نیب قوانین میں ترامیم

علی احمد ڈھلوں  جمعـء 3 جون 2022
ali.dhillon@ymail.com

[email protected]

مشہور محاورہ یا ضرب المثل ہے کہ ’’ہر بڑی دولت کے پیچھے کوئی نہ کوئی جرم ہوتا ہے۔‘‘ یہ کہاں تک سچائی ہے، اس کا تو پتہ نہیں، البتہ اس محاورے کو یوں لکھا اور پڑھا جائے تو زیادہ جامع ہوگا، کئی دولت مندوں کی امارت کرپشن اور جرم پر قائم ہوتی ہے۔

ایسے لوگ دولت تو بنا لیتے ہیں لیکن یہ کالا دھن ہوتا ہے، اسے چھپانے یا سفید کرنے کے لیے وہ مختلف قانونی اور غیرقانونی حربے استعمال کرتے ہیں، کبھی اپنی دولت بحری راستوں کے ذریعے بیرون ملک شفٹ کرتے ہیں، کبھی ہنڈی کا طریقہ استعمال ہوتا ہے، کبھی اپنے رشتہ داروں کے اکاؤنٹس میں رقم چھپاتا ہے، کبھی ذاتی ملازمین کے نام اکاؤنٹ کھلوا کر رقم جمع کرا دیتا ہے۔

یوں ٹیکس عملے کے تعاون سے اپنے کالے دھن کو سفید اور پاک بنانے میں کامیاب ہوجاتا ہے لیکن کبھی کبھی کوئی صاحب قانون کے شکنجے میں بھی آجاتا ہے۔ کبھی وہ اینٹی کرپشن کی طرف سے بلایا جاتا ہے، کبھی ایف آئی اے کی طرف سے اور کبھی قومی احتساب بیورو (نیب) کے ریڈار پر آ جاتا ہے۔ اینٹی کرپشن اور ایف آئی اے کی تو پرواہ بھی نہیں ہوتی مگر نیب قوانین سخت اور یکطرفہ ہیں اس لیے نیب کو سنجیدہ لیا جاتا ہے۔

نیب آرڈیننس 1999میں لایا گیا، تب سے لے کر اب تک اس میں 4مرتبہ تبدیلیاں اور شقوں کا اضافہ کیا گیا ہے۔ موجودہ حکومت نے بھی نیب ترامیم کی طرف قدم بڑھایا ہے۔ اس مرتبہ نیب قوانین میں 31ترامیم کی گئی ہیں، یعنی احتساب کا آدھا قانون ہی بدل دیا گیا ہے۔

اس میں نیب قانون شق 21 ختم کر دی ہے جس سے درجنوں کیسز غیر متعلق ہو کر رہ جائیں گے۔ موجودہ سیاستدانوں پر 90فیصد سے زائد مقدمات ختم ہو جائیں گے۔ اب ہوگا یوں کہ جو حکومت بھی آئے گی وہ نیب قوانین میں مرضی کی ترامیم کرے گی اور اپنی مدت پوری کرے گی، یا مخالفین پر نت نئے کیسز بنائے گی۔

ان ترامیم میں کرپشن کیسز میں نااہلی 10 سال کے بجائے 5سال کے لیے ہوگی اور 5 سال بعد الیکشن لڑا جاسکے گا۔ کرپشن کیس میں سزا پر اپیل کا حق ختم ہونے تک عوامی عہدے پر فائز رہا جاسکے گا۔ 5سال سے زیادہ پرانی ٹرانزیکشن یا اقدام کے خلاف نیب انکوائری نہیں کرسکے گا، بار ثبوت ملزم کے بجائے نیب کو فراہم کرنا ہوگا ورنہ انکوائری شروع نہیں ہوسکے گی۔

نئی ترامیم میں نیب کا ملزم کو گرفتار کرنے کا اختیار ختم کر دیا گیا ہے اور اب عدالت کی منظوری سے نیب ملزم کو گرفتار کرسکے گی۔ نئی مجوزہ ترمیم کے تحت وزیراعظم، کابینہ ارکان اور کابینہ کمیٹیوں کے فیصلوں پر نیب کارروائی نہیں کرسکے گا جب کہ زیر التوا انکوائریاں اور انڈر ٹرائل مقدمات احتساب عدالت سے متعلقہ اتھارٹیز کو منتقل ہوں گے۔ ترمیم کے ذریعے نیب آرڈیننس کی 7 شقیں ختم کردی جائیں گی۔

ایک اہم ترمیم جو نیب آرڈیننس میں تجویز کی گئی، بہت حیران کن ہے۔ اس کے مطابق نیب قوانین کے ترمیمی بل کا اطلاق جنوری 1985کے قوانین کے تحت ہو گا جب کہ حقیقت یہ ہے کہ نیب کا ادارہ 1999 میں قائم ہوا تھا اور یہ قوانین اس وقت بنائے گئے تھے۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ نیب لاء کے سیکشن چار میں کی گئی ترمیم کے ذریعے وفاقی اور صوبائی کابینہ، ایکنک یا کسی بھی ریگو لیٹری اتھارٹی کی جانب سے کیے گئے فیصلوں اور ٹھیکوں کو نیب کے دائرہ اختیار سے باہر کھینچ لیا گیا ہے ۔

بھارت میں احتسابی ادارے سی بی آئی کے قوانین 1982 سے لاگو ہیں، ان قوانین میں ترمیم کی کبھی ضرورت ہی نہیں پڑی جب کہ پاکستان میں جو حکومت آتی، وہ اپنے ایجنڈے کے مطابق کوئی نیا ادارہ قائم کر دیتی ہے اور اپنی مرضی کے قواعد وضوابط طے کرتی ہے جسے پارلیمنٹ کے ارکان بغیر پڑھے منظور کرلیتے ہیں۔

نومبر 1999 میں قومی احتساب بیورو (نیب) قائم ہوا تو مجھ جیسے کئی سادہ لوح افراد نے سمجھ لیا کہ اب سب ٹھیک ہوجائے گا کیونکہ اس ادارے کو آئینی تحفظ دیا گیا تھا تاکہ کوئی حکومت اسے دباؤ میں نہ لا سکے۔

آئین کی نظر میں چونکہ تمام شہری برابر ہیں لہٰذا یہ امید برحق تھی کہ نیب بھی تمام پاکستانیوں کو اسی آئینی نگاہ سے دیکھے گی۔ نیب کی عقابی نگاہوں سے کوئی محمود و ایاز نہیں بچ پائے گا اور کسی حکمران میں جرات نہیں ہوگی کہ وہ نیب کے عہدیداروں کو ڈکٹیشن دے سکے۔ لیکن یہ سادہ لوح کی امیدیں تھیں جنھوں نے نیب کے قوانین کا کبھی گہرائی سے تجزیہ ہی نہیں کیا تھا۔ نیب قوانین انصاف کے فلسفہ اور روح کے خلاف تھے۔

نیب افسروں کو احتساب سے باہر رکھ کر انھیں یکطرفہ اختیارات سونپ دیے گئے تھے۔ اس وجہ سے نیب میں سیاست کا عمل دخل بڑھنے لگا تھا۔ پھر ہم نے خود اس ادارے کو متنازعہ بنتے دیکھا۔ کبھی پلی بارگین ہونے لگی کبھی من پسند افراد کا احتساب تو کبھی منتخب افراد کو احتساب میں چھوٹ!

اب یہ ادارہ اینٹی کرپشن اور ایف آئی اے کی طرح ’’ہومیو پیتھک‘‘ بن چکا ہے۔ اگر نیب کو بھی اسی قسم کا ادارہ بنا دیا گیا ہے تو پھر زیادہ بہتر یہ ہے کہ ختم کردیا جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔