سمجھ نہیں پایا، سردیوں میں آمد رک سی کیوں جاتی ہے، مضطر اکبر آبادی

غلام محی الدین  جمعرات 6 مارچ 2014
ممتاز شاعر، براڈ کاسٹر اور بچوں کے بھائی جان مضطر اکبر آبادی کی زندگی کا ورق۔ فوٹو : ایکسپریس

ممتاز شاعر، براڈ کاسٹر اور بچوں کے بھائی جان مضطر اکبر آبادی کی زندگی کا ورق۔ فوٹو : ایکسپریس

اسلام آباد:  لائق ہزار منزلت حضرتِ مضطر اکبر آبادی کی مٹی وہی ہے جس نے میر و غالب و نظیر پیدا کیے، ستمبر 1922 کو آگرہ کے محلہ سادات شاہ گنج میں پیدا ہوئے، ان کے والد محترم سید انتظار حسین نے اپنے اِس بیٹے کا نام سید ابو حامد رکھا۔ سید صاحب پولیس میں سب انسپکٹر تھے اور علاقے میں قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔

معروف شاعر ظفر اکبر آبادی، مضطر اکبر آبادی کے چھوٹے بھائی ہیں جو چند برس پہلے تک ملک کے ایک معروف انگریزی اخبار میں کام کرتے رہے۔ ضلع آگرہ کی تحصیل اعتماد پور کے سرکاری مڈل اسکول سے مضطر اکبر آبادی نے 1937 میں مڈل کا امتحان، پہلے اردو اور 1938 میں یہ ہی امتحان ہندی میں پاس کیا۔ اِس کے بعد ’’اردو اعلیٰ قابلیت‘‘ کا امتحان بھی 1938 میں ہی (یو پی سے) پاس کر لیا۔ 1939 میں فارسی میں ’’منشی‘‘ کا امتحان دیا اور 1940 میں گورنمنٹ ہائی اسکول آگرہ سے میٹرک کیا۔ اس زمانے میں میٹرک میں منشی پاس طلبہ کو صرف انگریزی کا امتحان دینا پڑتا تھا۔ میٹرک کے بعد دو سال میں ٹیچر ٹریننگ سرٹیفیکیٹ حاصل کیا اور آگرہ میونسپل بورڈ کے اسکول میں 21 روپے ماہانہ مشاہرے پر استاد بھرتی ہوگئے۔

اردو قابلیت کے امتحان میں میر، غالب اور دیگر اساتذہ کو پڑھتے پڑھتے ابو حامد، مضطر ہو گئے، شدہ شدہ شوق کی چنگاری آگ بن گئی۔ ان دنوں لاہور کی ادبی فضا خوب مہکی ہوئی تھی اور اس کے قصے افسانوی لگتے تھے، قصہ گو کچھ ایسے اسلوب میں بیان کرتے کہ نوجوان مضطر مسحور ہو کر رہ جاتے۔ پھر یوں ہوا کہ اس شہرِ طلسمات میں جاکر پتھر ہونے کا قصد کر ہی لیا، سو 1943 کے کی کسی رات چپکے سے سدھارتھ کی طرح سب کچھ تیاگ کر روانہ ہو لیے۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ اکہتر برس پہلے 21 روپے جیسی خطیر تن خواہ پرِکاہ کر دینا معمولی بات نہ تھی، وہ آج بھی اپنے کیے پر پشیمان نہیں، یہ ہی باعث ہے کہ اِس درویش مزاج گوشہ نشیں شاعر کا دل و جاں سے احترام کیا جاتاہے۔ وہ ان تخلیق کاروں میں سے ہیں جو ہمہ دم عالمِ شعر مین رہتے ہیں۔ ان کے ہاں روایتی اور جدید جمالیات کا ازحد حسین امتزاج ملتا ہے۔

مضطر اکبر آبادی کا پہلا شعری مجموعہ بعض وجوہات کی بناء پر بہت تاخیر سے 1998 میں ’’روپ دھنک‘‘ کے نام سے شائع ہوا، جس میں ان کی سات عشروں پر محیط ہنر مندی اور تازہ کاری کے اعلیٰ نمونے موجود ہیں

مضطر اکبر آبادی جب آگرہ سے لاہور پہنچے تھے تو ان کی عمر21 سال تھی۔ اُس زمانے کے لاہور کی، ادبی آب و ہوا، انہیں خوب راس آئی اور یوں وہ اردو کے معروف شاعر انجم رومانی کے قریب ہو گئے۔ یہاں پہنچ کر وہ علامہ تاجور نجیب آبادی کے پاس گئے اور بتایا کہ کام چاہیے جس پر انہوں نے بچوں کے رسالے ’’پریم ویکلی‘‘ کے نئے مالک بیلا رام کے نام خط لکھ دیا۔ یہ رسالہ پہلے خود علامہ صاحب نکالا کرتے تھے۔ بیلا رام نے خط پڑھ کر مضطر اکبر آبادی کو اپنے بیٹے سورج پرکاش نقاد کے ساتھ معاون ایڈیٹر رکھ لیا۔ لاہور کے انارکلی بازار میں دفتر تھا، وہاں سال بھر بچوں کی کہانیاں اور نظمیں لکھتے رہے اور بچوں کی بھیجی ہوئی چیزوں کی اصلاح کیا کرتے۔ اس کے بعد شیرانوالہ گیٹ میں واقع فیروز سنز کے شعبۂ تصنیف و تالیف سے منسلک ہو گئے۔ وہاں بھی بچوں کے ادب کی نگرانی پر مامور ہوئے۔

اُس عہد میں اِس ادارے کے بچوں کے رسالے ’’تعلیم و تربیت‘‘ کے ایڈیٹر انچارج مقبول انوار داؤدی ہوا کرتے تھے، مضطر صاحب نے ان کی نگرانی میں بچوں کے لیے بہت لکھا۔ پھر ماہ نامہ شاہکار سے وابستہ ہوئے، جو انجم رومانی نکالا کرتے تھے۔ وہاں سے دل بھرا تو بیرون لوہاری گیٹ کتابوں کی اشاعت کے ادارے ’’اردو بک سٹال‘‘ میں چلے گئے، یہ ادارہ ایک رسالہ ’’کتاب‘‘ کے نام سے شائع کرتا تھا، جس میں ہند بھر میں شائع ہونے والی کتابوں پر تبصرے ہوا کرتے تھے، مضطر صاحب نے یہ ذمہ داری سنبھال لی، تبصرے کے لیے بہت پڑھنا پڑتا تھا لیکن اوازار ہونے کے بہ جائے ان کی علم کی پیاس مزید بڑھ گئی۔ اِس رسالے کے ایڈیٹر قیوم نظر تھے، مضطر صاحب ان کے مدیرِمعاون تھے۔ تبصرے کا یہ کالم ’’رفتار کتب‘‘ کے نام سے بہت مقبول ہوا۔

1947 میں برصغیر تقسیم ہوا تو مضطر اکبر آبادی نے لاہور کو خیرباد کہ دیا اور راول پنڈی چلے آئے۔ یہاں آ کر کتب فروشی کو ذریعۂ معاش بنایا اور بازار تلواڑاں میں دکان کھول لی، آج راول پنڈی کے اِس بازار کے جس حصے کا نام اردو بازار ہے، وہ مضطر اکبر آبادی ہی کی برکت کا نتیجہ ہے۔

1950 کا برس تھا جب ریڈیو پاکستان نے راول پنڈی میں اپنی نشریات کا آغاز کیا، مضطر اکبر آبادی بہ طور اسکرپٹ رائیٹر اس سے منسلک ہو گئے۔ چوں کہ بچوں کے لیے بہت لکھ چکے تھے اس لیے ریڈیو انتظامیہ نے ان کو بچوں کے پروگرام کا انچارج مقرر کر دیا اور یوں وہ ملک بھر کے بچوں کے ’’بھائی جان‘‘ کے نام سے معروف ہو گئے۔ پورا پروگرام لکھنے، میزبانی اور پروڈیوس کرنے تک کے عمل سے ہر ہفتے خود گزرتے اور ہوتے ہوتے لاکھوں بچوں کے دل کی دھڑکن بن گئے۔ ان کی بچوں کے لیے لکھی ہوئی منظوم پہیلیوں نے اُس زمانے میں بے پناہ مقبولیت حاصل کی، بعد میں ان کی لگ بھگ ڈیڑھ سو پہیلیوں کا مجموعہ ’’بوجھو تو جانیں‘‘ کے نام سے شائع ہوا، اتنی ہی تعداد میں پہیلیاں ابھی ان کے پاس محفوظ ہیں۔ مضطر صاحب اپنی سبک دوشی (1982) تک اس پروگرام کے انچارج رہے۔

مضطر صاحب نے بتایا کہ اُس زمانے میں ہر ریڈیو اسٹیشن پر کوئی نہ کوئی بچوں کا بھائی جان، باجی یا آپی ہوتی تھی اور ایک وقت تو ایسا بھی آیا جب بچوں کی نانی اماں بھی متعارف کرائی گئیں۔

1967 میں مضطر اکبر آبادی صاحب اردو کے ایک موقر روزنامے کے لیے بچوں کے صفحے کے انچارچ مقرر ہوئے، وہاں بھی انہوں نے ’’بھائی جان‘‘ ہی کا نام برقرار رہا۔ بہت کم بچے ان کے اصل نام سے آگاہ ہیں، بہ قول ان کے ’’آج بھی بہت سے لوگ مجھ کو بھائی جان ہی کہ کر پکارتے ہیں‘‘۔

مضطر اکبر آبادی نے ریڈیو اور اخبار کے ذریعے لاکھوں بچوں کو لکھنا پڑھنا اور بولنا سکھایا اور دو تین نسلیں تیار کرکے پاکستان کے حوالے کیں۔ 1998 میں انہوں نے بچوں کے صفحے کی ادارت چھوڑی لیکن ایک نجی اسکول میں 1982 سے 2002 تک اردو کے نگران استاد کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔ ان کی بچوںکی نظموں کی کتاب ’’جگ مگ جگ مگ، جِھل مل، جِھل مل‘‘ اور کہانیوں کی کتاب ’’پریوں کے دیس‘‘ کے نام سے بچوں کے ادب کا قیمتی سرمایہ قرار دی جاتی ہیں، ’’سند باد کے سات سفر‘‘ کے نام سے بھی ان کی ایک کتاب بچوں میں بہت مقبول رہی۔ بچوں کے فیچر اور ڈراموں کی ان گنت تعداد اس کے علاوہ ہے، جو ریڈیوپاکستان پر30 سال سے زیادہ عرصہ تک نشر ہوتے رہے۔

مضطر اکبر آبادی کی غزلیات کا دوسرا مجموعہ ’’عکس جمال‘‘ 2013 میں شائع ہوا۔ تیسرا مجموعہ ’’گریۂ شب‘‘ کے نام سے اشاعت کا منتظر ہے، چوتھا مجموعہ تکمیل کے مراحل میں ہے لیکن اُس کا نام انہوں نے ’’خندۂ سحر‘‘ تجویز کر لیا ہے۔ غزل ان کی پسندیدہ صنف ہے تاہم نظم اور رثائی ادب میں بھی خاصا کام کرچکے ہیں، مضطر صاحب اسے ترتیب دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ حمد، نعت، مرثیہ، منقبت اور سلام لکھنے اور پڑھنے میں اللہ تعالیٰ نے ان کو جو صلاحیت عطا کی ہے ان ہی کا حصہ ہے۔

1938 میں مضطر اکبرآبادی نے جب ’’اردو اعلیٰ قابلیت‘‘ کے امتحان کی تیاری شروع کی تو میر، ذوق، مومن اور آتش کے کلام نے ان کے اندر شعر کہنے کی تحریک پیدا کر دی تھی، ان اشعار کی اصلاح وہ محلے کے ایک استاد شاعر مصطفیٰ اکبر آبادی سے لیتے تھے۔ آگرہ سے لاہور چلے آئے تو یہاں احباب کی محفلوں نے ان کی اصلاح اور تربیت کا بیڑا اٹھا لیا۔ احباب میں انجم رومانی اور یوسف ظفر ان کے زیادہ قریب رہے لیکن ناصر کاظمی، شہرت بخاری اور قیوم نظر سے بھی ان کی دوری نہ تھی۔ پھر جب راول پنڈی آئے تو باقی صدیقی سے دوستی ہوگئی، اختر ہوشیار پوری، تجمل حسین اختر، مہر اکبر آبادی اور نظم اکبر آبادی سے بھی قربت رہی لیکن راول پنڈی کے ایک بزرگ شاعر نواب اشک رام پوری کے وہ خاص طور پر عقیدت مند تھے۔ نواب اشک نے راول پنڈی میں1948 میں ’’حلقۂ یاراں‘‘ قائم کرلی تھی، یہ بزم اب تک مشاعروں کا اہتمام کرتی ہے۔

’’حلقۂ یاراں‘‘ بھی مضطر اکبر آبادی کی ایک پہچان ہے، پہلے پہل اِس بزم کے زیراہتمام نواب اشک کے ہاں پرانے قلعے میں مشاعرے ہوتے تھے، پھر یہ مشاعرے امام باڑہ محلے میں برپا ہونے لگے، اُس کے بعد تجمل حسین اختر صاحب کے گھر میں 22 سال تک ان مشاعروں کی محافل منعقد ہوتی رہیں، ان کے بعد حلقۂ یاراں کے مشاعرے صدر چوہدری عبدالوحید کے گھر منتقل ہو گئے، جو اب تک جاری ہیں۔ حلقۂ یاراں کے زیراہتمام ’’طرحی مشاعرے‘‘ ہوتے ہیں، مصرعۂ طرح کا انتخاب شروع ہی سے مضطر صاحب کے ذمہ ہے۔ مصرعے کے انتخاب پر کہنے لگے کہ ’’کوشش ہوتی ہے کہ اساتذہ سے کوئی مصرع اٹھایا جائے، بسا اوقات خود بھی موزوں کر لیا کرتاہوں‘‘۔

پسند ناپسند پوچھنے پر فرمایا ’’شاعری کے سوا کچھ پسند نہیں، جو مل جائے، کھا پی لیتا ہوں، پہننے کا بھی کچھ خاص شوق نہیں البتہ شیروانی، پائجامے میں آرام محسوس کرتا ہوں، گرمی کا موسم بہتر لگتا ہے کہ اس میں بھاری کپڑوں سے جہاں جان چھٹی رہتی ہے، دھوتی، بنیان سے بھی کام چل جاتا ہے اور آمد عروج پر پہنچ جاتی ہے، جاڑے میں آمد کم ہوتی ہے، نومبر دسمبر سے فروری تک آمد بہت ہی کم ہو جاتی ہے، یہ کیا چکر ہے آج تک سمجھ میں نہیں آیا‘‘۔ مضطر اکبر آبادی 1963 میں رشتۂ ازادواج میں منسلک ہوئے، دہلی سے تعلق رکھنے والے ایک خاندان کی لڑکی سے ارینجڈ میرج ہوئی۔ شادی کرکے شاعری میں کمی واقع نہیں ہوئی؟ ’’بھائی میں تو آزاد منش آدمی تھا، ایک ملنے والی بزرگ خاتون نے کوشش کی اور میں نے ہاں کر دی، اللہ نے صاحب اولاد کر دیا۔‘‘

مضطر اکبر آبادی خود نشر و اشاعت اور کتابوں کے کاروبار سے منسلک رہے لیکن اپنے مجموعوں کی اشاعت پر دکھ سے کہتے ہیں ’’بھئی کیا بتاؤں اب تو کتاب شائع کرانا، جوئے شیر لانے کے مترادف ہو چکا ہے، پھر میرے جیسے بزرگ شاعر کے لیے تو یہ کام اور بھی مشکل ہے‘‘۔ مضطر صاحب کی نعتوں کا مجموعہ ’’پہلی سحر تخلیق کی‘‘ پر کام مکمل ہے مگر ابھی تک ان کو کوئی ناشر نہیں مل سکا۔ رثائی ادب کے حوالے سے بھی سلام اور منقبت کا مواد تیار ہے لیکن شائع کون کرے؟

مضطر اکبر آبادی صاحب سے جب پوچھا گیا کہ شاعری کے دشت میں عمر گزار دی کبھی پچھتاوا ہوا، گویا ہوئے ’’آج تک یوں سوچا ہی نہیں، میرا تو اوڑھنا بچھونا یہ ہی کچھ ہے، ہاں ایک زمانے میں رمی کھیلنے کا چسکا پڑ گیا تھامگر پھر یہ بھی چھوٹ گیا۔

مضطر صاحب ایک بیٹے اور دو بیٹیوں کے باپ ہیں، اہلیہ محترمہ کی 2005 میں رحلت ہوگئی، آج کل اسلام آباد میں صاحب زادے کے ساتھ رہتے ہیں، جو ایک غیر ملکی خبر رساں ادارے میں صحافی ہیں۔ بچوں کے بارے میں کہا ’’ان کی طرف سے اطمینان ہے‘‘۔ کہتے ہیں ’’میں شرارتی بچہ ہرگز نہیں تھا، والد صاحب کا انتقال 1940 میں ہو گیا تھا، اس لیے طبیعت میں مزید سنجیدگی آ گئی، والدہ محترمہ پاکستان میں 1972 میں دارفانی سے رخصت ہوئیں، بہت ہی شفیق تھیں‘‘۔ بچوں کے بچوں کے بارے میں کہا ’’بچے ہمیشہ سے پیارے لگتے ہیں، بچوں کا بھائی جان جو ہوں، کبھی کبھی ڈانٹ ڈپٹ بھی کرتا ہوں‘‘۔ یہ کہ کر خود ہی بچپن میں پہنچ گئے اور آگرہ کے ماحول کی بات چھیڑ دی، کہنے لگے ’’مڈل کے بعد پڑھائی کی غرض سے میں ایک مولوی صاحب کے گھر رہا کرتا تھا، وہ بہت گھن گرج اور رعب والے انسان تھے، میں ہر وقت ان سے خوف زدہ رہا کرتا تھا، اس لیے گھر سے اسکول اور اسکول سے گھر کے علاوہ کبھی باہر آتا جاتا نہیں تھا، اس لیے بچپن میں کھیل کا تصور بھی مجھے چھو کر نہ گزرا۔

میرے بچپن کی تربیت بھی مولوی صاحب نے ہی کی، ان کا نام تھا توکل حسین اخگر بلگرامی، بچپن میں کبھی سوچا ہی نہیںتھا کہ بڑے ہو کر کیا بنوں گا؟ بہ ہرحال قدرت نے جو بنا دیا، اس پر خوش ہوں‘‘۔ بچھڑے ہوؤں کی بات ہوئی تو کہا ’’میں جانے والوں کو یاد نہیں کرتا، وہ خود کبھی یاد آ جائیں تو الگ بات ہے! ہاں جب یادیں آ جاتی ہیں تو بچھڑنے کا ملال طاری ہو جاتا ہے۔ میں نے زندگی میں بہت زیادہ دوست نہیں بنائے، اپنے زمانے کے شاعروں میں فانی بدایونی، یاس یگانہ چنگیزی، اصغر گونڈوی اور آرزو لکھنوی بہت اچھے لگے۔

مضطر اکبر آبادی آزاد نظم کو شاعری قرار دیتے ہیں لیکن آج تک خود ایسی نظم نہیں لکھی البتہ کسی واقعہ سے متاثر ہو کر کبھی کبھار پابند نظم ضرور لکھ لیتے ہیں۔ نظم میں ان کو مجید امجد اچھے لگتے ہیں، کہتے ہیں کہ ن۔ م راشد کے مقابلے میں مجھے فیض اچھے لگتے ہیں، وہ زندگی کے قریب ہیں تر ہیں، راشد ہر ذہن میں نہیں سماتا، ہاں اقبال گزری صدی میں سب سے بڑا شاعر ہے، اُس کا مقابلہ کسی سے نہیں کیا جا سکتا۔ مضطر صاحب، دلیپ کمار کو گزری صدی کا سب سے بڑا اداکار مانتے ہیں۔ مضطر صاحب رواں سال ستمبر میں، ماشاء اللہ 92 سال کے ہو جائیں گے۔ وہ ابھی تک صبح خیز ہیں، رات 10 بجے سو جاتے ہیں، اسلام آباد کے اپنے گلی محلے میں پیدل چلتے پھرتے دنیا کو دیکھتے ہوئے خوش رہتے ہیں، وقت کی پابندی ان کی زندگی کا خاصہ ہے، کھانا پینے، سونے جاگنے میں وقت کی پابندی کرتے ہیں، کہتے ہیں ’’میں بعض اوقات بالکل اکیلا ہوتا ہوں لیکن مجھے آج تک تنہائی بری نہیں لگی شاید اس لیے کہ جوں ہی تنہا ہوتا ہوں، سخن میرے ساتھ ہو لیتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔