- مشرق وسطیٰ کی بگڑتی صورتحال، عالمی منڈی میں خام تیل 3 ڈالر بیرل تک مہنگا
- انٹرنیشنل کرکٹ میں واپسی پر محمد عامر کے ڈیبیو جیسے احساسات
- کُتا دُم کیوں ہلاتا ہے؟ سائنسدانوں کے نزدیک اب بھی ایک معمہ
- بھیڑوں میں آپس کی لڑائی روکنے کیلئے انوکھا طریقہ متعارف
- خواتین کو پیش آنے والے ماہواری کے عمومی مسائل، وجوہات اور علاج
- وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی چینی ہم منصب سے ملاقات، سی پیک کے دوسرے مرحلے کیلیے عزم کا اظہار
- پولیس سرپرستی میں اسمگلنگ کی کوشش؛ سندھ کے سابق وزیر کی گاڑی سے اسلحہ برآمد
- ساحل پر گم ہوجانے والی ہیرے کی انگوٹھی معجزانہ طور پر مل گئی
- آئی ایم ایف بورڈ کا شیڈول جاری، پاکستان کا اقتصادی جائزہ شامل نہیں
- رشتہ سے انکار پر تیزاب پھینک کر قتل کرنے کے ملزم کو عمر قید کی سزا
- کراچی؛ دو بچے تالاب میں ڈوب کر جاں بحق
- ججوں کے خط کا معاملہ، اسلام آباد ہائیکورٹ نے تمام ججوں سے تجاویز طلب کرلیں
- خیبرپختونخوا میں بارشوں سے 36 افراد جاں بحق، 46 زخمی ہوئے، پی ڈی ایم اے
- انٹربینک میں ڈالر کی قدر میں تنزلی، اوپن مارکیٹ میں معمولی اضافہ
- سونے کے نرخ بڑھنے کا سلسلہ جاری، بدستور بلند ترین سطح پر
- گداگروں کے گروپوں کے درمیان حد بندی کا تنازع؛ بھیکاری عدالت پہنچ گئے
- سائنس دانوں کی سائبورگ کاکروچ کی آزمائش
- ٹائپ 2 ذیا بیطس مختلف قسم کے سرطان کے ساتھ جینیاتی تعلق رکھتی ہے، تحقیق
- وزیراعظم کا اماراتی صدر سے رابطہ، موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے مشترکہ اقدامات پر زور
- پارلیمنٹ کی مسجد سے جوتے چوری کا معاملہ؛ اسپیکر قومی اسمبلی نے نوٹس لے لیا
آٹھ ماہ کے شیرخوار بچے بھی غلط کام پر سزا دے سکتے ہیں
ٹوکیو: ایک تحقیق سے معلوم ہوا کہ آٹھ ماہ تک کے بچے بھی درست اور غلط کام کا ادراک رکھتے ہیں اور جب انہیں موقع ملتا ہے وہ اس کی سزا بھی دیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ شیرخوار بچے بھی اخلاقیات سے واقف ہوتے ہیں اور یوں معاشرتی اخلاق کی حس ہماری اندرونی جبلت میں موجود ہوتی ہے۔
اگرچہ انسان بگڑنے پرآجائے تو تاریخی غلط کام کرتا ہے لیکن اس کے رحم دلی اور نیک طبعیت بھی مشہور ہے۔ اس ضمن میں جاپان کی اوساکا یونیورسٹی، اور اوٹسوما وومن یونیورسٹی نے دلچسپ تجربات سے ثابت کیا ہے کہ اخلاقی اقدار پیدائشی طور پر ہمارے دل و دماغ میں موجود ہوتے ہیں۔
اگرچہ چھوٹے بچے بول نہیں سکتے تو ان کے لیے ایک بہت سادہ ویڈیو گیم بنایا گیا۔ اس تجربے میں 8 ماہ کے 24 بچے لیے گئے۔ پہلے انہیں تربیت کے طور پر اسکرین پر دو چوکور ڈبے دکھائے جن پر آنکھیں بنی تھیں۔ بچوں کی آنکھوں کو بھی آئی ٹریسنگ ٹیکنالوجی سے دیکھا جارہا تھا۔ پھر اگر دو میں سے کسی ایک ڈبے پر بچے کی نگاہ کچھ دیر ٹھہرتی تو اس کے اوپر اسکرین سے ایک اور بڑا ڈبہ گرتا اور آنکھوں والے ڈبے کو پچکا دیتا تھا۔
اگلے مرحلے کا منظر کچھ پیچیدہ تھا۔ اس بار بچوں کو دکھایا گیا کہ آنکھوں والی ایک چوکور شکل کے ڈبے نے دوسے ڈبے کو خوامخواہ دبانا اور اسکرین کے کنارے تک دھکیلنا شروع کیا۔ بچے اس منظر کو دیکھتے رہے اور بار بار ایک ڈبے کی بدتمیزی کے بعد بچوں نے اپنا ردِ عمل طاہر کیا اور غلط کام کرنے والے ڈبے کو دیکھنا شروع کیا جس کے بعد نظر کو نوٹ کرنے والے سافٹ ویئر نے بدتمیز چوکور شکل پر اوپر سے ایک اور ڈبہ گراکر اسے پچکادیا۔ اس طرح بچوں نے غلط کام کرنے والے کو سزا دی۔
پورے تجربے میں 75 فیصد واقعات میں بچوں نے شرارتی ڈبے پر ایک اور چوکور شے گراکر انہیں سزا دی کیونکہ وہ غلط کام کررہے تھے۔ اسی عمل کو کئی اور طریقوں سے بھی آزمایا گیا اور یوں کئی مرتبہ بچوں نے شرارتی ڈبے کو سزا دی۔
اس تحقیق کے بعد ماہرین نے کہا ہے کہ اخلاقی اقدار بالخصوص درست اور غلط کا ادراک ہماری جبلت میں موجود ہے جو ارتقائی عمل کے بعد ہی ممکن ہوا ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔