ہار جاتے تو کیا ہوتا؟

سلیم خالق  جمعرات 6 مارچ 2014

اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کیا بنگلہ دیش کی بیٹنگ کے بعد کسی کو یقین تھا کہ پاکستان میچ جیتے گا، بیشتر افراد کا جواب نفی میں ہی ہو گا، جس وقت اسپنر عبدالرحمان کے ہاتھ سے گیند پھسلنے لگی اور وہ بغیر کسی لیگل ڈیلیوری کے 8 رنز دینے کا ایسا ’’کارنامہ‘‘ انجام دے گئے جو کرکٹ کی تاریخ میں کبھی کوئی نہ کر سکا تو ہر طرف یہی باتیں ہو رہی تھیں کہ گرین شرٹس یہ میچ ہار جائیں گے،کرکٹ اتفاقات کا کھیل ہے مگر کھیل  سے واقفیت نہ رکھنے والے بعض لوگوں نے یہاں تک کہنا شروع کر دیا کہ کوئی گڑبڑ ہے، اتفاق سے پارٹ ٹائم اسپنر فواد عالم کے ہاتھ سے گیند سلپ نہ ہوئی تو باتیں کرنے والوں کو نیا جواز مل گیا، اس کے بعد عمر گل اور طلحہٰ سمیت دیگر تمام بولرزکی بولنگ پر بنگالیوں نے جب دل کھول کر رنز بنائے تو لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ اب پاکستان نہیں جیت سکے گا، اس وقت افواہوں کا ایسا بازار گرم تھاکہ کیا کہیں، آج کل ویسے ہی ہر شخص کرکٹ کا ماہر ہے، لوگوں نے تو ایسی ایسی کہانیاں بنا دیں کہ بالی ووڈ کی ایک اور مصالحہ کرکٹ فلم بن سکتی تھی۔

خراب فیلڈنگ اور بعدازاں احمد شہزاد کی خلاف توقع سست بیٹنگ سے افواہ سازوں کو مزید باتیں بنانے کا موقع ملا،خود ایکسپریس کے دفتر میں کئی دل جلوں نے فون کر کے دل کی بھڑاس نکالی،ایسی باتوں کے حوالے سے آواز اٹھانے میں مشہور کئی لوگ اب بورڈ سے منسلک ہو چکے یا اس کی تیاری کر رہے ہیں لہذا اب عام لوگ ان کی جگہ لینے کی کوشش نہ کریں،آفریدی کے آنے سے قبل ایسا لگتا تھا کہ شائد گرین شرٹس نہ جیت سکیں، مگر جس طرح کی انھوں نے بیٹنگ کی اس نے بنگالیوں کو رلا دیا، بیچارے ہاتھ آئی فتح ایسے جانے پر آنسو بھی نہ بہاتے تو کیا کرتے، فواد عالم جب تین، ساڑھے تین سال قبل ٹیم میں تھے تو کلین شیو ہونے کی وجہ سے بچے لگتے تھے،اس وقت آفریدی ٹیم کے کپتان اور وہ ہر وقت انہی کے ساتھ رہتے تھے، ایسے میںلوگوں نے باتیں بنانا شروع کر دی تھیں کہ ان سے دوستی کے سبب انھیں ٹیم میں رکھا جاتا تھا، حالانکہ فواد اس وقت بھی اچھا پرفارم کر رہے تھے، اب واپسی پر انھوں نے لمبے بال رکھنے کے ساتھ کسی ’’چوہدری صاحب‘‘ کے جیسی مونچھیں بھی چہرے پر سجا لیں، اس نئے لک میں وہ بطور بیٹسمین بھی خاصے بہتر دکھائی دیے۔

انھوں نے ابتدا میں سنگل، ڈبلز لے کر اسکور بورڈ کو متحرک رکھا پھر ضرورت پڑنے پر چھکے بھی لگائے جس پر لوگ حیران رہ گئے، کیونکہ پہلے فواد کے بارے میں مشہور تھا کہ بائونڈری آدھی بھی کر دو تب بھی وہ چھکا نہیں لگا سکتا، مڈل آرڈر میں ٹیم کو ایسے بیٹسمین کی ضرورت تھی اور اب ایسا لگتا ہے کہ وہ کیریئر کی لمبی اننگز کھیلنے کے موڈ میں ہیں،احمد شہزاد نے گوکہ سنچری بنائی مگر ان کی پرفارمنس دب کر رہ گئی، خدانخواستہ اگر ہدف عبور نہ ہوتا تو بڑی اننگز کے باوجود اوپنر کو اتنے الزامات کا سامنا کرنا پڑتا کہ وہ جلد آئوٹ نہ ہونے پر افسوس کرتے،تمام پلیئرز کو آفریدی کو دعائیں دینی چاہئیں ورنہ ناقدین تو انتظار میں تھے کہ میچ ختم ہو اور وہ اپنی دکان چمکائیں، بنگلہ دیشی اننگز کے بعد ایک ٹی وی چینل پر تبصرہ کرتے ہوئے شعیب اختر تو ٹیم کی فتح کو  ہی خارج از امکان قرار دے چکے تھے، شائقین کرکٹ اور سابق کھلاڑیوں کو اتنی جلدی کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہیے، یہ بات سوچنے کی ہے کہ جس پچ پر بنگلہ دیش جیسی ٹیم اتنا بڑا اسکور کر سکتی ہے وہاں پاکستان کیوں نہیں کر سکتا تھا،ہمارے پاس تو ایک سے بڑھ کر ایک عمدہ پلیئر موجود ہے اور پھر یہی ہوا گرین شرٹس نے میچ جیت لیا، وہی لوگ جو تنقید کے نشتر تیار کیے بیٹھے تھے ٹیم پر اب تعریفوں کے پھول نچھاور کررہے ہیں، پاکستان صرف میچ جیت کر فائنل میں ہی نہیں پہنچا بلکہ ٹیم نے خود کو الزامات کے بوچھاڑ کا شکار ہونے سے بھی بچا لیا ہے،یہ میچ ہمیں ایک سبق بھی دے گیا کہ رائے قائم کرنے میں زیادہ جلدی کرنا مناسب نہیں، کم از کم میچ ختم ہونے کا ہی انتظار کر لینا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔