اسلامی ٹچ

ڈاکٹر یونس حسنی  جمعـء 10 جون 2022

عمران خان کا لانگ مارچ 25 مئی کو اپنے اختتام کو پہنچا۔ عمران خان اپنے کارکنوں کو ڈی چوک پہنچنے کی تاکید کرتے رہے مگر خود جناح ایونیو پر پہنچے اور وہاں سے واپسی کا اعلان کر دیا۔ اس سے قبل سپریم کورٹ نے ان کو H-9 کے قریب ایک میدان تک آنے اور وہاں دھرنا دینے کی اجازت دے دی تھی مگر عمران خان کا رخ ڈی چوک کی طرف ہی رہا پھر کچھ سوچ سمجھ کر وہ جناح ایونیو سے واپس ہو لیے۔ واپسی کے وقت انھوں نے حکومت وقت کو چھ دن کی مہلت دی کہ وہ اس میں انتخابات کے انعقاد کی تاریخ دے دیں ورنہ وہ چھ روز بعد پھر اسلام آباد کا رخ کریں گے۔

اس دھرنے کی نیت کرنے سے لے کر اسلام آباد تک پہنچنے میں تقریباً 24 گھنٹے صرف ہوگئے۔ ایک پولیس کا سپاہی اور چار پانچ کارکن مختلف حادثات میں اللہ کو پیارے ہوگئے اور پی ٹی آئی اور حکومت اپنے اپنے مجرمین و مرحومین پر ماتم کناں رہے اور ان کے متعلقین کی دل جوئی فرماتے رہے۔ وہ ایک سپاہی جس کو فائر کرکے قتل کر دیا گیا تھا مریم نواز اس کے گھر تشریف لے گئیں، اس کے بچوں کو گود میں لے کر پیار کیا، گھر والوں کی ڈھارس بندھائی اور واپس ہوگئیں۔ دوسری طرف عمران خان بھی مرحوم کارکنوں کے گھر گئے اور ان کے بچوں کو دلاسا دیا۔ یہ ہلاکتیں بڑی اذیت ناک ہوتی ہیں۔

پرجوش نوجوان اپنے لیڈروں کی خون گرم کر دینے والی تقاریر کے نتیجے میں جوش میں آتے ہیں اور پھر یا تو کسی گولی کا نشانہ بنتے ہیں یا پھر اپنی ہی کسی سرگرمی کے نتیجے میں اللہ کو پیارے ہو جاتے ہیں۔ اخباری اطلاعات کے مطابق اس ساری سرگرمی کے دوران مختلف اور متعدد وجوہ سے کوئی 5 افراد ہلاک ہوئے۔

انسانوں کی ایسی ہلاکتیں ان کے خاندانوں کے لیے بڑی اذیت ناک ہوتی ہیں اور اپنے پیچھے مسائل کا انبار چھوڑ جاتی ہیں۔ ہمارے یہاں احتجاج کی روایت تو ہے مگر انسانی جانوں کے ضیاع اور ان کی موت سے پیدا ہونے والے مسائل پر کسی کی نظر نہیں ہوتی، خود مرنے والے کو بھی اندازہ نہیں ہوتا کہ اگر وہ مرگیا تو اس کے پس ماندگان کا کیا ہوگا؟ کیا مرحوم کے لواحقین سے اظہار ہمدردی کو ہی کافی سمجھا جائے گا یا اس کے اہل خانہ کی پرورش و گزر اوقات کا بھی کوئی حل پیش کیا جاسکے گا۔ یہ تو انسانی المیہ ہے اور مارچ کے منتظمین اور حکومت کا فرض ہے کہ وہ ایسے مواقع پر ہلاک ہونے والوں کی اشک شوئی کا کچھ نہ کچھ بندوبست کریں۔

خیر! یہ تو ہوا انسانی المیہ، مگر اس احتجاج کے نتیجے میں ایک قومی و ملی ہلاکت بھی ہوئی۔ اخبارات نے اس ہلاکت کا ذکر بطور تذکرہ کر دیا اور سیاسی حلقوں نے بھی اسے معمولی سمجھا اور اس پر کسی قسم کی تشویش کا اظہار نہیں کیا، لیکن یہ ہلاکت بڑی تشویش ناک ہے اور اسے معمولی بات نہیں سمجھنا چاہیے۔ یہ اور بات کہ اس ہلاکت کے متاثرین نے خود بھی اسے اہمیت نہیں دی۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ہم اپنے قومی تشخص کے معاملات پر اب سنجیدہ نہیں رہے اور اس کے خلاف ہرزہ سرائی کو معمولی قرار دے کر نظرانداز کرنے میں ہی عافیت جانتے ہیں۔

ہوا یہ کہ عمران خان جناح ایونیو میں پہنچ کر دھرنے کے اختتام کا اعلان کر رہے تھے۔ ان کی تقریر کے دوران نیشنل اسمبلی کے سابق ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے جھک کر عمران خان کے کان میں کچھ کہا۔ یہ قاسم سوری صاحب ڈپٹی اسپیکر تھے مگر پچھلے دنوں اپنے غلط انداز فکر کے باعث بڑے اختلافی فیصلوں کے باعث متنازع شخصیت بنے بھی اور اپنے عہدے سے محروم بھی ہوگئے۔

انھوں نے جھک کر عمران خان کے کان میں کہا ’’ خان صاحب ! اپنی تقریر میں تھوڑا اسلامی ٹچ بھی دیں۔‘‘ گویا اب اسلام اس لیے رہ گیا ہے کہ اسے دال میں بگھارکی طرح تقریر میں ٹچ کے لیے استعمال کیا جائے۔ ان کی یہ بات مائیک نے پکڑ لی اور ان کا یہ انداز بیان الم نشرح ہو گیا۔

خیر ان سے ناسمجھی میں ایک حرکت ہوگئی تھی، حالانکہ وہ کوئی بچے تو نہیں تھے کہ ایسی ناسمجھی کر بیٹھیں، مگر ہوا یہ کہ عمران خان نے بھی ان کی فرمائش پوری کرنا ضروری سمجھا۔ چاہتے تو ان کی بات کو نظرانداز کر دیتے مگر ذہن و فکر کی ہم آہنگی آڑے آگئی اور انھوں نے فوراً تھوڑا سا اسلامی ٹچ دیا اور فرمایا میں اپنے آپ کو عاشق رسولؐ کہتا ہوں اور نبیؐ کا فالور ہوں۔ حالانکہ وہ تقریر میں جو کچھ کہہ رہے تھے اس بات میں اور اسلامی ٹچ میں کوئی ربط نہ تھا۔

قاسم سوری نے مشورہ یوں دیا تھا کہ ان کے خیال میں لوگ اسلام کا نام سنتے ہی کلمہ پڑھنے لگیں گے اور مقرر کے معتقد ہو جائیں گے۔ اسلام کو ضرورتاً استعمال کرنے کی یہ بھونڈی شکل اگر اہل ملک کو ناگوار ہوتی تو سوری صاحب کی فرمائش بڑی مفید ہوتی مگر اللہ کا شکر ہے کہ اس ملک کے عوام اب ’’ اسلامی ٹچ ‘‘ کو ناپسند نہیں کرتے اس کو گوارا کرتے ہیں، مگر اتنا بھی نہیں کہ اس کے جھانسے میں آجائیں، اللہ اہل ملک کو اس قسم کے اسلامی ٹچ سے دور ہی رکھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔