دولت اور اقتدار ہی تو سب کچھ ہے

محمد سعید آرائیں  پير 30 مئ 2022
m_saeedarain@hotmail.com

[email protected]

کہتے ہیں کہ جن کے پیٹ بھرے ہوں وہی سیاست کا سوچتے ہیں اور سیاست کرتے ہیں جب کہ غریبوں اور خالی پیٹ والوں کو تو سیاست کا کچھ پتا نہیں ہوتا، انھیں صبح اٹھتے ہی اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کی فکر لاحق ہو جاتی ہے۔

دیہاتوں میں صبح جلد اٹھ کر اپنے کھیتوں میں کام شروع کردیتے ہیں اور انھیں کھانا بھی دھوپ نکلنے کے بعد نصیب ہوتا ہے۔ شہروں میں مزدوروں ، نچلے طبقے کے ملازمین کو صبح اٹھتے ہی اپنے روزگار پر پہنچنے کی فکر ہوتی ہے۔ لاکھوں افراد صبح اٹھتے ہی روزگار کی تلاش میں گھروں سے نکل جاتے ہیں۔

چھوٹے دکانداروں کی کوشش بھی جلد اٹھ کر اپنی دکانیں کھولنا ہوتی ہے کیونکہ ان سب کو اپنے گھر والوں کی ضروریات پوری کرنے کا خیال ہوتا ہے انھیں ملکی سیاست کی فکر ہوتی ہے نہ ان کا سیاست سے کچھ لینا دینا ہوتا ہے۔

ان خالی پیٹ والوں کے مختلف ذریعہ معاش یہی ہیں ، ان کے لیے اپنے گھر والوں کا پیٹ پالنا ہی سب کچھ ہوتا ہے انھیں سیاست کا احساس بڑے لوگ ہی عام انتخابات میں دلاتے ہیں کہ ان کا بھی ووٹ ہے جو ان کے پاس قوم کی امانت ہے جو انھوں نے ضرور دینا ہے اور انھیں یہ ووٹ اپنی مرضی نہیں بلکہ اپنے علاقے کے بڑوں یا سیاسی جماعتوں کے کہنے پر دینا ہے۔ عام انتخابات کے روز عام تعطیل ہوتی ہے۔ لاکھوں افراد روزگار سے محروم رہ جاتے ہیں۔

ان لوگوں کے ووٹوں کا اندراج بھی ان کے علاقے کے بڑے لوگ اپنے سیاسی مفاد کے لیے کراتے ہیں۔ غریبوں، کسانوں اور مزدوروں کو کہاں فرصت ہے کہ اپنے ووٹ درج کرائیں ان کے ووٹوں کا خود کو حقدار سمجھنے والے ہی یہ سب کچھ کرتے ہیں۔ ان لوگوں کی سیاست سے دلچسپی یہ ہے کہ الیکشن والے روز انھیں کچھ اہمیت مل جاتی ہے۔ انھیں پولنگ اسٹیشنوں تک سواریوں میں لے جایا جاتا ہے۔

قطاروں میں گھنٹوں کھڑا رہنے کی وجہ سے پہلے ان کا پیٹ بھر دیا جاتا ہے اور انھیں ہدایت کے مطابق ہی ووٹ دینا ہوتا ہے۔ نچلے طبقے میں اب یہ شعور بھی آگیا ہے کہ ہم سے ووٹ لینے والے کامیاب ہو کر دولت کماتے ہیں تو ہم انھیں مفت میں ووٹ کیوں دیں؟ اس لیے اب ہر الیکشن میں ووٹوں کی خرید و فروخت بھی لازمی جز بن کر رہ گئی ہے اور قوم کے ووٹ کی امانت نوٹوں کے ذریعے فروخت بھی مجبوری بن گئی ہے۔ نوٹ لے کر ووٹ دینے کی مجبوری میں ہر کوئی اپنی ضرورت پوری کرلیتا ہے۔

غیر سیاسی ضرورت مندوں کے ووٹوں کی خرید و فروخت اب معیوب نہیں سمجھی جاتی، اب تو میڈیا پر بھی یہ سب کچھ دکھایا جاتا ہے۔ میڈیا ہی یہ بتاتا ہے کہ کامیاب ہونے والے یہ بڑے لوگ پھر آگے اپنے ووٹ کس قیمت پر دیتے ہیں۔ منتخب ہونے والوں کے ووٹ نوٹوں پر کم اور وزارتوں ، مفادات کے حصول کے وعدوں پر حاصل کرنا بھی مجبوری بن جاتی ہے اور فائدہ آزاد منتخب ہونے والے اٹھاتے ہیں۔ سیاسی ٹکٹوں پر منتخب ہونے والوں کو صرف اپنی پارٹی کی حکومت میں شمولیت پر ہی فائدہ ہوتا ہے۔

اپنے رہنماؤں کی سفارش و خوشامد اور کروڑوں روپے خرچ کرنے کے بعد ضمیر ، انا ، حب الوطنی، آئین و قانون کا احترام ، عزت سب کچھ ثانوی ہوکر رہ جاتا ہے۔ پھر رشتے یاد رہتے ہیں نہ پرانے تعلقات و دوستیاں، سیاسی مفادات کے حصول کے لیے اپنے خاندانی اور گھریلو تعلقات کو بھی مفاد کی سیاست کی بھینٹ چڑھانا پڑتا ہے کیونکہ انھیں پتا ہوتا ہے کہ اگر موقع سے فائدہ نہ اٹھایا تو پھر وہ نہ آیندہ الیکشن لڑ سکیں گے نہ اپنے لوگوں کے کام کرا سکیں گے اور الیکشن لڑنے پر جو رقم خرچ کی نہ وہ وصول ہو سکے گی۔

ایسے موقع پر سیاسی وفاداریاں بدلنا بھی مجبوری بن کر رہ جاتا ہے۔ اقتدار میں آنے کے لیے بڑے رہنماؤں کے منہ سے بڑے بڑے اعلانات اور دعوے نکل جاتے ہیں جو وہ عام زندگی میں سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ کیسے پورے ہوں گے یا وہ کرنے کی پوزیشن میں بھی ہوں گے یا نہیں کیونکہ یہ دعوے حقائق کے برعکس ہی ہوتے ہیں۔

اقتدار سے دور رہ کر حصول اقتدار کے لیے بڑے بڑے اعلانات کر جانے والے اچھی شہرت کے حامل سیاستدانوں نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا کہ اقتدار میں آنے اور برسر اقتدار رہنے کے لیے انھیں اپنے اصولوں کے خلاف فیصلے کرنے ہوں گے ، جس شخص کو وہ چپڑاسی کے قابل نہ سمجھتے تھے اسے اہم وزارت دینی پڑ جائے گی۔ جس کو وہ سیاسی بیانات میں سب سے بڑا ڈاکو کہتے تھے اسے اپنی حکومت بنانے کے لیے اقتدار میں شامل کرنا پڑے گا۔ جس کو وہ اپنا بہترین مہرہ سمجھتے ہوئے بالاتروں کے کہنے پر بھی عہدے سے نہیں ہٹا رہے تھے اسے اپنا اقتدار بچانے کے لیے ہٹانا پڑے گا اور اس کی جگہ اپنی پارٹی سے باہر کے سیاستدان کو کوئی بڑا عہدہ دینے کا ناپسندیدہ فیصلہ کرنا ہوگا۔

سیاستدانوں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ سیاسی مخالفت میں وہ جس کو قاتل اور دشمن کہتے تھے اس کو اقتدار بچانے کے لیے کوئی بڑا عہدہ دار بنانا پڑے گا ، جو شخص انھیں الٹا لٹکانے کے دعوے کرتا تھا اسی کو وزیر یا وزیر اعظم بنوانا پڑے گا۔ جمہوری حکمرانوں نے نہیں سوچا تھا کہ آمر کے ساتھیوں کو اپنے سابقہ موقف کے برعکس اپنی حکومت میں شامل کرنا پڑے گا۔ ووٹ کی توقیر کے دعویدار کو قومی اسمبلی میں ریاستی عہدیداروں کو ملازمت میں توسیع کے لیے ووٹ دینا پڑ جائے گا، جن کے خلاف وہ تقریریں کیا کرتے تھے۔

جو اپنے کندھوں پر بٹھا کر جس سیاستدان کو اقتدار میں لائے تھے اسی سیاستدان کے منہ سے اپنے خلاف تنقیدی جملے سنیں گے۔ قوم کس رہنما پر اعتبار کرے، کسے سچا جانے؟ یہاں تو سب ہی ایک جیسے نکل رہے ہیں جن کا مقصد کسی بھی طرح اقتدار میں آنا ، اپنا اقتدار بچانے کے لیے اپنے رہنماؤں سے غیر آئینی اقدامات کرانا ، اپنے مفادات کے لیے ان کی قربانی دے دینا یہی تو سیاسی اصول باقی رہ گئے ہیں۔

ایسے لوگوں کے لیے دولت اور اقتدار ہی تو سب کچھ رہ گیا ہے کہاں کے اصول کیسی وضع داری کون سے دعوے، کہاں رہ گئے ماضی میں کیے گئے اعلانات اور عوام سے کیے گئے خوش نما دعوے؟ سب کچھ ہی دھرا رہ جاتا ہے۔ کسی ایک نے تو اصول پرستی کا مظاہرہ کیا ہوتا، کوئی تو اکثریت کھو کر استعفیٰ دیتا۔ یہاں تو سب ہی ایک جیسے نکلے اور عوام بھی ان کی ڈھٹائی پر حیران ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔