بُک شیلف

جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال۔

جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال۔

جام کوثر
مصنف: پیر ابو نعمان رضوی سیفی، ہدیہ: 800 روپے، صفحات: 448
ناشر: ادبستان، پاک ٹاور، سلطانی محلہ، کبیر سٹریٹ، اردو بازار، لاہور (03004140207)

درود شریف کی فضیلت بیان کرنے پر آئیں تو ختم ہونے میں نہیں آتی، اللہ تبارک و تعالیٰ اور فرشتے خود حضور نبی کریم ﷺ پر درود پڑھتے ہیں، اسی سے درود شریف کی فضیلت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

پیر ابو نعمان رضوی سیفی نے زیر تبصرہ کتاب میں درود شریف کا مجموعہ اکٹھا کر دیا ہے جس سے ہر مسلمان کو درود شریف کے فضائل سمجھنے اور مختلف درود کی قرات میں آسانی ہو گی۔ ایڈیٹر آن لائن روزنامہ پاکستان لاہور شاہد نذیر چوہدری کہتے ہیں ’’جام کوثر درود و سلام کی بظاہر ایک کتاب ہے لیکن بہ نظر غائر دیکھا جائے تو یہ ایک عاشق رسول ﷺ کی داستان سوز عشق ہے۔

حضرت پیر ابو نعمان رضوی سیفی عصر حاضر میں ایسی نابغہ روزگار شخصیت ہیں جن کو بلا مبالغہ تصوف کی دنیا میں حصول معرفت کے لیے عشق مصطفیٰ ﷺ سے معراج معرفت حاصل ہوئی ہے۔ جام کوثر کو لکھنے اور اس کی تدوین کرنے کی یہ سعادت آپ کو یوں ہی نہیں ملی بلکہ آپ کو اس کا القاء ہوا اور آپ کو ہدایت ملی کہ اپنے عشق کو حق ثابت کر دو۔

انھوں نے نہایت تحقیق اور جستجو کے بعد جام کوثر میں درود و سلام کو مجتمع کیا اور ہر درود کریم کو سپرد قلم کرنے سے پہلے اس کا ذکر خاص کر کے اس کے فیوض و برکات کا مشاہدہ کیا۔ سائلان معرفت اور عاشقان رسول ﷺ اس کتاب سے راہ ہدایت اور جام عشق نوش فرما کر اپنے لیے دنیا و آخرت کا سامان پیدا کریں۔‘‘ ناشر و ادیب عبدالمتین ملک کہتے ہیں ’’محترم و محتشم پیر ابو نعمان رضوی سیفی صاحب نے یہ کتاب تالیف کر کے ایک عظیم اور گراں قدر کام کیا ہے۔

یہاں پر نبی اکرم ﷺ کا وہ ارشاد مبارک آپ پر صادق آتا ہے۔آپ ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص نے کوئی کتاب لکھ کر مجھ پر درود بھیجا یعنی درود کتاب میں لکھا تو جب تک اس پر میرا نام رہے گا تو تب تک فرشتے اس شخص پر درود بھیجنے میں مشغول رہیں گے اور اس کی مغفرت و نجات کی دعا کرتے رہیں گے۔ سو صاحب تالیف بہت خوش نصیب ہیں کہ آپ اس سعادت سے سرفراز ہوئے۔ ‘‘  انتہائی شاندار کتاب ہے ہر مسلمان کو اسے اپنے پاس رکھنا چاہیئے اور اس سے مستفید ہونا چاہیے۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔

مسنون حج وعمرہ

حج دین اسلام کا پانچواں رکن ہے ۔ جس کی فرضیت ہر اس مرد و عورت پر ہے جو صاحب استطاعت ہو یعنی وہ  مالی اور بدنی طاقت رکھتا ہو ۔ حج کا اجر اتنا زیادہ ہے کہ حج کا فریضہ ادا کرنے والے فرد کے پچھلے تمام گنا ہ معاف کر دیئے جاتے ہیں اور بے حد و حساب ثواب لکھ دیا جاتا ہے۔

ہر مسلمان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ حج کی سعادت حاصل کرے اور وہ اس کے لئے دعائیں بھی کرتا ہے، ہونا تو یہ چاہیے کہ ہر مسلمان کو حج و عمرہ کے فضائل اور مسائل بارے مکمل آگاہی ہو ، مگر ہمارے عوام کی اکثریت بدقسمتی سے دینی اور دنیاوی تعلیم دونوں سے ہی دور ہے تاہم جب ضرورت پڑتی ہے تو اس وقت متعلقہ سلسلے میں متحرک ہو جاتی ہے جیسے نماز جنازہ کو ہی لے لیں تو ہماری اکثریت اس سے بے بہرہ ہے۔

نماز جنازہ کے وقت اس کا طریقہ یاد کرایا جاتا ہے حتی کہ دعائیں بھی پڑھائی جاتی ہیں تاکہ جو لوگ بھول چکے ہیں انھیں یاد ہو جائیں ۔ زیر تبصرہ کتابچہ میں حج کے فضائل اور مسائل بڑی تفصیل سے بیان کئے گئے ہیں، اس کا مقصد عوام کو حج کے احوال سے مکمل آگاہی دینا ہے۔

دس ابواب ہیں جن میں حج و عمرہ کا معنی و مفہوم اور اہمیت و فضیلت، سفر حج کے آداب، مکہ مکرمہ اور بیت اللہ کا تعارف ، شرعی اصطلاحات اور مقامات حج و عمرہ، حج و عمرہ سے متعلق چند اہم احکام و مسائل، میقات احرام و تلبیہ ،عمرے کا بیان، حج تمتع کا بیان، مدینہ منورہ اورمسجد نبوی، دنیا و آخرت کی بھلائی کے لیے دعائیں شامل ہیں۔ کتابچے کو تصاویر سے مزین کیا گیا ہے جس سے سمجھنے میں مزید آسانی ہو گئی ہے، حدود حرم کا نقشہ بھی دیا گیا۔

چھوٹے سائز کی وجہ سے اسے بآسانی اپنے ساتھ رکھا جا سکتا ہے۔ دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔  اسے کتاب و سنت کی اشاعت کے عالمی ادارے دارالسلام نے شائع کیا ہے ، کراچی اور اسلام آباد میں دارالسلام کے شو روم کے علاوہ دارالسلام کے ہیڈ آفس لوئر مال لاہور سے طلب کیا جا سکتا ہے یا کتاب کو براہ راست حاصل کرنے کے لئے اس نمبر  (042.37324034) پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ۔

جوٹوٹ کے بکھرا نہیں
مصنف : جبار مرزا، قیمت: 1000روپے، صفحات: 398
ناشر: شہر یار پبلیکیشنز ، پوش آرکیڈ  G.9  مرکز اسلام آباد (03005586192)

جبار مرزا کمال کے لکھاری ہیں ،کچھ بھی لگی لپٹی رکھے بنا سب کچھ سامنے رکھ دیتے ہیں ، یوں جیسے کوئی محقق کسی نئی تحقیق کو سب کے سامنے لاتا ہے، کہانی تو یہ ان کی اہلیہ محترمہ رانی کی ہے مگر اس میں انھوں نے علاج کے نام پر انسانیت کا خون چوسنے والے نام نہاد مسیحاؤں کا پول کھول کر رکھ دیا ہے حتی کے تعویذ دھاگہ کرنے والے اور روحانیت کا ڈھونگ رچانے والوں کے ہتھکنڈے بھی آشکار کئے ہیں۔

ان کا قلم نشتر کا کام کرتا ہے اور چھپے ہوئے ناسوروں کو کاٹ کر رکھ دیتا ہے۔ مرزا صاحب کے دکھڑے قاری کو غمگین کر دیتے ہیں، وہ ان کے کرب کو دل کی گہرائیوں سے محسوس کرتا ہے۔ جسٹس (ر) نذیر اختر کہتے ہیں ’’جبار مرزا کی کتاب ’’ جوٹوٹ کے بکھرا نہیں‘‘ آپ بیتی بھی ہے اور آئینہ بھی۔ یہ اس سماج کی کتھا ہے جہاں انسان مسیحاؤں کے ہاتھوں زخم زخم ہوئے۔ پاکستان ہی نہیں دنیا بھر کے ڈاکٹروں کی اصل غرض و غایت مال بٹورنا ہو چکا ہے۔

جبار مرزا اپنی بیگم کے علاج کی غرض سے تلخ تجربات سے گزرے ہیں۔ جبار مرزا کی زیر نظر کتاب  نے امور خانہ داری میں ایک نئی فکر پیدا کی ہے۔ میاں بیوی کے انتہائی پیار بھرے رشتے کی اہمیت بتائی ہے۔ شادی شدہ جوڑوں نے اپنا لائف سٹائل بدلا ہے، عورت کا احترام بڑھا، بیویاں معتبر ہوئیں ، جعلی حکیم بے نقاب ہوئے، روحانیت کے نام پہ دھندا کرنے والے نانگوں کو طشت ازبام کیا ۔ مجبوروں، ضرورت مندوں کی مشکلات کی نشاندہی کی۔

انسان دوستی کے نام پر دلالی کرنے والوں کا بتایا۔‘‘ محمد احمد ترازی کہتے ہیں ’’یہ ایک ایسی خود نوشت ہے جس میں فرد اور معاشرت کے خمیر کے رنگ اور بو قدرے مختلف ہے، یہ ایک ایسا رزم نامہ جس میں انسانی تلاش، کوشش، جستجو، بے بسی، کم مائیگی، اور آہ وزاری بھی اپنا رنگ جمائے ہوئے ہے، جس میں راوی نے متوازن طور سے اپنے قاری کو کمال صداقت و دیانت سے ہمارے معاشرے کے عصری، سماجی اور معاشرتی حالات، تہذیبی اور معاشرتی اقدار، انسان کی شکست و ریخت ، زندگی کے نشیب و فراز ، فراموش اور ختم ہوتی اخلاقی قدروں، انسانی جان و مال کے زیاں اور زوال کے اسباب، انسانیت کی ختم ہوتی شناخت، انسانی محرومی، محزونی، پستی، تنہائی ، خفگی اور تند خوئی اور سماج کے منفی کرداروں کی جاندار تصویر کشی کی ہے۔

جس میں فکری تجربہ، زبان و بیان، معنی و مفہوم ، ندرت و تخیل، تفہیم خیال، وسعت بیان اور نظریہ حیات کی جابجا کار فرمائی عیاں ہے جو ایک بالغ نظر، حساس اور صاحب طرز ادیب کے فن کی کامیابی کا نمایاں وصف ہے۔‘‘ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔

 you in search of
JOB in search of you
مصنف: عمر رضا بھٹہ، قیمت:1000 روپے، صفحات:240
ناشر:بک ہوم، مزنگ روڈ، لاہور (03014568820)

نوکری تلاش کرنا بہت مشکل کام دکھائی دیتا ہے حالانکہ ایسا ہے نہیں، کیونکہ کوئی بھی فرد اگر کام ڈھونڈنا چاہے تو اسے کام مل جائے گا ، ہمارا اصل مسئلہ ہے اپنی پسند کی نوکری، تاکہ اپنی صلاحیتوں کو تن من دھن سے اس طرف لگایا جائے۔

اسی پسند کے چکر میں نوکری ملنا بہت مشکل ہو  جاتا ہے۔ اب اس سلسلے میں کیا کرنا چاہیئے تو ہمیں یہ سب زیر تبصرہ کتاب بتاتی ہے اس کتاب کے مصنف اس سلسلے میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور ایسے ہی افراد کی رہنمائی کرنے کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔

کتاب رہنمائی کرتی ہے کہ کیسے اپنی صلاحیتوں کا صحیح اندازہ کیا جاتا ہے اور پھر اس کے مطابق نوکری کا انتخاب کیا جاتا ہے، جب یہ کام ہو گیا تو اب نوکری کے حصول کی تیاری ہے، اس سلسلے میں بھی بھرپور رہنمائی کی گئی ہے، سی وی کیسے تیار کرنا ہے، انٹرویو کیسے دیا جائے؟ ، غرض نوکری کے حصول تک کے تمام مراحل بیان کئے گئے ہیں ۔

طالبعلموں کے لئے بہت مفید ہے انھیں اس کتاب کو اپنے پاس رکھنا چاہیے اس سے انھیں رہنمائی ملے گی۔ پڑھائی مکمل کرنے کے بعد جب نوکری نہیں ملتی تو انسان مایوسی اور ڈپریشن کا شکار ہو جاتا ہے اگر اس طالبعلم نے یہ کتاب پڑھی ہو گی تو اس پر ایسی کیفیات طاری نہیں ہوں گی، کیونکہ یہ کتاب اس بارے میں بھی رہنمائی کرتی ہے کہ اگر انٹرویو میں کامیابی نہ  ہو تو پھر کیا کرنا چاہیے، اس سے اگلی نوکری کے لئے محرک ملتا ہے۔ بہت مفید کتاب ہے ہرکسی کو ضرور مطالعہ کرنا چاہیے ۔

ارتھ شاستر
 مصنف: اچاریہ کوٹلیہ چانکیہ، مترجم : شان الحق حقی
 ناشر: ریڈنگز، 12۔کے ، مین بلیوارڈ ، گلبرگ ، لاہور فون: 924235757877

سیاسیات، انتظام حکومت (گورننس) جنگ وجدل اور معاشیات کے اسرار و رموز بیان کرنے والی قدیم ترین کتب میں ’’ارتھ شاستر‘‘ نمایاں مقام رکھتی ہے۔ خیال ہے کہ اسے 300 قبل مسیح میں ہندوستانی بادشاہ، چندرگپت موریہ کے استاد اور وزیراعظم، چانکیہ نے تصنیف کیا۔

تاہم بہت سے مغربی محقق کہتے ہیں کہ یہ کتاب مختلف دانشوروں کے نظریات و خیالات پہ مبنی ہے جو 300 تا 100 قبل مسیح کے مابین موجود تھے۔ البتہ یہ ممکن ہے کہ چانکیہ نامی فرد نے کتاب لکھنے کا آغاز کیا۔ اس کو کوٹلیہ اور وشنوگپتا بھی کہا گیا۔ ہندو مورخ تینوں ہستیوں کو ایک ہی شخص قرار دیتے ہیں۔

ارتھ شاستر کے 15 ابواب ہیں۔ انھیں پھر بہ لحاظ موضوع ذیلی حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ باب 1 تا 8 سیاست و انتظام حکومت سے متعلق ہیں۔ بقیہ ابواب میںامور ِ دفاع اور جنگ وجدل کا بیان ہے۔ اصل کتاب سنسکرت میں لکھی گئی۔

بیسویں صدی میں اس کا اردو و انگریزی سمیت دیگر زبانوں میں ترجمہ ہوا۔ عام خیال ہے کہ مشہور اطالوی مفکر،  میکاولی کے نظریات ارتھ شاستر سے ماخوذ ہیں۔ مگر یہ بات غلط ہے۔ وجہ یہ کہ بارہویں صدی کے بعد ارتھ شاستر کے مخطوطے تقریباً غائب ہو گئے۔ بیسویں صدی میں کہیں جا کر 1905ء میں اس کا ایک مخطوطہ ہندوستان میں دریافت ہوا۔ اسی سے پھر نئی جلدیں وجود میں آئیں ۔

ارتھ شاسترمیں موجود بیشتر معلومات اب فرسودہ ہو چکی۔ پچھلے دو ہزار سال کے دوران سیاسیات، انتظام حکومت اور عسکری امور کے نت نئے نظریات سامنے آ چکے۔ وہ ارتھ شاستر کے نظریات سے مختلف نقطہ نظر رکھتے ہیں۔ پھر بھی درج بالا علوم کی تاریخ و ارتقا کا مطالعہ کرتے ہوئے ارتھ شاستر کا ذکر ناگزیر ہے۔ مزید براں اس میں وقتاً فوقتاً ایسے اقوال بھی ملتے ہیں جو دور حاضر کے اعمال حکومت کی رہنمائی کرتے ہیں۔

ارتھ شاستر منفی اور مثبت، دونوں قسم کے خیالات و نظریات رکھتی ہے۔کہا جاتا ہے بھارتی وزیراعظم، نریندر مودی اس کتاب سے متاثر ہے۔ اور اس نے انتظام حکومت کے گُر اسی قدیم مجموعہ احکامات سے اخذ کیے۔

مودی کی مسلم دشمنی سے قطع نظر یہ حقیقت ہے کہ وہ انتظام ِحکومت کرنے میں اکثر حکمرانوں سے بہتر ہے۔ مگر اس نے دغا بازی اور چلتر پن بھی اسی کتاب سے حاصل کیا۔ ذیل میں ارتھ شاستر سے غوروفکر کو دعوت دینے والے کچھ سبق آموز اقوال ملاحظہ فرمائیے:

٭…حاکم اگر عادل و منصف نہ ہو تو بڑی مچھلیاں چھوٹی مچھلیوں کو کھانے لگتی ہیں۔ اس کی موجودگی سے کمزوروں کا دل مضبوط رہتا ہے۔

٭…انسان کے چھ دشمن ہیں۔ اگر وہ دنیا میں کامیابی پانا چاہتا ہے تو ان سے دور رہے: ہوس، غصہ،حرص، انا، تکبر اور عیاشی۔

٭…حکمران اپنے وزرا کا تقرر اوصاف کی بنیاد پر کرے ۔ وہ صاحب فراست، نیک ،اہل اور وفا شعار ہوں ۔

٭…عقل مند حاکم کسی کو حقیر نہیں سمجھتا بلکہ ہر کسی کی سنتا ہے۔ وہ بچے کے منہ سے نکلی معقول بات بھی نظرانداز نہیں کرتا۔

٭…اگر حاکم سرگرم ہو تو اعمال حکومت اور عام لوگ بھی سرگرم رہیں گے۔ اگر وہ لاپروا ہو جائے تو اعمال اور عوام بھی لاپروا ہو جاتے ہیں۔ بلکہ وہ اس کے کام بگاڑ دیتے ہیں۔ تب دشمن حاکم کو آسانی سے مغلوب کر سکتا ہے۔ اس لیے حاکم کو ہر وقت مستعد اور چوکنا رہنا چاہیے ۔

٭…حاکم کو چاہیے کہ وہ نہایت اہمیت کے معاملات پہ فوری توجہ دے اور انھیں حل کرے۔ اگر ایسے معاملات پہ فوراً توجہ نہ دی جائے تو بعد میں انھیں حل کرنا مذید دشوار ہو جاتا ہے۔

٭…جو ملک کمزور ہو، وہ دوسرے ملکوں سے امن و دوستی چاہتا ہے جو ملک طاقتور ہو، وہ دوسرے ملکوں پہ حاوی ہونے کی کوشش کرتا ہے۔

زیرتبصرہ کتاب ادارہ ریڈنگز نے دیدہ زیب انداز میں شائع کی ہے ۔کاغذ اعلی ہے اور طباعت معیاری ۔419 صفحات کی یہ کتاب مناسب قیمت رکھتی ہے۔ فاضل مترجم، شان الحق حقی نے متن کا ترجمہ رواں و شستہ طور پہ کیا ہے ۔ تاریخ و سیاست سے دلچسپی رکھنے والے خواتین وحضرات اس تصنیف کومرغوب وقابل مطالعہ پائیں گے۔     (تبصرہ نگار:  سّید عاصم محمود)

پہاڑ کی آواز

بیسویں صدی کے جاپان میں کئی بڑے ناول نگار سامنے آئے، جن میں ایک اہم نام یاسوناری کاواباتا (1899-1972) کا ہے۔ ان کے ناولوں میں ’’برف دیس‘‘ ، ’’ہزار کونجیں‘‘ اور ’’پہاڑ کی آواز‘‘ مشہور ہیں۔ 1968ء میں انہیں ادب کے نوبل انعام سے نوازا گیا، وہ یہ اعزاز حاصل کرنے والے پہلے جاپانی ادیب ہیں۔ ان کے کام کو بین الاقوامی سطح پر پذیرائی ملی اور آج بھی ان کی تخلیقات شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔

زیرنظر ناول ’’پہاڑ کی آواز‘‘ 1954ء میں شائع ہوا، جس میں ہم ایک چھوٹے سے کنبے کے روز و شب سے دوچار ہوتے ہیں جو اپنی بے اطمینانی اور بے سمتی میں الجھ کر حالات کے دھارے میں بہہ چلا جا رہا ہے۔ ناول کا مرکزی کردار کنبے کا سربراہ اوگاتا شنگو ہے، جو ساٹھ سال سے اوپر کا ہو چکا ہے۔ وہ ایک کامیاب اور خوشحال تاجر ہے، لیکن بڑھتی عمر کے مسائل، ذاتی حسرتوں اور خاندان کی پریشانیوں میں بری طرح الجھا ہوا ہے۔ اس کی شادی کو تیس سال بیت چکے ہیں، لیکن اس تعلق میں محبت اور جذبہ نہیں، بلکہ شادی کے آغاز میں اسے اپنی کم رو بیوی کے ساتھ باہر جانا بھی اچھا نہیں لگتا تھا۔ دراصل وہ یاسوکو کی بہن سے شادی کرنا چاہتا تھا، جو حسین تھی لیکن اس کا نوجوانی میں انتقال ہو گیا۔

شنگو کا بیٹا شوئی چی اس کے ساتھ دفتر میں کام کرتا ہے، وہ ایک خوبصورت بیوی کا شوہر ہونے کے باوجود دوسری عورت میں دلچسپی رکھتا ہے اور یہ بات ان کے گھرانے میں پریشانی کا سبب ہے۔ دوسری طرف شنگو کی کم رو، قدرے پھوہڑ اور بدمزاج بیٹی، فوساکو کی شادی ناکام رہتی ہے اور وہ شوہر کو چھوڑ کر اپنی دونوں بچیوں سمیت گھر آ جاتی ہے۔ اپنے بچوں کی زندگی میں بہتری کے لیے وہ کچھ کرنا چاہتا ہے، لیکن مزید کسی تنازع سے بچنے کے لیے عملاً کوئی کردار ادا کرنے سے گریزاں ہے اور معاملات کو ٹالتا رہتا ہے۔

اس پریشان کن ماحول میں اسے اپنی بہو کیکوکو سے ہمدردی محسوس ہوتی ہے جو دوسروں کے دکھ درد میں شامل ہونے اور ان کا خیال رکھنے کی اہل ہے۔ پھر شنگو کے ساتھ بڑھاپے کے مسائل ہیں، وہ یادداشت کھو رہا ہے اور اپنے دوستوں کو یاد کرتا ہے جو دنیا سے جا چکے ہیں۔ اسے کبھی کبھار تیز گرگراہٹ سنائی دیتی ہے، جسے وہ ’’پہاڑ کی آواز‘‘ کا نام دیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس کی موت کا وقت آن پہنچا ہے۔

ناول کا مرکزی کردار اوگاتا شنگو ہیرو نہیں ہے، لیکن وہ ولن بھی نہیں۔ وہ ایک ایسا بوڑھا آدمی ہے جو اپنی  زندگی میں کی گئی غلطیوں سے نبردآزما ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ اس کے گھرانے کی سادہ لیکن تہہ دار کہانی ہے۔ ناول کا اردو ترجمہ محمد سلیم الرحمٰن نے کیا ہے، جو کہ اردو میں ترجمہ نگاری کا ایک معتبر نام ہے۔ 297 صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت 400 روپے ہے، جسے ریڈنگز لاہور کے اشاعتی ادارے القا پبلیکیشنز نے شائع کیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔