جمہوریت کا گمنام مجاہد !

علی احمد ڈھلوں  بدھ 1 جون 2022
ali.dhillon@ymail.com

[email protected]

28مئی (یوم تکبیر) سے جڑا 29مئی شاید کسی کو یاد نہیں، یہ وہ دن ہے جب جنرل ضیاء الحق نے وزیراعظم محمد خان جونیجو کی حکومت کا تختہ اُلٹا تھا، 29مئی 1988 کی شام اسلام آباد ایئرپورٹ کا وی آئی پی لاؤنج مقامی صحافیوں سے بھرا ہوا تھا۔ اس وقت کے وزیراعظم محمد خان جونیجو چین، جاپان اور فلپائن کے طویل دورے سے واپسی پر میڈیا کو بریفنگ دے رہے تھے۔

ادھر صدر جنرل ضیاء الحق بھی گزشتہ روز چین جانے والے تھے۔ ان کے اسٹاف نے تین گھنٹے کے نوٹس پر اخباری نمایندوں کو پریس کانفرنس کی اطلاع دی۔ کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ جنرل ضیاء الحق حکومت برطرف کرنے والے ہیں۔

بتایا جاتا ہے کہ جونیجو پریس کانفرنس سے فری ہو کر وزیر اعظم ہاؤس کے لان میں بیٹھے چائے پینے کی تیاری کر رہے تھے کہ ایوان صدر کا ایک جوائنٹ سیکریٹری تیزی سے ان کی طرف آیا اور بولا ’’سر ایک بری خبر ہے۔ ضیاء الحق نے آپ کی حکومت برطرف کر دی ہے۔‘‘محمد خان جونیجو کسی ردعمل کا اظہار کیے بغیر اپنے کمرے میں گئے اور مختصر سا سامان پکڑا اور وزیراعظم ہاوس خالی کردیا۔

محمد خان جونیجو سندھی تھے، انھوں نے پاکستان کے لیے کئی اچھے کام کیے، انھیں پیر پگاڑا نے رکمینڈکیا تھا، جنرل ضیاء بھٹو کی پھانسی کا مداواکرنے کے لیے سندھ سے ہی وزیر اعظم چاہتے تھے، اس لیے محمد خان جونیجو فائنل ہوگئے۔

کہا جاتا ہے کہ پہلی ملاقات میں ہی محمد خان جونیجو نے جنرل ضیا سے پوچھ لیا ’’آپ مارشل لاء کب ختم کریں گے؟‘‘اس پر جنرل ضیاء کے چہرے کے تاثرات تبدیل ہوگئے۔ خیر اب کچھ نہیں ہو سکتا تھا، کیوں کہ حالات جنرل صاحب کے لیے بھی ٹھیک نہیں تھے۔ اس کے بعد محمد خان جونیجو کے کئی فیصلوں سے صدر ضیا الحق کو اتفاق نہیں تھا اور بعض معاملات پر ان کا خیال تھا کہ جونیجو صاحب ان کے دائرہ کار میں مداخلت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔

1986کے بے نظیرکے فقید المثال استقبالیے کی وجہ سے بھی ضیاء الحق اور ان کی ٹیم جونیجو صاحب کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھ رہی تھی۔ جنرل ضیاء کی خواہش تھی بے نظیر کے استقبال کو بزور طاقت روکا جائے لیکن محمد خان جونیجو نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔جب جنیوا معاہدے سے قبل جونیجو صاحب نے اپوزیشن جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس مشورے کے لیے طلب کی تو جنرل ضیا الحق نے انھیں کہا کہ وہ اس آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت اور خطاب کرنے کے خواہشمند ہیں۔

اس حوالے سے جنرل ضیا الحق نے محمد خان جونیجو سے کہا کہ میں جنیوا مذاکرات کے حوالے سے اپنا موقف ان لوگوں کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں کہ میں کیوں معاہدے کے حق میں نہیں ہوں (جنرل ضیاء الحق افغانستان میں مستحکم سیاسی حکومت کے قیام سے قبل جینوا معاہدے پر دستخط کرنے کے حق میں نہیں تھے) لیکن محمد خان جونیجو نے صاف منع کر دیا اور کہا کہ آپ کو بلایا تو ان میں سے کوئی بھی اے پی سی میں شریک نہیں ہو گا۔لہٰذامحمد خان جونیجو نے آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کیا، اور ڈنکے کی چوٹ پر کیا اور یہ شاید جنرل ضیاء الحق کے لیے بڑا دھچکا تھا۔اس کانفرنس کی خاص بات یہ تھی کہ محترمہ بے نظیر صاحبہ سمیت ملک کی تمام بڑی قیادت بھی اس میں شریک ہوئی۔

پھر سب کو یاد ہو گا کہ اوجڑی کیمپ کا سانحہ ہوا تو جونیجو سارا معاملہ پارلیمنٹ میں لے کر آنا چاہتے تھے مگر جنرل ضیاء اوررفقاء اسے دبانا چاہتے تھے، یہاں بھی انھوں نے بات ماننے سے انکار کیا۔ پھر ضیاء صاحب نے اُن کے خلاف کرپشن کے کیسز قائم کرنے کے لیے ایک انکوائری کمیٹی قائم کی۔ مگر الزام ثابت ہونا تو دور کی بات، اُن پر کرپشن کا الزام لگایا ہی نہیں جا سکا۔ مطلب اُس وقت وزیر اعظم اور صدر کے درمیان تعلقات سرد مہری کا شکار تھے، جسے دور کرنے کے لیے اُس وقت کے مشیر اور وزیر اطلاعات راجہ ظفرالحق نے متعدد بار کوشش کی مگر حالات خراب ہی ہوتے گئے۔

اس حوالے سے راجہ ظفر الحق کہتے ہیں کہ ’’مجھے اندازہ ہو گیا کہ معاملات خراب ہو رہے ہیں اس لیے میں نے دونوں کو اکھٹا کرنے کا فیصلہ کیا اور ایک روز جونیجو صاحب کو ساتھ لے کر آرمی ہاؤس چلا گیا۔ لیکن بات نہ بن سکی۔ الغرض پاکستان میں اگر آپ نے پارلیمنٹ کی بالا دستی دیکھنی ہے تو وہ دور صرف محمد خان جونیجو کا ہے۔ محمد خان جونیجو نے ملک کو آئین کے مطابق چلانے کی جو کوشش کی ہے وہ تاریخ کا حصہ ہے۔

لہٰذا ہم محمد خان جونیجو کے دور کو پاکستان کی تاریخ کا سنہرا دور کہہ سکتے ہیں ، اُن کی حکومت کو صدر ضیاء نے جیسے ہی 29مئی کو برطرف کیا، مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں محمد نواز شریف کو جنرل ضیاء الحق کی ہدایت پر نگران وزیر اعلیٰ پنجاب لگا دیا گیا۔ پھر اُس کے بعد لگاتار ابھی تک ایک ایسے دور کا آغاز ہوا کہ پارلیمنٹ کی بالادستی کے دعوے کرنے والوں نے پارلیمنٹ کومحض ربڑ اسٹیمپ بنا کر چھوڑا اور یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان پارلیمنٹ کی بالادستی کے حوالے سے دنیا کے آخری نمبروں پر آتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔