دولت کے انبار اور غربت کا جنجال

حیرت نہیں ہوتی کہ اس معاشی نظام کے ساتھ ہر دو چار سال بعد قرضوں کا بحران پیدا ہوتا ہے



اب تو یہ ایک روٹین سی بن گئی ہے، دو چار دن میڈیا پر ہیڈ لائینز بنتی ہیں، ہائے ہائے تھو تھو ہوتی ہے، اس کے بعد وہی رات دن کا گھن چکر۔ ڈیووس سوئٹزرلینڈ میں ورلڈ اکنامک فورم کے نام سے ایک سالانہ اجلاس برپا ہو تا ہے۔ دنیا بھر کے مالیاتی ادارے، حکومتی اہلکار ، سرمایہ کار، ملٹی نیشنل کمپنیوں کے سربراہان دنیا کے اس امراء کلب میں شمولیت کے لیے دوڑے چلے آتے ہیں۔

عالمی امراء کلب کے اس سالانہ اجلاس میں گذشتہ کئی سالوں سے دنیا کی ایک معروف این جی او Oxfam ایک سالانہ رپورٹ پیش کرتی ہے۔ اس رپورٹ کا موضوع گزرے سال میں دنیا میں دولت کے ارتکاز، ارب پتیوں کے شمار اور اس کے برعکس غربت اور عدم مساوات یعنی Inequality کا گوشوارہ ہوتا ہے۔ اس رپورٹ کے انکشافات شروع شروع میں سب کو چونکاتے تھے مگر اب یہ رپورٹ بنانے اور پیش کرنے والوں اور فورم میں موجود ارب پتیوں کے لیے ایک روٹین سی بن کر رہ گئی ہے۔

اس سال کی رپورٹ کا خلاصہ کچھ یوں ہے؛ کووڈ کی وبا کے موسم میں منافع سازی کا ماحول اس قدر سازگار ثابت ہوا کہ گذشتہ ایک سال میں 573 نئے ارب پتی اس کلب میں شامل ہوئے یعنی اوسطاً ہر تیس گھنٹے میں ایک نیا ارب پتی! جبکہ انھی تیس گھنٹوں میں دس لاکھ سے زائد لوگ انتہائی غربت کے گڑھے میں جا گرے۔ دنیا کے دس امیر ترین لوگوں کے پاس دنیا بھر کے 40% غریب ترین لوگوں سے زائد دولت ہے۔

دنیا کے بیس امیر ترین لوگوں کے پاس جس قدر دولت ہے وہ ٓ افریقی صحارا کے وسیع عریض صحرا کے خطے میں تمام بسنے والوں سے بھی زائد ہے۔ اس خطے کا جغرافیائی حصہ دنیا بھر کی زمین میں 18% ہے ! اس تقابل کو ایک اور نظر میں یوں بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ دنیا کے نچلے معاشی پائدان پر کھڑے ایک مزدور کو دنیا کے امیرتین شخص کی ایک سالہ دولت کے حصول کے لیے 112 سال تک محنت درکار ہوگی ۔

دولت اور اندھے میں ایک قدر مشترک یہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے کو ہاتھ لمبے کر کر کے ملتے ہیں۔ فرانس کے معروف معیشت دان تھامس پِکٹی نے گذشتہ تین سو سال میں دولت کے بہاؤ اور جمع بندی کے طور طریقے دیکھ کر یہی نتیجہ اخذ کیا کہ زیادہ تر لوگ جائیداد اور دولت کی وراثت کے سبب نسل در نسل امیر رہتے ہیں۔

اپنی محنت سے کما کر ارب پتی بننے والوں کی تعداد نسبتاٌ کم ہے جبکہ دولتمند خاندان اور وراثتی تعلق مزید دولت سمیٹنے کا نظام خودکار ہے۔ اکثر سوال ہوتا ہے کہ ہم برآمدات میں کیوں پیچھے ہیں؟ معیشت میں ویلیو ایڈیشن کیوں نہیں؟ قرضوں پر تکیہ کیوں ہے؟ ٹیکس جی ڈی پی کا تناسب شرمناک حد تک کم کیوں ہے؟ بچتوں کی شرح اس قدر کم اور انڈسٹری کا پھیلاؤ محدود کیوں ہے؟ ان سوالوں کے جوابات میں کہیں نہ کہیں اس نظام کی تعمیر میں مضمر اس خرابی کی صورت نمایاں ہے۔

ہمارے ہاں سیاست اور ایلیٹ طبقے کی سب سے بڑی انڈسٹری رئیل اسٹیٹ ہے۔ ہر دو چار سال بعد ایک ایمنسٹی آجاتی ہے، سب کالا دھن وائیٹ ہو جاتا ہے۔ ایسے میں کون پاگل ٹیکس دے کر ایف بی آر کو پیچھے لگائے گا۔ کون انڈسٹری لگا کر جان ہلکان اور زندگی عذاب کرے جب کہ رئیل اسٹیٹ سے دن دوگنی رات چوگنی دولت سمیٹی جا سکتی ہے۔

حیرت نہیں ہوتی کہ اس معاشی نظام کے ساتھ ہر دو چار سال بعد قرضوں کا بحران پیدا ہوتا ہے۔ غریب اس بحران کی قیمت ادا کرتے ہیں، چاہے ڈالر روپے کی شرح مبادلہ ہو، افراطِ زر ہو، بے روزگاری ہو، بے گھر رہنے کا عذاب ہو یا مسلسل بڑھتے کرایوں کا کرب، بجلی اور گیس کے مسلسل بڑھتے بلوں کا بھاری بوجھ یا آٹے دال کا بھاؤ۔پاکستان میں بھی غریب اور غربت کی تعداد اسی نسبت سے بڑھ رہی جس کی طرف آکسفوم کی رپورٹ میں ذکر ہے۔

ایک طرف رئیل اسٹیٹ کی فائلیں روزانہ اربوں روپے کما رہی ہیں جبکہ دوسری طرف غربت کا عالم دیکھنے کا نہ دکھانے کا۔ حکمران ایلیٹ کے مسائل اور ترجیحات سب کے سامنے ہیں، کسی کو نیب کے قوانین میں ترنت تبدیلی درکار ہے تو کسی کو الیکشن ریفارمز کے ذریعے اپنے اقتدار کا سنگھاسن بچانا ہے ، کسی کو فوری الیکشن درکار ہے چاہے کچھ بھی ہو۔ غریب کا نام سب جپتے ہیں مگر اس کے لیے کچھ کرنے کا وقت اور دلچسپی کسی کے پاس نہیں۔ بقول ایک ماہر معیشت اس دنیا میں غربت سب سے بڑا دھندا ہے ! سو جناب! یہاں وہاں دنیا میں سب جگہ یہ دھندا جاری و ساری تھا ، ہے اور شاید ہمیشہ جاری رہے گا !

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے