عمران خان اب کیا کریں!

علی احمد ڈھلوں  منگل 31 مئ 2022
ali.dhillon@ymail.com

[email protected]

میں سیاست اور تاریخ کا اب بھی طالب علم ہوں، اس لیے مجھے زیادہ علم تو نہیں مگر اتنا جانتا ہوں کہ جمہوریت میں جلسے جلوس، مارچ ، دھرنے وغیرہ جمہوریت کا حسن ہوا کرتے ہیں، تاریخ میں جب جب بھی ان دھرنوں، جلوسوں اور مارچ کا راستہ روکنے کی کوشش کی یا اُسے بے دردی سے کچل کر رکھ دیا گیا۔

اس کے نتائج اچھ نہیں نکلے ۔گزشتہ ہفتے اسی قسم کی ایک سرگرمی کا تحریک انصاف نے بھی اعلان کر رکھا تھا، یعنی لانگ مارچ کا۔ تمام سیاسی پارٹیوں سے بالا تر ہو کر صرف ایک بات نے مجھے پریشان کر رکھا کہ اگر لوگ اپنے لیڈر کی آواز پر باہر نکل رہے ہیں تو انھیں بزور طاقت ریاست کیسے روک سکتی ہے؟ حد تو یہ تھی کہ اس آزادی مارچ کو روکنے کے لیے پوری ریاستی مشینری حرکت میں دکھائی دی۔

ملتان سے لے کر اسلام آباداور پھر اٹک پل تک کم و بیش 50ہزار کی نفری، ہیوی مشینری اور کنٹینر کھڑے رکھ کر راستہ روکنا کونسا جمہوری عمل تھا؟ آپ یقین مانیں آنکھیں نم ہوگئیں جب ایک خاتون کی وڈیو نظروں کے سامنے سے گزری جس میں وہ کہہ رہی ہے کہ ’’میں آج گھر سے نہ نکلتی تو اس کی قیمت میری نسلیں ادا کرتی رہتیں‘‘ یہ ایک نوجوان ماں تھی جو آدھی رات کے وقت اپنی ایک ماہ کی بچی کو گود میں لیے قائد اعظم کے مزار کے باہر فٹ پاتھ پر بیٹھی یہ لازوال جملہ ادا کررہی تھی۔

جب کہ دوسرے بازو سے اس نے ایک سالہ بیٹے کو سنبھالا ہواتھا۔پھر ایک اور ادھیڑ عمر خاتون کہہ رہی تھیں کہ ہم گھر بتا آئے ہیں کہ ’’ اگر واپس آگئے تو ٹھیک ورنہ ہماری قربانی آنے والی نسلیں یاد رکھیں گی‘‘ پھر ایک صاحب فرما رہے تھے کہ ’’وہ اپنے بچوں کو کیسا پاکستان دے کر جا رہے ہیں، جہاں صرف لاقانونیت، کرپشن، چوری اور ڈاکو راج ہے۔ ہم پاکستان کو بدلنے نکلنے ہیں کہ شاید ہم ساری زندگی پچھتائیں نا، کہ ہم نے کوشش نہیں کی!‘‘

خیر یہ مناظر میرے ذہن کی دیوار پر نقش ہوگئے ۔ پیغامات نسل در نسل پہنچ گئے۔ حقیقت یہ ہے کہ میں اپنے مستقبل کو اس ماں کی شکل میں محفوظ دیکھ رہا ہوں۔  جو کچھ بھی ہمارے ارد گرد ہورہا ہے۔ اس کا ادراک اندر کے بغض کو نکالے بغیر بہت مشکل ہے۔

معاشرے تقسیم ہوتے ہیں اور افراد اپنی آنکھوں سے نہیں، اپنے قبیلے کے سردار، برادری کے بڑے، سیاسی جماعت کے سربراہ، مذہبی تنظیم کے قائد اور فرقے کے رہبر کی عینک سے دیکھتے ہیں۔ اس لیے حقیقت ان تک نہیں پہنچتی۔ بدھ کو رات گئے جمعرات کی صبح تک جو کچھ بھی دیکھنے کو ملا۔ وہ تاریخ کے ایک اہم موڑ کے شواہد ہیں۔ جو ہمارے جغرافیے پر بھی اثر انداز ہوں گے۔

ہماری معاشرت پر بھی۔ یہ ایک عالمگیر وبا۔ سوشل میڈیا کی فراوانی۔ اور یکے بعد دیگرے ناکام حکمرانیاں دیکھنے والی مختلف نسلوں کے مشترکہ محسوسات ہیں۔ جلسے جلوس، ریلیاں، مزاحمت۔ راستے کی رکاوٹیں دور کرنے کی جدوجہد واضح طور پر یہ بتارہی ہے کہ پاکستانی نوجوان رکنے والے نہیں ہیں یہ مستقبل میں مزید تیاری کے ساتھ مقابلہ کرنے آئیں گے۔ کیوں کہ آپ مانیں یا نہ مانیں۔ ایک فصل کاشت ہورہی ہے۔

مزاحمت کے بیج کونپلیں بن رہے ہیں۔ آسمان دیکھ رہا ہے کہ اس کشت کو سیراب کون کررہا ہے؟ کونسا سورج اسے دھوپ دے کر پکار ہا ہے؟ دنیا کی سب سے بڑی طاقت امریکا کے خلاف میدان میں نکلنا کتنے خطرات کو دعوت دینا ہے۔ امریکا تو ضرور جانچ رہا ہوگا کہ اس کے خلاف نفرت پھیل رہی ہے۔ روس اور چین سے محبت بڑھ رہی ہے۔لینن یاد آتا ہے۔

کیا ابدی جملہ کہا تھا:’’ بہت سے عشرے ایسے ہوتے ہیں جب کچھ نہیں ہوتا اور بہت سے ہفتے ایسے ہوتے ہیں۔ جن میں عشرے رونما ہوجاتے ہیں‘‘۔یہ ہفتے ایسے ہی گزر رہے ہیں، جن میں ہر روز عشرے واقع ہورہے ہیں۔یہ جو کچھ ہورہا ہے یہ صرف اس ملک اس خطّے تک محدود نہیں ہے۔ آمروں، غاصبوں، ابن الوقتوں کے خلاف انسان اپنے سوز دروں کا اظہار سوشل میڈیا پر کھل کر کررہا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی انسان کی سب سے بڑی طاقت بن رہی ہے۔ لیڈر، حکومتیں بے معنی ہورہے ہیں۔

خیر پاکستانیوں کی آنکھوں میں یہ برہمی، یہ اضطراب، ماتھوں پر تمتماہٹ کسی ایک لیڈر کی شعلہ بیانی کا نتیجہ نہیں ہے۔ یہ 40 سال سے ملک کے وسائل پر قبضہ کرنے، اپنی جائیدادیں، بینک بیلنس بڑھانے اور غریبی کی لکیر سے کروڑوں کو نیچے دھکیلنے والوں کے خلاف ہے۔ نوجوانوں کو باہر نکالنے والے وہ بھی محتاط ہوگئے ہیں۔ وہ بھی لمحے کو اپنی گرفت میں لینے سے ہچکچارہے ہیں کیونکہ ان کے پاس بھی اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے متحرک اور باشعور ٹیم نہیں ہے۔ اس تاریخ ساز لمحے کو سمجھنے کے لیے جس مطالعے اور فکر کی ضرورت ہے وہ ان کے پاس نہیں ہے۔ بقول حبیب جالب

جیو ہماری طرح سے مرو ہماری طرح

نظامِ زر تو اسی سادگی سے جائے گا

خیر اس ماحول میں جب تمام جماعتیں ایک طرف، تمام قوتیں ایک طرف اور خان صاحب ایک طرف ہیں تو لوگ ابھی بھی شاید اُن سے اُمید لگائے بیٹھے ہیں، اس لیے خان صاحب کو بھی تمام راستے بند کرنے کے بجائے بات چیت کے راستے بھی کھلے رکھنا ہوں گے، کیوں کہ جمہوریت سیاسی پارلیمان کے اندر آئین کی پاسداری اور مخالف سیاسی جماعتوں کے درمیان بات چیت سے سنورتی اور پروان چڑھتی ہے۔

ہمارے ہاں ابھی تک سیاسی ہم آہنگی‘ باہمی احترام اور جمہوری اداروں پر اعتماد کی سیاسی ثقافت آگے نہیں بڑھ سکی۔ دنگا فساد جو ہر صبح شام میڈیا پر نمبر بنانے کے لیے لگتا ہے، اس نے سیاسی حریفوں کو کھلا میدان فراہم کر رکھا ہے۔ معاشرے پر اس کے سیاسی اور نفسیاتی اثرات کیا مرتب ہورہے، اس کے بارے سوچنے کی صلاحیت ہی نہیں۔ یہاں عوامی انقلاب نہ آئے ہیں اور نہ آ سکتے ہیں اور نہ ان کی تمنا دل میں لانی چاہیے بلکہ اب ساری دنیا میں کہیں نہیں آئیں گے جہاںآسکتے تھے وہ آ چکے اور سوائے ایک دو کے سب اپنے منطقی انجام کو پہنچے۔ خان صاحب کو سمجھنا ہوگا کہ پاکستان کا مزاج ابھی تک نہ خالصتاً جمہوری ہے نہ آمرانہ، اس کے درمیان ہماری تاریخ گھومتی رہی ہے۔

اچھی بات یہ ہے کہ ریاستی ادارے اور ریاست کمزور تو دکھائی دیتے ہیں مگر اتنے کمزور بھی نہیں کہ مارچوں کے سامنے ڈھیر ہو جائیں۔ لہٰذاخان صاحب وہ کام کریں جو کرنے والے ہیںباقی سب اللہ پر چھوڑ دیں کیوں کہ وہ نیتوں کو بہتر جانتا ہے!

لہٰذاپاکستان تحریک انصاف سمیت قیادت کی دعویدار ہر پارٹی کو اپنی تنظیم از سر نو کرنا ہوگی۔ ہر ایک کو ایک دانش کدہ تعمیر کرنا ہوگا۔ اور صرف فوری الیکشن کا نہیں۔ آیندہ دس پندرہ سال کے مقامی، علاقائی اور عالمی امکانات پر مبنی لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا۔ آگے 9جون سے پنجاب میں بلدیاتی الیکشن شروع ہو رہے ہیں، تحریک انصاف ان انتخابات کا جائزہ لے۔

ان کے لیے تیاری کرے، اور بلدیاتی انتخابات جیت کر یہ ثابت کرے کہ تحریک انصاف آج بھی سب سے قابل اعتماد جماعت ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سے کام کرنے والے ہیں لہٰذا عمران خان صاحب حوصلے کے ساتھ ایک لیڈر کا روپ دھاریں اور نئے سرے سے 2023ء کے الیکشن کی تیاری پر زور دیں اور مقتدر قوتوں کو بھی اعتماد میں لیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔