اداروں میں خواتین انتہائی کم، قوانین سے لاعلم، ایکسپریس فورم

اجمل ستار ملک / احسن کامرے  بدھ 22 جون 2022
حق کیلیے آواز اٹھانا ہوگی، منیزہ ہاشمی، شاہنواز خان اور عاصمہ کرن کی بھی بات چیت۔ فوٹو: ایکسپریس

حق کیلیے آواز اٹھانا ہوگی، منیزہ ہاشمی، شاہنواز خان اور عاصمہ کرن کی بھی بات چیت۔ فوٹو: ایکسپریس

لاہور: انصاف کے اداروں میں خواتین کی شمولیت انتہائی کم ہے، بیشتر خواتین کو قوانین کے حوالے سے آگاہی بھی نہیں ہے۔ وہ کیس درج کرواتے ہوئے بھی گھبراتی ہیں لہٰذا خواتین کے مسائل حل کرنے کیلئے نظام انصاف میں صنفی مساوات قائم کرنا ہوگی۔

مقامی حکومتوں کا نظام بنا کر خواتین کو نمائندگی دینے سے مقامی سطح پر مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ خواتین کو سرکاری سطح پر مفت قانونی معاونت فراہم کرنا ہوگی۔ ان خیالات کا اظہارمختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے ’’انصاف کی فراہمی کو بہتر بنانے میں خواتین کا کردار‘‘ کے موضوع پر منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں کیا۔

لاہور آرٹس کونسل کی چیئرپرسن منیزہ ہاشمی نے کہا کہ قانون کے حوالے سے آگاہی دینے اور مختلف معاشرتی مسائل پر بات کرنے کیلئے میڈیا کا جس طرح استعمال ہونا چاہیے تھا نہیں کیا گیا۔

قومی کمیشن برائے حقوق نسواں کی سابق سربراہ خاور ممتاز نے کہا کہ ملک میں 75 فیصد لیگل فریم ورک موجود ہے مگر عملدرآمد صرف 20 فیصد ہے جو افسوسناک ہے۔ مقامی حکومتوں میں خواتین کی شمولیت یقینی بنائی جائے، جب اس نظام میں خواتین کی نمائندگی33 فیصد تھی تب حالات بہتر تھے غیرت کے نام پر قتل کی روک تھام کیلئے 40 کے قریب ادارے موجود ہیں مگر اسے روکا نہیں جاسکا، آج بھی جرگہ میں فیصلے ہورہے ہیں۔

نمائندہ سول سوسائٹی عاصمہ کرن نے کہا کہ انصاف کی فراہمی میں خواتین کی شمولیت انتہائی کم ہے۔ ہمارے نظام انصاف میں بھی صنفی برابری کی ضرورت ہے۔

نمائندہ سول سوسائٹی شاہنواز خان نے کہا کہ قانون پر عملدرآمد نہ ہونا ایک بڑا مسئلہ ہے،یہاں قوانین بن تو جاتے ہیں مگر ان سے خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوتا۔ برسوں گزرنے کے بعد بھی درجنوں قوانین کے رولز آف بزنس نہیں بن سکے۔ مسائل کے حل میں حکومت کی ’وِل‘ چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔