چائلڈ لیبر کے خاتمے کیلئے زیرو ٹالرنس کی پالیسی اپنانا ہوگی!

اجمل ستار ملک / احسن کامرے  پير 13 جون 2022
حکومت، ماہر نفسیات اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کی’’چائلڈ لیبر کے خاتمے کے عالمی دن‘‘ کے موقع پر منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں گفتگو ۔  فوٹو : فائل

حکومت، ماہر نفسیات اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کی’’چائلڈ لیبر کے خاتمے کے عالمی دن‘‘ کے موقع پر منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں گفتگو ۔ فوٹو : فائل

12 جون کو دنیا بھر میں ’چائلڈ لیبر کے خاتمے کا عالمی دن‘ منایا جاتا ہے ۔ اس اہم دن کے موقع پر ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت، ماہر نفسیات اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

ندیم اشرف
(رکن ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان)

آئین پاکستان کا آرٹیکل 25(A) ریاست کو پابند کرتا ہے کہ وہ 6 برس سے 15 برس کی عمر کے بچوں کومفت اور لازمی تعلیم فراہم کرے جبکہ آرٹیکل 27 اور 28 میں چائلڈ لیبر کی روک تھام کے حوالے سے اقدامات کرنے کی بات کی گئی ہے۔ 18 ویں ترمیم کے بعد صوبائی حکومتوں نے آئین کی ان شقوں کی روشنی میں چائلڈ لیبر کے حوالے سے قانون سازی کی۔بچوں کے حقوق کے عالمی کنونشن کے مطابق چائلڈ لیبر کو روکنے کیلئے ریاست کو کردار ادا کرنا ہوگا۔

’آئی ایل او‘ کنونشن بھی اس حوالے سے انتہائی اہم ہے۔ آئی ایل او کنونشن 182 بچوں کی پرخطر ملازمت کی ممانعت کرتا ہے۔ اس پر تمام ممالک نے دستخط کر رکھے ہیں اور سب ہی اس کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے ہاں اس پر عملدرآمد ہو رہا ہے یا نہیں؟ چائلڈ لیبر کی تعداد کے حوالے سے 20 سال پرانا سروے موجود ہے جس کے مطابق ملک میں33 لاکھ بچے محنت مشقت کر رہے ہیں۔

آبادی کے اضافے کو دیکھا جائے تو یہ تعداد اب زیادہ ہوچکی ہوگی۔ یہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ یہ بچے تعلیم کے حق سے محروم ہیں۔ نفسیاتی مسائل کا شکار ہورہے ہیں اور جب بڑے ہوتے ہیں تو بطور شہری درست کردار ادا نہیں کر پاتے ۔ جہاں چائلڈ لیبر ہوتی ہے وہاں بچوں سے زیادتی کے واقعات بھی ہوتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔ 2001 ء میں پنجاب میں انیس سو بچوں کے ساتھ زیادتی کے کیس رپورٹ ہوئے جبکہ رپورٹ نہ ہونے والوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوسکتی ہے۔ بحیثیت ذمہ دار شہری یہ ہم پہ لازم ہے کہ بچوں کو محفوظ ماحول فراہم کریں۔ حکومت کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ قوانین لاکر ان پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے۔

معاشی مجبوریاں اپنی جگہ مگر والدین سمیت کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ بچے کی زندگی خراب کریں۔ پنجاب کی سطح پر پانچ ماہ پہلے کمیشن بنا ہے۔ اس میں سامنے آیا کہ بچوں کے حقوق کے حوالے سے مختلف محکمے آئسولیشن میں کام کر رہے ہیں، آپس میں روابط کا فقدان ہے۔ محکمہ لیبر، سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ، محکمہ داخلہ، چائلڈ پروٹیکشن بیوریو، وویمن ڈیپارٹمنٹ، محکمہ قانون و دیگر محکمے اپنا اپنا کام کر رہے ہیں۔ ہم نے پنجاب حکومت کو خط لکھا کہ صوبائی اور ضلعی سطح پر چائلڈ پروٹیکشن اور چائلڈ رائٹس کمیٹیاں بنائیں جن میں تمام متعلقہ محکموں کے نمائندے شامل ہوں اور مل کر کام کریں۔

اس کے بغیر موثر کام نہیں ہوسکتا۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں تاحال چائلڈ پروٹیکشن پالیسی نہیں بن سکی، اس فورم کے ذریعے میری پنجاب حکومت سے گزارش ہے کہ فوری طور پر چائلڈ پروٹیکشن پالیسی بنائی جائے، صوبائی اور ضلعی سطح پر چائلڈ پروٹیکشن اور چائلڈ رائٹس کمیٹیاں بناکر انہیں فعال کیا جائے۔

ملازم بچوں سے مار پیٹ کرنے والوں کے خلاف سزا کا موثر نظام بنانا چاہیے۔ قانون میں تو موجود ہے مگر عملی طور پر اس طرح فعال نہیں ہے۔ ہمارے ہاں 6 کروڑ بچے 18 برس سے کم عمر ہیں جن کے حوالے سے کام کرنا ہوگا، اگر ان کا استحصال جاری رہا تو سنگین مسائل پیدا ہوں گے۔ جس جگہ چائلڈ لیبر ہو،اس جگہ کو فوری طور پر سربمہر کر دیا جائے، ہمیں چائلڈ لیبر کے خاتمے کیلئے زیرو ٹالرنس کی پالیسی اپنانا ہوگی۔ حکومتیں اس کو اولین ترجیح میں شامل کریں۔ پنجاب کے22 لاکھ بچے سکول نہیں جاتے لہٰذا والدین بچوں کو مزدوری پر ڈال دیتے ہیں۔

2014ء میں مفت اور لازمی تعلیم ایکٹ پنجاب بنایا گیا مگر تاحال اس پر عملدرآمد کا نوٹفکیشن جاری نہیں ہوسکا۔اس پر عملدرآمد سے چائلڈ لیبر میں کمی آئے گی۔ چائلڈ لیبر کے خاتمے کے حوالے سے بڑے پیمانے پر آگاہی دینا ہوگی، والدین کو خصوصی طور پر چائلڈ لیبر کے مسائل سے آگاہ کرنا ہوگا۔

داؤد عبداللہ
(ڈائریکٹر لیبر پنجاب)

پنجاب میں چائلڈ لیبر کے حوالے سے تین قوانین موجود ہیں جن پر عملدرآمد کرانا ہماری ذمہ داری ہے۔ 2016ء میں بچوں کی مشقت اور بھٹہ مزدوری کے حوالے سے جو دو قوانین آئے، ان پر عملدرآمد کے حوالے سے ہم روزانہ کی بنیاد پر جائزہ لے رہے ہیں ۔ اس کیلئے جدید میکنزم اپنایا گیا ہے، اب انسپکٹر کو وہاں جاکر وہاں کی تصویر دیگر تفصیلات دینا ہوتی ہیں۔

ہمارا انسپیکشن کا سارا نظام آن لائن ہے جس سے قدرے بہتری آئی ہے۔ 2017ء سے اب تک ہم ہر سال چائلڈ لیبر کے حوالے سے کم از کم 1 ہزار ایف آئی آر درج کرواتے ہیں جن میں سے 80فیصد مجرمان کو جرمانے کیلئے گئے ہیں جبکہ بیشتر کو قید کی سزا بھی سنائی گئی۔ ہم صرف قانون پر عملدرآمد ہی نہیں کرواتے بلکہ اس کی درست آگاہی کیلئے بھی کام کرتے ہیں۔ ہمارے ڈسٹرکٹ آفیسرز خود آگاہی دیتے ہیں۔

چائلڈ لیبر کے حوالے سے ہماری ایس او پیز کافی سخت ہیں۔ چائلڈ لیبر کی تعداد جاننے کیلئے چائلڈ لیبر سروے کیا جا رہا ہے تاکہ اعداد و شمار کی روشنی میں اقدامات کیے جاسکیں۔ اس سروے کی روشنی میں چائلڈ لیبرپالیسی یا ایکشن پلان بنایا جائے گا۔ ہماری موجودہ لیبر پالیسی میں چائلڈ لیبر کا ایک چیپٹر ہے تاہم اب ایکشن پلان بنانے پر غور کیا جا رہا ہے، یہ کام چائلڈ لیبر سروے کے بعد ہوگا، امید ہے رواں ماہ یہ جاری کر دیا جائے گا۔ گھروں میں کام کرنے والے بچوں کے حوالے سے ایکشن لینے میں چارد چار دیواری کا تقدس پامال ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔ اس قانون پر عملدرآمد کیلئے یونین کونسل کی سطح پر کمیٹیاں بنائی جائیں گی جو اپنے اپنے علاقے میں موثر کام سکیں گے۔

افتخار مبارک
(نمائندہ سول سوسائٹی)

12 جون دنیا بھر میں بچوں کی مشقت کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے اور ہر سال اس کا کوئی خاص موضوع ہوتا ہے۔ اس سال کا موضوع ’’چائلڈ لیبر کے خاتمے کیلئے سماجی تحفظ سب کیلئے ‘‘ ہے اور میرے نزدیک یہ انتہائی اہم اور وقت کی ضرورت ہے۔ سماجی تحفظ کی سکیموں کو بہتر کرکے یہ یقینی بنایا جائے کہ پسماندہ اور نظر انداز ہونے والے طبقات کو اس سے فائدہ اور چائلڈ لیبر کا مکمل خاتمہ ہوسکے۔ بچوں کے حقوق و تحفظ کی بات کریں تو پاکستان نے 1990ء میں بچوں کے حقوق کے عالمی معاہدے کی توثیق کی جس کا آرٹیکل 32 خاص طور پر ریاستوں کو پابند کرتا ہے کہ وہ بچوں کو چائلڈلیبر سے بچانے کیلئے اقدامات کریں۔

چائلڈ لیبر بچوں کا معاشی استحصال بھی ہے لہٰذا اس کے خاتمے کیلئے کام کرنا ہوگا۔ ایسی قانون سازی کی جائے جس سے چائلڈ لیبر کی حوصلہ شکنی ہو۔ ایسے انتظامی اقدامات کیے جائیں جس سے قوانین پر عملی اقدامات کرنے میں مدد ملے۔ آگاہی کیلئے ایسے پروگرام منعقد کیے جائیں جس میں لوگوں کو نہ صرف قوانین کے بارے میں آگہی دی جائے بلکہ انہیں بتایا جائے کہ چائلڈ لیبر کے بچوں کی زندگیوں پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔پاکستان نے عالمی ادارہ محنت ’آئی ایل او‘ کے دو اہم کنونشن جو بچوں سے جڑے ہیں ، کی توثیق کر رکھی ہے۔ ان میں کنونشن38 بتاتا ہے کہ لیبر کے حوالے سے کم از کم عمر کیا ہے جبکہ کنونشن نمبر 182 یہ بتاتا ہے کہ بچوں پر تشدد کی بدترین اشکال کونسی ہیں۔

2015ء میں دنیا نے آئندہ 15برسوں کیلئے اپنا ایک ترقیاتی ایجنڈہ تیار کیا جسے پائیدار ترقی کے اہداف کہا جاتا ہے۔ ان میں ایک اہم بات یہ ہے کہ ہدف نمبر 8.7خاص طور پر بچوں کی مشقت، جبری مشقت سمیت مشقت کی تمام بدترین اشکال کی روک تھام کی بات کرتا ہے۔ عالمی سطح پر ریاست پاکستان کی کمٹمنٹ بڑی واضح نظر آتی ہے۔ پاکستان نے بچوں کے حقوق و تحفظ کے حوالے سے ہر عالمی فورم پر اپنا مثبت کردار ادا کیا اور اس پر کام کرنے کی یقین دہای کرائی۔

18 ویں آئینی ترمیم کے بعد بچوں کی مشقت کا معاملہ صوبائی حکومت کے دائرہ اختیار میں آگیا یعنی صوبائی حکومتیں اپنے اپنے معروضی حالات کے مطابق قانون سازی و دیگر اقدامات کر سکتی ہیں۔ پنجاب میں 2016ء میں اہم پیشرفت ہوئی اور بچوں کے حوالے سے موجود دو آرڈیننس کو قانون بنا دیا گیا۔بچوں کی ملازمت پر پابندی کے ایکٹ کے مطابق15 سال سے کم عمر بچے کسی بھی طرح کی مشقت یا ملازمت نہیں کر سکتے ۔

بھٹوں پر بچوں کی مشقت کی ممانعت کا قانون بھی پاس کیا گیا۔ جس کے مطابق 14 برس سے کم عمر بچہ بھٹہ پر مزدوری نہیں کرسکتا۔ ان دونوں قوانین کے بعد ایک اور ڈویلپمنٹ ہوئی۔ 2019ء میں ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ میں پنجاب حکومت نے ایک شق شامل کر دی جس کے مطابق 15سال سے کم عمر بچے کو گھریلو ملازم نہیں رکھا جاسکے گا۔ اگر کوئی شخص اس قانو ن کی خلاف ورزی کرے گا تو اسے 50 ہزار روپے جرمانہ یا 6 ماہ تک قید ہوسکتی ہے۔

پہلے دو قوانین پر محکمہ لیبر نے فیکٹریوں و کارخانوں میں عملدرآمد کرایا ہے مگر یہ باعث افسوس ہے کہ 2019 ء کے ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ کے سیکشن (۳) تحت ابھی تک کم عمر بچوں کو گھریلو ملازم رکھنے پر تاحال کوئی کارروائی نہیں ہوئی، ایک بھی کیس رجسٹرڈ نہیں ہوا۔ ہمارے ہاں گھریلو ملازم بچوں کے کیسز اس وقت سامنے آئے جب ان پر بیہمانہ تشدد کیا گیا، ان کی ہلاکتیں ہوئی۔ ہم قوانین پر عملدرآمد کرنے کیلئے میکنزم نہیں بنا سکے جس کی وجہ سے مسائل ہیں۔ اپنے بچپن کو بہترین انداز میں گزارنا ہر بچے کا حق ہے۔ یہ لازم ہے کہ بچہ اپنے والدین کی شفقت، محبت اور سرپرستی میں بچپن گزارے اور پڑھوان چڑھے۔ وہ تشدد سے محفوظ ہو، اس کا معاشی استحصال نہ ہو۔ اسے تعلیم، صحت و دیگر بنیادی انسانی حقوق حاصل ہوں۔ جب بچے محنت مزدوری کرتے ہیں تو وہ اپنے بنیادی انسانی و آئینی حقوق سے محروم ہوجاتے ہیں۔

چائلڈ لیبر اور بچوں کے استحصال کے خاتمے کیلئے قوانین پر عملدرآمد یقینی بنانا ہوگا۔ قوانین کے حوالے سے بڑے پیمانے پر لوگوں کو آگاہی دینا ہوگی۔ والدین کی ذمہ داریاں کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ علماء کرام کو اس میں شامل کرنا چاہیے کہ وہ اسلام کی روشنی میں لوگوں کی رہنمائی کریں۔ اس سے فائدہ ہوگا۔ رواں عالمی دن کے موضوع پر صحیح معنوں میں کام کرنے کیلئے ہمیں غریب سے غریب تک پہنچنا ہوگا۔ جو لوگ غربت کی وجہ سے اپنے بچوں سے ملازمت کرواتے ہیں تو انہیں سوشل پروٹیکشن پلان کے ذریعے امپاور کیا جائے۔ حکومت کو چائلڈ لیبر کے خاتمے کو ترجیح دینی چاہیے۔

ہمارے پاس فی الحال بچوں کے حوالے سے مستند اعداد و شمار نہیں ہیں۔ 1996 ء میں آخری سروے کیا گیا، شنید ہے کہ دوبارہ بھی کوئی سروے کیا گیا ہے، جس کے اعداد و شمار جلد جاری ہونگے ۔ سوال یہ ہے کہ جب ہمارے پاس اعداد و شمار ہی نہیں ہیں تو کام کیسے ہوگا؟بچوں کے مسائل رپورٹ کرنے کے حوالے سے میکنزم کو آسان بنانا ہوگا۔ قانون کی حکمرانی سے چائلڈ لیبر کا خاتمہ ممکن ہے۔ پنجاب میں کوئی چائلڈ پروٹیکشن پالیسی نہیں ، یہ صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے مگر تاحال اس پر کوئی کام نہیں ہوا۔ تمام سٹیک ہولڈرز کو مل کر کام کرنا ہوگا۔

فاطمہ طاہر
(کلینیکل سائکالوجسٹ)

چائلڈ لیبر میں سب سے بنیادی چیز امتیازی سلوک ہے۔ گھریلو ملازم بچہ جب جو اپنے ہاتھوں سے مالک کے بچوں کو تیار کرکے سکول بھیج رہا ہے تو تضاد یہیں سے شروع ہوتا ہے۔یہ دیکھنے میں چھوٹی چیز ہے مگر بچے کے ذہن پر گہرا اثر چھوڑتی ہے۔ گھریلو ملازم بچوں میں بہت ساری نفسیاتی بیماریاں یا ان کی علامات پیدا ہوتی ہیں جن میں سر فہرست نفسیاتی دباؤ، بے چینی، کانپنا، پسینہ چھوٹنا، بے ہوش ہونا وغیرہ شامل ہیں۔

عمومی اضطراب کی خرابی سب سے خطرناک ہے جس میں 24 گھنٹے بچہ دباؤ میں ہی رہتا ہے جس کی وجہ سے نیند کی کمی، بستر پر پیشاب کرنا و دیگر شامل ہیں۔ ایک اور نفسیاتی مسئلہ یہ ہے کہ بچہ اپنے والدین سے دور ہوجاتا ہے، اس کے دل میں ان کیلئے محبت کم ہوجاتی ہے۔ مزدور بچوں کے والدین غربت کی کہانی سناتے ہیں۔ میرے نزدیک انہیں آگاہی دینے کے ساتھ ساتھ قانون پر سختی سے عملدرآمد کیا جائے تو معاملات بہتر ہوسکتے ہیں۔

بہت سے ایسے کیسز سامنے آئے ہیں جن میں گھر کی مالکن اپنے شوہر سے لڑائی یا کسی اورٹینشن کا غصہ گھر میں کام کرنے والے بچے پر نکالتی ہے۔ ہمارے سامنے ایسے کیس بھی آئے جس میں عورت بچے کے بال صرف اس لیے اتار دیتی ہے کہ گھر کا مرد ا س بچے کی طرف متوجہ نہ ہوا۔ گھریلو ملازم بچوں کا جنسی، نفسیاتی، معاشی، معاشرتی استحصال ہورہا ہے۔ ان سے ان کا بچپن چھین لیا گیا ہے اور بدترین سلوک کیا جا رہا ہے جو افسوسناک ہے۔ چائلڈ لیبر کے خاتمے کیلئے بڑے پیمانے پر آگاہی دینا ہوگی، اس میں تمام سٹیک ہولڈرز کو شامل کرنا ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔