان ہے۔اس وجہ سے پودا پروان نہیں چڑھتا اور جلد مر جاتا ہے۔انگریز اب سوچنے لگے کہ پولی نیشن کیسے کی جائے؟فیصلہ ہوا کہ کھیت میں مزدور بھرتی کیے جائیں اور وہ دستی پودوں کی پولی نیشن انجام دیں۔اس وقت صرف ہندوستان یا چین میں کثرت آبادی کی وجہ سے افرادی قوت سستی تھی۔چونکہ ہندوستان میں انگریز حاکم بن چکے تھے لہذا وہ کثیر تعداد میں ہندوستانی مزدور ملائشئیا لے آئے جو پام آئل درختوں کی کھیتوں(پلانٹیشن)میں کام کرنے لگے۔ملائشیا میں آج انہی ہندوستانی مزدوروں کی اولاد رہائش پذیر ہے۔

انگریزوں نے افریقا سے مذید پودے منگوائے، انھیں کھیتوں میں لگوایا اور ان کی پولی نیشن کے واسطے ہندوستانی مزدور بھرتی کر لیے۔ یہ مزدور ’’قلی‘‘کہلائے۔یہ قلی پودوں کے نر حصے سے پولن جمع کرتے اور اسے مادہ حصوں پہ چھڑک دیتے۔یوں پودا پروان چڑھنے لگتا۔ہندوستانی مزدوروں کی شبانہ روز محنت سے آخر ملائشیا میں پام آئل درختوں کا پہلا کھیت تیار ہو گیا۔ یہ 1911 ء کی بات ہے۔

خوب تیل بننے لگا

اس زمانے میں ہندوستانی مزدور بہت سستے مل جاتے تھے۔بعض تو صرف کھانا ملنے پر کام کرنے لگتے۔اس لیے انگریزوں نے کثیر تعداد میں ہندوستان سے مزدور ملائشیا اور انڈونیشیا میں بھی منگوائے اور وہاں ان کی مدد سے پام آئل کے وسیع کھیت تیار کر لیے۔جلد ہی ان کے پھلوں اور گٹھلیوں سے تیل نکالا جانے لگا۔1934ء تک جنوب مشرقی ایشیا میں پام آئل کی مقدار اتنی زیادہ بننے لگی کہ اس نے سالانہ پیداوار میں افریقا اور جنوبی امریکا کو پیچھے چھوڑ دیا۔

ایک دلچسپ باب

اس دوران پام آئل کی تاریخ میں ایک دلچسپ باب رقم ہوا۔افریقی ماہرین نباتیات کا کہنا تھا کہ افریقی پام آئل میں پولی نیشن بھنورے سے ملتے جلتے کیڑے کرتے ہیں۔مگر ملائشیا کے کھیتوں میں ایسے کیڑوں کا کوئی وجود نہیں تھا۔پھر بھی ہندوستانی قلیوں کی دستی پولی نیشین کے ذریعے پام آئل درخت پھل پھول رہے تھے۔اس لیے انگریز ماہرین نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ افریقا میں پام آئل کی پولی نیشن ہوا کرتی ہے۔اسی دعوی کو درست سمجھا گیا اور اسے انگریز ماہرین نے اپنی درسی کتب میں بھی شامل کر دیا۔

حقیقت یہ تھی کہ مغربی افریقا میں ویول ( weevil) نامی کیڑا پام آئل درخت میں پولی نیشن کرتا تھا۔یہ بھونرے کی ایک قسم ہے۔افریقی پام آئل کے پھولوں کی خوشبو ان کیڑوں کو اپنی جانب کھینچ لیتی۔ویول پھر ہر پھول پہ منڈلاتے اور بیٹھ کر رس چوستے۔یوں نر حصوں کا پولن ان کے جسم خصوصاً پیروں پہ لگ جاتا۔جب وہ زنانہ حصوں پہ بیٹھتے تو پولن وہاں جذب ہو جاتا ، یوں پولی نیشن انجام پاتی۔ملائشیا و انڈونیشیا میں مگر انگریزوں نے یہی فیصلہ کیا کہ وہ ہندوستانی و مقامی مزدوروں کے ذریعے پولی نیشن جاری رکھیں گے۔

 وافر و سستی افرادی قوت

ایک وجہ یہ تھی کہ مغربی افریقا میں انگریز ماہرین نباتیات نے مشاہدہ کیا تھا، ویول اور دیگر کیڑے افریقی پام آئل کے پھولوں و شاخوں پہ انڈے دے دیتے تھے۔جب ان سے سنڈیاں نکلتیں تو وہ درخت کو نقصان پہنچا دیتیں۔اس لیے انگریز ماہرین نے فیصلہ کیا کہ مغربی افریقا سے کسی قسم کے کیڑے ملائشیا نہ منگوائے جائیں۔

اس طرح جنوب مشرقی ایشیا میں انسان پام آئل درخت کی پولی نیشن کرنے کے ذمے دار بن گئے۔یہ طریقہ وافر و سستی افرادی قوت کی وجہ سے کامیاب رہا۔اور پام آئل درختوں سے کثیر پھل وبیج حاصل ہونے لگا۔پھلوں سے تیل نکالا جاتا جو کوکنگ آئل بنانے میں کام آنے لگا۔رفتہ رفتہ خطّے میں یہی تیل عوام کا من بھاتا کھاجا بن گیا۔

 بڑی تبدیلی

بیسویں صدی کے وسط میں ایک بڑی تبدیلی آئی جب ملائشیا اور انڈونیشیا مغربی ممالک کی غلامی سے آزاد ہو گئے۔اب کھیت مالکان کو سستی و و افرادی قوت دستیاب نہیں رہی۔دوسری قباحت یہ ہوئی کہ درخت بہت اونچے ہو گئے۔ لہذا ان کی پولی نیشن کرنا بہت کڑا مرحلہ بن گیا۔ان دونوں عوامل نے جنوب مشرقی ایشیا میں پام آئل تیل کی پیداوار خاصی کم کر دی۔تبھی اس صنعت کو تباہی سے بچانے کے لیے دو مسیحا نمودار ہو ئے۔ایک سکاٹش تھا اور دوسرا پاکستانی!

لیزلی ڈیوڈسن کا شک

سکاٹش لیزلی ڈیوڈسن(Leslie Davidson) افریقا اور جنوب مشرقی ایشیا میں کھیتوں کا منتظم تھا۔کیمرون میں اس نے نوٹ کیا کہ پام آئل کے درختوں پہ بھونرا نما کیڑوں کا ہجوم رہتا ہے۔اسے یقین ہو گیا کہ یہی کیڑے اس درخت کی پولی نیشن کرتے ہیں۔1974ء میں لیزلی ملائشیا میں  عالمی کمپنی، یونی لیور کی ملکیت کھیتوں کا ناظم بن گیا۔تب کھیتوں میں پام آئل درختوں سے بہت کم پھل و بیج حاصل ہو رہے تھے۔اسے یہ ذمے داری سونپی گئی کہ وہ پیداوار میں اضافے کے اقدامات کرے۔

لیزلی (1931ء۔2019ء) نے فیصلہ کیا کہ وہ تین ماہرین حشریات کی خدمات حاصل کر کے انھیں کیمرون بھجوا دے۔ان ماہرین نے تحقیق و تجربات سے یہ جاننا تھا کہ پام آئل درخت میں پولی نیشن کیڑے کرتے ہیں یا ہوا۔ان ماہرین کے سربراہ ایک پاکستانی ماہر حشریات، ڈاکٹر رحمان انور سید (1932ء۔2009ء) مقرر ہوئے۔

پاکستانی سائنس داں کا انکشاف

ڈاکٹر رحمان ہندوستان میں پیدا ہوئے تھے۔پاکستان بنا تو والدین کے ہمراہ نئے وطن چلے آئے۔لاہور کے تعلیمی اداروں،ایف سی کالج اور پنجاب یونیورسٹی سے تعلیم پائی۔پھر بیرون ملک چلے گئے۔جب  لیزلی نے ان سے رابطہ کیا تو ڈاکٹر رحمان ملائشیا کے ادارے، کامن ویلتھ انسٹی ٹیوٹ آف بائیولوجیکل کنٹرول سے وابستہ تھے۔انھوں نے لیزلی کی پیشکش قبول کر لی اور تین سال کیمرون میںمقیم رہے۔طویل تحقتق وتجربات کے بعد ڈاکٹر صاحب آخر یہ معلوم کرنے میں کامیاب رہے کہ ویول کیڑے کی ایک قسم’’ Elaeidobious kamerunicus‘‘ افریقی پام آئل درخت میں پولینیشن کرتی ہے۔اس کھوج کی بنیاد پر ہی حکومت ملائشیا نے Elaeidobious kamerunicus کیڑوں کو اپنے ہاں لانے کی اجازت دے دی۔

انقلاب آ گیا

یہ افریقی کیڑا پام آئل کی پیداوار میں انقلاب لے آیا۔اگلے بیس برس میں ملائشیا میں پام آئل کی پیداوار ڈھائی لاکھ ٹن سے بڑھ کر تیس لاکھ ٹن پہنچ گئی۔یہی نہیں اس کی وجہ سے کھیتوں میں اب افرادی قوت کی ضرورت بھی نہ رہی۔جو کام پہلے پچاس مردوزن کرتے تھے، اب وہ ایک آدمی انجام دینے لگا۔اس طرح کھیت کا خرچہ کافی کم ہو گیا۔اور اسی باعث پام آئل کو سستا بیچنا ممکن ہوا۔

انڈونیشیا میں بھی اس انقلاب کے اثرات پہنچ گئے۔ملائشیا کی دیکھا دیکھی انڈونیشی حکومت نے بھی Elaeidobious kamerunicus افریقی کیڑے کو منگوانے کی اجازت دے ڈالی۔چناں چہ وہاں بھی چند برس میں پام آئل کی پیداور کئی گنا  بڑھ گئی۔اس طرح ایک پاکستانی ڈاکٹر کی تحقیق نے پام آئل کے شعبے میں انقلاب برپا کر دیا اور اس تیل کو عالمی سطح پر مقبول بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔یہ کارنامہ انجام دینے پہ حکومت ملائشیا نے ڈاکٹر رحمان کو ’’دتوک‘‘کے خطاب سے نوازا۔

پام آئل کی مقبولیت

1994ء سے یونی لیور کمپنی کھانے پینے کی اپنی تمام مصنوعات کی تیاری میں پام آئل استعمال کرنے لگی۔وجہ یہ بنی کہ کمپنی ٹرانزفیٹس سے چھٹکارا پانا چاہتی تھی۔پام آئل میں چکنائی کا یہ عنصر موجود نہیں ہوتا جو انسانوں کو امراض قلب میں مبتلا کر دیتا ہے۔اس باعث کمپنی کی تمام اشیا میں یہی تیل مستعمل ہو گیا۔رفتہ رفتہ دیگر کمپنیاں بھی اپنی غذائی یا غیر غذائی مصنوعات کی تیاری میں پام آئل برتنے لگیں۔آج یہ مقبول ترین کوکنگ آئل بن چکا۔اب دنیا میں تقریباً دو کروڑ تیس لاکھ ٹن پام آئل پکانے کا تیل تیار کرنے میں استعمال ہوتا ہے۔اور پام آئل کا پچاسی فیصد حصہ انڈونیشیا و ملائشیا سے آتا ہے۔

سندھ اور بلوچستان

خوش خبری یہ ہے کہ ماہرین زراعت کی رو سے سندھ اور بلوچستان کے پانچ لاکھ ایکڑ رقبے پر بھی پام آئل درخت لگ سکتا ہے۔حکومت اور نجی شعبے کو چاہیے کہ وہ باہمی تعاون سے اس رقبے پہ پام آئل درخت لگائے۔اس طرح سب سے پہلے عوام کو سستا کوکنگ آئل مل سکے گا۔دوسرے مقامی سطح پہ پام آئل تیار کر کے اربوں ڈالر کا قیمتی زرمبادلہ بچانا ممکن ہے۔نیز ہماری ساحلی بستیوں کے مکینوں کو روزگار بھی میسّر آئے گا۔تازہ رپورٹ کے مطابق پاکستان ہر سال ڈھائی ارب ڈالر کا پام آئل انڈونیشا و ملائشیا سے منگوا رہا ہے۔مقامی طور پہ تیل بنانے سے یہ بل کافی کم ہو جائے گا۔

پام آئل کو اس لیے مقبولیت ملی کہ اس میں ٹرانزفیٹس نہیں ہوتے۔پھر یہ زیادہ پکانے پر بھی نہیں جلتا، اس لیے فرائی وغیرہ کرنے  کے واسطے موزوں ہے۔پھر اس کی کاشت بھی کیڑوں کی بدولت کم خرچ ہو چکی۔لہذا یہ دیگر تیلوں کی نسبت سستا پڑتا ہے۔وسیع پیمانے پر کاشت ہونے کا عمل بھی اسے سستا رکھے ہوئے ہے۔پھر پھل اور بیجوں سے تیل نکالنا بھی آسان ہے۔بس کرشر میں ڈالو اور تیل نکال لو۔

 منفی عوامل

پام آئل سے مگر منفی عوامل بھی وابستہ ہیں۔اول یہ کہ انڈونیشیا، ملائشیا، تھائی لینڈ وغیرہ میں پام آئل درخت اگانے کی خاطر ہزارہا ہیکٹر رقبے پہ کھڑے جنگل کاٹے جا چکے۔یوں ان جنگلوں میں رہتے بستے قبائلی انسانوں اور جانوروں کے قدرتی مسکن تباہ ہو گئے۔پھر قبائلیوں سے حکومتوں نے اچھا سلوک نہیں کیا اور انھیں تشدد کا نشانہ بنایا۔اس باعث بہت سے لوگ پام آئل کو فساد کی جڑ قرار دیتے ہوئے اسے خریدنے سے اجتناب کرتے ہیں۔

تاہم پام آئل کی مقبولیت جاری وساری ہے بلکہ اس میں اضافہ ہی ہوا۔ بنیادی وجہ اس کا کم قیمت ہونا ہے۔اور یہ سستا اسی لیے کہ تمام تیلوں میں فی ہیکٹر پیداوار اسی تیل کی سب سے زیادہ ہے۔یہی وجہ ہے، کاشت کار سویابین، سورج مکھی ،السی اور تل پر پام آئل درخت لگانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ تیل اب کئی ممالک میں بطور نباتی ایندھن بھی استعمال ہو رہا ہے۔اس امر نے بھی پام آئل کی قیمت بڑھانے میں اپنا کردار ادا کیا۔

پھل اور گٹھلی

پام آئل درخت کے پھل سے پام آئل یعنی کوکنگ آئل بنانے والا تیل نکلتا ہے۔پھل کی گٹھلی سے نکلنے والا تیل پام کیرنیل آئل(palm kernel oil)کہلاتا ہے۔پھل سے جب سارا تیل نکل آئے تو بچ جانے والا پھوک بجلی گھر میں جلا کر بجلی بنانے یا بطور چارا استعمال ہوتا ہے۔ پام کیرنل آئل سے کوکنگ آئل نہیں بنتا بلکہ کاسمیٹکس، ڈیٹرجنٹ اور شیپمو وغیرہ بنانے میں مدد لی جاتی ہے۔پام آئل درخت کی یہ تینوں اشیا درحقیقت کئی چیزیں بنانے میں کام آتی ہیں۔گویا یہ درخت بہت کارآمد اور انسان کے لیے مفید ہے۔

درخت کی افادیت

پام آئل درخت کم رقبے پہ اگ کر زیادہ تیل فراہم کرتا ہے۔ اس معاملے میں کوئی اور تیل دار درخت پام آئل کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔مثال کے طور پر سویابین سے ایک ٹن تیل پانے کے لیے ضروری ہے کہ اسے 2.22ہیکٹر رقبے پہ اگایا جائے۔اسی طرح سورج مکھی دو ہیکٹر اور السی ڈیرھ ہیکٹر رقبے پہ بوئے جائیں تبھی ایک ٹن تیل مل پاتا ہے۔مگر پام آئل محض0.26 ہیکٹر رقبے پہ بویا جائے تو ایک ٹن تیل حاصل ہو جاتا ہے۔(یاد رہے، ایک ہیکٹر 2.47 ایکڑ رقبے کے برابر ہے)

پام آئل درخت ایسے علاقے میں آسانی سے اگتا ہے جہاں بارش یا پانی بکثرت ہو۔اور درجہ حرارت 25 تا 35 سینٹی گریڈ کے مابین رہے۔ ماہرین کے مطابق سندھ اور بلوچستان میں ساحلی علاقے پام آئل درخت کی کاشت کے لیے موزوں ہیں۔صوبہ سندھ میں ٹھٹھہ، بدین، کراچی، حیدرآباد، میر پور خاص اور سانگھڑ کے اضلاع اور بلوچستان میں حب، سونمیانی، پسنی اور گوادر کے اضلاع اس سلسلے میں نمایاں اہمیت رکھتے ہیں۔

’’ ٹینرا‘‘ورائٹی  کی کاشت

پاکستانی ماہرین نباتیات کے نزدیک پاکستان میں پام آئل درخت کی’’ ٹینرا‘‘ (Tenera)ورائٹی کاشت کے لیے موزوں ہے۔ملائشیا میں بیشتر پام آئل اسی ورائٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔پام آئل کا کھیت یا باغ لگاتے ہوئے فی ایکڑ 64 پودے لگائے جاتے ہیں۔ہر پودا دوسرے پودے سے 25 فٹ دور بویا جاتا ہے۔سب سے پہلے زمین میں دو انچ گہرا،چوڑا اور لمبا گڑھا کھودتے ہیں۔اس گڑھے میں زرخیز و عمدہ مٹی ڈالی جاتی ہے۔پھر 16 سے 20 کلو مٹی میں سو گرام نائٹروجن فاسفورس پوٹاشیم ملاتے ہیں۔گڑھے کو پھر پندرہ دن تک پانی دیا جاتا ہے۔

پندرہ سولہ دن گذر جائیں تو پام آئل کا پودا پولی تھین بیگ سے نکال کر گڑھے میں بویا جاتا ہے۔اب کم از کم ایک سال تک روزانہ دو گیلن پانی پودے کو ملنا چاہیے۔جبکہ ایک دن چھوڑ کر اگلے دن پودے کو چار گیلن پانی دینا ضروری ہے۔پام آئل درخت پانی کی بہتات پا کر ہی نشوونما پاتا ہے۔یہ عمل دو سال جاری رہنا چاہیے۔تیسرے سال سے ہر تیسرے چوتھے دن پودے کو تین چار گیلن پانی دیجیے تاکہ اس کی نشوونما برقرار رہے اور وہ پھل دیتا رہے۔

اس درخت کی جدید اقسام ڈھائی تین سال نشوونما پانے کے بعد پھل دینے لگتی ہیں۔یہ پھل پھر سارا سال لگتا ہے۔شروع میں پھل سے کم تیل نکلتا ہے، مگر چوتھے سال سے پیداوار بڑھ جاتی ہے۔اسی لیے پام آئل درخت سے کافی تیل حاصل ہوتا ہے۔ایک درخت ایک وقت میں ایک سے تین ہزار پھل پیدا کرتا ہے۔ان کاوزن 20 سے 25 کلو ہوتا ہے۔ایک درخت تقریباً سو برس پھل دیتا ہے۔ ساٹھ فٹ تک اونچا ہو جاتا ہے۔ تاہم تجارتی تجارتی مقاصد کے لیے اگائے درخت پچیس تیس سال بعد گرا دئیے جاتے ہیں۔ان کی جگہ نئی ورائٹی کے درخت لگتے ہیں تاکہ زیادہ تیل حاصل ہو سکے۔

بالغ ہونے کے بعد بھی پام آئل درخت کو دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے۔ لہذا اسے ہر ہفتے تین چار گیلن پانی دینا چاہیے۔ہر تین ماہ بعد فی پودا 400 گرام نائٹروجن فاسفورس پوٹاشیم کھاد دیجیے۔اسی طرح ہر چار ماہ بعد پودے کو گوبر کی کھاد (farm yard manure) چار کلو بھی دینا ضروری ہے۔یہ دھیان رہے کہ نائٹروجن فاسفورس پوٹاشیم اور گوبر کی کھاد دینے کے درمیان چار ماہ کا وقفہ رکھا جائے۔

کیڑے مکوڑے درخت کی نشوونما کے ابتدائی مراحل میں اس پہ حملہ نہیں کرتے۔تاہم پام آئل درخت بورون(boron)کی کمی کا شکارہو سکتا ہے۔لہذا درختوںپہ ایسے محلول کا اسپرے کیجیے جس میں 0.25 فیصد بورک ایسڈ شامل ہو۔

کمائی کا بہترین ذریعہ

اس وقت عالمی منڈی میں پام آئل کی قیمت ڈھائی لاکھ روپے فی ٹن ہے۔گویا ایک پاکستانی ایک ایکڑ رقبے پہ پام آئل لگا کر سالانہ پانچ، سوا پانچ لاکھ روپے کما سکتا ہے۔اس میں سے خرچہ نکلا دیا جائے تو پھر بھی اچھی خاصی بچت ہو جاتی ہے۔یہ درخت جتنے زیادہ رقبے پر اگایا جائے ، اتنا ہی زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔

2016 ء میں حکومت سندھ نے ایک نیا سرکاری ادارہ، انوائرمنٹ کلائمنٹ چینج اینڈ کوسٹل ڈیپارٹمنٹ تشکیل دیا تھا۔اس کے زیراہتمام 2016ء ہی میں ضلع ٹھٹھہ میں پچاس ایکڑ رقبے پہ پام آئل لگائے گئے۔ہمارے کسان بھائی فی ایکڑ  ساٹھ پودے اگانے میں کامیاب رہے۔تجربے نے عملی جامہ پہن لیا اور نومبر 2020 ء میں ان درختوں کے پھلوں سے تیل نکل آیا جس کی کوالٹی عمدہ پائی گئی۔خاص بات یہ کہ پھلوں سے تیل بھی اچھی مقدار میں برآمد ہوا۔

اس کامیاب تجربے کے بعد حکومت سندھ تین ہزار ایکڑ رقبے پر پام آئل درخت لگانا چاہتی ہے۔ اس کی مدد کے لیے نجی شعبے کو بھی آگے آنا چاہیے۔جیسا کہ بتایا گیا، سندھ اور بلوچستان کے لاکھوں ایکڑ ساحلی علاقے میں یہ قیمتی درخت لگ سکتا ہے۔ان درختوں کی تنصیب سے نہ صرف پاکستان میں لاکھوں ٹن سستا کوکنگ تیل میّسر آئے گا بلکہ ملکی ترقی بھی انجام پائے گی۔ نیز حکومت قیمتی زرمبادلہ بچانے کے بھی قابل ہو سکے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔