سیاست، مذہب اور مفاد

شیخ الطاف  منگل 31 مئ 2022
خدارا اس عظیم مذہب کو اپنے ذاتی مفاد کےلیے استعمال نہ کیجئے۔ (فوٹو: فائل)

خدارا اس عظیم مذہب کو اپنے ذاتی مفاد کےلیے استعمال نہ کیجئے۔ (فوٹو: فائل)

یہ میری ذاتی سوچ نہیں بلکہ وہ حقائق ہیں جو دانشمندوں نے تحقیق کے بعد وضع کیے، اور جس کا ہر انسان، خاندان اور قوم کو مختلف اوقات میں سامنا کرنا پڑا۔ آپ نے بھی یہ نکات پڑھے ہوں گے کہ
جس گھر میں نفاق ہوگا، وہ گھر تباہ ہوجاتا ہے۔
جس قوم میں نفاق ہوگا تو تباہی اس کا مقدر ہوتی ہے۔

اور ان باتوں کی حقیقت ہم سب کو تاریخ کی کتابوں سے مل جاتی ہے۔ تو پھر میرے ذہین اور عظیم حکمرانو! تاریخ کی کتابوں سے یہ واضح حقیقت آپ کی نظروں سے کیوں اوجھل ہے اور کیوں آپ ان سے سبق حاصل نہیں کر پارہے؟

عوام تو اس رویے کے نتائج بھگتتے ہی ہیں مگر حکمران اس کا خمیازہ کس انداز میں بھگتتے ہیں، یہ بھی تاریخ کی کتابوں میں آپ کو مل جائے گا۔ دیکھئے آخر مغل فرمانرا بھی کیا حقیقت بیان کرگیا۔

کتنا ہے بدنصیب ظفر دفن کے لیے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں

ایسے کئی واقعات تاریخ کی کتابوں میں درج ہیں جو عوام کے ساتھ حکمرانوں کےلیے بھی لمحہ فکر ہیں۔ لیکن کاش کہ یہ حکمراں اس کا حقیقی اثر بھی لیں اور ان پر سنجیدگی سے غور کریں۔

اب کچھ دنیاوی حقیقتوں کے بعد مذہب کا تذکرہ ہوجائے، کیونکہ کیونکہ ہمارا ہر رہنما اپنے مفاد (قوم کے مفاد میں کم) کے حصول کےلیے مذہب اسلام اور اس عظیم ہستیؐ کا ذکر صبح و شام کرتے نہیں تھکتا۔ لیکن آئیے پہلے کیوں نہ ہم اس عظیم ہستیؐ کے اصولوں سے کچھ فیض حاصل کرلیں۔

آپؐ سے پوچھا گیا: اسلام کی بنیاد کیا ہے؟َ
جواب ملا: اچھا اخلاق
دوسری بار سوال ہوا
جواب ملا اچھا اخلاق
تیسری بار یہی سوال دہرایا گیا
اچھے اخلاق پر اصرار موجود رہا۔

آج میرے عظیم رہنماؤں سے سوال ہے کہ جس نبی پاکؐ کا ذکر کرتے ہمارے حکمراں کبھی نہیں تھکتے۔ بتائیے انھوں نے قوم کے اخلاق کو کس طرح سنوارا ہے؟ کاش ہمارے رہنما اس طرح بھی دھیان دیں۔ لیکن ہمارے حکمرانوں کی سوچ تو صرف اپنی کرسی، اپنے اقتدار پر آکر ختم ہوجاتی ہے۔

اب پھر آتے ہیں اس دنیاوی حقیقت پر۔ ملک (دھرتی) قوم کی ماں ہوتی ہے۔ کہتے ہیں، دینی یا دنیاوی ترقی کرنی ہو تو ماں کی خدمت ہر فرد پر لازم ہوتی ہے ورنہ بربادی اس خاندان یا قوم کی بربادی اس کا مقدر ہوتی ہے۔

ذرا سوچیے خاص طور پر ہمارے حکمران اور رہنما کہ وہ کیا تھے اور اب اس ملک نے ان کو کہاں پہنچایا یا دوسرے الفاظ میں اس ملک (دھرتی) نے ان کو اٹھا کر کس پوزیشن میں کھڑا کیا؟ ہمیں بار بار اس حقیقت پر خود سے سوال کرنا ہوگا۔ اور کاش کہ ہمارے حکمران اپنے طرز عمل پر بار بار اس سوال کا جواب خود سے مانگیں۔

اب ایک بار پھر چلتے ہیں دینی حقیقت کی طرف۔
جنگ تبوک کی ابتدا ہے۔ اخراجات کےلیے رقم کی ضرورت ہے۔ آپؐ کی طرف سے رقم جمع کرنے کا اعلان ہوا۔ سبھی نے رقم جمع کروانے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور جب رقم جمع ہوگئی تو آپؐ نے سب سے پہلے اپنے صحابہ سے سوال کیا۔

آپؐ نے سب سے پہلے اپنی کابینہ کے ارکان سے سوال کرنا شروع کیا۔
اے عمر فاروقؓ، آپ نے کیا حصہ ڈالا؟
جواب ملا: آدھا گھر اور آدھا سب کچھ آپؐ کی خدمت میں پیش کردیا ہے۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ سے سوال ہوا۔
جواب ملا: آپؐ اور آپؐ کے رب کریم کا نام گھر چھوڑ کر آپؐ کی خدمت میں پیش کردیا ہے۔
اسی طرح حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ سے سوال کیا گیا۔

اس مثال کو اگر سامنے رکھیے تو موجودہ حالات میں سب سے پہلے ہمارے حکمرانوں اور ان کے وزرا کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو مثال کے طور پر عوام کے سامنے پیش کریں اور اپنی اپنی زائد رقوم ملک (دھرتی) کو دیں اور اس کو اس مشکل سے نکالیں۔

یہ دھرتی ہے تو ہم سب ہیں، ورنہ کیا ہوگا؟ یہ سب ہمارے ذہین، عظیم رہنما بالکل صحیح انداز میں جانتے ہیں اور حقیقت جانتے ہوئے بھی پتہ نہیں کیوں غافل ہیں؟ یاد رکھیے آپ کے دشمن آپ کی اپنی کمزوریوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے میں کبھی بھی نہیں چوکتے۔

آخر میں مگر یہ حقیقت بھی قطعی ہے کہ اسلام کی حفاظت اللہ پاک نے لی ہوئی ہے اور تاقیامت اسلام ہی نے زندہ رہنا ہے۔ لیکن خدارا اس عظیم مذہب کو اپنے ذاتی مفاد کےلیے استعمال نہ کیجئے۔ ایسا کرنا ایک مسلم ریاست کے حکمران کو زیب نہیں دیتا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔