- اسمگلنگ کا قلع قمع کرکے خطے کو امن کا گہوارہ بنائیں گے ، شہباز شریف
- پاکستان میں دراندازی کیلیے طالبان نے مکمل مدد فراہم کی، گرفتار افغان دہشتگرد کا انکشاف
- سعودی دارالحکومت ریاض میں پہلا شراب خانہ کھول دیا گیا
- موٹر وے پولیس اہل کار کو ٹکر مارنے والی خاتون جوڈیشل ریمانڈ پر جیل روانہ
- کراچی میں رینجرز ہیڈ کوارٹرز سمیت تمام عمارتوں کے باہر سے رکاوٹیں ہٹانے کا حکم
- اوگرا کی تیل کی قیمتیں ڈی ریگولیٹ کرنے کی تردید
- منہدم نسلہ ٹاور کے پلاٹ کو نیلام کر کے متاثرہ رہائشیوں کو پیسے دینے کا حکم
- مہنگائی کے باعث لوگ اپنے بچوں کو فروخت کرنے پر مجبور ہیں، پشاور ہائیکورٹ
- کیا عماد، عامر اور فخر کو آج موقع ملے گا؟
- سونے کی قیمتوں میں معمولی اضافہ
- عمران خان، بشریٰ بی بی کو ریاستی اداروں کیخلاف بیان بازی سے روک دیا گیا
- ویمنز ٹیم کی سابق کپتان بسمہ معروف نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا
- امریکی یونیورسٹیز میں ہونے والے مظاہروں پر اسرائیلی وزیراعظم کی چیخیں نکل گئیں
- پولیس یونیفارم پہننے پر مریم نواز کیخلاف کارروائی ہونی چاہیے، یاسمین راشد
- قصور ویڈیو اسکینڈل میں سزا پانے والے 2 ملزمان بری کردیے گئے
- سپریم کورٹ نے اسپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالخالق اچکزئی کو بحال کر دیا
- مرغی کی قیمت میں کمی کیلیے اقدامات کر رہے ہیں، وزیر خوراک پنجاب
- عوام کو کچھ نہیں مل رہا، سارا پیسہ سرکاری تنخواہوں میں دیتے رہیں گے؟ چیف جسٹس
- وزیراعلیٰ بننے کیلئے خود کو ثابت کرنا پڑا، آگ کے دریا سے گزر کر پہنچی ہوں، مریم نواز
- کلین سوئپ شکست؛ ویمنز ٹیم کی سلیکشن کمیٹی میں بڑی تبدیلیاں
اذیت ناک علاج یا مرض؟
اردو زبان کے عظیم شاعر مرزا اسد اللہ غالب نے انسان کی صحت مندی کے بارے میں ان الفاظ میں تذکرہ کیا ہے کہ
تنگ دستی گر نہ ہو غالب
تن درستی ہزار نعمت ہے
گویا غالب کے نزدیک اگر تنگ دستی نہ ہو تو صحت مندی حقیقت میں ہزار نعمت ہے۔ بلاشبہ غالب نے اپنی شاعری کو ذریعہ بنا کر ایک صداقت کو بڑی خوب صورتی سے بیان کیا ہے۔
سچائی بھی یہی ہے کہ انسان کے پاس مال و زر انبار بھی ہوں تو اگر انسان کے پاس صحت جیسی نعمت نہیں ہے تو پھر اس انسان کے لیے وہ مال و زر کے انبار سب بے کار ہیں چنانچہ جب ہم اپنے کسی عزیز کو کسی مرض میں مبتلا پاتے ہیں تو پھر ہمیں ماہر معاشیات پال سیمویلسن کا یہ قول ضرور یاد آتا ہے جس میں وہ کہتے ہیں علاج مرض سے زیادہ اذیت ناک ہوتا ہے، چنانچہ اس حقیقت کا ادراک ہمیں اس وقت ہوا جب ہم اب سے کوئی چند روز قبل ایک مہلک مرض میں مبتلا ہوئے۔
کیفیت یہ تھی کہ بھوک نہ لگنے کے باعث ہماری خوراک کم سے کم ہوتی چلی گئی، ان حالات میں ہم جب بھی کسی ڈاکٹر کے پاس گئے تو ڈاکٹر صاحب ہمیں معدے کی دوا دے دیتے لیکن ہماری کیفیت یہ تھی کہ مرض بڑھتا گیا، جوں جوں دوا کی۔ نتیجہ یہ کہ اسی کشمکش میں ایک ماہ کا عرصہ بیت گیا، مگر اب کیفیت یہ سامنے آئی کہ ہماری خوراک بالکل ختم ہو چکی تھی، انجام کار ہم غشی کی کیفیت سے دوچار ہوگئے۔
چنانچہ جب تھوڑی دیر بعد ہم ہوش کی دنیا میں واپس آئے تو دونوں بیٹے، دونوں بیٹیاں و زوجہ ہمارے گرد جمع تھے اور ہمارے ہوش میں آنے پر رب کریم کا شکر ادا کر رہے تھے، تھوڑی دیر میں بڑے بھائی بزرگوار اصغر علی و بڑی صاحب زادی کو بھی خبر کردی گئی، چنانچہ تھوڑی دیر بعد بڑے بھائی اپنی اہلیہ محترمہ و ہماری بھاوج و صاحب زادی اپنے شوہر یعنی ہمارے داماد کے ساتھ ہمارے پاس موجود تھیں۔ تفکرات کے اثرات سب کے چہروں سے عیاں تھے۔
چنانچہ سب کی مشاورت سے ہمیں ایک نجی اسپتال میں لے جایا گیا، فوری طور پر ہمارے تین ٹیسٹ ہوئے البتہ اسپتال میں موجود ڈاکٹر صاحب نے فکرمندی سے کہا کہ انھیں چند روز کے لیے اسپتال میں داخل کرنا ہوگا، معاملہ ذرا سنگین ہے، ہم یہ عرض کرتے چلیں کہ جس اسپتال میں ہمیں علاج کی غرض سے لے جایا گیا وہ ایک نجی اسپتال ہے، اب علاج کا مرحلہ شروع ہوا۔
ایک کے بعد ایک ٹیسٹ ہوتا رہا اور اختتام 16 پر ہوا۔ گوکہ اس دوران ہمیں دو ڈرپس خون لگایا گیا مگر ہمارا خیال ہے کہ 16 ٹیسٹ کے لیے ہمارے ناتواں جسم سے تین ڈرپ کے مساوی خون نکال لیا گیا ہوگا، ہم اس اسپتال کے بستر پر پانچ روز قیام پذیر رہے۔ ان پانچ یوم کے دوران میرے و میرے بڑے بھائی صاحب کے خاندان کس ذہنی کیفیت و اذیت سے دوچار ہوئے یہ بیان کرنے سے زیادہ شاید محسوس کرنے کی بات ہے کیونکہ بڑے بھائی صاحب 70 برس کی عمر کے باوجود ہمہ وقت ہمارے پاس موجود رہے، گوکہ ان سے بار بار درخواست کی گئی کہ آپ گھر تشریف لے جائیں اور تھوڑا آرام کرلیں مگر وہ بضد رہے کہ بس اسلم ٹھیک ہو جائے پھر آرام ہی تو کرنا ہے۔
یہی موقف دونوں صاحب زادوں و داماد کا تھا کہ ابو آپ جلد صحت یاب ہو جائیں، پھر آرام ہی آرام ہے۔ مگر اس دوران مجھے اس حقیقت کا ادراک پوری طرح ہو چکا تھا کہ علاج مرض سے زیادہ اذیت ناک ہوتا ہے۔ مگر یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ ایک قلم کار تمام حالات میں اپنے سماجی معاملات سے بے خبر رہنا یا لاتعلق ہونا پسند نہیں کرتا چنانچہ ہم نے بھی اپنی تمام تر خرابی صحت کے باوجود ڈیوٹی پر موجود خاتون ڈاکٹر سے بڑھتے امراض کی بابت معلوم کرنے کی کوشش کی کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارے سماج میں تمام عمر کے افراد میں مختلف امراض پھیلنے کی شرح بڑھتی جا رہی ہے؟
ان خاتون ڈاکٹر نے پوری توجہ سے ہمارے سوال کو سنا اور پھر بڑی تفصیل سے ہمارے سوال کا جواب دیا، ان ڈاکٹر صاحبہ نے کہاکہ یوں تو ہمارے سماج میں یا دنیا میں امراض کی وجہ بلکہ وجوہات کئی ایک ہیں، مگر میں چند ایک وجوہات کا ہی ذکر کروں گی۔ اول وجہ ہے خوراک کی قلت۔ عام طور پر ہمارا خیال ہے کہ پیٹ بھر کے ہم نے کھانا کھا لیا اور ہماری غذائی ضروریات پوری ہوگئیں، ایسا ہرگز نہیں ہے۔
ایک انسان کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنی خوراک میں ناشتے میں روٹی یا پراٹھے کے ساتھ ایک انڈا بھی شامل کرے، پھر رات میں سونے سے ذرا قبل ایک پیالہ دودھ لازمی پیے، اگر کھانے کا ہفتہ وار شیڈول بنایا جائے، تو اس کی ترتیب یہ ہوگی۔ ہفتے میں ایک روز مچھلی کھائی جائے، ایک روز بکرے کا گوشت اس خوراک کا حصہ ہو، ایک روز دیسی مرغی کا گوشت استعمال کرے، ایک روز گائے کا گوشت استعمال کرے، پھر انسانی ہڈیوں کی مضبوطی کے لیے لازم ہے کہ دالوں کا استعمال کرے، تازہ سبزیوں کا استعمال کرے، موسمی پھل بھی استعمال کرے، پھر لازم ہے کہ انسان صاف ستھرے ماحول میں رہے اور کھلی فضا میں سانس لے، مگر آج کے دور میں ماحولیاتی آلودگی سے انسان محفوظ نہیں رہ سکتا۔ انسانی آبادیوں کے درمیان صنعتوں کا قیام، ٹریفک کا بڑھتا شور و دھواں، کیا ان حالات میں صاف ستھری فضا کا تصور بھی کیا جاسکتا ہے؟
پھر ایک انسان کے لیے لازم ہے کہ وہ تفریح سے بھی لطف اندوز ہو، سینما تھیٹر، کھیل کود، اچھی کتب کا مطالعہ، یہ تمام چیزیں انسانی صحت کے لیے لازمی جزو یا اہم ترین انسانی ضروریات ہیں۔
اچھی خوراک یا تفریح انسانی ضروریات میں سے ہیں، یہ عیاشی نہیں ہے۔ مگر ہمارے سماج میں ان سب چیزوں کا فقط تصور ہی کیا جاسکتا ہے یہ سب چیزیں ایک جانب ہمارے سماج میں تو اہم ترین انسانی ضرورت صاف پانی تک دستیاب نہیں ہے۔ ایک اور آخری بات پرسکون گھریلو ماحول دستیاب ہو، مگر موجودہ حالات میں جہاں افلاس نے ہمارے سماج میں ہر گھر میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں، کیا تمام تر گھریلو مسائل کے ہوتے ہوئے گھریلو سکون کا تصور کیا جاسکتا ہے؟
اسی لیے جب تک آج کے انسان کے تمام مسائل حل نہیں کیے جاتے، کسی بھی سماج سے امراض کے خاتمے یا امراض کے کم ہونے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ سماجی مسائل کے حل میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے لوگوں کی قلیل آمدنی۔ اگر لوگوں کو ان کے کام کا معقول معاوضہ حاصل ہو تو بہت سارے مسائل خودبخود حل ہو جائیں، بشمول امراض۔ اب ہم آتے ہیں اپنے مرض کی جانب۔ تو جیسے کہ ہم نے سطور بالا میں ذکر کیا ہے ہمارے 16 ٹیسٹ ہوئے اور ہمیں ایک مرض بتایا گیا کہ آپ کا جگر ٹھیک سے کام نہیں کر رہا۔
یہ ہے شعبہ صحت کو نجی اسپتالوں کے حوالے کرنے کا انجام البتہ ہمیں مکمل ادراک ہو چکا ہے کہ بقول پال سیمویلسن کہ علاج مرض سے زیادہ اذیت ناک ہوتا ہے۔ حرف آخر ہم حکومت وقت سے یہ گزارش ضرور کریں گے کہ سرکاری اسپتالوں میں علاج کی تمام سہولیات فراہم کرے تاکہ عام لوگوں کا علاج ہو سکے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔