مرزا شاہنواز آغا کا لیکچر اور آزادی مارچ   (پہلا حصہ)

نسیم انجم  اتوار 29 مئ 2022
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

ان دنوں پاکستان کا موسم ہر لحاظ سے گرم ترین ہے،شاید اسی وجہ سے مزاج میں بھی گرمی کا عنصر شامل ہو گیا ہے۔ ملکی حالات اور معاشی ابتری نے ہر شخص پر برے اور مایوس کن اثرات مرتب کیے ہیں۔

ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت اور روپے کی گراوٹ کے باعث تاجر برادری اور دوسرے اداروں کے مالکان سخت پریشان ہیں، اللہ نہ کرے ہمارا ملک کرپٹ ہو، لیکن سوچ سب ایسا ہی رہے ہیں۔ سری لنکا کا حال ہمارے سامنے ہے۔ ڈالر کی پرواز بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔

ان حالات کے پیش نظر مقامی ہوٹل میں ایک اہم ترین نشست کا اہتمام بڑے پیمانے پر کیا گیا۔ تقریب کا آغاز قرآن حکیم کی تلاوت اور نعت رسول مقبولؐ سے ہوا۔ کراچی ایڈیٹرز کلب کے سیکریٹری جنرل منظر نقوی نے مرزا شاہنواز آغا کا تعارف کروایا کہ مرزا شاہنواز آغا پاکستان کے ریسرچ اسکالر اور پاکستان بزنس کمیونٹی کے منتخب نمایندے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ شاہنواز آغا نے اپنی زندگی کا نصف صدی سے زائد عرصہ اس ملک کو دیا ہے۔ ان کے اخبارات میں شایع ہونے والے آرٹیکل کتابی شکل میں آ چکے ہیں، منتظمین کی جانب سے شرکا محفل کو کتاب کا تحفہ اور تقریرکے حوالے سے دستاویز پیش کی گئیں۔ Current chronicles (Basic Reforms Package of Pakistan) نامی کتاب معیشت کے حوالے سے بہترین ہے۔ اس کے وقیع مضامین قاری کو اندھیرے سے اجالے میں لے آتے ہیں۔ ان کا ایک اہم حوالہ یو ٹیوب ہے جہاں وہ اپنی بصیرت، تجربات اور علمیت کے در وا کرتے ہیں۔

کراچی ایڈیٹرز کلب کے صدر مبشر میر نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا اور دور دراز سے آئے ہوئے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا، اس کی وجہ ملکی انتشار اور بے چینی و بے اعتباری کی فضا میں صحافیوں اور دانشوروں کی شرکت باعث تقویت تھی۔ شاہنواز آغا نے اپنے خطاب کے ابتدا میں اس بات کی وضاحت کی کہ وہ تقریر کو تین حصوں میں تقسیم کریں گے۔ مرزا شاہنواز آغا نے اپنی پوری تقریر میں بہت اہم نکات پر روشنی ڈالی۔

انھوں نے کہا کہ موجودہ قرض کوئی بحران نہیں ہے، پاکستان کی معیشت نہ تو تباہی کی طرف جا رہی ہے اور نہ ہی ہم ڈیفالٹ میں جاسکتے ہیں۔ خاندان پر مبنی سیاسی قیادت ایک کینسر کی حیثیت رکھتی ہے۔ 1.2 فیصد افراد بجٹ کے 82 فیصد سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، باقی قوم پر خرچ ہو رہا ہے۔ مرزا شاہنواز آغا نے پاکستان کی تاجر برادری کی طرف سے بالعموم اور کراچی کے تاجروں کی جانب سے بالخصوص کیے جانے والے مطالبے کی حمایت کرتے ہوئے کچھ بنیادی نکات اٹھائے ہیں۔ یہ نکات انھوں نے ملکی معیشت پر ایک انٹر ایکٹیو سیشن سے اپنے خطاب میں بیان کیے۔

انھوں نے تاجر برادری کو مشورہ دیا کہ تاجر برادری کو چاہیے کہ وہ آجر کی حیثیت سے تمام ریاستی اداروں سے استعماری مفاد کا دفاع کرنیوالی سیاست سے باز رہنے کا مطالبہ کریں۔ انھوں نے کہا کہ آئین اور جمہوریت کو دھوئیں کے پردوں میں چھپا دیا گیا ہے، جن کے پیچھے ادارہ جاتی کرپشن قبضہ جمائے بیٹھی ہے۔

مرزا شاہنواز نے بجٹ کے بارے میں کہا کہ بجٹ کا 82 فیصد افسرشاہی اور پارلیمنٹ پر خرچ کیا جا رہا ہے جو کہ صرف 26 لاکھ افراد یا آبادی کے 1.2 فیصد پر مبنی ہیں جب کہ 22 کروڑ20 لاکھ افراد کے لیے صرف 18 فیصد بجٹ باقی بچتا ہے۔ یہ اس جنونی کیفیت کا ثبوت ہے جسے ہم چیلنج کر رہے ہیں۔ پاکستان کے لوگ اپنے ٹیکسوں کی ادائیگی کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں کہ حالات کی درستگی یا سرکاری ملازمین کو درست راستے پر لانے کے لیے کیا اقدامات کیے جا رہے ہیں؟

انھوں نے مزید کہا کہ نجی شعبہ مطالبہ کرتا ہے کہ معیشت کو نوکر شاہی کی گرفت سے مکمل طور پر آزاد کیا جائے۔ مرزا شاہنواز آغا نے قانون ساز اداروں کے لیے تجویز پیش کی ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ وہ شہری کاری اور تجارت میں روپے کو سونے سے جوڑنے کے تمام مطالبات کو آئین اور ہمارے بانی نظریۂ کی ایک لازمی ضرورت کے طور پر اپنائیں۔ انھوں نے اپنے اعلان کردہ روڈ میپ کو پاکستان کی سماجی و اقتصادی منزل کی بنیاد قرار دیا۔

شاہنواز آغا نے صحافیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مغرب میں یورپ یا امریکا اور مشرق میں ہندوستان نہیں بلکہ مسلم ممالک ہماری دولت مشرکہ ہیں۔ پاکستان کی سماجی اقتصادی منزل اور روڈ میپ ہمارے بانی نظریے (Funding Idealogy) کی طرف لوٹنے سے منسلک ہے جب کہ ریاست کے ایک ادارے کو اسٹیبلشمنٹ نہیں کہا جاسکتا، ہمیں ملک کو تباہی سے بچا کر اپنی منزل کی طرف جانا ہے۔بے شک مرزا شاہنواز آغا کی بصیرت اور امید افزا گفتگو حبس کی فضا میں تازہ جھونکے کی مانند ہے۔ مرزا شاہنواز کو نہ صرف یہ کہ مفکرین نے توجہ سے سنا بلکہ سوالات بھی اٹھائے۔

سوالات و جوابات کا عرصہ طویل ضرور تھا۔ لیکن بامقصد اور بامعنی گفتگو نے ماحول کو پرسکون رکھا۔حالات حاضرہ خصوصاً سیاسی اور معاشی بحران کے حوالے سے اس طرح کے سیشن کا ہونا ناگزیر ہے۔ دانشوران محفل کی کانفرنس جمود کو توڑتی ہے اور جلابخشتی ہے۔ یہ کانفرنس اس وقت کی گئی جب شہریوں کو انارکی کی صورتحال کا مقابلہ کرنا اس لیے اہم تھا کہ پاکستان کے ہر خطے میں یاسیت کے بادل اپنا رنگ جما چکے تھے اور برسے آج یعنی 25 مئی کو۔ جوکہ تاریخی دن تھا۔ چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان کو اپنی جدوجہد کو آخری موڑ دینا تھا۔

انھوں نے اس بات کی وضاحت کردی تھی کہ ان کا آزادی مارچ پرسکون اور امن و امان کے ساتھ منزل کی جانب رواں دواں رہے گا۔ لیکن موجودہ حکومت کو سکون اور چین کب پسند ہے؟ انھوں نے وہی کیا جو انھیں ان کی تعلیم و تربیت اور تجربات نے سکھایا تھا۔ ایک عرصے سے پورا ملک اندھیر نگری چوپٹ راج کا نقشہ پیش کر رہا ہے۔ گھروں میں پولیس اہلکار بغیر اجازت بغیر وارنٹ کے کودے، تحریک انصاف کے بہت سے ساتھی تاحال گرفتار ہیں، افسوس کی بات ہے کہ پولیس اہلکار اور ان کے افسران نے عدالتی حکم نامے کو بھی ہوا میں اڑا دیا ۔ انشا اللہ اب ریاستی جارحیت کا خاتمہ ہوگا اور ملک و قوم کے مفاد کے لیے الیکشن کی تاریخ کا اعلان جلد کردیا جائے گا۔ اقتدار کسی کی موروثی ملکیت نہیں ہے لہٰذا اب باریوں کا سلسلہ ختم ہونا چاہیے۔      (جاری ہے۔)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔