عزتِ مستور اور خاموشی

شہناز احد  منگل 14 جون 2022
یہ خاموشی بہت جان لیوا ہوتی ہے۔ (فوٹو: فائل)

یہ خاموشی بہت جان لیوا ہوتی ہے۔ (فوٹو: فائل)

میں پچھلے کئی دنوں سے سوچ رہی ہوں اور سوچ سوچ کر تھک چکی ہوں، تو سوچا کہ تحریر کا سہارا لیا جائے اور سب سے پوچھوں کہ کیا میری سوچ غلط ہے یا آپ سب بھی میری طرح سوچ رہے ہیں؟

ڈاکٹر یاسمین راشد پہلے عورت ہیں، پھر ڈاکٹر اور سیاستدان بنیں۔
ناصرہ اقبال پہلے عورت، پھر قانون داں، اس کے بعد ایک سینیٹر کی ماں کا عہدہ ملا۔
شیریں مزاری بھی ایک عورت ہیں، استاد بنیں اور اس کے بعد سیاست میں قدم رنجہ فرمایا۔
ایمان مزاری کا تعلق بھی صنف مستور سے ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کی اپنی ایک پیشہ ورانہ زندگی بھی ہے اور وہ ایک سیاستدان ماں کی بیٹی ہیں۔

میرے دل میں اس عورت کا بھی بہت احترام ہے جو چاروں طرف سے برستے آنسو گیس شیل کے درمیان سڑک کے بیچوں بیچ بیٹھی اپنے شیرخوار کو بانہوں میں سمیٹے کہہ رہی تھی ’’اپنے بچوں کے مستقبل کےلیے نکل آئی ہوں‘‘۔

میری نظروں سے ان عورتوں کے عکس بھی نہیں مٹ رہے جو اندھادھند چلتے گیس شیلز کے درمیان سڑکوں پر بے ہوش گری ہوئی تھیں یا اپنے بچوں کے ہاتھ پکڑے سڑکوں پر ادھر سے اُدھر بھاگ رہی تھیں۔

پاکستان کی سیاست میں عورتوں کا عمل دخل ہمیشہ سے تھا، ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ وہ محترمہ فاطمہ جناح ہوں، بیگم رعنا لیاقت علی خان یا وہ ہزاروں برقع پوش عورتیں جنھوں نے تحریک پاکستان میں اپنا کردار ادا کیا۔

قیام پاکستان کے بعد بھی ہر قسم کے دور حکومت میں اونچے پگوں اور ناموں والے خاندانوں کی عورتیں باوجود اس کے کہ ان کی اپنی کارکردگی سیاست میں یا زندگی کے دوسرے شعبوں میں صفر کے برابر ہوتی تھی، ایوانوں میں آتی جاتی رہی ہیں۔ ان سب کے نام لکھنا یا ان کے بارے میں یہاں گفتگو کرنا میں ضروری نہیں سمجھتی لیکن اپنی اپنی حیثیت میں شائستہ سہروردی، بیگم سروری عرفان اللہ، بیگم دولتانہ، بیگم تزئین فریدی، بیگم اشرف عباسی، نسیم ولی خان، تہمینہ دولتانہ، عابدہ حسین، بیگم نصرت بھٹو اور ان سب سے بڑھ کر دو مرتبہ منتخب ہونے والی وزیراعظم بے نظیر بھٹو، اور متعدد مذہبی جماعتوں کے کوٹے سے آنے والی عورتیں بھی شامل ہیں۔

ان کے علاوہ سیاست کے ایوانوں میں ہمیشہ سے ایک بہت بڑی تعداد پچھلے دروازے سے آنے جانے والی عورتوں کی بھی رہی ہے۔ میرے لیے وہ سب قابل احترام ہیں کہ وہ عورتیں ہیں۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ وہ سیاست کے ایوانوں میں سامنے کے دروازے سے داخل ہوں یا پیچھے کے دروازے سے۔
کیوں کہ روز روشن کی طرح یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قیام پاکستان کے ان پچھتر برسوں میں جیسی کچی پکی، ذمے دار، غیر ذمے دار، فوجی، غیر فوجی، سیاست پاکستان میں چلتی رہی ہے۔ اس میں سے کشید کرنے کےلیے کچھ بہت زیادہ ہے نہیں۔ لیکن یہ ایک بات مجھے ہمیشہ بہت دکھ دیتی ہے اور تکلیف میں مبتلا رکھتی ہے کہ عورت کے عورت پن کو کیوں سیاست کی بھینٹ چڑھا کر تماشا لگایا جاتا ہے؟

میں ہفتہ بھر سے انتظار کررہی تھی کہ شاید اسمبلی اور سینیٹ کے ایوانوں میں بیٹھی درجنوں عورتوں میں سے کسی عورت کا عورت پن جاگ جائے اور عورتوں کے ساتھ ہونے والی بدسلوکیوں پر صدائے احتجاج بلند کریں اور مذمت کریں۔ سو کالڈ قانون کے رکھوالے اداروں کے اُس حسن سلوک کی، جس کا مظاہرہ انھوں نے سڑکوں، گلیوں، گھروں اور لوگوں کے کمروں میں گھس کر کیا۔

شاید کسی مستور کی آنکھ میں شرم کا پانی آجائے اور وہ ایوان زریں یا ایوان بالا میں کھڑے ہوکر کہے کہ ”بغیر وارنٹ، بنا خاتون سپاہی کے رات کے اندھیرے میں وردی والوں کا گھروں میں کودنا، بدتہذیبی کا مظاہرہ کرنا، غیر اخلاقی زبان کا استعمال کرنا اور گھروں میں موجود عورتوں، بچوں کے ساتھ بدسلوکی کرنا قابل گرفت جرم ہے‘‘۔

لیکن افسوس صد افسوس نہ کسی کی آنکھ میں پانی آیا، نہ کان پر جوں رینگی، سب کی سب منہ میں گھونگیاں بھرے بیٹھی رہیں۔ شاید اس لیے بھی کہ ان میں سے زیادہ تر کو یہ پتہ ہی نہیں کہ عورت کی اپنی بھی کوئی عزت ہوتی ہے۔ ایوانوں میں بیٹھنے والی ان عورتوں کی زبانیں شاید اس لیے بھی بند ہیں کہ وہ بیساکھیوں پر کھڑی موجودہ حکومت کا کسی نہ کسی طرح حصہ ہیں۔ پتہ نہیں وہ یہ کیوں بھول جاتی ہیں کہ کرسیوں کے اس کھیل میں آنا جانا لگا رہتا ہے۔ آج جو کرسیوں پر براجمان ہیں بہت ممکن ہے آنے والے دنوں میں ان کا کہیں پتہ بھی نہ ہو۔

حکومتی ایوانوں میں براجمان کان بند ان عورتوں کے ساتھ ساتھ مجھے شکوہ ان تنظیموں، انجمنوں اور فاؤنڈیشنوں سے بھی ہے جو عورتوں کے نام پر بنی ہیں اور جنھوں نے ایک عام عورت کی کردار سازی میں بہت مثبت رول ادا کیا ہے۔ انھیں شعور دیا ہے، قانون سازی کی ہے، انھیں بولنا اور حق کےلیے آواز بلند کرنا سکھایا ہے۔ لیکن کسی نے آواز نہیں نکالی، نہ احتجاج کیا، نہ ہی لڑکھڑاتی حکومتی طاقت کے نشے میں بدمست ہاتھیوں کے خلاف کوئی مذمتی قرارداد منظور کی، کہ جنھیں قانون کی پاسداری کےلیے سڑکوں اور گھروں پر چھوڑا گیا، انھیں حدود و قیود کی بھی کوئی تربیت دیں، انھیں قانونی تقاضوں کی تکمیل کرنا سکھائیں۔

ان تمام پلیٹ فارمز پر کام کرنے والی خواتین کی خاموشی ہی پھر یہ بھی سنواتی ہے کہ چھوٹے کپڑوں کا استعمال جذبات کو بھڑکاتا ہے، اور بے نظیر جیسی قد آور شخصیت کےلیے نہ صرف غیر پارلیمانی زبان کا استمعال کرواتا ہے، اس کی تصاویر کے ساتھ بدتہذیبی اور غیر اخلاقی سلوک کرواتا ہے، اسی خاموشی کے نتیجے میں لوگوں کو مادر ملت جیسی شخصیت پر کیچڑ اچھالنے کی ہمت ہوئی تھی۔

یہ خاموشی بہت جان لیوا ہوتی ہے اور ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ مختلف محاذوں پر کام کرنے والی عورتوں کے خلاف اس پدر شاہی معاشرے میں کیا کیا بولا اور کہا جاتا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

شہناز احد

شہناز احد

بلاگر صحافتی و سماجی تنظیموں سے وابستہ اور کڈنی فاؤنڈیشن آف پاکستان کی عہدے دار ہیں۔ سماجی مسائل اور خاص طور پر صحتِ عامہ سے متعلق موضوعات پر لکھتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔