ادھورا سچ کب تک؟

رئیس فاطمہ  بدھ 5 مارچ 2014

صرف ادھورا سچ کیوں۔۔۔؟۔۔۔ وہ بھی سات پردوں میں لپیٹ کر؟ آخر کب تک؟ جہاں تک قلم کاروں کا تعلق ہے۔ ان کی زبانیں بھی بند کی جاسکتی ہیں۔ اور قلم کے ساتھ انگلیاں بھی توڑی جاسکتی ہیں۔۔۔کہ کھرا سچ ہمیشہ سے موت کی دستک بھی ساتھ لے کر آتا ہے۔۔۔ لیکن سچائی کا دامن تھامنے والے اپنی تربیت، وراثت اور اپنے ضمیر کے آگے سرخرو ہوکر عموماً دار کی سبز ٹہنیوں پہ اپنے سر ٹنگوانے کی سنگین حقیقت سے واقف ہوتے ہیں۔ پھر بھی سر نہیں جھکاتے۔ لیکن ایسا صرف ان کے ساتھ ہوتا ہے جن کے سر پہ کسی سیاسی، مذہبی جماعت یا کسی خفیہ ایجنسی کی مخصوص ٹوپی نہیں ہوتی۔ البتہ وہ خوش نصیب تجزیہ نگار اور قلم کار جو مخصوص ایجنڈوں کو آگے بڑھانے کے لیے سیاہ کو سفید کرنے کا اعلیٰ ہنر جانتے ہیں، خواہ وہ قصیدہ نگاری ہو یا مرثیہ گوئی، وہ اس سے مستثنیٰ ہیں۔

کیونکہ وہ جن مقتدر اور متمول ٹھیکیداروں کے حسب منشا اپنے قلم اور ہنر کا استعمال کرتے ہیں وہ ان کی حفاظت کا ذمہ بھی لیتے ہیں۔ بیرون ملک دوروں میں بھی اپنے ہمراہ لے جاتے ہیں۔ البتہ ہر طرح سے خسارے میں رہتا ہے وہ جو جھوٹ کو جھوٹ کہتا ہے مگر جھوٹ کو سامنے نہیں لاسکتا کہ اس کے ہاتھ بندھے ہوتے ہیں، منہ پر تالے لگا دیے جاتے ہیں۔ لیکن جمشید دستی ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ وہ تو کسی سے خائف بھی نہیں۔ اور پھر وہ تو پھر ایم این اے بھی ہیں۔ وہ ادھورا سچ لے کر کیوں میڈیا کے سامنے آئے؟ پارلیمنٹ لاجز اسلام آباد میں کیا کچھ ہوتا ہے، اور ہوتا رہا ہے، اس سے وہ بھی بخوبی واقف ہیں جن کا وہاں کبھی کبھار جانا ہوتا ہے۔ جمشید دستی نے جو انکشافات کیے ہیں وہ پاکستانی سیاست میں کوئی نئی بات نہیں۔

جنرل رانی جس کا اصل نام تو اقلیم اختر تھا لیکن وہ یحییٰ خان کی منظور نظر ہونے کی وجہ سے جنرل رانی کہلاتی تھیں۔ بلیک بیوٹی جو ایک بنگالی حسینہ تھی، سیاہ دراز زلفوں کی مالک، جس کی گھنیری زلفوں میں ایک عوامی لیڈر پناہ لیتا تھا۔ حمودالرحمن کمیشن رپورٹ میں اور بھی بہت سی خواتین کے نام پائیں گے۔ جنھوں نے سیاست دانوں، صدور اور وزرائے اعظم کی خلوتوں کو اپنی سریلی آوازوں اور دیگر خصوصیات سے آباد رکھا۔ باوجود خطروں کے صحافیوں اور رپورٹروں نے وہ تمام سچ ظاہر کردیا اور پبلک کو بتایا کہ دیکھو۔۔۔۔یہ ہیں ان کے اصل چہرے، شرافت کا ماسک لگائے، اصلی چہرے انتہائی بدنما۔

لوگوں کو وہ سلسلے بھی یاد ہیں، جب قومی و صوبائی اسمبلیوں میں اجلاس کے دوران عشقیہ خطوط ایک دوسرے کو دیے جاتے تھے۔ ہوٹلوں میں بلاکر دست درازی کی جاتی تھی ، اسمبلی کے ’’معزز‘‘ ممبرز کی ناشائستہ حرکات کا نوٹس لینے پر اگر پارٹی لیڈر اس کے خلاف نوٹس لینا چاہتا تھا تو ووٹ کٹ جانے کی بنا پر ’’ہاتھ ہولا‘‘ رکھنے کی صلاح دی جاتی تھی۔ کہ پاکستانی سیاست آج تک برادری سسٹم میں جکڑی ہوئی ہے۔ بڑے سے بڑا قومی مجرم محض برادری کا حصہ ہونے کی وجہ سے صدر اور وزیر اعظم کو اپنی سپورٹ ختم کرنے کی دھمکی دے کر ناکوں چنے چبوا سکتا ہے۔

لیکن جمشید دستی کا پس منظر تو جاگیردارانہ نہیں ہے۔ اسی لیے وہ جو کچھ پارلیمنٹ لاجز میں ہو رہا ہے وہ برداشت نہیں کرپائے۔ لیکن انھیں پورا سچ بولنا چاہیے تھا، ادھورا سچ معتبر نہیں ہوتا۔ انھوں نے اگر صدر اور وزیر اعظم کی توجہ مبذول کرانے کے لیے یہ راستہ اختیار کیا ہے تو انھیں عوام کو وہ نام بھی بتا دینے چاہئیں جو بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔ کیونکہ مجھے یقین ہے کہ وہاں کچھ ایسے بھی ہوں گے جن کا ان خرافات سے کوئی واسطہ نہیں۔ لیکن دامن تو ان کے بھی الزامات کی چھینٹوں سے داغدار ہو رہے ہیں۔ اس لیے انھیں چاہیے کہ برملا ان ارکان پارلیمنٹ کا نام بتائیں جو پوری قوم کی عزت ملیامیٹ کر رہے ہیں۔ ہم کب تک ادھورے سچ کو برداشت کرتے رہیں گے۔ جمشید دستی صاحب وینا ملک اور اداکارہ میرا کی طرح وقتی دھماکے کرنے سے آپ کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا بلکہ بدنامی خود آپ کے گلے پڑجائے گی۔

یہ اوچھے ہتھکنڈے بدنام زمانہ اداکاراؤں ہی کے لیے رہنے دیجیے جو اپنی بقا کے لیے انھیں استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ آپ خود کو عوام کا نمایندہ کہتے ہیں۔ خوش قسمتی سے آپ کو سیاسی قیادت کی پشت پناہی بھی حاصل ہے تو کیوں نہ اس طاقت کا فائدہ اٹھاکر لوگوں کو سچ بتائیے۔ ہوسکتا ہے یہ کھرا سچ آپ کے لیے ’’پارس پتھر‘‘ بن جائے۔ مکمل سچ وہ نسخہ کیمیا ہے جو کسی کسی کے ہاتھ لگتا ہے۔ کوئی اسے ذاتی منفعت اور اقتدار کی دیگ کے حصول کے لیے استعمال کرتا ہے اور کوئی اللہ کا نیک بندہ جسے روز قیامت پہ یقین کامل ہے، جو اپنے نامہ اعمال میں صرف تہمتیں لے کر نہیں جانا چاہتا، وہ اپنے کردہ اور ناکردہ گناہوں کا بوجھ ایک سچ سامنے لاکر اتار پھینکتا ہے۔ آخر بدنصیب پاکستانی قوم کب تک ادھورے سچ سنتی رہے گی۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ نے بھی یہ سب کسی ذاتی مفاد کے لیے کیا ہو؟ اور اب اس کے ثمرات کے انتظار میں ہوں۔ بقول سودا:

گل پھینکو ہو اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی
اے خانہ برانداز چمن‘کچھ تو ادھر بھی

عام طور پر شعبدہ باز اور مفاد پرست لوگ جنھیں گمنامی کا خطرہ لاحق ہوتا ہے وہ اسی طرح کچھ پتھر پھینک کر ان شیشوں کے گھروں میں بیٹھنے والوں کو پتھر مارتے ہیں۔ جن کی آشیر واد اور گھٹنے چھونے سے انھیں بھی ان شیشے کے کمروں اور محلات کے کونے میں ان کے مویشی چرانے اور کتے نہلانے کا کام مل جاتا تھا۔ اور وہ چپ چاپ ’’محلات شاہی کے اسرار‘‘ جمع کرتے رہتے تھے تاکہ وقت آنے پر انھیں اپنی بقا کے لیے استعمال کرسکیں۔ لیکن وہ اس راز سے ہمیشہ بے خبر رہتے تھے کہ محلات شاہی کی دیواریں خواہ شفاف شیشوں ہی کی کیوں نہ ہوں۔ لیکن ان میں آئینے نہیں ہوتے۔ کیونکہ جاہ و منصب کا جادو وہ آئینہ ہے جو جب تک خود ہی چکنا چور نہ ہو۔ من پسند اور خوش کن مناظر دکھاتا رہتا ہے۔ جھوٹ کو سچ اور سچ کو سفید جھوٹ کر دکھانا اس جادوئی آئینے کا اصل کام ہے۔

اخبارات میں جمشید دستی کا یہ بیان نمایاں سرخیوں کے ساتھ جلوہ گر ہے کہ ’’رکنیت جاتی ہے تو جائے سچ بولنا نہیں چھوڑوں گا‘‘۔ خدا کرے وہ اپنی بات پہ قائم رہیں۔ پیر 3 مارچ کو انھیں اسپیکر قومی اسمبلی نے ثبوتوں کے ساتھ طلب کرلیا۔ یہ کالم جمعرات کو چھپے گا۔ خدا کرے اس وقت تک جمشید دستی اپنے بیان پہ قائم رہ کر کھرا سچ سامنے رکھ دیں۔ لیکن شاید ایسا ہو نہ سکے۔ کیونکہ باوجود اس کے کہ پارلیمنٹ لاجز کے ڈائریکٹر عشرت تاج وارثی کو ان کے عہدے سے ہٹاکر ڈائریکٹر مینٹی نینس لگا دیا گیا ہے اور ڈائریکٹر مینٹی نینس علی مراد کو ڈائریکٹر پارلیمنٹ لاجز بنا دیا گیا ہے۔ گویا احمد کی ٹوپی محمود کے سر اور محمود کی پگڑی احمد کے سر پہ رکھ کے قرض کفایہ ادا کردیا گیا ہے۔ کیا اس طرح سچ سامنے آسکے گا؟

جمشید دستی کی طرف سب کی نگاہیں لگی ہیں۔ کوئی تو ہو جو پورا اور کھرا سچ عوام کے سامنے لانے کی پہل کرے۔ لیکن پہلا پتھر کون پھینکے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔