فری لانسنگ، طلبا کےلیے نئی راہ

اعزاز کیانی  پير 20 جون 2022
فری لانسنگ سے بیروزگاری اور مہنگائی کا مسئلہ حل کیا جاسکتا ہے۔ (فوٹو: فائل)

فری لانسنگ سے بیروزگاری اور مہنگائی کا مسئلہ حل کیا جاسکتا ہے۔ (فوٹو: فائل)

بیروزگاری پاکستان کے عام معاشرتی مسائل میں سے ایک سنگین مسئلہ ہے۔ کسی بھی معاشرے میں جب بھی کوئی مسئلہ نمو پاتا ہے تو اس کے ہمیشہ ایک سے زائد اسباب ہوتے ہیں۔ بعینہ مسئلہ بیروزگاری کے بھی ایک سے زائد اسباب ہیں۔ ان اسباب میں نمایاں سبب آبادی کا افراط اور ذرائع روزگار و ذرائع ملازمت کی کمی ہے۔ جبکہ دیگر اسباب میں رشوت و سفارش، طلبا کی غیر سنجیدگی، تعلیمی معیار میں نقائص، جامعات کی سطح پر طلبا کو مستقبل کےلیے تیار کرنے کے بجائے مجرد حصول سند پر توجہ، اطلاقی علم (پڑیکٹیکل) کے بجائے مجرد کتابی علم پر توجہ وغیرہ دیگر نمایاں اسباب ہیں۔

بیروزگاری کی بڑھتی ہوئی شرح کے نتیجے میں طلبا اور فارغ التحصیل نوجوان عموماً و اکثر اپنے مستقبل کی بابت پریشاں و سرگراں نظر آتے ہیں اور اپنے مستقبل کی بابت مختلف النوع استفسار کرتے ہیں۔ میں طلبا کو عموماً دو مشورے دیتا ہوں۔

1) طلبا کو چاہیے کہ وہ جومضمون بھی پڑھتے ہیں اس کو محض پڑھ لینے ہی کےلیے یا محض یاد کرلینے کےلیے ہی نہ پڑھیں بلکہ اس مضمون کو سمجھنے اور اس کے عملی استعمال کے تناظر میں پڑھیں۔ ہمارے ہاں تھیوری کے مضامین کو غیر ضروری یا کم اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے اور یہ غلط فہمی خود معلمین تک میں پائی جاتی ہے۔ تھیوری دراصل دوسروں کے عملی تجربات اور تحقیق کا خلاصہ ہوتی ہے، جو ہمیں یہ بتاتی ہے وہ مضمون کیا ہے، یہ علم کیسے پیدا ہوا، اس کی غائیت اور مقصد کیا ہے اور اس علم کو عملی استعمال و اطلاق میں کیسے لایا جاسکتا ہے۔ چنانچہ طلبا کو چاہیے وہ اسی تناظر میں ان مضامین کو پڑھیں اور ان کا فہم حاصل کریں۔

2) طلبا کو چاہیے کہ وہ تدریسی علم کے ساتھ ساتھ کچھ ہنر (یا اسکلز) بھی سیکھیں اور اس کے بعد خود اپنے تئیں کام کا آغاز کریں۔

پاکستان میں میدانی و گرم علاقوں میں موسم گرما اور سرد و پہاڑی علاقوں میں سرما میں عموماً ڈھائی تین ماہ کی تعطیلات ہوتی ہیں۔ اس دوران اکثر طلبا عموماً فارغ ہوتے ہیں، لہٰذا اس وقت کو ان اسکلز و ہنر کے سیکھنے میں صرف کیا جاسکتا ہے۔

ان اسکلز کو سیکھنے کے مختلف ذرائع موجود ہیں۔ عموماً ان تعطیلات کے دوران مختلف جامعات و نجی ادارے مختلف نوعیت کے کورسز کراتے ہیں، لہٰذا ان ذرائع سے ان اسکلز کو سیکھا جاسکتا یے۔ دوسری متبادل صورت یہ یے کہ مختلف ادارے آن لائن بھی مختلف کورسز کرواتے ہیں، چنانچہ وہاں سے گھر بیٹھ کر بھی سیکھا جاسکتا ہے۔ اگر کسی طالب علم کے پاس مالی استطاعت نہیں ہے تو اس دور میں انٹرنیٹ (یوٹیوب) پر تقریباً تمام شعبہ جات کے متعلق وافر مواد موجود ہے، وہاں سے بھی سیکھا جاسکتا ہے۔ یوٹیوب سے سیکھنے والوں کےلیے ایک عملی مشورہ یہ یے کہ وہ جب بھی یوٹیوب سے سیکھیں تو کم از کم دو مختلف ویڈیو سیریز (کسی ایک کورس پر ترتیب وار ویڈیوز جو شروع سے آخر تک تمام موضوعات پر مشتمل ہو) مکمل کریں۔

اگلا اہم سوال یہ ہے کہ کونسی اسکلز سیکھی جائیں؟ میرے نزدیک مناسب صورت یہ ہے ہر طالب وہی اسکل سیکھے جو اس کی تعلیم یا ڈگری کے مطابق ہو۔ علاوہ ازیں میں عموماً طلبا کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ ورڈپریس یا گرافگ ڈیزائننگ سیکھیں۔

اکیسوی صدی ایک ڈیجیٹل دور ہے، اس میں ان کی مانگ و استعمال دیگر چیزوں سے نسبتاً زیادہ ہے اور دوم ان دونوں کورسز کےلیے کمپیوٹر کے سابقہ علم کی بھی ضرورت نہیں۔ لہٰذا ان کا سیکھنا طلبا کےلیے آسان ہے۔ اس کے علاوہ دیگر اسکلز مثلاً کانٹینٹ رائٹنگ یا بلاک چین وغیرہ کو بھی سیکھا جاسکتا ہے۔

جب طلبا ایک کورس پورا کرچکیں اور انہیں یہ یقین ہوجائے کہ وہ سیکھ چکے ہیں تو کسی بھی فری لانسنگ پلیٹ فارم وغیرہ سے فری لانسنگ کا آغاز کریں۔

فری لانسنگ کے ساتھ ساتھ اپنے اعزا و اقارب یا قرب و جوار کے جاننے والوں سے بھی پراجکٹس لے کر کام کیا جاسکتا ہے۔

اس کام کے آغاز کی بابت بہتر صورت یہ ہے کہ شروع میں دو دو یا تین تین دوست باہم مل کر ایک پراجیکٹ پر کام کریں۔ اس لیے کہ انسان کا داخلی یقین کتنا ہی پختہ کیوں نہ ہو انسان حقیق معنوں میں عملی کام ہی سے سیکھتا ہے اور عبور حاصل کرتا ہے۔

یہ تجاویز صرف ان نوجوانوں کےلیے ہی نہیں جو جامعات میں زیر تعلیم ہیں بلکہ اس پر وہ لوگ بھی عمل کرسکتے ہیں جو بیروزگار ہیں یا کوئی معمولی ملازمت کررہے ہیں۔ ایسے افراد اپنی ملازمت کے اوقات کے بعد روزانہ کی بنیاد پر کچھ وقت اس کےلیے مختص کرسکتے ہیں، بلکہ طلبا سرما و گرما کی تعطیلات کے علاوہ معمول کے ایام میں سے بھی کچھ وقت اس سیکھنے کے عمل کےلیے مختص کرسکتے ہیں۔

طلبا کےلیے اس کا عملی فائدہ یہ ہوگا کہ تعلیم کے ساتھ وہ اسکلز بھی سیکھتے رہیں گے اور یوں تعلیم کی تکیمل کے بعد وہ سند کے ساتھ عملی تجربے کے بھی حامل ہوں گے۔ یہ تجربہ ان کو نہ صرف ملازمت کے حصول میں ممد و معاون ہوگا بلکہ اگر وہ اپنا ہی کام جاری رکھنا چاہیں تو آسانی سے اور کم وقت میں اس کو مزید بڑھا سکتے ہیں بلکہ دوسرے لوگوں کو بھی روزگار فراہم کرسکتے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

اعزاز کیانی

اعزاز کیانی

بلاگر آئی ٹی کے طالبعلم ہیں، انسانی معاشرے سے متعلقہ تمام امور ہی دلچسپی کے موضوعات ہیں۔ شاعری سے بھی شغف رکھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔