پھر تیرا ہی سنگِ آستاں کیوں ہو؟

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 3 جون 2022
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

ہمارے سابق محبوب وزیر اعظم جناب عمران خان خیبر پختونخوا کے صوبائی دارالحکومت میں پشوریوں اور پٹھانوں کی مہمان نوازی سے خوب لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ اُن کے جملہ حریف مگر انھیں مطعون کر رہے ہیں کہ خان صاحب کو بہادری سے پشاور کے بجائے اسلام آباد کے اپنے محل نما اور پُر شکوہ گھر میں قیام کرنا چاہیے ۔

حکومت سے محرومی کے بعد ’’گریٹ خان ‘‘کو اپنے افسردہ اور دل گرفتہ کارکنوں کی حوصلہ افزائی کے لیے لاہور، ملتان، فیصل آباد، سیالکوٹ اور اسلام آباد میں پوری تندہی اور جرأت کے ساتھ موجود رہنا چاہیے تھا۔ ایسا مگر نہیں ہو سکا ہے۔

اس منظر نامے نے اُن کے کارکنوں کے حوصلے بھی پست کیے ہیں اور وہ دلبرداشتہ بھی ہُوئے ہیں۔ یہ درست ہے کہ 25مئی کے احتجاجی مظاہرے نے کپتان کو بجا طور پرمایوس کیا ہے لیکن کپتان نے تو کبھی ہارنا سیکھا ہی نہیں تھا۔ اب مگر کیا ہوگیا ہے؟

کیوں ولولوں اور جوش پر اوس پڑ گئی ہے؟ اقتدار سے محرومی اور احتجاج میں واضح ناکامی کے بعد اُن کا پشاور میں فروکش ہونا دراصل وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ خان کے حوصلوں کو مزید تازگی بخش گیا ہے۔ آجکل رانا صاحب خاصے متحرک ہیں۔

جناب عمران خان کے پشاور میں قلعہ بند ہونے سے پی ٹی آئی کو کئی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اسلام آباد اور پارلیمنٹ سے خان صاحب کی غیر حاضری نے وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت کے پاؤں مضبوط کیے ہیں۔ اب اتحادی حکومت کے پاؤں میں لڑکھڑاہٹ نظر نہیں آتی۔

آئی ایم ایف ہمارے وزیر خزانہ، مفتاح اسمعیل، کے دلائل سمجھ رہا ہے۔ وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف صاحب کی سعودی عرب، یو اے ای اور ترکی میں جو خاطر مدارات ہوئی ہیں اور انھیں جس پروٹوکول سے نوازا گیا ہے، پاکستان اور ترکی کے درمیان جو 7تعاون کے سمجھوتے ہُوئے ہیں، ان مناظر سے یقیناً خان صاحب اور اُن کے حواریوں کے سینے سلگ رہے ہوں گے۔

پاکستان کے حق میں مگر یہ مناظر حوصلہ افزا ہیں۔ ترکی میں جناب شہباز شریف کو ترک صدر، جناب طیب اردوان، نے جس محبت و اکرام سے خوش آمدید کہا ہے، اس نے دونوں ممالک کے عوام کو بھی مسرت بخشی ہے اور باہمی قربتوں میں اضافہ بھی ہُوا ہے۔ ہمارے نوجوان وزیر خارجہ، جناب بلاول بھٹو زرداری، کے امریکا، ڈیووس اور ترکی کے دَورے بھی کامیاب رہے ہیں۔

خان صاحب اور مکرمی صدرِ مملکت کی پیدا کردہ متعدد رکاوٹوں کے باوصف پنجاب میں نیا گورنر بھی آ چکا ہے اور پنجاب میں نئی کابینہ بننے کے بعد وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز کی حکومت سازی کا عمل بھی مکمل ہو گیا ہے۔ یہ حکومتی کامیابیاں خان صاحب کی توقعات کے قطعی برعکس ہیں۔

وہ اب بھی پُراُمید ہیں کہ یہ حکومت بس چند دنوں کی مہمان ہے۔ حالات مگر یکسر مخالف سمت میں رواں ہیں۔ اعلان کے باوجود جناب عمران خان کے دوسرے احتجاج کی تاریخ سامنے نہیں آ سکی ہے۔

پنجاب میں پی ٹی آئی کے اہم ترین لیڈروں نے خان کا دل توڑ دیا ہے۔ اور اب تو یوں بھی محسوس ہو رہا ہے جیسے قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے کئی ارکان پھر سے رونقیں لگانے کے لیے کمر کس رہے ہیں۔ اسپیکر پنجاب اسمبلی، چوہدری پرویز الٰہی، کا تازہ ترین بیان ایسے ارکانِ قومی اسمبلی کی باطنی خواہشات کی ترجمانی کر رہا ہے۔ یوں شہباز شریف کی قیادت میں بننے والی اس اتحادی حکومت کے حوصلے اور اعتماد بلند ہُوئے ہیں ۔

اعتماد کا اندازہ اِس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ یکم جون 2022 کو جناب خان کا دھمکی آمیز چیلنج ختم ہو رہا تھا اور خان صاحب کے سب سے بڑے سیاسی حریف، شہباز شریف، اطمینان سے ترکی کے سرکاری دَورے پر تھے ۔

مرکزی حکومت کے اطمینان اور اعتماد اُن انٹرویوز اور پریس کانفرنسوں سے بھی جھلک اور چھلک رہے ہیں جس اعتماد سے ہماری وزیر اطلاعات، محترمہ مریم اورنگزیب، اور وزیر داخلہ، رانا ثناء اللہ، میڈیا کے سامنے پیش ہو رہے ہیں۔

پنجاب حکومت کے نئے نئے ترجمان، جناب عطاء اللہ تارڑ، بھی جس پُر اعتماد لہجے کے ساتھ اخبار نویسوں کا سامنا کر رہے ہیں، وہ اس امر کا غماز ہے کہ ہمیں اب کوئی جلدی نہیں ہے اور نہ ہی ہم اب کمزور ہیں۔ یہاں تک تو بات درست ہے۔

سوال مگر یہ ہے کہ حکومت کی مبینہ کامیابیوں کے باوصف اِس نئی حکومت سے عوام کو کیا ریلیف ملا ہے؟ یا مل رہا ہے؟ مہنگائی اور گرانی کا طوفان بدستور جاری ہے اور مسلسل بجلیاں گرا رہا ہے۔ آٹا اور بجلی کی قیمت کنٹرول سے باہر اور غریب عوام کی دسترس سے ہنوز دُور ہے۔

ابھی دو دن پہلے گھی اور کوکنگ آئل کی قیمتوں میں 200سے 300روپے فی کلو اضافہ ہُوا ہے۔ غریب عوام کی ایک بار پھر کمر توڑ دی گئی ہے۔ اور حکومتِ پنجاب کے ترجمان پریس کانفرنس میں محض یہ کہہ کر آگے بڑھ جاتے ہیں کہ ’’عنقریب گھی اور کوکنگ آئل کی قیمتوں میں بھی کمی کریں گے۔‘‘ اس لاپروا لہجے کی داد دینی چاہیے ۔

گھی اور کوکنگ آئل کی قیمتوں میں یکمشت اس قدر اضافہ؟ عوام بجا طور پر پوچھتے ہیں کہ اگر یہی ظلم ڈھانا تھا تو عمران خان صاحب کی حکومت اور اُن کے وزرا کیا عوام کو ڈستے تھے؟ اور نئے وفاقی وزرا کا حال یہ ہے کہ معمولی معمولی کانفرنسوں میں شرکت کے لیے غیر ملکی دَوروں پر جا رہے ہیں۔ ایک وفاقی وزیر سوئزر لینڈ میں مزے لے رہے ہیں اور دوسرے وفاقی وزیر برطانیہ میں مبینہ طور پر گلے کا آپریشن کروا رہے ہیں۔

اور وزیر اعظم صاحب پچاس، پچاس افراد پر مشتمل وفد کے ساتھ ترکی گئے ہیں۔ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ ایک بلین ڈالر کے قرض کے حصول کے لیے آئی ایم ایف کے سامنے ناک رگڑی جا رہی ہے اور دوسری طرف ان غیر ملکی دَوروں پر بھاری اخراجات کیے جا رہے ہیں۔ عوام مہنگائی سے بلک رہے ہیں اور حکمرانوں کے مہنگے غیر ملکی دَورے رکنے کا نام نہیں لے رہے۔ یہ مناظر غریب اور بے بس عوام کے سینے پر چھریاں چلاتے ہیں۔

غریب عوام سے پھر قربانیاں دینے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ ہر قسم کا حکمران طبقہ مگر اپنی کوئی بھی سرکاری مراعات کم کرنے یا چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ عوام اپنا ننگ چھپانے کے لیے کفن بھی پہن رہے ہیں لیکن ننگ پھر بھی چھپنے کا نام نہیں لے رہا ۔

چینی اتنی مہنگی ہے کہ غریب عوام اس قاتل گرمی میں لیموں پانی پینے سے بھی محروم ہیں اور دوسری طرف ہماری اشرافیہ اور حکومت میں شامل متعدد وزیر اپنے چینی کے کارخانوں میں پڑی ٹنوں چینی ایکسپورٹ کرنے کے لیے حکومت پر دباؤ ڈال رہی ہے۔ حکومت میں شامل سرمایہ داروں کے یہی ہتھکنڈے عمران خان کی حکومت میں بھی جاری تھے۔ اب بھی جارہی ہیں۔

پھر فرق کیا اور کہاں پڑا ہے؟ ملک کا غریب کل بھی حکومت اور سرمایہ داروں کا دستِ نگر تھا، آج بھی ہے۔ تحقیقات سامنے آئی ہیں کہ خان کی حکومت میں طاقتور اور مقتدر اشرافیہ تمام سرکاری ملازمتیں اپنے قریبی عزیزوں میں بانٹ رہی تھی۔ یہ منظر اب بھی جاری ہے۔ پھر اس ملک کا غریب کہاں جا کر اپنا سر پھوڑے؟ پھر یہ نئے حکمران عوام کے محبوب کیوں ٹھہریں؟ وفا کیسی کہاں کا عشق جب سر پھوڑنا ٹھہرا/ تو پھر اے سنگدل تیرا ہی آستاں کیوں ہو ؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔