’’جیمز بانڈ‘‘ اور اس کے خالق آئن فلیمنگ

ناصر ذوالفقار  اتوار 29 مئ 2022
مقبول ترین فلمی کردار کی ساٹھویں سال گرہ پر بانڈ سیریز کی فلموں اور یہ کردار تخلیق کرنے والے قلم کار کی زندگی پر ایک نظر ۔ فوٹو : فائل

مقبول ترین فلمی کردار کی ساٹھویں سال گرہ پر بانڈ سیریز کی فلموں اور یہ کردار تخلیق کرنے والے قلم کار کی زندگی پر ایک نظر ۔ فوٹو : فائل

 کراچی: لندن کسینو ’’دی ایمبیسیڈر‘‘ کا مقام ہے جہاں جوئے کی بڑی میز کے اطراف اشرافیہ کے لوگ جمع ہیں اور ان کے مابین پلے کارڈز کا مقابلہ جاری ہے۔

تاش کے پتوں کا ماہر نوجوان بازی جیت رہا ہے، اس کے روبرو ایک حسین و پرکشش خاتون بھی براجمان ہے جو سرخ لباس زیب تن کیے ہوئے ہے۔ وہ اپنا تعارف کرواتی ہے، سلویا ٹرینچ! اور س رخرو کھلاڑی کا نام نوٹ بک میں درج کرنے کے لیے اس سے پوچھتی ہے جس پر وہ کیس بوکس سے سگریٹ نکال کر منہ میں لگاتا ہے اور لائیٹر سے سگریٹ سلگانے کے بعد جب کہ ابھی سگریٹ اسکے لبوں کے درمیان معلق ہے۔

وہ کہہ رہا ہے بانڈ! جیمز بانڈ!!۔ کتابوں اور فکشن کامک کے افسانوی کردار جیمز بانڈ کا یہ سلور اسکرین پر شان دار اور زبردست تعارف تھا اور جاسوسی کے نت نئے ایڈونچرز کی شروعات بھی تھی۔

فلم کی کام یابی نے ایک عام بجٹ کی فلم کو بڑی فرنچائز میں بدل دیا اور اسے بڑی فتح سے ہم کنار کیا کہ آنے والے دنوں میں شین کونری کے ساتھ بانڈ فرنچائز کے پروڈیوسروں اور ڈائریکٹروں کے لیے دولت کے دروازے کھلتے ہی چلے گئے۔

یہ 2 اکتوبر 1962 ء کو ریلیز ہونے والی بانڈ سیریز کی پہلی فلم ’’ڈاکٹر نو‘‘ کا بالکل ابتدائی سین تھا جس میں بانڈ کے ساتھ بطور بانڈ گرل کو بھی پہلی بار پیش کیا گیا۔ سلویا ٹرینچ کے روپ میں یہ خاتون اداکارہ ایونسِ گیسن تھیں جو چار سال قبل نوے برس کی عمر میں وفات پاچکی ہیں۔ آنجہانی شین کونری بھی نوے برس کی عمر میں ہی 2020 ء میں دنیا سے کو چ کرچکے ہیں۔ سیریز کی نئی فلم ’’نوٹائم ٹو ڈائی‘‘ پچھلے سال 2021 ء میں ریلیز ہوئی۔

یہ انگلش فلموں کی سب سے طویل عرصے چلنے والی فلم فرنچائز سیریز بن چکی ہے۔ بانڈ کے خالق آئن فلیمنگ نے اگرچہ لمبی عمر نہیں پائی مگر ان کی زندگی ہنگامہ خیزی سے عبارت ہے۔ وہ سیلف میڈ انسان تھے جنہوں نے محض اپنی قابلیت و صلاحیت کے ذریعے خود کو دنیا سے منوایا۔ انہوں نے جیمز بانڈ کا کردار اپنے آپ کو سامنے رکھتے ہوئے تخلیق کیا تھا، اسی لیے کردار میں ان کا عکس جھلکتا ہے اور بانڈ کی کہانی دراصل خود آئن فلیمنگ کی کہانی ہے۔

بانڈ کے کردار سے واقفیت اور اسے بہتر طور پر سمجھنے کے لیے آئن فلیمنگ کی زندگی کے چھپے ہوئے گوشوں کو سامنے لانا ضروری ہوجاتا ہے۔ اس سال بانڈ سیریز کے ساٹھ سال مکمل ہورہے ہیں، چناں چہ اس مضمون کے ذریعے فلیمنگ کو خراجِ تحسین پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور بانڈ سیریز فلموںکا جائز ہ پیش خدمت ہے۔

بیسویں صدی کے معروف برطانوی مصّنف، ناول نگار، صحافی، نثرنگار، کشتی راں اور دوسری عالمی جنگ کے ایک نیول کمانڈرآئن لنکاسٹر فلیمنگ، جیمز بانڈ کے خالق تھے۔ انہوں نے اپنے جاسوسی ناول 1952 ء سے1964 ء کے درمیان لکھے۔28 مئی 1908 ء کو ویلنٹائن فلیمنگ کے گھر دوسرے بیٹے آئن فلیمنگ کی پیدائش ہوئی، مقام تھا، گرین اسٹریٹ W1 ، مے فیئر، لندن۔ فلیمنگ کے بڑے بھائی پیٹر فلیمنگ تھے جو کہ ایک سیّاحتی رائیٹر تھے۔ ان کے والد فلیمنگ کی پیدائش کے دو سال بعد ہی ساؤتھ آکسفورڈ شائر کی طرف کنزرویٹو پارٹی کے ممبر آف پارلیمنٹ منتخب ہوگئے۔

بظاہر یہ بات ننھے فلیمنگ کی ذات سے متعلق خوش قسمتی سے تعبیر کی گئی مگر آنے والے بعد کے حالات اور واقعات نے ثابت کر دکھایا کہ فلیمنگ پیدائشی طور پر ایک غیرخوش بخت انسان تھے اور وہ اپنی زندگی کے ابتدائی دنوں میں بہت زیادہ تکالیف اور پریشانیوں میں گھرے رہے۔ فلیمنگ نے اپنے بھائی پیٹر کے ساتھ ساؤتھ بکنگھم کی معروف تعلیمی درس گاہ ’’Eton ‘‘ میں داخلہ لے لیا اور دونوں بھائیوں نے یہاں کھیلوں میں بہت آگے تھے اور نمایاں طور پر اپنا نام پیدا کرلیا اور وہ کالج کے اسٹار بن گئے۔

فلیمنگ نے مختصر عرصے کے لیے رائل ملٹری اکیڈمی “Sandhuhrst”بھی جوائن کی تھی جو کہ برطانیہ کی مشہور ومعروف قدیم عسکری تربیت گا ہ رہی ہے جو ساؤتھ ایسٹ برک شائر کے ایک ٹاؤن میں واقع ہے، فلیمنگ کو اپنی ایک بیماری کے سبب اس تربیت گاہ کو تکمیل سے پہلے چھوڑنا پڑا۔ بعد میں وہ اپنے اس رائل اکیڈمی کے تجربے کو سخت ناپسند کرتے تھے اور اکیڈمی کے کڑے امتحان سے سخت نالاں رہے، وہ کیوںکہ رنگین مزاج اور آزاد سوچ کے حامل تھے اور اسی لیے اس امتحان کو سنجیدگی سے نہ لے پائے۔

1930 ء میں فارن سروس کی شمولیت میں ناکامی کے بعد لندن واپس آگئے اور وہاں انہوں نے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز کردیا اور یوں ان کی فری لانسر رپورٹنگ کا آغاز ہوا۔ انہوں نے روس و جرمنی کے فارن آفس اور ٹائم میگزین کے لیے مراسلات لکھے مگر اس کا کچھ مثبت جواب نہ ملا۔ والدہ نے فلمینگ کو برطانیہ کی بڑی نیوز ایجنسی ’’رائیٹرز‘‘ میں ملازمت دلوادی جہاں ان کے بھائی پیٹر کام کرتے تھے۔

فلیمنگ نے یہاں رہتے ہوئے مختصر عرصے میں صحافی کے طور پر نمایاں کام کرڈالے اور بڑی کام یابیاں سمیٹیں۔ وہ بہت زیادہ مطالعہ کے عادی تھے اور اپنی چھٹیاں غیرممالک کے دورے میں گزارتے تھے جس کے سبب انہیں سیّاحت کا وسیع تجربہ حاصل ہوا۔ مردانہ وجاہت رکھنے والے فلیمنگ بے باک اور خودمختار قسم کی خواتین کے زلفوں کے اسیر رہے، شرا ب و تمباکو کے رسیا، تاش اور گالف کے ماہر کھلاڑی ہونے کے علاوہ بہت اچھے اور تیز رفتار ڈرائیور بھی تھے۔

انہوں نے اپنی شناخت بنانے کی کوششوں کو جاری رکھا اور ترقی کرتے ہوئے ایک باوقار اسٹائل اپنالیا۔ آخرکار وہ سنجیدگی کے ساتھ اپنی شخصیت کو اُجاگر کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ ان کے پسندیدہ مقامات میں ہانگ کانگ کا ہوٹل پینی سُولا کورٹ (Penisula Court) رہا تھا۔ انہیں ’ماسکو‘ سے خاص لگاؤ تھا جب کہ وہ نیویارک کو ناپسند کرتے تھے۔

تاش کے ماہر کھلاڑی ہونے کے ناتے دنیا کے اکثر بڑے کسینو (جوئے خانے) ان کی دل چسپیوں کا محور تھے۔ ان کا پسندیدہ کسینو مانٹی کارلو کا بولیوف(Beauliev)کسینو تھا۔ اپنے صحافتی کام کے دوران وہ اپنی رپورٹنگ اور برطانوی سیکرٹ سروس کے لیے سراغ رسانی کا کام بھی شوقیہ کرتے رہے تھے۔ انہوں نے روس کے بارے میں تحقیقاتی رپورٹوں سے جاسوسی کی دنیا میں شہرت بنائی۔ دوسری عالمی جنگ کے آغاز سے باقاعدہ طور پر وہ ڈائریکٹر برطانوی نیول انٹیلی جنس کے معاون کی حیثیت سے شامل ہوگئے اور ڈائریکٹر نیول ریئرایڈمرل جان گاڈفری(Jhon Godfrey) کے زیرِسایہ رہے۔

اپنے ان َباس سے بہت زیادہ متاثر رہے اور انہوں نے اپنے ناول میں بانڈکے باس ایم۔M اور ان کی سیکریٹری مس منی پینی کے کردار ان سے ہی منسوب کیے۔ اس پوزیشن نے ان کے لیے نادر مواقع فراہم کیے۔ اس نیٹ ورک سے ان کی غیرمتوقع انتظامی صلاحیتوں کو ابھر نے کا موقع ملا اور وہ جلد ہی رضاکار متبادل اسسٹنٹ سے لیفٹیننٹ کمانڈر اور پھر کمانڈر کا عہدہ حاصل کرنے میں کام یاب ہوگئے جس میں ان کی ذہانت اور نیازمندی شامل حال رہی تھی۔ ڈائریکٹر انٹیلی جنس کی ٹیم میں ان کا خفیہ کوڈ17Fتھا۔

وہ بہادر Camp X کے تربیت یافتہ تھے جوکہ متحدہ فورسز کا ایک ٹاپ سیکرٹ تربیتی اسکول رہا ہے۔ فلیمنگ ایک علامتی جاسوس ایجنٹ کے طور پر سامنے آئے اور انہیں سیکرٹ سروس کی خداداد صلاحیتوں کے باعث اپنے کردار جیمزبانڈ کو دنیا کے سامنے لاسکے۔

ایک ذاتی اسسٹنٹ کے فلیمنگ کے انٹیلی جنس ورک نے انہیں اپنے جاسوسی ناول کے پس منظر کو تخلیق کے مواقع فراہم کیے۔ انہوں نے اپنے زیادہ تر ناول اپنے جمیکن گھر ’’گولڈن آئی‘‘ میں رہتے ہوئے تخلیق کیے تھے جہاں وہ اپنے آخری وقتوں میں گوشہ ِنشین ہوگئے تھے۔

1953 ء میں فلیمنگ نے گولڈن آئی کے مقام پر اپنا پہلا ناول ’کسینو رائل۔Casino Royale ‘ مکمل کرلیا تھا۔ فلیمنگ یہاں اپنی ہر صبح کا آغاز لکھائی سے کرتے ، وہ تین گھنٹے متواتر لکھتے تھے جب کہ روزانہ چھے سے سات گھنٹے کے حساب سے دو ہزار کے لگ بگ الفاظ تحریر میں لاتے، بنا کسی غلطی کو درست کیے اور بغیر دوبارہ پڑھے ہوئے جس سے ان کی ذہنی صلاحیت اور قوت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

اس پہلے ناول کے ذریعے فلیمنگ نے اپنے تصوراتی خفیہ سیکرٹ ایجنٹ 007 کو ’’لائسنس ٹو کل ‘‘ اور خوب رو ہیروئن ’ویسپر لنڈ‘ کی زلفوں کے سائے میں پیش کردیا۔ کہانی کے کردار ایم کے کو ’’بلیڈز کلب‘‘ کے ارکان کو نظر میں رکھ کر تخلیق کیا گیا تھا جس کے فلیمنگ ممبر رہے تھے اور جہاں اکثر بانڈ مہمان کے طور پر دورے کرتا ہے۔ فلیمنگ نے اپنے ایک ساتھی ممبر کے نام ’’بلو فلڈ‘‘ کو اخذ کیا اور اپنے منفی کردار (ولین) کی بنیاد بنایا تھا جو کہ بانڈ کا چالاک اور سب سے بڑا دشمن رہا۔

53 19ء میں ’’کسینورائل‘‘ کے منظرِعام آنے تک وہ اپنا دوسرا ناول ’’لیوِاینڈ لِٹ ڈائی‘‘ ( Live And Let Die) مکمل کرچکے تھے۔ ناول نگاری کے ساتھ صحافتی ذمے داریاں بھی جاری رہیں۔ 1959 ء کے اختتام تک وہ سنڈے ٹائم کو خدا حافظ کہہ چکے تھے۔ فلیمنگ کا البرٹ بروکولی اور سالز مین کے ساتھ اصل معاہدہ طے پا جانے کے بعد فقط ان ہی دو اشخاص کو ٹائٹل استعمال کرنے کی اجازت حاصل تھی۔ انہوں نے اپنے تمام ناول اور مختصر کہانیوں کو پروڈیوسر ہیر ی سالزمین کے حوالے کردیا تھا جنہوں نے بعد میں ساتھی پروڈیوسر البرٹ بروکولی کے ساتھ مشترکہ سرمایہ کاری میں بانڈ سیریز فلموں کی بنیاد رکھی اور پہلی فلم بناڈالی۔

1962 ء میں فلم ’’ڈاکٹرنو‘‘ ۔Dr No ریلیز ہوگئی اور جیمز بانڈ کے کردار نے نیا اور مضبوط میڈیم ’’سنیما‘‘ حاصل کرلیا۔ فلم میں بانڈ کا کردار ورکنگ کلاس سے تعلق رکھنے والے اسکاٹش اداکار شین کونری نے بڑی خوب صورتی سے ادا کیا۔ شان کونری کے کردار بانڈ کو پرفارم کرنے کے لیے فلیمنگ کے شکوک شبہات تھے مگر 1963 ء میں ان کی دوسری فلم ’’فرام رشیا وِدھ لَو‘‘ کے منظرِعام پر آجانے کے بعد انہوں نے اس کا اظہار کیا کہ شان کونری نے افسانوی کردار بانڈ کو کافی حد تک ان کے تصّورات کے مطابق ادا کیا ہے۔ فلیمنگ کی یہ دوسری فلم ان کی آخری بانڈ فلم ثابت ہوتی ہے جو انہوں دیکھی۔

فلیمنگ کے دل کے مریض تھے۔ ان کی کم زوری بڑھتی ہی چلی گئی۔ وہ شراب نوش اور چین اسموکر تھے، روزانہ 70 سیگریٹس پی جاتے اور ایک شراب (جن) کی بوتل انڈیل لیتے۔1964 ء میں دوسری بار دل کا دورہ پڑا جب ان کی والدہ فوت ہوئی تھیں مگر فلیمنگ نے ڈاکٹروں کی ہدایات کی پروا نہیں کی اور اپنی والدہ کی آخری رسومات میں شر یک ہوگئے۔ کینٹربری (کینٹ ۔انگلینڈ) کے مقام پر11اگست کی رات کو انہیں دل کا جان لیوا دورہ پڑ ا، 12 اگست 1964 ء کو وہ اپنی زندگی کی بازی ہارچکے تھے جب ان کے بیٹے کیسپر کی بارہویں سال گرہ میں چند دہی باقی تھے۔ انہوں نے 56 سال کی عمر پائی۔

فلیمنگ نے کل4 1ناول لکھے جن میں ایک ناول بچوں کے لیے بھی تھا، جو انہوں نے اپنے بیٹے سے محبت کے اظہار کے طور پر لکھا تھا جس کا نام ’’چیٹی چیٹی بینگ بینگ‘‘ (Chitty Chitty Bang Bang) ہے اس ناول کی جادوئی کار نے بچوں میں بہت مقبولیت حاصل کی تھی۔ ان کا آخری ادھورا ناول ’’دی مین وِدھ دِی گولڈن گَن‘‘ تھا۔ یہ ان کی موت کے اگلے سال شائع ہوا تھا۔

اس ناول کے پہلے ایڈیشن کی کاپیوں کی تعداد 82000 ہزار تھی جو کہ ان کے گزشتہ تمام ناولوں کے مقابلے میںسب سے زیادہ رہی تھی۔ ناولوں کے علاوہ فلیمنگ نے دو نان فکشن کتابیں اور 9 مختصر کہانیاں تحریر کی تھیں۔ فلیمنگ کی وفات کے بعد ان کے ادھورے ناول کو مصّنف کنگزلے ایمز نے مکمل کیا اور دوسرے سات مصّنفین نے بھی بانڈ سیریز ناول کے سلسلے کو آگے جاری رکھا ہوا ہے۔ فلیمنگ کی پیدائش کے 100 ویں سال گرہ کے موقع پر اکتوبر 2008ء میں لندن کے پلیڈیم (Palladium) تھیٹر میں فلیمنگ کی پیدائش کی صد سالہ تقریبات کے سلسلے میں ہونے والا شو سب سے نمایاں رہا جس کا عنوان تھا،A Tribute to Ian Fleming!”     “The Story of James Bond:

اس موقع پر مصنف کی زندگی اور تحریر کے ساتھ ان کی عالمی لگیسی ’’جیمز بانڈ‘‘ کو خراجِ تحسین پیش کیاگیا اور ملک کی اسٹار اور نمایاں شخصیات نے مل کر جشن منایا۔ برطانوی ہارٹ فاؤنڈیشن کی تقریب میں یادگار شام کو بانڈ کے اداکاروں ڈینئل کریگ اور آنجہانی راجر مور نے اپنی پرکشش شخصیات سے مسرور کیا جہاں تھیٹر کے اطراف ان کے کئی مداحوں کا جمگھٹا تھا۔ اپریل 2008 ء میں فلیمنگ کی پیدائش کے صد سالہ موقع پر ان کی شخصیت، زندگی اور کام کو اجاگر کرنے کے لیے ان کے زیراستعمال اشیاء کو ’’امپیریل وار میوزیم ‘‘ میں سجایا گیا، اس کا عنوان تھا:

“Ian Fleming and James Bond:”For your Eyes Only”   یہاں اس مرکزی نیوزنیٹ ورک کا وہ نقشہ بھی رکھا گیا تھا جس میں1950ء میں فلیمنگ کی انٹیلی جنس کی معلومات کو اکٹھا کیا گیا ہے، جب وہ ’’سنڈے ٹائمز‘‘ کے نمائندے تھے۔ نمائش کی تفصیلات کو کتابی شکل میں شایع کیا گیا ،”For Your Eyes Only:Ian Fleming and James Bond”نامی کتاب کے مصنف بِن میکنٹائر ہیں اور کتاب کا پیپر بیک ایڈیشن امریکا وبرطانیہ میں اپریل 2009 ء میں شایع ہوا۔

ایانEON) (پروڈکشن بروکولی خاندان کی ملکیت ہے اور یہ پائن وڈاسٹوڈیو۔ انگلینڈ سے آپریٹ کی جاتی ہے جس کی بنیاد پکییڈیلی ( Piccadilly) ویسٹ منسٹر۔ لندن میں ہے۔ یہ ایک محدود کمپنی (LLC) ڈین جیک ( Danjaq) سے منسلک ہے۔

ایان پروڈکشن بانڈ سیریز کی کاپی رائیٹس کے حقوق رکھتی ہے اور اسے سنیما اسکرین کے لیے ٹریڈ مارک حاصل ہے۔ کمپنی کی شروعات 1961 ء میں بروکولی اور سالزمین نے کی تھی اور نو فلمیں ایک ساتھ بنانے کے بعد سالزمین نے اپنے حقوق ڈین جیک اور یونائیٹڈ آرٹسٹ کو فروخت کردیے تھے۔ تب سے بانڈ سیریز فلموں کے نارتھ امریکا کے ڈسٹری بیوٹرز یونائیٹڈآرٹسٹ والے ہیں جب کہ انٹرنیشنل تقسیم کار یورنیورسل پکچرز ہے۔

میڈیا پروڈکشن کمپنی ایان کے ساتھ میٹرو گولڈن میئر (ایم جی ایم ) بانڈ فلموں کے وڈیو حقوق رکھتی ہے۔ البرٹ بروکولی کے انتقال کے بعد پروڈکشن کمپنی کو ان کی فیملی چلارہی ہے جس میں ان کی بیٹی باربرا اور سوتیلے بیٹے مائیکل جی ولسن مشترکہ پروڈیوسر ہیں۔

جس طرح آئن فلیمنگ کے افسانوی کردار جیمزبانڈ کو سنیما کے پردے کی زینت بنانے میں فلم ساز البرٹ بروکولی اور سالز مین کا کردار اہم ترین رہا ہے اس کے ساتھ ہی ٹیرینس ینگ بانڈ کے سب سے پہلے ڈائریکٹر ہیں جنہوں نے فلم سازوں کی خواہشات کو عملی جامہ پہنایا اور ان کے خوابوں خیالوں کو سنیما کے پردے پر منتقل کیا۔ ٹیرینس نے اپنے پروڈیوسروں کی توقعات سے بڑھ کر افسانوی جیمزبانڈ کو فلمی بانڈ بنادیا اور سنیما کے شائقین اور بانڈ کے مداحوں کو اپنے جادوئی اثر میں جکڑلیا۔ 1962 ء میں فلم کے ریلیز ہونے کے بعد عوام میں زبردست پزیرائی نے ’ڈاکٹر نو‘ کو ایک کام یاب فلم قرار دیا اور اس طرح فلم کے پروڈیوسر البرٹ بُروکولی کو دولت مند بنا دیا۔ ڈاکٹر نو سے پہلے ایک جاسوسی فلم کا بڑا چرچا رہا تھا جس کا نا م تھا ’’پنک ان بنکاک‘‘! مگر ڈاکٹر نو نے مقبولیت اور پسندیدگی میں اسے بہت پیچھے چھوڑدیا تھا۔

تب اس حقیقت کا اظہار ہو ا کہ ایسی فلمیں بھی کام یاب ہوسکتی ہیں جن کی کہانی عورتوں کے برخلاف ایک مرد کے گرد گھومتی ہو، کیوںکہ بانڈ کے ناولوں میں عورتوں سے زیادہ بانڈ کے کردار کو اولیت دی جاتی ہے۔

بانڈ سیریز فلموں میں اب تک آفیشلی طور پر چھے اداکاروں نے جیمز بانڈ کا رول ادا کیا ہے، شین کونری، جارج لیزنبائی، راجرمور، ٹموتھی ڈیلٹن اور پیئرس بروسنن کے بعد حالیہ فلمی جیمزبانڈ ڈینئیل کریگ ہیں جن کی تازہ فلم ’’نوٹائم ٹو ڈائی‘‘ بھی کام یابی حاصل کرچکی ہے جب کہ کریگ بانڈ کے رول سے ریٹائر ہوچکے ہیں اور اب جیمز بانڈ کی لیے نئے اداکار کی جستجو ہے۔ آنجہانی راجر مور نے سب سے زیادہ سات بانڈ فلموں میں اپنی خدمات دی ہیں، شین کونری چھے اور کریگ نے پانچ سیریز فلمیں کی ہیں۔

بانڈ سیریز فلمیں اپنے مخصوص فارمولے پر بنائی جاتی ہیں اور ان کے فیچرز میں جُزیات کا بڑا خیال رکھا جاتا ہے جو کہ فلمی شائقین کے لیے کشش کا باعث ہیں اور یادگاری طورپر فلم کا حصہ رہی ہیں جو فلم کے آغاز سے اختتام تک ساتھ چلتی ہیں اور دیکھنے والے اس سے خاصے مانوس ہیں۔ بانڈ سیریز پروڈکشن فلموں کی غیرمعمولی کارکردگی اور عوامی پزیرائی کے پیچھے جو عوامل کا رفرما رہے ہیں ان میں آئن فلیمنگ کی کہانی کے روایتی لوازمات کے ساتھ ان فلموں کے وہ اہم فیچرز بھی شامل ہیں جنہوں نے بانڈ فلموں کو مقبول بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ بانڈ فلمیں اپنی انفرادیت اور خصوصیات کے حوالے سے اپنی شروعات سے ہی فلم بینوں کے لیے دل چسپی اور توجہ کا باعث رہی ہیں۔ جیمز بانڈ کا کردار سنیما کی تاریخ کا لافانی کردار بن چکا ہے۔

60 سالہ بانڈ فلموں کے تجربات نے فلمی شائقین کے لیے 25 شاہ کار فلمیں تخلیق کی ہیں۔ بانڈ سیریز سب سے طویل عرصے چلنے والی فرنچائز فلم سیریز بن چکی ہے اور آمدنی کے لحاظ سے یہ مارول کی فلموں اور اسٹاروار سیریز کے بعد تیسری سب سے زیادہ آمدنی کمانے والی فرنچائز فلم سیریز بن چکی ہے۔ بانڈ سیریز کی 25 اور دو اَن آفیشل بانڈ فلموں کی مجموعی آمدنی سات ارب ڈالر سے بڑھ چکی ہے۔ اس میں ایڈجسٹ افراطِ زر اور آج کے سرمایہ کی ویلیو کے مطابق اصل آمدنی 14 ارب ڈالر بنتی ہے۔ اب تک سب سے زیادہ آمدنی اسکائی فال (2012) نے حاصل کی ہے، فلم کا مجموعی بجٹ 250.3 ملین ڈالر رہا تھا اور آمدنی 1.4 ارب ڈالر ہوئی جب کہ اگلی فلم ’اسپیکٹر‘ کی آمدنی 880 ملین ڈالر ہوئی تھی۔ صرف ان دوفلموں سے سیریز نے دو ارب ڈالر کا بزنس کیا ہے۔

بانڈ سیریز فلموںکو متعدد بار گولڈن گلوب،اسکرین گلڈ، ایمی اور آسکر ایوارڈز کے لیے نام زد کیا جاتارہا ہے اور اس نے ان میں سے کئی ایوارڈ اپنے نام کیے ہیں۔ بانڈ فلموں نے اب تک پانچ آسکر ایوارڈ جیتے ہیں، ان میں گولڈ فنگر کو بہترین ساؤنڈایفکٹس (اب ساؤنڈ ایڈیٹنگ) کا ایوارڈ جان اسٹیئر کو دیا گیا تھا جب کہ بانڈ فلم کے لیے ایک اور آسکر ایوارڈ 1965 ء میں فلم ’’تھنڈر بال‘‘ کے حصّے میں آیا تھا۔ تھنڈربال کے ویژول ایفکٹس کے لیے یہ ایوارڈ پرَہاربرگ اور کیرِن بیکر لینڈرز نے وصول کیا تھا، جب کہ تین آسکر فلموں کے بہترین اوریجنل بہترین گیتوں پر دیے گئے۔

ان میں اسکائی فال کے گیت کی بہترین ساؤنڈ ایڈیٹنگ گلوکارہ ایڈل (Adele) اور گلوکارپال ایپ ورتھ ( Paul Epworth )، اسپیکٹر تھیم گیت پر سیم اسمتھ اور جمی نیپس اور حالیہ ’نوٹائم ٹو ڈائی‘ کے بہترین اوریجنل گیتوں کے لیے نوجوان گلوکارہ و گلوکار بلیِ آئیلش(Billie Eilish) اور فنیئس(Finneas) کو آسکر ایوارڈ دیا گیا۔ 1992 ء میں بانڈ سیریز کے خالق البرٹ بروکولی کو “Irvin G.Thalberg Memorial Award” سے نواز گیا تھا جب کہ پروڈیوسروں مائیکل جی ولسن اور باربرابروکولی کو 2022 ء کا برطانوی سال کا ’’پائینئرآف دی ایئر‘‘ اعزاز دیا گیا جو کہ’’ وِل راجر موشن پکچرز پائنیئر‘‘ والوں کی جانب سے دیا گیا۔ یہ اعزاز برطانوی فلمی صنعت میں نمایاں خدمات انجام دینے والوں کو دیا جاتا ہے۔

ایان پروڈکشن کے البرٹ آربروکولی (کیوبی)کے ساتھ دوسرے فلم سازوں نے بھی شراکت کی جن میں بانڈ کی ابتدائی نصف کے قریب فلموں کے لیے ہنری سالز مین نے سرمایہ لگایا تھا۔ اس کے بعد مائیکل جی ولسن بروکولی کی شراکت میں سرمایہ کرتے آرہے ہیں۔ حالیہ جیمز بانڈ ایکٹر ڈینئل کریگ پچھلی تین بانڈ فلموں سے سیریز کے ایسوسی ایٹ پروڈیوسر بھی رہے ہیں۔ بانڈ فلموں کے لیے دنیا کے بارہ بہترین اور ذہین ہدایت کاروں کی خدمات حاصل رہی ہیں۔ ان میں ہر ایک نے ان فلموں کو خوب سے خوب تر بنانے میں اپنے تجربے اور مہارت کا اعلیٰ استعمال کیا ہے۔

اب تک سب سے زیادہ ہدایت کاری کے فرائض ڈائریکٹر جان گلین نے انجام دیے ہیں۔ وہ بانڈ سیریز کی پانچ فلموں کے لیے ہدایت کاری کر چکے ہیں، جب کہ دوسرے ہدایت کاروں میں ٹیرینس ینگ، لوئس گلبرٹ، گائے ہملٹن، پی آرہنٹ، مارٹن گیمبل، راجر اسپاٹس وڈ، مائیکل اپٹیڈ، مارک فوسٹر، سیم مینڈس، لی تاماہاری اور حالیہ فلم ’نوٹائم ٹو ڈائی‘ کے ڈائریکٹر کیری جوجی فوکوناگا شامل ہیں۔

موسیقی کسی بھی فلم کے لیے ایک لازمی جزو رہی ہے اور کسی فلم کو کام یاب کرانے میں اچھی اور سحرانگیز موسیقی کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔ بانڈ فلموں کے لوازمات میں شامل اس کی جوش اور ولولہ پیدا کرنے والی دُھنیں اور آرکسٹرا بہت کام یاب اور مقبول ہوئے ہیں جنہوں نے کلاسک کا درجہ حاصل کیا ہے۔ ان دھنوں کے ذریعے بانڈ فلموں کی خوب صورتی اور انفرادیت میں اضافہ ہوا جسے شائقین میں بے حد سراہا گیا۔

جیمز بانڈ کی ٹائٹل تھیم دھن منٹی نارمن نے بنائی تھی جو اپنی پہلی فلم ’’ڈاکٹر نو‘‘ سے بانڈ فلموںکی شناخت اور لازمی ضرورت بنی رہی ہے۔ برطانوی موسیقار جان بیر ی نے سب سے زیادہ بانڈ فلموں میں موسیقی مرتب کرچکے ہیں۔ جان نے بانڈ کی گیارہ فلموں کے لیے موسیقی کی ہدایات دی ہیں۔ دوسرے نمبر پر بانڈ فلموں کے لیے موسیقار ڈیوڈ آرنلڈ ہیں جنہوں نے بانڈ کی چار فلموں میں موسیقی دی ہے۔

اسی طرح ان فلموں کے لیے موسیقی دینے والے دیگر موسیقاروں میں جارج مارتا، بل کانٹی، مائیکل کیمی، اِیرک سیرا، جینزو اپنے اضافی ٹریک کے ساتھ اور نکولس ڈاڈ شامل ہیں جنہوں نے بانڈ فلموں کے لیے موسیقی کا جادو جگایا۔ اسی طرح بانڈ فلموں کے لیے سب سے زیادہ گیت ڈان بلیک نے لکھے۔ 20 سے زائد دنیا کے بہترین اور اپنے وقت کے مقبول ترین گلوکاروں نے ان فلموں کے لیے پرفارم کیا ہے۔

ان میں فلموں کے25 ٹائیٹلز گیت تھے اور باقی گلوکاروں نے فلم کے دوسرے گیتوں میں اپنی آواز کا جادو جگایا۔ ان فن کاروں کی صف میں شامل نظر آتے ہیں وومیٹ منرو، سر پاؤل میکارٹنی، ونگس، نینسی سناترا، لوُلوُ، شرلی بیسی، شین ایسٹن، ریتاکولڈج اے۔ہا(a-ha) ، گاربیج، لوئس آرمسٹرانگ، گلیڈیزکنگٹ، شرل کرَو، ٹینا ٹرنر، کرس کارنیل اور دُورَان دُورَان، علیشیا کیز، جیک وائٹ، میڈونا، ایڈل اور پال ایپ ورتھ، سیم اسمتھ اور جمی نیپس، بلِی آئیلش اور فنیئس۔

سیکرٹ سروس ہیڈ کواٹرز ایم آئی۔6 آفس میں جیمز بانڈ کو نئے خفیہ مشن کے بارے میں بریفنگ دی جاتی ہے جس میں اسپیشل برانچ کے سربراہ کوارٹر ماسٹر ’’کیو‘‘ بانڈ کو خفیہ اور ہائی ٹیک آلات سپرد کئے جانے سے پہلے ان کی افادیت اور ان کا مناسب استعمال کرنے کے طریقوں کے بارے میں بتاتے ہیں اور وہ بانڈ کی راہ نمائی بھی کرتے ہیں، لیکن اکثر بانڈ، کیو کی ہدایات کو سنجیدگی سے نہیں لے پاتا ہے۔

بانڈ کے ان آلات ’’گیجٹس‘‘ میں مائیکرو کیمرے، مائیکرو ٹرانسمیٹرو ریڈیو رسیور، دستی گھڑیاں جن میں تیر اندازی سے لے کر بارودی دھماکا اور لیزر کی طاقت ور بیم پیدا کرنے والی گھڑیا ں بھی شامل ہیں، جو زیراستعمال رہی ہیں۔ پاکٹ سائز کے خفیہ کیمرے، تباہی پھیلانے والے سگریٹ لائیٹر اور پین کی شکل میں جان لیوا ہتھیار بھی بانڈ کے مخصوص آلات حرب رہے ہیں۔

بانڈ فلموں کی کاسٹ میں بانڈ کے رول کے ساتھ اس کی ہیروئنز کو بھی خاص اہمیت دی جاتی ہے۔ خوب صورت اور جازب نظر بانڈ گرلز کو فلموں کا اہم ترین جزو سمجھا جاتا ہے۔ یہ بانڈ گرلز دو طرح کی ہوتی ہیں، ایک وہ جو ولین کا اس کی منفی سرگرمیوں میں ساتھ دیتی ہیں، جب کہ دوسری بانڈ کے مشن میں ساتھی کے طور پر اس کی معاونت کرتی اور ہیروئن کے طور پر کہانی کا حصہ ہوتی ہیں۔ پہلی سوئیز ہیروئن اُرسلا اینڈریس سے لے کر فرینچ لیاسیڈوکس اور کیوبن، ہسپانوی بیوٹی اینا ڈی آرمس تک متعدد حسین اور ذہین اداکاراؤں نے اپنی حسن و جمال کے ساتھ ان فلموں میں فن کارانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا ہے اور فلم بینوں سے بڑی داد وتحسین حاصل کی ہے۔

ان فلموں نے شائقین فلم کو غیرمعمولی دل چسپیوں کے ساتھ نت نئی دنیاؤں سے روشناس کروایا ہے۔ فلیمنگ کی کہانیوں کا خاصہ ان میں شامل کثیرالقومی نوعیت کے کردار ہیں جو بین الاقوامی شہرت کے حامل خوب صورت و دل فریب مقامات کے اردگرد کام کرتے نظر آتے ہیں جس سے دنیا گلوبل ولیج دکھائی دیتی ہے۔ ان کہانیوں کو عالمی حالات اور واقعات کے پس منظر میں لکھا جاتا رہا ہے جو کہ سیّاحوں کے لیے بھی بہت پرکشش رہا ہے۔

بانڈ فلموں کی تاریخ میں کم وبیش دنیا کے کئی اہم مقامات کو شامل کیا جاچکا ہے اور خاص طور پر آئن فلیمنگ کے پسندیدہ رہائشی مقامات جیسے کہ ’’جمیکا‘‘، ’’بہاماس‘‘ اور ’’مڈغاسکر‘‘کو متعدد بار فلموں میں پیش کیا جاچکا ہے اور اہمیت دی گئی ہے۔ بانڈ فلموں کے لیے مایہ ناز اسٹنٹس کرنے والوں میں بہترین ڈرائیورز، مشّاق پائیلٹس، ماہر تیراک اور غوطہ خور ی کے متوالے، برفانی اسکیٹنگ کے چیمپیئن کھلاڑی، فضاء میں اڑنے والے اسکائی ڈائیورز اور جمپرز اور مضبوط فائیٹر شامل ہیں۔ بانڈ فلموں کو سنیما کے پردے کی زینت بنانے میں ان اسٹنٹس نے بے مثال پرفارمنسز دی ہیں۔

جیمز بانڈ کے خالق آئن فلیمنگ ایک اچھے ڈرائیور ہونے کے ساتھ تیزترین اور قیمتی کاروں کا شوق بھی رکھتے تھے جو کہ ان کے کردار جیمز بانڈ کی فلموں میں بھی واضح طور پر نظر آتا ہے۔ اسی لیے بانڈ سیریز کی فلموں میں شروع سے قیمتی اور برق رفتار کاروں کو بانڈ کے زیراستعمال رکھا جاتا ہے۔ یہ کاریں بانڈ کے بڑے گیجٹس کے طور پر فلم کے اہم ترین فیچرز کا جزوِخاص رہی ہیں۔

جیمزبانڈ کے زیراستعمال دنیا کی تیز ترین اور شان دار کاروں کو فلم میں شامل کیا جاتا ہے جوکہ حیران کن فیچرز کا شاہ کار ہوتی ہیں۔ ان میں بینٹلی (Bentley) ، بی ایم ڈبلیو، لوٹس، فورڈ اور آسٹن مارٹن ماڈل کی کاریں سرفہرست ہیں۔ بانڈ کی پسندیدہ آسٹن مارٹن کاریں اپنے جدید ماڈل کی صورت میں فلم ’’گولڈفنگر‘‘ کی DB5 سے لے کر، آسٹن مارٹن DB10 اورحالیہ آسٹن مارٹن DBS تک بانڈ کے متواتر استعمال میں رہی ہیں۔

جیمز بانڈ کا رول ادا کرنے والے اداکار اور ان کی بانڈ فلمیں:

1 ۔ شین کونری (1962-67-71 )

ڈاکٹر نو ۔(1962)

فرام رشیا ودھ لو (1963)

گولڈ فنگر(1964)

تھنڈر بال (1965)

یواونلی لیوٹوائس(1967)

ڈائمنڈز آرفارایور(1971)

2 ۔ جارج لیزنبائی (1969)

آن ہر مجسٹیز سیکرٹ سروس(1969)

3 ۔ راجر مور(1973-1985)

لیو اینڈلیٹ ڈائی (1973)

دی میں ودھ دی گولڈن گن(1974)

دی اسپائی ہو لوڈمی (1977)

مون ریکر(1979)

فاریورآئیز اونلی1) (198

آکٹوپسی (1983)

اے ویو ٹو اے کل (1985)

4۔ ٹموتھی ڈیلٹن(1987-1989)

دی لیونگ ڈے لائیٹس(1987)

لائسنس ٹو کل (1989)

5۔ پئیرس برسنن(1995-2002)

گولڈن آئی (1995)

ٹومارو نیور ڈائیز(1997)

دی وولڈ از ناٹ اننف(1999)

ڈائی اینودر ڈے(2002)

6 ۔ ڈینئیل کریگ(2006-2021)

کسینو رائل (2006)

کوانٹم آف سَالِس (2008)

اسکائی فال (2012)

اسپیکٹر(2015)

نوٹائم ٹو ڈائی (2021)

اَن آفیشل فلمی بانڈ

شین کونری بطور بانڈـ: ’’نیور سے نیور اگین‘‘ (1983)

بیری نیلسن بطور بانڈ : ’’کسینو رائل‘‘(1954) ٹی وی فلم

ڈیوڈ نیون بطور بانڈ: ’’کسینورائل ‘‘ (1967)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔