- لڑکیوں کی تعلیم؛ طالبان سے مذاکرات کیلیے قطر کے خصوصی ایلچی کابل پہنچ گئے
- آن لائن ٹکٹوں سمیت ریلوے نے پورا نظام رابطہ ایپ پر منتقل کر دیا
- حکومت کا بین الاقوامی پروازوں میں بزنس کلاس ٹکٹس پرایکسائز ڈیوٹی لگانے پرغور
- مدرسے کے معلم کا چھٹی کرنے پر 10 سالہ طالبعلم پر بہیمانہ تشدد
- سکھر میں معمر خاتون پر بہیمانہ تشدد کرنے والے افسر کے خلاف مقدمہ درج
- بھارتی کرکٹ ٹیم کے مسلمان کھلاڑیوں کو تلک نہ لگوانے پرتنقید کا سامنا
- نیشنل ایکشن پلان پر نظرثانی کیلیے آل پارٹیز کانفرنس 9 فروری کو ہوگی
- پولیس نے 2 سالہ بچے کو مفرور ملزم قرار دیدیا، گرفتاری کیلیے چھاپے
- اسلحہ کی آن لائن فروخت، سی ٹی ڈی نے گروپ کا سراغ لگا لیا
- پرویز الٰہی کے مشیر عامر سعید کی عدم بازیابی پر آئی جی پنجاب طلب
- سعودی عرب کے شمالی علاقوں میں گرد وغبار کا طوفان، اسکولز بند
- کل سے بغیر ہیلمٹ موٹرسائیکل سواروں کےخلاف کریک ڈاؤن کا فیصلہ
- اسلامی نظریاتی کونسل کیخلاف آئینی درخواست خارج
- 15، 15 منٹ کے کیسز 8، 8 سال سال چلتے ہیں، سندھ ہائیکورٹ
- 2 دن میں بقیہ یو سیز کے الیکشن کی تاریخ نہ دی گئی تو احتجاج ہوگا، حافظ نعیم
- مہنگائی کے باوجود عوام کا جذبہ بلند ہے، مریم نواز
- غبارہ گرانے کے واقعے سے چین امریکا تعلقات کو نقصان پہنچا ہے، بیجنگ
- موٹر وے ایم5 پر ٹائر پھٹنے سے کار کو حادثہ، 2افراد جاں بحق
- اسامہ ستی قتل کیس؛ 2 پولیس اہلکاروں کو سزائے موت، 3 کو عمر قید
- مانچسٹر یونائیٹڈ کے کسمیرو نے حریف پلیئر کی گردن دبوچ لی
دو مہینے کی فرصت۔۔۔

بچوں کی تعطیلات پر گھر بھر کو توجہ دینی چاہیے! ۔ فوٹو : فائل
بچوں کی پرورش میں ماں کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور آج کل کے دور میں تربیت کی ذمّہ داریاں اور بھی بڑھ گئی ہیں۔
پہلے تو مائیں بچوں کو اسکول بھیجنے کے بعد کافی سارے کام نبٹالیتی تھیں اور پھر بچوں کا بھی ایک معمول ہوتا تھا کہ بچے اسکول سے آ کر مدرسے اور پھر ٹیوشن چلے جاتے تھے یا پھر گھر پر ہی ان کو اسکول کا ہوم ورک وغیرہ کرانے کا الگ وقت مقرر ہوتا تھا، جس کی وجہ سے بچوں کو کم ہی وقت ملتا تھا کہ وہ پڑھائی کے علاوہ اور چیزوں کی طرف توجہ دے سکیں۔
بچوں اور ان کی ماؤں کا بس ایک ہی ہدف ہوتا تھا کہ اچھا پڑھنا ہے اور پوزیشن لانی ہے، مگر جب تعطیلات ہوں تو ماؤں کی ذمّہ داری دگنی ہی نہیں بلکہ دس گنا بڑھ جاتی ہے، جیسے کورونا کی پابندیوں کے زمانے میں گھر داری کے ساتھ ساتھ ان کی آن لائن کلاسوں کی بھی دیکھ ریکھ کرنی پڑی تھی کہ آن لائن کلاسوں کے دوران ماں کو صبح سویرے کھانا پکانے اور گھر کے دوسرے کاموں کے ساتھ ساتھ ’آن لائن‘ کلاسوں کو بھی دیکھتے رہنا پڑتا ہے کہ بچے کلاس ہی لے رہے ہیں یا ان کی غیر موجودگی کا فائدہ اٹھا کر موبائل اور لیپ ٹاپ پر گیم کھیلنے لگے ہیں یا دوبارہ سو چکے ہیں۔
اس کے بعد مدرسے اور ٹیوشن کی تو ساری ذمہ داریاں گھر پر ہی ادا کرنی پڑیں، اب اسکول کی چھٹیوں میں بہت سے گھروں میں یقیناً بچوں کے والد بھی ہاتھ بٹانے کی کوشش کرتے ہیں، مگر ماں کی ذمہ داری بہرحال زیادہ ااور اہم ہوتی ہے، اسے ہر بچے پر انفرادی طور پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ گھر کے باقی افراد اس بات کو سمجھیں اور ان خواتین کا ساتھ دیں اور جو ’مشترکہ خاندانی نظام‘ میں رہتے ہیں وہاں کچھ ذمہ داریاں دادی اور پھوپھو بھی اٹھائیں اور بچوں کو گھر میں کسی مشاغل میں مصروف رکھیں یا کوئی ہنر سکھانے کی کوشش کریں۔ دادی یا پھوپی یا چچی ، تائی بھی بچوں کے درمیان کہانی لکھنے کا مقابلہ کروا سکتی ہیں یا کوئی کہانی سنا کر اس میں سے سوال جواب کر سکتی ہیں۔
کیوں کہ بچے اسکولوں وغیرہ میں بے شک پڑھ رہے ہیں، مگر اسکول جا کر بیس، تیس بچوں کے ساتھ مل کر پڑھنے سے بچوں میں جو ایک مقابلے کی فضا پیدا ہوتی ہے، چھٹیوں میں وہ اب نہیں رہی اور نہ ہی بچے جو ایک دوسرے کو دیکھ کر، بات چیت کر کے، کھیل کر بہت کچھ سیکھتے تھے اب اس سے محروم ہو گئے ہیں، کچھ بچے گھروں میں پریشان کرتے ہیں یا شرارتیں کرتے ہیں، تو کچھ موبائل کو اپنا دوست بنا بیٹھے ہیں۔
جس کی وجہ سے بہت زیادہ مسائل اور زندگی میں عدم توازن نظر آنے لگا ہے۔ اس صورت حال کو مائیں بہ خوبی سمجھ رہی ہیں اور کوشش کر رہی ہیں کہ بچوں کو بھرپور ٹائم دیں اور ان کا پڑھائی اور کھیل کا ایک ’نظام الاوقات‘ قائم رکھیں، مگر اس کے لیے گھر والوں اور خصوصاً بچوں کے والد کے ساتھ کی بھی اشد ضرورت ہے کہ وہ اس کا ساتھ دیں کیوں کہ صرف ماں کو الزام دینا تو بہت زیادہ آسان ہے، لیکن اس کی ذمّہ داریوں کو سمجھنا سب سے مشکل۔
اس لیے اس وقت اپنے بچوں کے بہترین مستقبل کے لیے ماؤں کو طعنے دینے اور ہر وقت باورچی خانے میں لگائے رکھنے کے بہ جائے ان کا ساتھ دینا بہت ضروری ہے۔ اور ساتھ ہی ماؤں سے ایک گزارش اور بھی ہے کہ چاہے لڑکے ہوں یا لڑکیاں ان کو کوئی نہ کوئی ہنر ضرور سکھائیں، یا کم از کم بٹن ٹانکنا، جھاڑ پونچھ کرنا یا کچھ آرٹ اور کرافٹ، جو کچھ کبھی آپ کی امی آپ کو گرمیوں کی چھٹیوں میں سکھاتی تھیں۔
خود سکھانے کی کوشش کریں یا آپ کے قریبی کسی گھر میں کوئی خاتون کوئی ایسا کام جانتی ہوں یا کوئی کمپیوٹر پروگرامنگ وغیرہ کی ابتدائی چیزیں سکھانا چاہے تو اس سے ضرور رابطہ کریں۔ چوں کہ آج کل کی بچیاں صرف کھانا بنانے یا بیکنگ کو ہی کام سمجھتی ہیں، ان کو کڑھائی، سلائی، مکرامے اور دوسرے کاموں کی طرف بھی راغب کریں، تاکہ ان کا ذہن کھلے اور وہ کچھ تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لا سکیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔