تین آدمی اور ایک ریاست

سعد اللہ جان برق  جمعـء 3 جون 2022
barq@email.com

[email protected]

کہتے ہیں کہ امریکا کا ایک بہت بڑا سرمایہ داربرطانیہ گیا ہوا تھا، پھرتے پھراتے وہ ایک خوبصورت پارک میں چلاگیا، وہاں کے دیوقامت پیڑ، پھولوں سے لدی کیاریاں اور دوسری خوش نما چیزیں دیکھ کر متاثر ہوا تو دل میں خیال آیا کہ اگر ایسا ہی پارک واپس جاکر میں امریکا میں بناؤں تو بڑا شہرہ ہوجائے گا۔

چنانچہ وہ پارک میں کام کرنے والے ایک مالی کے پاس گیا اور اس سے پوچھا کہ اگر میں ایسا ہی پارک امریکا میں بناؤں تو اس پر کتنی لاگت آئے گی۔ بوڑھے مالی نے رقم بتائی مثلاً دو کروڑ پونڈ یا ڈالر اور آخر میں کہا یعنی اتنے ڈالر، پونڈ اور چارسو سال۔

امریکی سرمایہ دار چونک گیا، چار سو سال؟ مالی نے کہا، ہاں! چار سال اس لاگتی رقم سے کہیں زیادہ ضروری ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ کچھ چیزیں رقم کے علاوہ قیمت بھی رکھتی ہیں بلکہ بہت بھاری قیمت رکھتی ہیں۔

آگرہ کے تاج محل سے اچھی عمارت لندن، پیرس، نیویارک، بیجنگ اور ٹوکیو میں بنائی جاسکتی ہے لیکن وہ عمارت تو ہوگی، قیمتی بھی ہوگی لیکن تاج محل نہیں ہوگی، اسی طرح دلی کا قطب مینار، لال قلعہ، شاہی مسجد اور اس کے علاوہ پیرس کا ایفل ٹاور، واشنگٹن کا مجسمہ آزادی اور بھی بہت کچھ ہیں جو اپنی جگہ انتہائی اچھی اور قیمتی ہیں۔

کچھ عرصہ پہلے بھارت کی ایک مذہبی شخصیت بابا رام رحیم کا قصہ میڈیا میں آیا تھا، بابا کے ساتھ اور بہت سارے محیرالعقول انکشافات کے علاوہ یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ اس نے ایک جگہ دنیا کے سات عجائبات کی طرز پر سات لگژری اور سیون اسٹار ہوٹل بھی بنوائے جن میں اس کے پیروکار اور عقیدت مند آکر ٹھہرتے اور مذہبی رسومات کی ادائیگی کرتے تھے اور بھی بہت کچھ تھا مثلاً وہ اپنے آشرم میں سبزیاں بھی کاشت کرتا تھا اور یہاں کی لوکی، کدو دوہزار، ٹماٹر 500 اور پیاز 200 روپے فی کلو گرام میں بک جاتے تھے، مزے کی بات یہ ہے کہ وہ مذہبی اور روحانی بابا بھی تھا اور رقص و موسیقی کا شیدا بھی تھا، بعض اوقات اپنے پیرو کاروں کے ہمراہ اپنی منہ بولی بیٹی ہرپریت کے ساتھ بھی ڈانس کرتا اور گانا گاتا تھا اور اکثر یہ گانا گاتے تھے۔

بھول گیا سب کچھ۔یاد نہیں اب کچھ

اک تیری یاد نہیں بھولی ۔اورمری جوتی

خیر یہ تو بڑے تفصیلی قصے ہیں، ایسے بابے بھارت میں بے شمار ہیں جو ہمارے ہاںکی طرح دھرم اور دھارمک چیزیں بیچتے ہیں اورہزاروں، لاکھوں ’’اسٹوپڈ‘‘ ان کے ساتھ ناچتے جھومتے ہیں، ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر یہ سب کچھ دھڑلے سے ہوتا ہے جو ایک سیانے کے اس قول زریں کی تفسیر ہوتے ہیں کہ اگر دنیا میں احمق نہ ہوتا تو عقل مند فاقوں سے مرجاتے اور یہ زندگی کے ہر شعبے میں ہو رہا ہے، یہاں بھی اور وہاں بھی ندا فاضلی کی ایک غزل یاد آئی، اس کے چند شعربھی سن لیجیے۔

انسان میں حیوان، یہاں بھی ہے وہاں بھی

اللہ نگہبان، یہاں بھی ہے وہاں بھی

ہندوبھی مزے میں ہے، مسلمان بھی مزے میں

انسان پریشان، یہاں بھی ہے وہاں بھی

خون خوار درندوں کے فقط نام الگ ہیں

شہروں میں بیابان، یہاں بھی ہے وہاں بھی

ہمیں احساس ہے کہ بات ہم سے پھسل کر کسی اور طرف نکل گئی ہے، اس لیے اپنے موضوع کی طرف لوٹتے ہیں اور موضوع چلتے چلتے اسی مقام پر پہنچے گا کہ پندرہ صدیاں قبل سرزمین عرب کے مقام پر ایک ریاست مدینہ بنی تھی، یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ ریاست مدینہ ایسے ہی نہیں بنی تھی، کوئی آیا، اعلان کیا اور ریاست بن گئی، اس کے لیے پہلے ﷲ نے اپنے مقرب ترین رسول کو بھیجا، رسول اللہ نے بے شمار تکالیف سہیں، انھیں پتھر مارے گئے.

ان کے جسم اطہر سے خون بہایا گیا، ان پر عرصہ حیات اس درجے تنگ کر دیا کہ اپنے عزیز وطن کو چھوڑ کر پانچ سو کلومیٹر دور یثرب (مدینہ) ہجرت کرنا پڑی، عسرت کی زندگی بسر کرنا پڑی، ہر قسم کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں اور پھر کہیں جاکر ریاست مدینہ کا قیام عمل میں آیا‘ یہ ریاست مدینہ انسانیت کے لیے ہمیشہ مشعل راہ اور ماڈل رہے گی۔

اب بھلا کوئی دنیا دار سیلبریٹی اور اقتدار پرست اچانک سامنے آئے اور دعویٰ کرے کہ میں پاکستان کو ریاست مدینہ بناؤں گا اور اس میں ایک بھی نشانی ایسی نہ ہو جو ریاست مدینہ کی شان کے مطابق ہو۔ کیا اس قسم کے دعوے پر یقین کیا جاسکتا ہے، ویسے ان صاحب سے ایک غلطی ہوگئی کہ اگر وہ اپنے دعوے کے ساتھ ’’نیو‘‘ لگا کر سیاست کرتے تو ان کے لیے زیادہ اچھا رہتا اور وہ سادہ لوح پاکستانیوں کو برسوں تک ٹرک کی بتی کے پیچھے لگائے رہتے۔ مثلاًنو…شہرہ، نواںگئی، نیو… یارک، نیو…جرسی، نیو…انگلینڈ،نیو…گنی اور نیو پاکستان یا نیا پاکستان لیکن یہاں تو یہ تکلف بھی نہیں کیا گیا۔

تین آدمی بٹھائے گئے، ڈاکٹر، پروفیسر، علامہ طاہرالقادری، بابا رحمتے عرف بابا جی ڈیموں والے اور وہ ’’امیرالمومنین‘‘ جو ابھی تک جن کا تنخواہ میں گزارہ نہیں ہوتا، اور انھوں نے اصلی ریاست مدینہ راتوں رات قائم کرنے کا اعلان کر دیا۔ تائید کرنے والے بھونپوؤں کا تو پیشہ ہی خوشامد، چاپلوسی آفرین آفرین کی گردان کرنا ہے ، مالک کا اشارہ پا کر بینگن کھانے کے ایسے ایسے فوائد اور چمتکار بیان کریں گے کہ حکما و طبیب ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوجائیں اور جیسے ہی مالک نے ناگواری ظاہر کی تو بینگن کی وہ ماں بہن کریں گے کہ شرم بھی شرمندہ ہوجائے۔ یہی نوکری پیشہ خوشامدی کسی بھی دنیا دار سیاسی لیڈر کے زوال کا سبب بنتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔