کراچی، موسم کی تبدیلی اور بڑے پیمانے پر بورنگ، کھارے پانی کی بھی قلت

عامر خان  جمعـء 10 جون 2022
پلانٹ مالکان اور سپلائی دینے والوں نے 19 لیٹر پانی کی فلنگ بوتل کی قیمت میں15روپے سے 30 روپے اضافہ کر دیا۔ فوٹو : فائل

پلانٹ مالکان اور سپلائی دینے والوں نے 19 لیٹر پانی کی فلنگ بوتل کی قیمت میں15روپے سے 30 روپے اضافہ کر دیا۔ فوٹو : فائل

 کراچی: کراچی میں موسم کی تبدیلی، بارشیں کم ہونے، بڑے پیمانے پر زیر زمین پانی حاصل کرنے کے لیے بورنگ کرانے کے باعث شہر میں کھارے پانی کی بھی قلت ہوگئی ہے، زیر زمین پانی کئی سو فٹ نیچے چلا گیا۔

سرکاری پانی کی قلت کو پورا کرنے کے لیے ذاتی سرمایہ کاری سے واٹر پلانٹ لگانے والے افراد کو بھی پینے کا پانی فراہم کرنے میں بھی مشکلات ہوگئی ہیں، ڈالر مہنگا ہونے، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے، پلانٹ کی مشینری مہنگی ہونے اور دیگر سامان کی قیمتوں میں 40 سے 50 فیصد اضافے کے باعث کھارے پانی کو میٹھا کرنے والے پلانٹ مالکان اور سپلائی دینے والوں نے 19لیٹر پانی کی فلنگ بوتل کی قیمت میں 15 روپے سے 30 روپے اضافہ کر دیا ہے۔

ایک واٹر پلانٹ کے مالک احمد سعید صدیقی نے بتایا کہ کراچی میں گرمیوں میں پانی کا بحران شدت اختیار کر جاتا ہے، اس بحران پر قابو پانے اور شہریوں کو پینے کے پانی کی فراہمی کے لیے مختلف علاقوں میں واٹر پلانٹ لگائے گئے ہیں، یہ کھارے پانی کو واٹر پلانٹ کے ذریعہ مختلف مراحل سے گزار کر میٹھا کرتے ہیں، یہ لوگوں نے اپنی ذاتی سرمایہ کاری سے لگائے ہیں، پانی کے حصول کا ذریعہ بورنگ ہوتی ہے۔

شہر میں پانی کی قلت کی وجہ سے زیر زمین پانی اب 300 سے 400 فٹ نیچے چلا گیا ہے، پانی کو میٹھا کرنے کے لیے واٹر پلانٹ میں استعمال ہونے والی میمورین اور دیگر پرزہ جات کی قیمتوں میں بھی 50 سے 70 فیصد اضافہ ہو گیا، احمد سعید صدیقی نے بتایا کہ عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث ملک بھر کی طرح کراچی میں بھی گرمی کی شدت بڑ ھ رہی ہے جیسے جیسے گرمی کی شدت بڑھے گی واٹر پلانٹ والوں کے لیے میٹھا پانی کی ضروریات شہریوں کے لیے کرنا مشکل ہو گیا ہے۔

احمد سعید صدیقی نے بتایا کہ ڈالر مہنگا ہونے، روپے کی قدر میں کمی، مشینری اور دیگر سامان مہنگا ہونے کی وجہ سے19لیٹر میٹھے پانی کی بوتل کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا گیا ہے، گھروں اور دفاتر، مارکیٹوں میں میٹھا پانی سپلائی کرنے والے ایک نوجوان محمد جنید نے بتایا کہ کورونا کے دنوں میں معاشی صورت حال خراب ہونے کی وجہ سے بہت لوگ بے روزگار ہوئے، اس وجہ سے لوگوں نے فل اور پارٹ گھریلوں اور کمرشل سطح پر پلانٹس سے پانی خرید کر متعلقہ مقامات سپلائی کا کام شروع کر دیا ہے جس سے ہزاروں نوجوانوں کو روزی حاصل ہوئی ہے، یہ کام کم سرمایہ کاری 25 ہزار سے شروع کیا جا سکتا ہے۔

پانی سپلائی کرنے والے ایک اور نوجوان محمد داود نے بتایا کہ گھروں یا دفاتر میں بوتل پہنچانے کی قیمت 70 روپے سے شروع ہو کر 200 روپے تک ہے، منرل واٹر کمپنیوں کی بڑی بوتلیں طبقہ اشرافیہ کے علاقوں میں استعمال ہوتی ہیں۔

ان سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے، ایک گھریلو خاتون سمیرہ بانو نے بتایا کہ ماضی میں لوگ سرکاری نلوں یا لائنوں آنے والا میٹھا پانی استعمال کرتے تھے ، جن کی تعداد میں اب بہت کمی ہو گئی ہے، یہ میٹھا پانی ابال کر استعمال کیا جاتا ہے، ایک محنت کش شہزاد احمد نے بتایا کہ غریب علاقوں میں رہنے والے لوگ سرکاری پانی پینے پر مجبو رہیں جہاں بہت زیادہ پانی کی قلت ہوتی ہے وہاں صرف پینے کے لیے واٹر پلانٹ سے پانی کی بوتل بھروائی جاتی ہے، انھوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت سرکاری سطح پر واٹر فلٹر پلانٹ یونین کونسل کی سطح پر لگائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔