عوام پر رحم کریں!

عابد محمود عزام  جمعـء 17 جون 2022

موجودہ حکومت نے پیٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں بے تحاشہ تازہ اضافہ کرکے وہی روایتی جواز پیش کیا ہے کہ پیٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں اضافہ کرنا ناگزیر تھا، اگر ایسا نہ کیا جاتا تو ملک دیوالیہ ہوجاتا۔ پیٹرول اور ڈیزل کے نرخوں میں کیے جانے والے اضافے پر بات ختم نہیں ہوئی، بلکہ وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے خبردار کیا ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں مزید بڑھیں گی اور جلد ہی مزید اضافہ بھی یقینی نظر آرہا ہے۔

حکومت کی جانب سے پیٹرول بم کے بعد عوام پر بجلی گرانے کی تیاریاں بھی کی جا رہی ہیں اور یکم جولائی سے بجلی کی قیمت میں 8 روپے فی یونٹ تک اضافے کا امکان ہے۔ اس وقت ملک میں بجلی کا بنیادی ٹیرف ساڑھے 16 روپے فی یونٹ سے زیادہ ہے اور نیپرا اور وزارت توانائی کا فیصلہ آنے پر اوسط بنیادی ٹیرف 24 روپے سے تجاوز کر سکتا ہے۔

گیس کے نرخ بھی پچاس فی صد تک بڑھائے جانے کی اطلاعات منظر عام پر آچکی ہیں۔ ان اقدامات کا نتیجہ ظاہر ہے کہ مجموعی مہنگائی میں نہایت ہولناک اضافے کی شکل میں سامنے آئے گا اور کم آمدنی والے تنخواہ دار طبقوں ہی کے لیے نہیں، بلکہ کھاتے پیتے متوسط گھرانوں کے لیے بھی جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنا محال ہوجائے گا۔

مہنگائی کا زیادہ تر بوجھ غریب دیہاڑی دار مزدور اور ملازمت پیشہ طبقے پر پڑے گا، لہٰذا حکومت کے معاشی حکمت کاروں کوکم اور مقررہ آمدنی والے طبقوں کو مہنگائی کے اثر سے حتیٰ الامکان بچانے کے لیے تمام ممکنہ تدابیر جلد ازجلد عمل میں لانی چاہیے۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بعد حسب توقع ٹرانسپورٹرز نے کرائے بڑھا دیے ہیں۔ نجی ٹرانسپورٹرز کی جانب سے مختلف شہروں کے کرایوں میں 150سے 300روپے تک اضافہ کیاگیاہے۔ ٹرانسپورٹرز کا موقف ہے کہ تیل کی قیمت بڑھنے کی وجہ سے ہمارے پاس کرائے بڑھانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے ریلوے کے سالانہ مالی اخراجات 20ارب سے بڑھ کر 23ارب روپے تک ہو جائیں گے۔ اس پر حکام نے ریل گاڑیوں کے کرایوں میں 20 فیصد تک اضافے کی تجویز دی ہے۔ یوٹیلٹی اسٹورز پر بھی حکومت خود اپنے نرخوں میں اضافہ کر رہی ہے۔

اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے سے عوام کا برا حال ہے۔ بجلی اور پیٹرولیم کی مصنوعات میں مسلسل ہوشربا اضافے مہنگائی کو ایک ایسے سمندری طوفان میں بدل چکے ہیں، جس نے سب کچھ تہس نہس کر دیا ہے۔

عوام کی خدمت کا دعویٰ کرنے والے یہ سیاست دان اگر لوگ عوام کے ساتھ اتنے ہی مخلص ہیں تو آئے روز عوام پر مہنگائی کا بم گرانے کے بجائے مراعات یافتہ طبقے کی مراعات ختم کرکے قومی خزانے کا بوجھ کم کریں۔ مراعات یافتہ طبقے کی مفت بجلی، گیس، پیٹرول اور دیگر بے تحاشہ مراعات ختم کی جانی چاہیے۔

حکمرانوں، اعلیٰ سول و فوجی حکام اور ارکان اسمبلی کی مراعات میں آخری ممکنہ حد تک کمی کرکے اس رقم کو عوام کی بنیادی ضروریات زندگی کو عام آدمی کی دسترس میں رکھنے کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔ ہر قسم کی کرپشن ختم کرکے قومی وسائل کو مراعات یافتہ طبقوں کی بھینٹ چڑھنے سے بچایا جائے اور ان وسائل کو عوام کو بنیادی سہولتیں مہیا کرنے کے کام میں لایا جائے، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ایسا ہوگا نہیں، کیونکہ اشرافیہ کو عوام کے مسائل سے کوئی سروکار ہے ہی نہیں۔

انھیں صرف اپنے مفادات عزیز ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ عدم اعتماد کی صورت میں اقتدار میں آنے والی 11 جماعتیں عوام سے مہنگائی پر قابو پانے کے اقدامات کا وعدہ کرتی رہی ہیں، لیکن عملاً کچھ بھی نہیں کیا۔ بجلی، گیس، کھانے پینے کی اشیا، کرائے سب کچھ ان کے ہاتھ سے نکل رہا ہے۔

مستقبل میں لوگ بطور گواہ یہ بتائیں گے کہ کیسے ایک چلتے ہوئے نظام کو مفلوج کیا گیا، کیسے سیاسی انقلاب کے نام پر بربادی کا بندوبست بنایا گیا، کیسے عوام کی معیشت کو ریزہ ریزہ کیا گیا اور یہ سب کچھ اس ملک کے چلانے والوں نے اپنے ہاتھوں سے کیا۔ موجودہ حکومت نے بہت ہی مختصر عرصے میں مہنگائی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔

اگر اس حکومت نے بھی پچھلی حکومت کی طرح عوام کو مہنگائی کی چکی میں ہی پیسنا تھا تو پھر ایک قائم حکومت کو کیوں گرایا؟ اس سے بہتر تو پچھلی حکومت چل رہی تھی۔ عوام موجودہ حکومت سے یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ ایک چلتی حکومت کو گرانے کا مقصد کیا تھا؟ موجودہ حکمرانوں نے مل کر وزارتیں تقسیم کرلی ہیں، لیکن عوام کو کیا ملا، صرف بے تحاشہ مہنگائی؟ حکومت کا کہنا ہے کہ قومی خزانہ خالی ہے۔

مہنگائی کرنا ضروری ہے، لیکن اگر قومی خزانہ خالی ہے تو پھر اپنی تشہیر کے لیے کروڑوں روپے کہاں سے خرچ کیے جا رہے ہیں؟ کیا یہ قومی خزانے پر بوجھ نہیں ؟ کیا یہ کروڑوں اربوں روپے اپنی تشہیر کے بجائے عوام پر خرچ نہیں کیے جا سکتے تھے؟ اگر یہ حکومت بھی عوام سے مخلص نہیں تو انھیں سبز باغ کیوں دکھائے گئے؟ کیا عوام کو کسی سوال کا جواب ملے گا؟

پاکستان میں غربت و افلاس کے مارے عوام کئی برسوں سے متواتر مہنگائی کا ایٹم بم برداشت کرتے آرہے ہیں۔ پیٹرول، ڈیزل اور بجلی کے نرخوں میں اضافہ صرف مہنگائی بڑھنے کا ہی نہیں، بلکہ گداگری اور غربت میں اضافے کا بھی دوسرا نام ہے۔

لوگ مہنگائی کے سبب پیٹ کاٹ کاٹ کر جینے پر مجبور ہیں۔ پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے اور تمام تر بد انتظامیوں کے باجود بھی ملک میں غذا کی کوئی قلت نہیں ہے، لیکن حکمرانوں کی عیاشیوں اور بدعنوانی کے دیمک نے عوام کو مہنگائی کا عذاب مسلسل جھیلنے پر مجبور کر رکھا ہے۔ مہنگائی ہماری زندگی کا حصہ بن گئی ہے، ایسا حصہ جس سے اب جان نہیں چھڑائی جا سکتی۔ مہنگائی سے عوام شدید کرب کا شکار ہیں۔ کوئی غریبوں کا پرسان حال نہیں ہے۔

حکومت صرف زبانی جمع خرچ سے کام چلا رہی ہے۔ بہت سے لوگ اپنے گھر کے اخراجات ، بچوں کی خواہشات اور تعلیم کے خرچے تک کو پورا نہیں کر پارہے ہیں جس کی وجہ سے ان کے گھر میں آئے روز فاقہ کشی کی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے اور یہ لڑائی جھگڑے کا سبب بنتی ہے۔ کچھ لوگ ان سب پریشانی و مسائل سے تنگ آکر اپنا وطن چھوڑ کر دوسرے ملک چلے جاتے ہیں تو کچھ لوگ خودکشی جیسا انتہائی قدم اٹھالیتے ہیں۔

عوام کے پاس پاکستان میں رہنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں۔ جن کے پاس کچھ وسائل موجود ہیں وہ اپنے بچوں کو یہاں سے نکال کر باہر بھیجنے کے چکروں میں رہتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے یہ ملک اب اہل اقتدار کا ملک ہے۔

اشرافیہ کو عوام کے دکھ درد اور ان کے مسائل سے کوئی غرض نہیں۔ یہی عوام کی بدقسمتی ہے۔ مہنگائی کی حالیہ لہر کی وجہ سے عام آدمی کی زندگی میں طلوع ہونے والا ہر نیا دن مشکل سے مشکل تر اور حالات بد سے بد تر ہوتے جا رہے ہیں۔ ملک اس وقت بہت سنگین حالات سے دوچار ہے۔ حکومت وقت کا فرض بنتا ہے کہ ایسے اقدامات کرے جس سے عوام کو ریلیف ملے اور ایسے طریقے تلاش کیے جائیں جس کے ذریعے دوبارہ اس طرح کے حالات پیش نہ آئیں جس سے حکومت کو عوامی ردِ عمل کا سامنا کرنا پڑے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔