اگلے لانگ مارچ کی حکمت عملی

مزمل سہروردی  جمعرات 2 جون 2022
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

عمران خان کب اگلا لانگ مارچ کریں گے؟ اگر پورے پاکستان میں جلسے کر کے بھی ان کی پہلے لانگ مارچ کی تیاری مکمل نہیں تھی تووہ دوسرے لانگ مارچ کی تیاری کے لیے کیا کریں گے؟ نئی تیاری کیا ہوگی اور کیسی ہوگی؟ ہم نے دیکھا تھا کہ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد ان کے حامیوں کی جانب سے پاکستان کے اداروں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

سپریم کورٹ کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ اب اگلے لانگ مارچ کی تاریخ کے اعلان سے قبل ہی اداروں کے خلاف ایک مہم ’وہ کون تھا‘ کے ہیش ٹیگ کے ساتھ دوبارہ شروع کر دی گئی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اگلے لانگ مارچ سے قبل اداروں اور ان کے سربراہان کو دباؤ میں لانے کے لیے ا یک مربوط مہم شروع کر دی گئی ہے، تا کہ جب اگلا لانگ مارچ بھی ناکام ہو  جائے تو اس کا ملبہ اداروں اور ان کے سربراہان پر ڈالا جا سکے۔ اس کے لیے ماحول بنانا شروع کر دیا گیا ہے۔

اسی مہم کے تحت سابق وزیر اعظم آج کل روزانہ سپریم کورٹ کے سامنے ایک نئی خواہش رکھ رہے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ ان کے سیاسی مخالفین شریف فیملی کے مقدمات میں سپریم کورٹ دوبارہ مانیٹرنگ جج لگا دے تا کہ ان کے مخالفین کو جلد از جلد سزا ہو سکے۔

ان کی خواہش ہے کہ جب وہ اسلام آباد پر دوبارہ یلغار کے لیے نکلیں تو سپریم کورٹ نہ صرف ان کو مکمل کور فراہم کرے بلکہ وہ لانگ مارچ کا ہراول دستہ ہو۔ ان کی خواہش ہے کہ سپریم کورٹ ملک میں جلد از جلد انتخابات کی راہ ہموار کرنے کے لیے ان کی مدد کرے۔ ان کی خواہش ہے کہ سپریم کورٹ روزانہ ایک سو موٹو لے جس سے حکومت کے لیے کام کرنا عملی طور پر نا ممکن ہو جائے اور یہ حکومت سو موٹو کے بوجھ تلے دب کر ہی گھر چلی جائے۔ اپنے خلاف قائم ہونے والے مقدمات میں بھی وہ سپریم کورٹ سے غیر معمولی انصاف کے خواہاں ہیں۔

ویسے تو سپریم کورٹ کے پاس لامحدود اختیارات ہو تے ہیں۔ یہ کہا تو جاتا ہے کہ سپریم کورٹ آئین وقانون کے دائرے میں رہتے ہوئے مقدمات کا فیصلہ کرتی ہے۔ قانون اورآئین بنانے کا اختیار پارلیمنٹ کے پاس ہے تا ہم اس کے مطابق فیصلے کرنا سپریم کورٹ کا کام ہے۔نظام حکومت میں یہ بھی طے ہے کہ حکومت بھی آئین وقانون کے مطابق کام کرے گی اور سپریم کورٹ حکومت کے کاموں میں مداخلت نہیں کرے گی، ایگزیکٹو اور عدلیہ کے درمیان بھی ایک باریک لکیر موجود ہے جس کی پاسداری کی ہی تمام فریقین سے توقع کی جاتی ہے۔

توقع کی جاتی ہے کہ سپریم کورٹ ایگزیکٹو کے دائرہ کار میں مداخلت نہیں کرے گی۔ اورایگزیکٹو آزاد عدلیہ کو کام کرنے دے گی۔ اسی تناظر میں عدلیہ کو لامحدود اختیارات دیے گئے ہیں۔ وہ چاہیں تو دن کو رات کر دیں لیکن امید یہی کی جاتی ہے کہ وہ دن کو دن ہی رکھیں گے۔ وہ چاہیں تو نیا آئین لکھ دیں ۔ تا ہم امید یہی کی جاتی ہے کہ وہ آئین کے اندر رہ کر ہی فیصلے دیں گے۔ ہم نے ماضی میں نظریہ ضرورت کے تحت کیے گئے فیصلے بھی دیکھے ہیں۔ اب نظریہ اخلاقیات اور نظریہ ممکن کی گونج بھی سن رہے ہیں، لیکن امید یہی ہوتی ہے کہ آئین کے اندر ہی رہا جائے اور کسی بھی نظریہ کی بیساکھیاں نہ استعمال کی جائیں۔

عمران سابق وزیراعظم ہیں‘ ان کے ساتھی وزیر بھی رہے لہٰذا انھیں خود ہی سوچنا چاہیے کہ کیا سپریم کورٹ کو پی ٹی آئی مارچ کو کسی بھی قسم کا کوئی تحفظ فراہم کرنا چاہیے؟ کیا ایسا کرنا ایگزیکٹو کے اختیارات میں مداخلت نہیں ہوگی۔ ویسے تو پہلے مارچ میں بھی عمران خان کو اسلام آباد ایچ نائن گراؤنڈ میں جلسے اور دھرنے کی اجازت دی گئی تھی۔ حالانکہ حکومت ایسی کوئی اجازت دینے کے حق میں نہیں تھی، لیکن عمران خان نے سپریم کورٹ کی لاج نہیں رکھی اور ایچ نائن کی بجائے ڈی چوک کی جانب چل پڑے۔ بعد میں فواد چوہدری صاحب نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ ہم نے کہاں اور کب دھرنا دینا ہے یہ ایک سیاسی فیصلہ ہے، سپریم کورٹ سیاسی فیصلے نہیں کر سکتی۔

ہم فرض کر لیتے ہیں کہ عمران خان کو اسلام آباد مارچ کے لیے اجازت دے دیتی ہے۔ حکومت کے ہاتھ پاؤں باندھ دیے جاتے ہیں تو اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ عمران خان اسلام آباد پہنچ کر نظام حکومت مفلوج کرنے اور حکومت کو گرانے کی کوشش نہیں کریں گے۔ ان کا ہدف بھی یہی ہے۔ وہ اپنے ہدف کے قریب آکر کیوں رک جائیں گے۔ عام ذہن یہ بات نہیں مانتا۔

سوشل میڈیا پر ایسا مواد شیئر کرایا جا رہا ہے جس سے قومی سلامتی کے اداروں کے سربراہان کو سیاست میں ملوث کیا جا سکے۔ میں حیران ہوں کہ پاکستان کے آئین کو کھلم کھلا توڑنے والے قاسم سوری بھی ایسا مواد شیئر کر رہے ہیں جس سے اداروں کو متنازعہ بنایا جا سکے۔ ایسا کرنا افسوس ناک ہے۔ انھیں تو خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ پاکستان کا آئین توڑنے کے بعد بھی وہ کھلے عام آزاد پھر رہے ہیں۔ آئین توڑنے کی سزا کیا ہے‘ یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اصولی طور پر مہم تو یہ چلنی چاہیے کہ وہ کون تھا جس نے آئین توڑا اور آج بھی آزاد پھر رہا ہے۔

اس لیے عمران خان اپنے اگلے لانگ مارچ کی ناکامی کا ملبہ قومی سلامتی اور دیگر اداروں پر ٖڈالنے کی ایک حکمت عملی پر کام کر رہے ہیں۔ ہم سب کو اس کو سمجھنا ہوگا۔ وہ پہلے بھی لوگ لانے میں ناکام رہے ہیں جس کی وجہ سے انھیں واپس جانا پڑ گیا۔ شاید اب پہلے سے بھی کم لوگ آئیں۔ وہ اپنی سیاسی لڑائی میں اداروں کو ملوث کرنے کی مستقل کوشش کر رہے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں کہ ہم مسلح تھے۔ کبھی کہتے ہیں فوج سے تصادم کا خطرہ تھا۔ کبھی کہتے ہیں ہم اداروں کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ اس لیے ہمیں ہوشیار رہتے ہوئے اس مہم کو جاننا ہوگا۔ اور اس کو ناکام بنانے کے لیے کردار ادا کرنا ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔