معیشت اور اسٹیک ہولڈرز

ایڈیٹوریل  پير 30 مئ 2022
سیاسی عدم استحکام اور بے یقینی کو ختم کریں تو عالمی مالیاتی ادارے پاکستان کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہیں۔ فوٹو: فائل

سیاسی عدم استحکام اور بے یقینی کو ختم کریں تو عالمی مالیاتی ادارے پاکستان کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہیں۔ فوٹو: فائل

وفاقی وزیر خزانہ ومحصولات مفتاح اسماعیل نے وزیر مملکت عائشہ غوث پاشا کے ہمراہ گزشتہ روز اسلام آباد میں ملکی معیشت، آئی ایم ایف اور مہنگائی کے حوالے سے پریس کانفرنس کی ہے۔

اس پریس کانفرنس میں وفاقی وزیر خزانہ نے تسلیم کیا کہ یہ حقیقت ہے کہ پٹرول اور ڈیزل کی قیمت بڑھانے سے مہنگائی میں اضافہ ہوگا لیکن اگر ایسا نہ کرتے تو خدشہ تھا کہ روپے کی قدرمزیدگرجاتی ، معیشت کا نقصان ہوتا اور ملک ڈیفالٹ کرجاتا۔ انھوں نے واضح کیا کہ بجلی کی قیمت بڑھانے کی فی الحال کوئی تجویز نہیں ہے۔

پٹرول کے حوالے سے انھوں نے وضاحت کی کہ وزیراعظم سستا پٹرول سستا ڈیزل اسکیم کے تحت ایک کروڑ40 لاکھ پاکستانی گھرانوں کو ماہانہ دوہزار روپے وظیفہ دیا جائے گا، اس اسکیم سے 8 کروڑ 40لاکھ افراد یا ملک کی ایک تہائی آبادی مستفید ہو گی، انھوں نے یہ بھی کہا کہ اگلے ماہ یعنی جون تک آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف لیول کامعاہدہ ہوجائے گا،اس کے بعد پاکستان کو3 ارب ڈالر کی نئی قسط مل جائے گی۔

رواں ہفتے میں ہی عوامی جمہوریہ چین سے بھی مالی پیکیج کی اچھی خبر ملے گی، جب کہ عالمی بینک ایک ارب ڈالر دے گا اور ایشیائی ترقیاتی بینک اور سعودی عرب بھی پاکستان کی مالی مدد کریںگے۔انھوں نے عزم ظاہر کیا کہ ہم سیاسی دباؤ کا سامنا کریںگے اور وہ فیصلے کریںگے جوملک اور قوم کے مفادمیں ہوں۔

وفاقی وزیر خزانہ نے اعلان کیا کہ نئے مالی سال کا بجٹ 10 جون کوپیش کیاجائے گا۔ انھوں نے اعداد وشمار کے ذریعے بتایا کہ پاکستان میں پٹرول کی ماہانہ کھپت 2کروڑ لیٹرکے قریب ہے، پٹرول اورڈیزل کی سبسڈی سے امیرطبقات سب سے زیادہ استفادہ کررہے تھے جودرست طریقہ کارنہیں ہے۔ عمران خان کی حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ جومعاہدہ کیا تھا۔

اس میں ایک روپیہ کی بھی سبسڈی نہ دینے کا عہد کیا تھا، سابق حکومت کے معاہدے کے مطابق پاکستان میں ڈیزل کی قیمت 300 روپے اور پٹرول کی قیمت 260 سے لے کر270 روپے فی لیٹرہونا چاہیے مگر ہم نے ایسا نہیں کیا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ جون تک آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ہوجائے گا اور یوں پاکستان کونئی قسط مل جائے گی۔ ایک سوال پروزیرخزانہ نے کہاکہ سعودی عرب سے تین ارب ڈالر رول اوور ہوجائیںگے۔

سعودی عرب کے وزیر خزانہ نے اس حوالے سے ایک بیان بھی دیا ہے، سعودی عرب ہماری مزیدمدد بھی کررہاہے مگرمیں ابھی اس کی تفصیلات نہیں دے سکتا۔ وزیرخزانہ نے کہا کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کے پروگرام میں ایک سال کی توسیع اورمعاونت میں مزید دو ارب ڈالردینے کی درخواست کی ہے، آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ہونے کے بعد عالمی بینک، ایشین انفرااسٹرکچر ڈولپمنٹ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک اوردیگرامداد دینے والے ممالک اور ادارے ہماری معاونت کرنے پر راضی ہوجائیں گے۔اس سے نئے راستے کھل جاتے ہیں جومعیشت کے لیے اہم ہے۔

وزیرخزانہ سے قبل وزیراعظم میاں شہباز شریف بھی معاشی حقائق اور اپنی حکومت کے اقدامات کے بارے میں بتا چکے ہیں۔اس میں تو کوئی شک وشبہ نہیں ہے کہ پاکستان میں گزشتہ چار پانچ برس کے دوران شدید سیاسی عدم استحکام رہا ہے ، اس سیاسی عدم استحکام کے باعث ملکی معیشت شدید دباؤ کا شکار ہوئی ، اسی دوران کورونا وبا نے معاشی بحران کو مزید گہرا کیا اور ملک ڈیفالٹ کی جانب بڑھنے لگا، سابق حکومت اپنی فہم اور وسائل کے مطابق معیشت کو چلانے اور عوام کو ریلیف دینے کی کوشش کرتی رہی لیکن خارجہ پالیسی میں پیدا ہونے والی تبدیلی ، ایف اے ٹی ایف کے معاملات کی وجہ سے معیشت سکڑتی چلی گئی اور اس کے ساتھ ساتھ سیاسی بحران بھی بڑھتا رہا ۔

پاکستان کی معیشت اس وقت جن مشکلات سے دوچار ہے ، اس سے عام شہری سے لے کر پالیسی ساز اور تمام اسٹیک ہولڈرز بخوبی واقف ہیں، ملک قرضوں کے بوجھ تلے دبتا جا رہا ہے، صنعتی پہیہ جام ہے ، عوام کے مالی مسائل میں بے پناہ اضافہ ہوتا جا رہا ہے ، مہنگائی میں اضافہ ہورہا ہے ، آئی ایم ایف کے ساتھ جو معاہدہ ہوگا، اس کی شرائط بھی سخت ہیں، حکومت کو ان تمام مسائل کو حل کرنا ہے۔ ملک کی مالیاتی پوزیشن کو سنبھالا دینے کے لیے سخت مالیاتی کنٹرول کی ضرورت ہے۔

ملک کو آگے لے جانے کے لیے حکومت ، تمام وزراء بشمول اراکین پارلیمنٹ اور ریاستی عہدیدار سب کو غیرمعمولی کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے ۔ وفاقی ، صوبائی اور اضلاع کی سطح پر سرکاری مشینری کو کفایت شعاری کا پابند بنایا جائے ۔ غیر ضروری سرکاری تقریبات پر پابندی عائد کی جائے، پی ٹی آئی کی قیادت بھی خود احتسابی کا مظاہرہ کرے اور پارلیمنٹ میں واپس آئے اور پارلیمان میں بیٹھ کر ملک کی بہتری اور حکومت کی اصلاح کے لیے مثبت اپوزیشن کا کردار ادا کرے۔

ملک کے آئین اور قوانین میں موجود ان چور دروازوں کو بند کیا جائے، جن کے بل بوتے پر حکمران اشرافیہ مراعات و فوائد حاصل کرتی ہے۔ملک میں ایسے رفاعی ادارے ،ٹرسٹ اور وقف املاک کا سخت مالیاتی آڈٹ کرایا جائے تاکہ پتہ چل سکے کہ ان کے اثاثے کتنے ہیں اور ڈونرز کتنے ہیں اورکتنی سرکاری اراضی انھیں مفت یا کوڑیوں کے بھاؤ الاٹ کی گئی ہے۔ یہ درست ہے کہ ہر خرابی کی ذمے داری موجودہ حکومت پر نہیں ڈالی جا سکتی کیونکہ اسے یہی کچھ ورثہ میں ملا ہے، مگر ایک مربوط حکمت عملی تیار کر کے وہ معاشی و اقتصادی معاملات کو درست ضرور کر سکتی ہے۔

وزیراعظم پاکستان نے حکومت سنبھالتے ہی رابطہ عوام مہم جاری کردی ہے، اس کے ساتھ ساتھ وہ کابینہ اور بیوروکریسی سے بھی رابطے میں ہیں جب کہ میڈیا کو بھی حقائق سے آگاہ کر رہے ہیں۔انھوں نے مختصر مدت میں سعودی عرب اور یو اے ای کا دورہ بھی کیا ہے۔

ان سرگرمیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت ملک اور عوام کو درپیش سنگین مسائل سے پوری طرح آگاہ ہے اور مسائل کو حل کرنے کی سنجیدہ کوشش بھی کر رہی ہے ، لیکن پاکستان کا معاشی بحران اتنا گہرا ہے کہ اسے حل کرنے کے لیے غیرمعمولی اقدامات اور فیصلوں کی ضرورت ہے۔ ملک میں ہر سال گندم، آٹے ، چینی، کوکنگ آئل اور کھاد وغیرہ کی قلت کیوں پیدا ہوتی ہے، ان وجوہات سے حکومت اور ریاستی مشینری بخوبی آگاہ ہے۔

فلور ملز مالکان اور گندم کے بڑے ڈیلر ماضی میں بھی مصنوعی بحران پیدا کرتے آئے ہیں، اس بار بھی ایسا ہی ہونے کا خدشہ ہے۔ گندم اور آٹے کی اسمگلنگ روکنے کے لیے حکومت کو سخت اقدامات کرنا چاہیے اور سب سے پہلے ملک کی ضروریات پوری کرنی چاہیے۔اس وقت بھی کسانوں سے سرکاری ریٹ سے کم نرخوں پر گندم خریدی جا رہی ہے۔

چھوٹے کسان کے پاس بار دانہ نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ گندم کو ذخیرہ کرسکتا ہے۔طاقتور اور بڑے زمیندار سرکار سے باردانہ بھی حاصل کرلیتے ہیں اور اپنی گندم کو پورے نرخوں پر بیچتے ہیں اور ان کے چیکس بھی جلدی جاری ہوجاتے ہیں جب کہ چھوٹا کاشتکار سسٹم کی خرابی کے باعث سستی گندم بیچنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔

حکومت چھوٹی چکیوں کو گندم کی سپلائی جاری رہنے دے، اس سے عام صارفین کو گلی محلوں میں آسانی سے آٹا مل جائے گا اور فلور ملز بھی اپنے نرخوں میں استحکام لانے پر مجبور ہوجائیں گی۔افغانستان اور ایران کے بارڈر پر کنٹرول رکھا جائے اورا سمگلنگ روکنے کے لیے انتہائی متحرک میکنزم تشکیل دیا جائے تو پاکستان میں گندم اور آٹے کی قیمتوں میں استحکام آجائے گا اور عوام کو سستے داموں گندم اور آٹا ملے گا۔

پاکستان میں سیاسی عدم استحکام اور ریاست کے اسٹیک ہولڈرز کے بعض فیصلوں کی وجہ سے بھی معیشت سست روی کا شکار ہوئی ہے ۔ پاکستان کے پاس ابھی وقت ہے ، پاکستان معاشی بحران سے باآسانی نکل سکتا ہے کیونکہ پاکستان کے پاس سری لنکا سے کہیں زیادہ وسائل موجود ہیں۔

اگر اقتدار کے اسٹیک ہولڈرز ہوش کے ناخن لیں اور سیاسی عدم استحکام اور بے یقینی کو ختم کریں تو عالمی مالیاتی ادارے پاکستان کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہیں۔ لیکن اگر اقتدار کے اسٹیک ہولڈرز نے تدبر اور دوراندیشی کا مظاہرہ نہ کیا، پاکستان کے عوام کے مفادات کے بجائے افغانستان کے مفادات کو ترجیح دی گئی اور ایرانی مفادات کے ساتھ ہم آہنگی قائم کرنے کی کوشش جاری رہی تو پھرسیاسی عدم استحکام طول پکڑے گا، پھر معاشی بحران پر قابو پانا بہت مشکل ہوجائے گا۔

پاکستان کی حکمران اشرافیہ کو سری لنکا کی صورت حال سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔سری لنکا کی برسراقتدار اشرافیہ کے اسٹرٹیجک بلنڈرز نے اچھے خاصے مستحکم ملک کو برباد کردیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔