درآمدات، ڈالر اور روپے کی قدر

محمد ابراہیم خلیل  ہفتہ 28 مئ 2022

قیام پاکستان کے بعد چند سالوں تک ملک میں درآمدات کا زیادہ رجحان نہیں تھا۔ لہٰذا درآمدات و برآمدات کا فرق بھی لاکھوں ڈالرز میں ہوا کرتا تھا۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ ایک ڈالر تین روپے تیس پیسے کا تھا پھر4روپے کا بھی ہوگیا۔

لہٰذا برآمدات ملک کی مضبوط کرنسی کی بدولت درآمدات کے مقابل تجارت زیادہ خسارے پر مبنی نہ تھا۔ 1951-52 کی بات ہے جب بہت سے ملکوں نے اپنی کرنسی میں گراوٹ پیدا کردی تھی، حتیٰ کہ بھارت اور انگلینڈ نے بھی اپنی کرنسی کی ویلیو کم کردی تھی۔ پاکستان نے اپنے روپے کی قدر گھٹانے سے صاف انکار کر دیا تھا۔ اس طرح تجارتی توازن بھی مثبت رہا یعنی برآمدات زیادہ درآمدات کم رہیں۔

ایسا دور آیا یعنی1950کے آغاز کے تین چار سال میں ہی ملک کی درآمدات میں اضافہ ہونا شروع ہوا۔ روپے کی قدر گر کر 4روپے سے زائد ہو چکی تھی، پھر بھی معاملہ بہت کنٹرول میں رہا اور روپے کی قدر مضبوط رہی۔ البتہ برآمدات کے مقابلے میں درآمدات بڑھتی چلی گئی اس طرح تجارتی خسارہ کروڑوں ڈالر سے بڑھ کر اربوں ڈالر تک جا پہنچا۔ ابھی سقوط ڈھاکا ہوا ہی تھا کہ کچھ ہی عرصے میں روپیہ اتنا گرا کہ 4روپے سے گر کر 9 روپے 90 پیسے پر آگیا۔ بس یہیں سے روپے کے زوال کی ابتدا ہوئی۔

اب تو کہا جا رہا ہے کہ ایک سال میں روپے کی قدر میں 32فیصد کمی آچکی ہے۔ روپے کے زوال کے پیچھے اب سیاسی کشیدگی بھی ہے۔ جیسے جیسے ملک کے سیاسی حالات کشیدہ ہوتے چلے جائیں گے، معاشی حالات ابتری کی جانب گامزن رہیں گے۔

ملک افواہوں کی زد میں رہنے کے باعث ملک بھر میں کاروباری سرگرمیاں کہیں معطل اورکہیں سست رفتاری سے جاری رہیں گی۔ اس طرح زبردست سیاسی بے یقینی، سخت ترین معاشی بدحالی اور بے انتہا کاروباری مندی کو جنم دیتی ہے۔ بالآخر معاشی پہیہ جمود کا شکار ہو جاتا ہے جو معیشت میں ایک منحوس چکر کو جنم دیتا ہے اور روپے کی قدر گھٹتی ہے اور ڈالر کی قیمت بڑھتی ہے۔ درآمدات بڑھنے سے ڈالر کی طلب بھی بڑھتی ہے۔

قیام پاکستان کے چند سال بعد سے ہی اشیا تعیشات کی درآمدات کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ ملک میں امپورٹ لائسنسوں کا اجرا اور ساتھ ہی ساتھ چھوٹے بڑے کارخانوں کا قیام عمل میں آنا شروع ہوا۔ ایک طرف معاشی ترقی میں اضافہ ہوا۔ غیر محتاط قسم کی معاشی منصوبہ بندی نے معاشرے میں عدم توازن کو جنم دیا، ملک میں معاشی ترقی کے ساتھ غربت میں اضافہ ہونا شروع ہوا۔

معاشی ترقی یا صنعتی ترقی کے ساتھ امیر طبقے میں نمود و نمائش، دکھاوا، غیر ملکی درآمدی اشیا کے استعمال میں اضافہ اور غربت و امارت میں زبردست فرق پیدا ہوا۔امیر طبقے کی دولت کی فراوانی نے ایسی اشیا کی درآمدات کو جنم دیا جن کی درآمدات پر پاکستان کو ہر سال کھربوں روپے صرف کرنا پڑتے ہیں اور یوں ہر سال برآمدات اور درآمدات کا فرق بڑھتا چلا گیا۔ ملک بھر میں کرپشن کے باعث معاملات پیچیدہ ہوتے چلے گئے۔

قرض کا بار بڑھتا چلا گیا اور درآمدی بل برآمدات کے مقابلے میں دگنا سے بھی زیادہ ہونے لگا۔ ایسے میں موجودہ حکومت نے کئی درآمدات پر پابندی عائد کر دی ہے ، کیونکہ درآمدات کے مسلسل بڑھتے ہوئے اضافے نے معیشت کو زک پہنچانا شروع کردیا تھا۔ خاص طور پر گزشتہ برس کی نسبت رواں مالی سال کی درآمدات کے اعداد و شمار ہوش ربا ہیں۔

پی بی ایس کی تازہ رپورٹ برائے جولائی تا اپریل2022 کے مطابق پاکستان کی کل برآمدات65ارب 53کروڑ 72لاکھ 86ہزار ڈالرز کی رہیں جب کہ اس کے بالمقابل گزشتہ مالی سال کے اسی دورانیے میں یہ مالیت 44ارب 73کروڑ 14لاکھ 31ہزار ڈالرز رہیں، یعنی46.51 فیصد کا اضافہ ہوا۔ یہ اضافہ بلحاظ پاکستانی کرنسی 58 فیصد بنتا ہے۔ اس طرح درآمدات میں تاریخی اضافے نے ڈالر ریٹ کے تاریخی اضافے میں اپنا کردار ادا کیا۔

اس کے علاوہ بھی کئی اشیا ایسی ہیں جن کے استعمال اور درآمد پر پابندی عائد کی جانی چاہیے۔ ایک تاجر کا کہنا ہے کہ تمباکو اور میٹھے مشروبات پر بھی پابندی عائد کی جانی چاہیے جن سے بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔

اس کے علاوہ اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ کس طرح سے ڈالر کو فرار کرایا جا رہا ہے یا کسی بھی وجہ سے ڈالر بیرون ملک منتقل ہو رہا ہے، اس کے بہت نقصانات ہیں۔ ساتھ ہی زرمبادلہ جوکہ بیرون ملک پاکستانی روانہ کرتے ہیں، ان میں اضافے کی ضرورت ہوگی۔

اس کے لیے زیادہ سے زیادہ افرادی قوت جوکہ تربیت یافتہ ہو بیرون ملک بھجوانے کے لیے مختلف ملکوں سے جہاں افرادی قوت کی زبردست طلب موجود ہے ان سے مذاکرات کیے جائیں تاکہ پاکستان اہل تعلیم اور تعلیم یافتہ افرادی قوت بھجوا کر زیادہ سے زیادہ زرمبادلہ حاصل کرسکے۔

ترسیلات زر میں زبردست اضافہ، برآمدات میں زبردست اضافہ اور غیر ضروری و پرتعیش اور لگژری اشیا کی درآمدات پر پابندی اور دیگر عوامل کے باعث ہی ڈالر کی طلب میں کمی واقع ہو کر روپے کی قدر میں بڑھاوے کا سبب بن سکتی ہے۔ کرنسی کی مضبوطی سے ہی مہنگائی میں بھی کمی لائی جاسکتی ہے، لہٰذا درآمدات میں کمی کے اقدامات کے ساتھ روپے کی قدر میں اضافے کے اقدامات بھی ضروری ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔