یوم تکبیر پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم دن

شبیر احمد ارمان  اتوار 29 مئ 2022
shabbirarman@yahoo.com

[email protected]

یوم تکبیر پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم دن ہے جب بھارت کی جانب سے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں 28 مئی 1998کو پاکستان نے ضلع چاغی کے مقام پر پانچ کامیاب ایٹمی دھماکے کیے، اس دن کو یوم تکبیر کے نام سے موسوم کیا گیا۔

اس سے قبل بھارت نے پیر 11مئی1998 کی سہ پہر مہاتما بدھ کے یوم پیدائش پر پاکستانی سرحد سے محض 93میل دور راجستھان کے صحرائی قصبے پوکھران میں زیر زمین تین ایٹمی دھماکے کیے جب کہ اسی روز اڑیسہ میں زمین سے فضاء میں مار کرنے والے ترشول میزائل کا بھی کامیاب تجربہ کیا۔

ان دھماکوں کا اعلان اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے اپنی سرکاری رہائش گاہ پر عجلت میں بلائی گئی پریس کانفرنس میں کیا انھوں نے 9سطروں پر مشتمل مختصر اعلان میں بتایا تھا کہ یہ دھماکے LOW YIF.I.D DEVICE THERMONUCLEAR-DEVICE DEVICE(تھر مونیو کلیئر ٹیسٹ ) DEVICE FISSIONکی مدد سے کیے گئے جن میں THRMONUCLEAR TESTکے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ یہ ہائیڈروجن بم کے ٹیسٹ کے برابر ہے۔

یہ بھی یاد رہے کہ ان دھماکوں کے ٹھیک 24سال پہلے بھی 18مئی 1974میں پوکھران میں ہی بھارت نے پہلا ایٹمی دھماکا کیا تھا ۔بھارت کے 11مئی 1998 کے ایٹمی دھماکوں پر اس وقت کے حکومت پاکستان نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا تھا کہ بھارت کے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کی جائے ۔ اس وقت کے چیف آف دی آرمی اسٹاف جنرل جہانگیر کرامت نے امید ظاہر کی کہ پاکستان کی حکومت ملکی سلامتی کو مد نظر رکھتے ہوئے بھارت کے ایٹمی دھماکوں کا خاطر خواہ اور مناسب جواب دیگی۔

اس وقت اس سلسلے میں پاکستان کے عظیم سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کہا تھا کہ پاکستان اپنی سلامتی کو لاحق خطرات کا مقابلہ بہت اچھی طرح کرسکتا ہے ،ہم تیار ہیں ،حکومت جو فیصلہ کرے گی ہم اس پر عمل کریں گے۔

اس دوران غیور پاکستانی عوام کی جانب سے نواز شریف کی حکومت پر دباؤ بڑھ رہا تھا کہ وہ بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دیتے ہوئے فوری طور پر ایٹمی دھماکا کرے اورایٹمی دھماکا نہ کرنے میں پس و پیش سے اپنی خود مختاری اور حاکمیت سے دستبردار ہوکر امریکی دباؤ قبول کرکے ملک کو امریکی غلامی میں دینے کے مترادف عمل ہوگا ، پاکستان کی طرف سے ایٹمی دھماکا خطے میں جنگ کو روکنے میں مدد گار ثابت ہوگا اور اس سے ملک پر یک طرفہ بین الاقوامی دباؤ ختم ہوجائے گا ۔

اس وقت امریکا کی جانب سے پاکستان پر سخت دباؤ تھا کہ وہ ایٹمی دھماکا نہ کرے اور اس کے بدلے اربوں ڈالر دیں گے ۔ اسی دوران پاکستان میں موجود امریکا اور بھارت نواز نام نہاد دانشوروں نے بھی پاکستان کو ڈرانے کی کوششیں کیں اور کہتے تھے کہ اگر پاکستان نے امریکا کے منع کرنے کے باجود ایٹمی دھماکا کیا تو پاکستان کو بہت نقصان ہوگا ،امریکا ناراض ہوجائے گا ۔وغیرہ وغیرہ ۔لیکن اس وقت کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے تمام تر عالمی دباؤ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ایٹمی دھماکا کرنے کا راست فیصلہ کیا۔

اس طرح پاکستان نے پانچ جوہری دھماکے کیے اور پاکستان پہلے سے زیادہ ناقابل تسخیر ملک بن گیا ، لیکن دشمنان پاکستان خاموش نہیں ہوئے وہ آج بھی پاکستان کو کمزور کرنے کے لیے کسی نہ کسی بہانے کا سہارا لیتے ہوئے نظر آتے ہیں اس بار وہ پاک فوج کو نشانے پر لیے ہوئے ہیں وہ جانتے ہیں کہ جس دن پاک فوج اور عوام میں دوری پیدا ہوگی تو پاکستان کو آرام سے زیر کیاجاسکتا ہے، اس لیے آپ دیکھ رہے ہیں کہ کس ہوشیار ی اور چالاکی سے زہر گھولا جارہا ہے لیکن غیور پاکستانی عوام دشمنوں کی اس سازش کو اپنے پیروں تلے روند دیں گے ۔

یوں تو بھارت اپنے قیام سے ہی جنوبی ایشیا کا تھانیدار بننے کے خواب دیکھتا رہا ہے۔ عددی اعتبار سے دنیا کی تیسری بڑی زمینی فوج، چوتھی بڑی فضائیہ اور پانچویں بڑی بحریہ رکھنے والا ملک 1974 میں ہی ایٹمی تجربہ کر کے خطے میں ایٹمی اسلحے کی دوڑ شروع کر چکا تھا۔ مجبوراً پاکستان کو بھی اپنے دفاع کے لیے اس دوڑ میں شامل ہونا پڑا۔

دوسری بڑی وجہ یہ تھی کہ پاکستان اپنے محدود وسائل کے باعث بھارت کے ساتھ روایتی ہتھیاروں کی دوڑ میں مقابلہ نہیں کر سکتا مزید یہ بھی کہ بھارت ایٹمی قوت بننے سے قبل ہی پاکستان پر جارحیت کرکے اس کو دولخت کرچکا تھا۔ ایٹمی قوت بن جانے کے بعد خطہ میں طاقت کا توازن بری طرح بگڑ گیا تھا۔ اس لیے بھارتی ایٹمی تجربات کے بعد پاکستان کے اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کو نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ عالم اسلام کی ایٹمی قوت بنانے کا فیصلہ کیا۔

18مئی 1974 کو بھارت نے راجستھان میں smiling bhudha نامی ایٹمی دھماکے کیے۔ تو جواب میں پاکستان نے بھی ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤ پر پابندی والے معاہدے این پی ٹی NPT non proliferation treaty پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا، کیونکہ پاکستان کی سلامتی کے لیے ایٹم بم بنانا بہت اہم ہو گیا تھا۔ پاکستان کی ایٹمی ٹیکنالوجی میں اہم پیشرفت جولائی1976 میں ڈاکٹر عبد القدیر خان کی وطن آمد کے بعد ہوئی۔1977 میں جنرل ضیا الحق کی حکومت آنے کے بعد پاکستان نے جوہری ٹیکنالوجی کے لیے اہم اقدام اٹھائے،یہ ایک الگ داستان ہے لیکن بالآخر پاکستان نے اپنا مقصد پورا کرلیا ۔

یہی وجہ ہے کہ دشمنان پاکستان کی نظروں میں پاکستان کی ایٹمی قوت کھٹک رہی ہے ،وہ اس کوشش میں برسوں سے لگے ہوئے ہیں ، وہ پاکستان کی معیشت کو کسی حد تک تباہ کرتے رہے ہیں اور ساتھ ہی پاکستان کے عوام کو پاک فوج کے سامنے لاکھڑاکرنے کی بھی زور و شور سے کوششیں کرتے نظر آرہے ہیں لیکن پاکستان مضبوط ہاتھوں میں ہے۔

ہماری افواج دنیا کی بڑی قوتوں میں سے ایک ہے جس کی سب سے بڑی طاقت اس کی عوام کی یک جہتی ہے جسے پارہ پارہ کرنے کے لیے دشمن اسی طاقت پر حملہ آور ہے لیکن پاکستانی عوام ہر محاذ پر اپنے پاک افواج کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں ،دشمن جتنا چاہے جتن کرلے اسے منہ کی کھانی پڑے گی اور ہمیشہ کی طرح پاکستان کے غیور عوام ان سازشوں کو اپنے باہمی اتحاد اور پاک افواج سے والہانہ محبت کی طاقت سے زمین بوس کردیگی ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔