سیاسی شہیدان امریکا

سعد اللہ جان برق  جمعرات 23 جون 2022
barq@email.com

[email protected]

ویسے مانناپڑے گاکہ یاتوجناب کپتان کااپنا ’’دماغ‘‘کمال کاہے اوریاان کے اردگردکوئی بلاکی ذہین مخلوق موجودہے، تبھی تو ہر مشکل گھڑی میں کوئی نہ کوئی ایسا نعرہ ہوتا رہا ہے کہ لوگ اپنے غم بھلا کر کپتان کپتان ہے کا ورد کرتے رہتے ہیں۔

یہ سب کچھ ہم نے گزشتہ چارسال میں دیکھ لیا ہے ۔ ایک لطیفہ دم ہلا رہا ہے،کہتے ہیں کہ کسی شخص نے چنے کی فصل بوئی تھی جو بڑی اچھی جارہی تھی اورکسان منصوبے بنارہاتھا کہ چنے کی اس فصل فروخت کرکے میں یہ کروں گا، وہ کروں گا، نیاگھر بناؤں گا،شادی کروں گا ، اس امید پر اس نے کسان نے قرضے بھی لیے کیونکہ فصل اچھی جاری رہی تھی ، پھر اچانک بڑی سخت ژالہ باری ہوئی اورساری فصل کو اولوں نے کعف ماکول کردیا،بیچارا کسان اپنے کھیتوں کے اردگردگھوما،فصل میں کچھ بھی نہیں بچا تھا۔

قرض خواہ واپسی کا تقاضا کرنے لگے ، کھیتوں میں کام کرنے والے مزدور دیہاڑیاں مانگنے لگے تو کسان اپنے کھیت کی پگڈنڈی پربیٹھ گیا ،کافی دیر چپ چاپ رہنے کے بعد بولا، میرے خلاف سازش نہ ہوتی تو میں تمھیں مالا مال کردیتا۔ اس سے آگے کچھ کہوں گا توگناہگار بنوں گا۔

ہم بھی ان گزشتہ چار سالوں کے بارے میں کچھ کہہ کر گناہگار نہیں بننا چاہتے،لیکن آخر میں یہ جو ایک کمال بلکہ کمالوں کاکمال دکھایاگیاہے، اس پر حیرت ہورہی ہے کہ یہ کسی غیر معمولی دماغ کاکام ہی ہو سکتا ہے۔

ذراآپ بھی تکلیف کرکے سوچیے کہ جاتے جاتے بھی اپنا نام سیاست کے شہیدوںمیں شامل کر لیا،بلکہ بہت بڑی سیاسی شہادت کہیے۔امریکا کے مقابل سیاسی شہید ہوناکوئی معمولی اعزازتو نہیں، ظاہر سی بات ہے ایسے سیاسی شہیدوں پر عوام اپنادل وجگرنثار کریں گے ، اگربات کی گہرائی میں اترا جائے تو اوربھی بہت سارے قیمتی در وگوہر ملنے کاامکان ہے۔

مثلاً امریکا نے اس لیے سازش کی کہ بھارت نے اسے سپاری دی تھی کیوں کہ مودی نے محسوس کیاتھاکہ ہمارے پڑوس میں اگر ریاست مدینہ چل پڑی تو پھر اس کی بھی خیرنہیں،کشمیرتو ہاتھ سے گیا ہی گیا بلکہ پورا بھارت بھی چھین لے گا۔بلکہ اگر اس موضوع پر بات کو آگے چلایا جائے تو پاک چین دوستی اورسی پیک کا تڑکا بھی لگایا جاسکتاہے۔

گویا پہلی بار’’سیاسی غازی‘‘ہونے کا کریڈٹ اوراب سیاسی شہید ہونے کا کریڈٹ۔ بات ہی کچھ ایسی ہے کہ ہم اس ’’دماغ‘‘ کے اس کمال پرعش عش کیے بغیر رہ ہی نہیں سکتے ،کیوں کہ ہمارے عوام میں ’’امریکا‘‘کے خلاف حقیقی اورعملی نہ سہی زبانی کلامی نفرت کے جذبات تو موجودہیں، اگرچہ ان جذبات کی وجہ کچھ اورہے ۔

کسی اورکانام کیالیں، ہم خودامریکا کے سخت دشمن ہیں کیوں کہ سالہاسال سے ہم خودکودکھا دکھاکر اسے مائل بہ کرم کرناچاہتے ہیں لیکن مجال ہے کہ اس کم بخت امریکا نے اپنی طرف سے سوکھی گھاس کی کوئی مٹھی بھی پھینکی ہو حالانکہ ہم کہتے رہے ہیں کہ ۔

گل پھینکے ہیں اوروں کی طرف بلکہ ثمربھی

اے خانہ برانداز چمن کچھ تو ادھر بھی

ظاہرہے کہ اب ہم امریکا کے دشمن نمبرون ہیں اوراگر آیندہ الیکشن میںبس چلا تو ہمارے سارے ووٹ ’’شہیدان امریکا‘‘ کے بلکہ آپ سے کیا پردہ امریکا کانام آتے ہی بہت سارے ’’اوربھی‘‘ ووٹ ملنے کاامکان ہے۔البتہ جو بات ہمیں کھٹکتی ہے، وہ خود امریکا کااپنا طریقہ واردات ہے کہ اکثرخود اپنے لیے اپنادشمن پیدا کرتا ہے، اسے پالتا پوستا بھی ہے اور آخر میں دشمنی کے نقاب کے نیچے ’’دوستی‘‘کاچہرہ نکل آتاہے۔

بہت کم لوگوں کوعلم ہوگا کہ میڈیا میں لانچ ہونے والے اکثرامریکا مخالف مواد خود امریکا تخلیق اور نشر کرتارہتا ہے۔خیرہمیں کیا،ہمیں نہ امریکا سے کوئی لینا دینا ہے ہاں اگر وہ چاہے تو ہم ’’لین دین‘‘ کے لیے تیار ہیں ۔نہ کسی الیکشن سلیکشن وغیرہ سے دلچسپی ہے نہ کسی کے آنے نہ کسی کے جانے سے کہ کچھ لینا دینا ہے، چاہے چاروں جانب دریاہی دریا اورپانی ہی پانی کیوں نہ ہوجائے جن کے نصیب میں ’’چاٹنا‘‘ لکھا ہے چاٹنا ہی رہے گا۔

لیکن سخن فہمی کا تقاضا ہے کہ جو بات ’’داد‘‘ دینے کی ہو بھرپورداد دینی چاہیے اوریہ ’’سیاسی شہیدان امریکا‘‘ والی بات واقعی داد دینے کی ہے ،کیا دماغ ہے کیاسوچ ہے کہ ’’مر‘‘ تورہے ہیں لیکن لہو لگاکے شہیدوں میں نام کرجائیں ،اب یہ بات الگ ہے کہ بات ’’بندوق‘‘ کی نہیں کارتوس کی ہے اور کارتوس صرف ایک بار چلتاہے لوگ اسے پھر بھی ’’بھر‘‘ کرچلاتے ہیں لیکن اسے چلے ہوئے یانقلی کارتوس کہاجاتاہے جو اکثر تو ’’پھس‘‘ ہوکر رہ جاتاہے بلکہ کبھی کبھی پھٹ جائے تو چلانے والے کاحشر نشر کر دیتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔