مون سون سے قبل حفاظتی اقدامات

ایڈیٹوریل  بدھ 1 جون 2022
ہمیشہ جب سیلاب سر پر آجاتا ہے اور اپنی غارت گری دکھاتا ہے تونمائشی اقدامات کرکے عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ فوٹو : فائل

ہمیشہ جب سیلاب سر پر آجاتا ہے اور اپنی غارت گری دکھاتا ہے تونمائشی اقدامات کرکے عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ فوٹو : فائل

مون سون کی بارشیں زرعی خطوں کے لیے باعث رحمت سمجھی جاتی ہیں، کیونکہ یہ بارشیں آبی ذخیرے کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں اور زمین کی زرخیزی کو بڑھاتی ہیں لیکن بڑھتی ہوئی گلوبل وارمنگ، موسمیاتی تغیر اور خطے کی آب و ہوا میں تبدیلی کے باعث ماہرین کے مطابق بارشوں کی شدت میں اضافہ اور سیلاب کے خطرات بڑھتے جارہے ہیں ، مزید یہ کہ بھارت کی جانب سے اچانک پانی چھوڑے جانے پر سیلاب کا خطرہ مزید بڑھ سکتا ہے۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان ممکنہ حالات سے بچاؤ کے لیے پاکستان کی حکومت نے اب تک کیا حکمت عملی اختیار کی ہے۔ پاکستان میں عوام کے تحفظ کے لیے مناسب اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں، اعلیٰ حکومتی شخصیات اور اداروں کی غفلت و لا پرواہی کے نتائج گزشتہ سالوں میں آنے والے سیلاب کے دوران قوم بھگت چکی ہے۔

بلاشبہ غربت و مہنگائی کے ستائے عوام پاکستان مزید کسی نئے بحران کو جھیلنے کی سکت نہیں رکھتے۔ انتظامیہ کی جانب سے صفائی ستھرائی کے نظام کو بہتر بنانے کے دعوؤں کے باوجود پاکستان کے تمام چھوٹے ، بڑے شہروں میں اکثریتی علاقے گندگی اور گندے پانی کی لپیٹ میں ہیں۔

صفائی ستھرائی کی ناگفتہ بے صورتحال عوام کے لیے مشکلات کا باعث بنی ہوئی ہے، کیا بارش کے پانی کی نکاسی کا کوئی نظام موجود ہے ، اگر موجود ہے تو ندی، نالوں اور گٹروں کی صفائی بلدیاتی اداروں اور صوبائی حکومتوں نے شروع کردی ہے، تو جواب نفی میں ہے ، بلدیاتی اداروں کی کارکردگی اور قبل از وقت حفاظتی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں ۔

مون سون کی تیز بارشیں سیلاب کا سبب بنتی ہیں ، جس میں سب سے زیادہ نقصان کسانوں کو ہوتا ہے۔ بہتر ہے کہ حکومت کم پریمیم کی بنیاد پر زرعی انشورنس کا نظام لائے، تاکہ کسانوں کے نقصان کا ازالہ ہوسکے۔ دوسری طرف شہروں میں بارش کے پانی کے نکاس کے نظام کو پورا سال جاری رکھا جائے اور بارش کے پانی کی گزر گاہوں کو صاف ستھرا اور ان کے اطراف درخت لگا کر خوبصورت بنایا جائے۔ شہر میں بارش کی چھوٹی گزرگاہوں پر ڈھکن لگائے جائیں۔

گندے پانی اور بارش کے پانی کے نکاس کا انتظام علیحدہ علیحدہ رکھا جائے ، تو عوام بھی بارش سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں ، لیکن یہ سب باتیں صرف کتابوں اور اخبارات کی حد تک خوش کن اور دلفریب لگتی ہیں۔

بات کراچی کی کر لیتے ہیں ، جہاں ہر سال بارش کے دوران صرف کرنٹ لگنے سے درجنوں اموات ہوجاتی ہیں ، ناقص اور ٹوٹے ہوئے تاروں کی تبدیلی مون سون سیزن شروع ہونے سے پہلے کرلی جائے تو شہریوں کی قیمتی جانیں بچائی جاسکتی ہیں ۔

کراچی اس وقت بدترین انتظامی نظام کی تصویر پیش کر رہا ہے، ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کی مرمت نہیں ہوئی ہے ، سیوریج سسٹم کی بہتری کے لیے کچھ بھی نہیں کیا جارہا ہے ، لالچ اور ہوس کے ماروں نے چائنہ کٹنگ کے ذریعے سرکلر ریلوے ٹریک کے ساتھ ساتھ نالوں تک کو بیچ کر اپنے شکم بھر لیے۔ انتظامی اداروں نے تجاوزات ختم کرنے کے بہانے صرف غریب کے کچے جھونپڑے اور چھوٹی دکانیں ہٹائیں۔ نالوں اورگرین بیلٹ کی زمین پر چائنہ کٹنگ کے ذریعے کھڑی بے شمار بلند وبالا عمارات اور بنگلے نہ دکھائی دیے۔ بلدیاتی اداروں میں فنڈ اور اختیارات کی تقسیم کے جھگڑوں کی وجہ سے ’’ نہ کھیلیں گے اور نہ کھیلنے دیں گے ‘‘ کی لڑائی میں کراچی کو ’’ کچرا چی ‘‘ بنا ڈالا۔

جب مون سون سیزن کے دوران تباہی و بربادی ہوچکی ہوتی ہے تو حسب روایت حکومتی مشنری حرکت میں آ جاتی ہے اور قومی خزانے سے کروڑوں محض آنیوں اور جانیوں پر خرچ کر دیے جاتے۔ اگر یہی وسائل بارشوں اور سیلابی بربادی سے پہلے منصوبہ بندی کے تحت لگائے جائیں اور ماہر انجینئرز اور سائنسدانوں اور ماہر تعمیرات کے تجربات سے استفادہ کیا جائے تو یقینا حکومت کا سب سے احسن اقدام ہو گا۔

ضروری ہے کہ برسات کے موسم میں شہریوں کو اپنی جان و مال کے تحفظ کے لیے اقدامات کرنا چاہیے ، گھر کی چھتوں پر نکاسی آب کا جائزہ لینا چاہیے تاکہ پانی جمع نہ ہو۔ برساتی نالوں اور تالابوں میں نہانا ہرگز نہیں چاہیے، بچوں کو بجلی کی تاروں اور کھمبوں سے دور رکھنا چاہیے اور زمین پر گری بجلی کی تاروں کو چھونے سے گریز کرنا چاہیے۔ ماہرین صحت کے مطابق برسات کے موسم میں بے شمار وبائی امراض پھیلنے کا خدشہ ہوتا ہے۔ مون سون میں پیدا ہونے والی بیماریوں میں سیزنل انفلوائنزا (وبائی زکام)، ملیریا، ٹائیفایڈ، ڈنگی بخار، ہیضہ، اور ہیپا ٹائٹس اے سرفہرست ہیں۔

انفلوائنزا وائرس ہوا کے ذریعے انسانی جسم میں داخل ہوتا ہے اور ناک، گلے اور پھیپھڑوں کو متاثر کرتا ہے۔ چونکہ اس کا وائرس کھلی فضا میں موجود ہوتا ہے اس لیے ایک فرد سے دوسرے میں منتقل ہو جاتا ہے۔ اس بیماری کی نشانیوں میں بہتی ہوئی ناک، جسم اور گلے میں شدید درد اور بخار شامل ہیں، اس وبائی مرض سے بچنے کے لیے اچھی غذا لینا چاہیے تاکہ جسم کی قوت مدافعت زیادہ مضبوط ہو اور جو اس وائرس کو ختم کرسکے۔

اس کے علاوہ ہیضہ مون سوں کے موسم میں پھیلنے والی خطرناک بیماریوں میں سے ایک ہے، ہیضہ کچھ خطرناک بیکٹیریا کی وجہ سے ہوتا ہے جو خراب کھانوں، گلے سڑے پھلوں، گندے پانی اور حفظان صحت کی کمی کے باعث پھیلتے ہیں۔ اس کی علامات میں پیچش اور قے آنا شامل ہے، ان کی وجہ سے جسم سے بہت زیادہ پانی ضایع اور پٹھوں میں کھچاؤ پیدا ہوجاتا ہے اور انسانی جسم میں نمکیات کی کمی ہو جاتی ہے۔ ہیضے کے مریض کو فوری علاج کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ انسانی جسم میں نمکیات کی کمی موت کا سبب بھی بن سکتی ہے۔

ہیضے کے مریض کو نمکول، پانی میں گھول کر پلانا چاہیے جو جسم میں پانی کے ساتھ ساتھ نمکیات کا توازن برقرار رکھتا ہے، ہیضے سے بچاؤ کے لیے ابال کر صاف پانی کا استعمال اور حفظان صحت کے اصولوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ برسات کے موسم میں آلودہ پانی میں پائے جانے والے بیکٹیریا کی وجہ سے ٹائیفائڈ کے پھیلنے کا بھی خطرہ ہوتا ہے۔ اسی طرح برسات کے موسم میں پھیلنے والی بیماریوں میں سے ایک ملیریا ہے جو کہ بارش کے کھڑے پانی میں پیدا ہونے والے مچھروں کی وجہ سے پھیلتی ہے۔

اس کی نشانیوں میں تیز بخار، جسم اور سر درد، پسینہ آنا شامل ہیں، اگر اس کا علاج بروقت نہ کیا جائے تو جگر اور گردوں کے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ ملیریا سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر کے لیے مچھر دانی کا استعمال کرنا چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ گھر میں گندے پانی کا ذخیرہ نہ ہو۔ پانی جمع ہونے سے ڈنگی بخار پھیلنے کا بھی خطرہ ہوتا ہے۔ گرم موسم میں بارشیں جہاں ہمارے لیے رحمت اور راحت کا سبب بنتی ہیں وہیں احتیاطی تدابیر اختیار نہ کرنے کی وجہ سے درج بالا بیماریوں کی وجہ بھی بن سکتی ہیں۔

دوسری طرف سبھی جانتے ہیں کہ سڑکوں پر پانی اس وقت جمع ہوتا ہے جب سیوریج کا نظام ٹھیک نہ ہو اور سیوریج کا نظام ٹھیک نہ ہونے کی دو بڑی وجوہ ہیں۔ ایک یہ کہ نکاسی آب کے لیے مختص گندے نالوں کی صفائی کا مناسب انتظام نہیں کیا جاتا چنانچہ جونہی معمول سے کچھ زیادہ بارش ہو جائے سارا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔

دوسری وجہ پلاسٹک کے شاپنگ بیگز ہیں جنھیں لوگ استعمال کے بعد ادھر ادھر پھینک دیتے ہیں اور جو ہوا کے ذریعے یا بارش کے پانی کے ساتھ بہہ کر سیوریج کے نظام میں داخل ہوتے اور اسے بلاک کر دیتے ہیں۔ ضروری ہے کہ مون سون سے قبل گندے نالوں کی صفائی کا اہتمام کیا جائے اور شاپنگ بیگز کی استعمال پر جو پابندی عائد کی گئی ہے اس پر سختی سے عملدرآمد کرایا جائے ۔

صوبائی حکومتوں اور بلدیاتی اداروں کی اس وقت سب سے بڑی ذمے داری یہی ہے کہ آیندہ کے لیے اس ملک و قوم کو سیلاب سے محفوظ کردیا جائے، بڑے پیمانے پر ڈیم، بیراج اور آبی ذخائر تعمیر کیے جائیں۔

دریاؤں کو گہرا کر کے ان میں زیادہ پانی برداشت کرنے کی صلاحیت پیدا کی جائے، جو اربوں روپے ہر سال سیلاب متاثرین کی بحالی کی نذر ہو جاتے ہیں انھیں سیلاب سے دائمی بچاؤ کے اقدام پر خرچ کیا جائے،اگر ہم آبی ذخائر کو محفوظ کرنے کی صلاحیت حاصل کر لیں تو دیگر فوائد کے ساتھ ساتھ بھارت بھی آیندہ کبھی ہماری جانب پانی نہ چھوڑے کیونکہ باصلاحیت ہونے کے بعد یہی پانی جو ہماری تباہی کا سبب بنتا ہے ہماری خوشحالی کا باعث بن جائے گا۔

ہمارے لیے بیش قیمت ہو جائے گا، ہماری ترقی بالخصوص توانائی کے بحران کے خاتمے، بجلی کی پیداوار میں اضافے اور دیگر زرعی و تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے اور زندگی کی رنگا رنگی پیدا کرنے اور حیات نو بخشنے والی یہ صورتحال بھارت کو کبھی گوارہ نہ ہو گی، ساتھ ہی بیوروکریسی پر کرپشن کی رسیا ہونے اور بدعنوانی سے فنڈز ہضم کرنے کا تاثر بھی ختم ہو جائے گا۔

حکومت کی جانب سے سیلاب سے نمٹنے اور سیلابی پانی کو نئے آبی ذخائر میں محفوظ کرنے کے لیے کسی قسم کی کوئی پالیسی یا منصوبہ بندی سامنے آئی نہ ہی کبھی مستقل بنیادوں پر کسی قسم کے کوئی ٹھوس اقدام ہی اٹھائے گئے، ہمیشہ جب سیلاب سر پر آ جاتا ہے اور اپنی غارت گری دکھاتا ہے تو نمائشی اقدامات کرکے عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔