نومولود بچوں میں رونے کا بلند سلسلہ تین ماہ بعد بھی جاری رہ سکتا ہے

ویب ڈیسک  اتوار 29 مئ 2022
ماہرین نے کہا ہے کہ 17 سے 25 فیصد تک نومولود بچے مسلسل رونے والے ہوتے ہیں۔ فوٹو: فائل

ماہرین نے کہا ہے کہ 17 سے 25 فیصد تک نومولود بچے مسلسل رونے والے ہوتے ہیں۔ فوٹو: فائل

ڈنمارک: تمام والدین نومولود بچے کے دن رات رونے سے پریشان رہتے ہیں۔ روایتی تحقیق بتاتی ہے کہ  دنیا میں آنکھ کھولنے کے بعد بچوں میں کے بے وجہ رونے کا سلسلہ چھٹے ہفتے میں بڑھنے لگتا ہے اور بارہویں ہفتے تک بتدریج اضافے کے بعد اس میں کچھ کمی ہوتی ہے لیکن ایک نئ وسیع تحقیق کے مطابق ایسا نہیں ہے۔

سال 1962 میں Crying curve کے نام سے اہم تحقیق سامنے آئی تھی جس خلاصہ ہم اوپر بیان کرچکے ہیں۔ والدین اور ڈاکٹر اب اسے نارمل سمجھتے ہیں تاہم اب ڈنمارک یونیورسٹی کے سائنسداں آرنلٹ کونٹائن ورملنٹ اور ان کےساتھیوں نے کہا ہے کہ انٹرنیٹ پر نوزائیدہ بچوں میں رونے کا کا گراف یہی رحجان ثابت کرتا ہے تاہم نومولود بارہویں ہفتے کے بعد بھی روتے رہتے ہیں اور اب روایتی تحقیق زیادہ درست نہیں رہی اور ہمیں نیا ماڈل بنانا ہوگا۔

اس ضمن میں 17 ممالک میں کئے گئے 57 مختلف سروے کا جائزہ لیا گیا ہے جن میں 7580 پیدائشی بچے شامل تھے۔ تحقیق سے معلوم ہوا کہ بچوں میں رونے کا دورانیہ تین گھنٹے تک جاپہنچتا ہے جو والدین بالخصوص ماؤں کو پریشان کرتا ہے۔ اس کے علاوہ بچے تین ماہ نہیں بلکہ 12 ماہ یا پورے سال بھی رونے دھونے کے شکار رہتے ہیں اور والدین بے بس ہوتے ہیں۔

اس تحقیق کی روشنی میں 1962 والا روایتی ماڈل ناکافی ثابت ہوا ہے۔ پھر یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ بچوں میں رونے کا سلسلہ 6  ہفتوں کی بجائے صرف 4 ہفتوں بعد شروع ہوسکتا ہے اور اس میں تیزی پیدا ہوسکتی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ 17 سے 25 فیصد بچے رونے کے اس رحجان کے شکار ہوتے ہیں۔

اس ڈیٹا کی بنیاد پر ماہرین نے نومولود میں رونے کے دو ماڈل بنائے ہیں جو روایتی کرائنگ کرو کی نفی کرتا ہے۔ یعنی چار ہفتے بعد رونے میں اضافے کا ماڈل اور دوسرا ماڈل پیدائش کے پہلے ہفتے رونے کے ماڈل کو ظاہر کرتا ہے لیکن اس میں بتدریج کمی واقع ہوتی ہے۔

ماہرین نے یہ دلچسپ انکشاف کیا ہے کہ مختلف ممالک کے نومولود بچوں میں رونے کا رحجان بھی الگ الگ ہوسکتا ہے، مثلاً بھارت، میکسکو اور جنوبی کوریا کےبچے کم روتے ہیں جبکہ امریکا، برطانیہ اور کینیڈا کے بچے زیادہ دیر اشک بہاتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔