یہ بچے بھی تو قوم کا مستقبل ہیں؟

راشدہ قریشی  اتوار 12 جون 2022
گھریلو بچہ مزدوری غلامی کی جدید اور بدترین شکل ہے۔ (فوٹو: فائل)

گھریلو بچہ مزدوری غلامی کی جدید اور بدترین شکل ہے۔ (فوٹو: فائل)

کچھ عرصہ پہلے میں گھریلو بچہ مزدوری کے خلاف ایک ڈاکومینٹری بنانے پر کام کررہی تھی۔ اس دوران ہم نے ایک 11 سالہ بچے کا انٹرویو کیا جو کسی کے گھر میں بطور گھریلو ملازم کام کررہا تھا۔ جب میں نے سوال کیا کہ آپ کو کون سا کھیل پسند ہے تو بچے نے چمکتی آنکھوں سے جواب دیا کہ مجھے کرکٹ بہت پسند ہے۔ میں نے پوچھا کس کے ساتھ کھیلتے ہو؟

اس نے کہا ’’میں کھیلتا نہیں ہوں بس فیلڈنگ کرتا ہوں۔‘‘ اور یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھوں کی چمک جو ایک دم سے گہری اداسی میں بدل گئی تھی میں آج تک نہیں بھول پائی۔ یعنی مالکان کے بچوں کے ساتھ کھیلنے میں مدد کرتا ہے اور اپنی باری آنے کا انتظار، جو کبھی نہیں آتی۔ بالکل ویسے ہی جیسے اماں ابا باجی کے گھر چھوڑ کر گئے تھے مگر واپس لینے نہیں آئے۔ کیونکہ باجی نے یہ کہہ کر منع کیا ہے کہ اگر تم لوگ روز روز آؤ گے تو بچے کا دل نہیں لگے گا اور ساتھ جانے کی ضد کرے گا۔ اس لیے اماں یا ابا ملنے نہیں صرف پیسے لینے کےلیے آتے ہیں۔

میری کئی بار ایسی فیملیز سے بحث بھی ہوجاتی ہے اور ان کا موقف یہ ہوتا ہے کہ ہم تو ان کو ساری سہولیات دیتے ہیں۔ اچھا کھانا، رہنے کی جگہ اور کپڑوں کے ساتھ ساتھ گھر والوں کو پیسے بھی دیتے ہیں۔ اور کچھ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ بچے جب ایک بار ان سہولتوں کے عادی ہوجاتے ہیں تو پھر خود ہی اپنے والدین کے ساتھ جانے سے انکار کردیتے ہیں۔

میرے ہمسائے میں رہنے والی آنٹی نے بھی یہی جواب دیا تھا، جب ان کے گھر میں موجود سات سال کی بچی کو میں نے کام کرتے دیکھا تھا جو اکثر ہمارے گھر کچھ لینے یا دینے آتی رہتی تھی۔ وہ بچی ان کے آبائی گاؤں سے لائی گئی تھی اور بقول آنٹی ’’بہت زور دینے کے بعد بھی اب وہ واپس نہیں جانا چاہتی‘‘۔ مگر کچھ عرصے بعد اس کی جگہ مجھے ایک اور بچی نظر آئی تو میں نے اپنی امی سے پوچھا شانو کہاں ہے اور یہ نئی بچی کون ہے؟ انہوں نے بتایا کہ وہ لوگ اپنے گاؤں گئے تھے مگر واپسی پر شانو نے ساتھ آنے سے انکار کردیا اور رو رو کر پورا گاؤں سر پر اٹھا لیا تو اس کے اماں ابا نے شانو کے بجائے اس کی دوسری بہن کو ساتھ بھیج دیا۔

یہ تو بہت عام سی مثالیں ہیں، ابھی ہم نے ان واقعات کا تو ذکر ہی نہیں کیا جس میں مالکان نے اپنے گھر میں کام کرنے والے بچوں کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا۔ مارنا، جلانا، بال کاٹ دینا، ہڈیاں توڑ دینا، بھوکا رکھنا جیسے تشدد کے ساتھ ساتھ ایسے بچوں کو جان سے مار دینے جیسے واقعات بھی قومی میڈیا میں رپورٹ ہوتے ہیں اور کچھ واقعات میں تو بچے جنسی تشدد کا نشانہ بھی بنتے ہیں۔

گھریلو بچہ مزدوری غلامی کی جدید اور بدترین شکل ہے۔ گھر کے کام کاج جیسے صفائی، کپڑے اور برتن دھونا، کھانا پکانا کے ساتھ ساتھ چھوٹے بچوں کو سنبھالنا بھی انہیں بچوں کی ذمے داری ہوتی ہے اور ان کے کام میں کوئی چھٹی بھی نہیں ہوتی۔ یعنی یہ بچے 24/7 ملازمت پر ہوتے ہیں۔ یہ اداس ہوں یا بیمار ہوں، گھر نہیں جاسکتے، وہیں رہ کر کام کرنا پڑتا ہے۔ اکثر کسی شاپنگ مال یا ریستوران جانا ہو تو آپ کو ایسے بچے خاص طور پر بچیاں ضرورنظر آتی ہیں۔ ایک خوبصورت اور برانڈڈ لباس کے ساتھ قیمتی جوتے پہنے باجی کے پیچھے اس کے شاپرز اور پرس پکڑے یا پھر اپنے سے تھوڑی سی کم عمر کے بچے کو بغل میں اٹھائے چل رہی ہوتی ہیں یا پھر کسی ہوٹل کے ایک کونے میں اکیلے بیٹھے اپنے مالدار مالکان کے کھانا ختم کرنے کا انتظار۔ ہمارے معاشرے میں یہ عام سی بات ہے بلکہ چھوٹے بچوں کو گھروں میں ملازم رکھنا چھوٹی سوچ کے لوگ اونچے اسٹیٹس کی نشانی سمجھتے ہیں۔

آج جب پاکستان سمیت دنیا بھر میں بچوں کی مشقت کے خاتمے کا عالمی دن منایا جارہا ہے، میں سوچ رہی تھی کہ کیا گھروں میں مزدوری کرنے والے بچوں کو غلامی سے نجات دلانے کےلیے بھی کوئی عملی اور سنجیدہ سدباب بھی کیا جائے گا؟ یا وہ اپنا بچپن اسی غلامی میں جلتے کڑھتے اور مار کھاتے گزارتے رہیں گے؟

یہ بلاگ بھی پڑھیے: مزدور بچوں کی عزت نفس

پاکستان نے اقوام متحدہ کے معاہدہ برائے حقوق اطفال کی توثیق 1990 میں کی تھی، جس کے مطابق بچوں کو وہ تمام حقوق فراہم کرنا ریاست کی ذمے داری ہے جو معاہدہ برائے حقوق اطفال میں تسلیم کیے گئے ہیں۔ مگر دوسری طرف گھریلو بچہ مزدوری کی وجہ سے بچے اپنے بہت سارے حقوق سے محروم ہوجاتے ہیں، جس میں تعلیم، کھیل کود، تفریح، صحت کی سہولیات، بچپن گزارنے کا حق، والدین کے ساتھ رہنے اور رائے دینے کا حق اور ہر طرح کے تشدد اور استحصال سے بچاؤ جیسے حقوق شامل ہیں۔

اقوام متحدہ کے معاہدہ برائے حقوق اطفال کی شق نمبر 32 خاص طور پر ریاستوں کو پابند کرتی ہے کہ وہ بچوں کو ہر طرح کے معاشی استحصال اور ہر اس کام جس سے بچے کی صحت کو جسمانی، ذہنی و نفسیاتی، یا اخلاقی نقصان پہنچے ان سے محفوظ رکھنے کےلیے اقدامات کرے۔ اقوام متحدہ کی کمیٹی برائے حقوق اطفال نے 2016 میں جاری کردہ اختتامی مشاہدات اور سفارشات میں پاکستان کو تجویز دی کہ وہ بچوں کی مشقت بشمول گھریلو ملازمت کو روکنے اور خاص طور پر ان بچوں کے ساتھ ہونے والے تشدد کے واقعات کی روک تھام کےلیے پروگرام تشکیل دے۔

عالمی مرحلہ وار جائزہ (Universal Periodic Review) اقوام متحدہ کا ایسا نظام ہے جس میں تقریباً ساڑھے چار سال بعد ہر ملک میں انسانی حقوق کی صورت حال کا تفصیلی جائزہ لیا جاتا ہے۔ رواں سال 2022 میں پاکستان بھی عالمی مرحلہ وار جائزہ کے تحت اس عمل سے گزرے گا، جس میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی رکن ریاستیں انسانی حقوق کی صورت حال پر پاکستان کو تجاویز دیں گی۔ مگر یہاں سوال یہ ہے کہ جو سفارشات 2017 میں پاکستان نے تسلیم کی تھیں ان پر کس حد تک کام ہوا؟ 2017 میں متعدد تجاویز بچوں کے حقوق اور تحفظ سے متعلق تھیں جن میں سے اکثریت کو پاکستان نے تسلیم کیا تھا۔ مثال کے طور پر کوریا نے پاکستان کو تجویز دی کی وہ بچوں کی مشقت کو روکنے کےلیے قوانین پر سختی سے عمل درآمد کرائے اور بچوں کی مشقت کے معائنہ کے نظام کو مضبوط کرے، جسے پاکستان نے تسلیم بھی کیا۔

عالمی ادارہ محنت کے کنونشن نمبر 182 کے مطابق کوئی بھی ایسا کام جس کو کرنے سے بچے کی تعلیم، صحت یا اخلاقیات کو تقصان پہنچے یا نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو وہ کام بچوں کی مزدوری کی بدترین شکل تصور کیا جائے گا اور ایسی صورت میں بچوں کے ملازمت میں داخلے کی عمر 18 سال سے کم نہ ہوگی۔ گھریلو بچہ مزدوروں کے ساتھ بدسلوکی اور تشدد کے واقعات یہ ثابت کرنے کےلیے کافی ہیں کہ گھریلو بچہ مزدوری، چائلڈ لیبر کی بدترین اشکال میں سے ایک ہے۔

ٹریڈ یونینز اور سول سوسائٹی کی دیگر تنظیموں کی کاوشوں سے پنجاب حکومت نے باقی تمام صوبوں پر سبقت لیتے ہوئے 2019 میں The Punjab Domestic Workers Act منظور کیا، جس کے سیکشن 3 کے مطابق 15 سال سے کم عمر بچے کو گھریلو ملازم رکھنے پر پابندی عائد کردی گئی۔ اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف قانون میں سزا ایک مذاق کے علاوہ کچھ نہیں لگتا۔ قانون کہتا ہے کہ اگر بچہ 12 سال سے کم عمر ہوگا تو ایک ماہ تک کی قید ہوسکتی ہے اور اگر بچے کی عمر 12 سے 15 سال کے درمیان ہوگی تو دس ہزار سے پچاس ہزار تک جرمانہ ہوسکتا ہے۔ مگر قانون میں یہ کہیں درج نہیں ہے کہ اگر آپ کسی بچے کو گھر میں ملازمت کرتے دیکھیں تو اس کی اطلاع کہاں دی جائے؟ اور شاید یہی وجہ ہے کہ آج تک اس قانون کے تحت ایک بھی ایف آئی آر درج نہیں ہوئی۔

فرض کیجئے اگر کوئی شہری بہت ہی ذمے داری کا ثبوت دے اور بچے کی موجودگی کی اطلاع محکمہ لیبر کو دے دے تو کیا لیبر انسپکٹر کے پاس اختیارات ہیں کہ وہ گھر کے اندر جاکر دیکھ سکے کہ اس گھر میں بچہ موجود ہے یا نہیں؟

گھریلو بچہ مزدوری ختم کرنے کےلیے کثیرالجہتی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، جس میں سرفہرست لیبر انسپکشن سسٹم کو مضبوط اور مؤثربنانا ہے۔ ایسی ایک خاص ہیلپ لائن قائم کرنے کی ضرورت ہے جس پر گھریلو بچہ مزدورں کی موجودگی کی اطلاع دی جاسکے۔ قوانین پر سختی سے عمل درآمد کروانے کےلیے درکار مالی اور انتظامی اقدامات فی الفور کرنے کی ضرورت ہے۔ غربت کو دور کرنے کےلیے معاشی تحفظ کے پروگرامز کو بڑھانا ہوگا۔ والدین میں یہ شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے کہ بچوں سے مشقت کروا کر ان کی غربت میں کمی نہیں بلکہ اضافہ ہوگا اور وہ کبھی خود کو غربت کے چکر سے نہیں نکال پائیں گے۔

بچوں پر تشدد کے واقعات پر پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 328-A لگائی جاتی ہے جو کہ قابل راضی نامہ اور قابل ضمانت ہے، جس کی وجہ سے اگر کوئی ملزم پکڑا بھی جاتا ہے تو اگلے ہی دن اس کی ضمانت ہوجاتی ہے اور پھر پولیس اور اہل علاقہ کی کاوشوں سے بچے کے والدین اور مالکان کے درمیان صلح کروا دی جاتی ہے۔ اس سیکشن کو فوری طور پر ناقابل راضی نامہ اور ناقابل ضمانت جرم قرار دیا جانا چاہیے، تاکہ بچوں پر تشدد کرنے والوں کو قرار واقعی سزا دلوا کر انجام تک پہنچایا جاسکے۔ خاص طور پر Free and Compulsory Education Act 2014 Punjab کو نوٹیفائی کرنے اور اس پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ اس سے بالواسطہ طریقے سے بچوں کے مشقت میں جانے کے امکانات کو روکا جاسکتا ہے۔ حکومت کو بچوں کی مشقت کی روک تھام کے قوانین کے بارے میں آگاہی کی ہنگامی مہم چلانی ہوگی۔ جس کےلیے ٹی وی، اخبارات، ریڈیو، سوشل میڈیا، کیبل نیٹ ورکس وغیرہ کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔

کوئی بھی حکومت ذرا سی اضافی محنت سے یہ سب کام باآسانی کرسکتی ہے بشرطیکہ کرنے کی چاہ ہو۔ مگر سارا مسئلہ اسی چاہ کا ہی تو ہے جو ہمیں تمام تر کوششوں کے بعد بھی نظر نہیں آتی۔ اور ہم جیسے بچوں کے حقوق پر کام کرنے والے کارکن سارا سال جدوجہد کرتے رہتے ہیں اور پھر 12 جون چلا آتا ہے ہمارے دل کو جلانے۔ مگر ہمارے ارادے اس آگ میں جل کر مزید مضبوط ہوجاتے ہیں اور ہم پھر سے ایک نئے عزم اور جذبے کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اس یقین کے ساتھ کہ ہماری کاوشیں رائیگاں نہیں جائیں گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

راشدہ قریشی

راشدہ قریشی

بلاگر بچوں اور عورتوں کے حقوق کی فعال کارکن ہیں اور غیر سرکاری تنظیم سرچ فار جسٹس کے ساتھ وابستہ ہیں۔ آپ انھیں ٹوئٹر پر @RashadaQureshi فالو کرسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔