رہیں نہ رہیں ہم۔۔۔ مہکا کریں گے

رئیس فاطمہ  ہفتہ 8 مارچ 2014

میرے سامنے اس ماں کی میت پڑی تھی، جو اپنے بیٹے کی راہ تکتے تکتے قبر میں جانے کے لیے تیار تھی۔ یہ وہی ماں ہے جس کا تذکرہ پہلے بھی میں نے اپنے کالموں میں کیا ہے۔ یہ وہ بدقسمت ماں تھی جس نے زندگی بھر کا حاصل اکلوتا بیٹا ان لوگوں کی نذر کر دیا، جو ہمیشہ سے اس کے دشمن اور مخالف تھے۔۔۔ وجہ کیا تھی؟ مجھے نہیں معلوم۔ شاید علاقوں اور کلچر کا فرق؟ یا اس کی قابلیت اور لیاقت جسے کچھ لوگ ہضم نہ کر سکے۔ وہ جانتی تھی کہ دونوں میاں بیوی کو ان کی شرافت اور سادگی کی سزا دی گئی ہے لیکن میری فہم سے بالاتر ہے یہ رویہ کہ ایک ماں سے اس کا بیٹا چھین کر کون لوگ ثواب دارین حاصل کر رہے تھے۔۔۔ آخر اس عورت کا قصور کیا تھا؟ یہی کہ وہ زندگی بھر بیٹے سے ایک پائی لینے کی قرض دار نہیں تھی۔ وہ صرف اپنے بیٹے، بہو اور ان کے بچوں کے پیار کی ترسی ہوئی تھی۔ جس نے بڑے چاؤ سے بیٹے کا گھر بسایا تھا۔ لیکن پل بھر میں خون اور جنم کے رشتے پر قانونی رشتے نے فتح پالی۔ اور میری ساتھی نے بہت خاموشی سے اپنی مادرانہ محبت کا پرچم آنسوؤں میں لپیٹ کر جذبات کے صندوق میں سب سے نچلی تہہ میں رکھ کر تالا ڈال دیا۔ لیکن تالوں میں محبتیں بند ہو سکتی ہیں؟ اس نے ہزار کوششیں کیں کہ اپنی بہو کے ناروا سلوک اور رویے کی وجہ دریافت کر سکے، لیکن نہ بیٹا کوئی جواب دیتا تھا نہ بہو فون کال ریسیو کرتی تھی۔ وہ تو بس پوتی کی آواز سننا چاہتی تھی۔ لیکن پتھر دل بیٹے بہو نے اس معاملے میں بھی اسے مایوس کیا۔ مرنے سے چند سال پہلے میں نے اس سے پوچھا کہ تمہیں جب معلوم تھا کہ جہاں تم بیٹے کا رشتہ کر رہی ہو، وہ تمہارے خیرخواہ نہیں ہیں، پھر تم نے یہ قدم کیوں اٹھایا؟ اس پر اس نے کہا کہ وہ لڑکی اسے بہت اچھی لگتی تھی۔ بظاہر ماں بھی دوستی کا دم بھرتی تھی۔ لیکن نکاح ہوتے ہی کیوں کایا پلٹ گئی؟ اسے بھی نہیں معلوم۔ تب مجھے خیال آیا کہ عوام کے چاہنے کے باوجود بھارت اور پاکستان میں دوستی سے کچھ لوگوں کی چوہدراہٹ کو خطرات لاحق ہیں۔

وہ مرتے دم تک کوشاں رہی کہ کسی طرح بہو کا موڈ ٹھیک ہو جائے۔ لیکن اس کی ہر کوشش ناکام ہوئی۔ ہر سال 21 نومبر، 2 اگست، 14 فروری اور 26 جون کی تاریخیں اس کے دل پہ لکھی تھیں۔ وہ ان دنوں کے حوالے سے جو اس کے بیٹے، بہو اور پوتا، پوتی کے جنم دن تھے۔ بہت جذباتی ہو جاتی تھی۔ ان کے لیے تحائف بھیجنا، پارسل تیار کرنا۔ حلوہ اور پنجیری بنانا اس کو خوشی دیتے تھے۔ اس نے اپنی بہو کے تمام ناروا رویوں کو بھلا دیا تھا۔ تکلیف دہ SMS اور بدزبانی۔ سب کچھ بھلا کر گلے سے لگا لیا تھا۔ کہ وہ صرف محبتوں پہ یقین رکھتی تھی۔ وہ کس طرح نہایت خوبصورت بیڈ شیٹ خود تیار کرتی تھی۔ اور پیار سے انھیں بھیجا کرتی تھی۔ لیکن جب اسے شکریہ تو دور کی بات ہے تحائف ملنے کی رسید بھی نہ ملتی تو وہ بہت دکھی ہو جاتی تھی۔

مرنے سے دو تین ماہ قبل وہ خود میرے پاس آئی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ وجہ یہ تھی کہ بیٹا اور بہو نے مکمل خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ وہ کوئی فون کال بھی اٹینڈ نہیں کرتے۔ وہ صرف بیٹے کی آواز سننا چاہتی تھی۔ جو کئی سال پہلے ہائی جیک ہو چکا تھا۔ وہ نہ ماں باپ سے بات کر سکتا تھا، نہ ہی کسی رابطے کی اجازت تھی۔ پہلے میں نے اسے خوب رونے دیا کہ آنسوؤں کو ضبط کرتے کرتے وہ اعصابی کمزوری کا شکار ہو گئی تھی پھر ایک اجنبی نمبر سے اس کے بیٹے کا نمبر ملایا لیکن فون بہو نے اٹھایا جب بیٹے سے بات کرنے کی خواہش کی کہ وہ ایک انجینئر ہیں اسی لیے بات کرنا چاہتی ہیں۔ تب بیٹے نے فون پکڑا لیکن جوں ہی اسے اندازہ ہوا کہ ماں بات کر رہی ہے تو اس نے جواب دینے سے گریز کیا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی تلوار لیے سر پہ کھڑا ہے۔ بس پھر خاموشی چھا گئی۔

میری ساتھی کو اس تکلیف دہ صورتحال سے نکالنے میں ان کے شوہر سے بھی کئی بار کہا کہ وہ رشتے داروں سے جا کر بات کریں کہ وہ لوگ ایسا کیوں کر رہے ہیں۔ تب انھوں نے کہا تھا کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا کیونکہ خاندان کے چوہدری ایسا نہیں چاہتے۔ وہ ایک بار 2013ء میں اکیلے جانے پہ بمشکل راضی ہوئے۔ ایک ہفتے کے لیے۔ میری دوست نے انھیں بچوں کا حال دیکھنے بھیجا۔ لیکن اچانک وہ تیسرے دن واپس آ گئے اور کہا کہ صبر کرو اگر اپنے بیٹے کی خوشی عزیز ہے تو اسے بھول جاؤ۔ اس لیے کہ وہ مجبور ہے اس کی پریشانیوں میں اضافہ نہ کرو۔

اور بدقسمت ماں نے اپنے بیٹے کے حق میں دعا کر کے آنسو پونچھ لیے۔ سازشوں کا تار عنکبوت صاف کرنے کی ہمت اور سکت دونوں میاں بیوی میں نہیں تھی۔ اس کے شوہر جو نہایت فہمیدہ انسان ہیں انھوں نے حقیقت کا ادراک بہت پہلے کر لیا تھا۔ لیکن میری نظر میں انھوں نے خاموشی اختیار کر کے اپنی اور اپنی بیگم کی جھولی ان ناکردہ گناہوں سے بھرلی، جو ایک سازش اور پلاننگ کے تحت ان کو بیٹے بہو سے دور کرنے کے لیے تھے۔ مجھے حیرت ہوتی ہے اور غصہ آتا ہے اس لڑکی کی سوچ پر جو نہ جانے کیوں ان لوگوں کی سوچ کے جال میں پھنس چکی تھی۔ جنھوں نے اپنی اپنی دشمنیاں نکالنے کے لیے اسے استعمال کیا اور وہ استعمال بھی ہو گئی۔ یہ نہیں سوچا کہ جس عورت نے اپنے بیٹے کو پروان چڑھا کر اعلیٰ مقام پر پہنچایا اور صرف دیتی رہی، لینے کا تو تصور ہی نہیں تھا۔ وہ صرف دینا جانتی تھی۔ اس کی تکلیف سے صرف میں آگاہ تھی۔ اس کا تجزیہ تھا کہ لڑکی کے باپ کو حقائق کا علم نہیں۔ بس جو کچھ بیوی اور بیٹی نے کہا اس پہ بنا کسی تحقیق کے یقین کر لیا۔ کیا ایسا کرنا صحیح تھا ان کے لیے جو بزعم خود نہایت پاکباز مسلمان ہیں، نماز کبھی قضا نہیں کرتے، روزہ ایک نہیں چھوڑتے۔ انھیں یہ حدیث کیوں نہ یاد رہی جس میں دو گروہوں، دو خاندانوں یا دو بھائیوں میں صلح کرانا سنت نبوی ہے۔

اس خاموشی کا نتیجہ یہ نکلا کہ میری دوست بیٹے کی آواز سننے اور اس کی صورت دیکھنے کی آرزو لیے قبر میں جا سوئی۔ سوئم والے دن اس کے شوہر نے اس کے ہینڈ بیگ میں سے ایک لفافہ نکالا جس میں اس کی وصیت تحریر تھی کہ مکان کس کے نام ہو گا، پلاٹ کا حقدار کون ہو گا، فلیٹ کس کی ملکیت ہو گا، بچا کھچا زیور کس کا ہو گا۔ ظاہر ہے اس نے یہ سب اپنے بیٹے اور اس کے بچوں کے لیے رکھا تھا۔ خود زندگی بھر دونوں میاں بیوی نے بچت کی تا کہ بیٹا اپنی فیملی کے ساتھ مستقبل میں کسی پریشانی کا شکار نہ ہو۔ تب مجھے عطیہ فیضی کا وہ جواب یاد آ گیا جو انھوں نے اپنی موت سے چند دن قبل ریڈیو پاکستان کے ایک نمایندے کے سوال پر دیا تھا!

ہاں ایک بات اور کہ اس نے زندگی بھر کبھی بیٹے یا بہو کے تکلیف دہ رویے کی شکایت کسی سے نہ کی۔ وہ بھلا کیونکر ایسا کر سکتی تھی۔ چند ماہ قبل اس نے لوگوں کے استفسار پر یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ بیٹا بیرون ملک ہے۔ تا کہ جب آخری وقت میں بیٹا موجود نہ ہو گا تو لوگ باتیں بنائیں گے۔ یہ سب وہ کیسے برداشت کر پاتی۔ کیونکہ اسے یقین تھا کہ اس کے ہیرے جیسے بیٹے کا اس رویے میں کوئی قصور نہیں ہے۔ اس نے مرنے سے بہت پہلے اپنے میاں سے وعدہ لے لیا تھا کہ اس کی موت کی خبر کسی رشتے دار کو بھی نہ دی جائے۔ اور بیٹے کو تو بالکل بھی نہیں۔ کیونکہ اطلاع دے کر اسے مشکل میں ڈالنا تھا۔ پھر جس نے زندگی میں ماں باپ سے ناتا توڑ لیا ہو ۔ اس کے اور اس کی بیوی کے لیے تو یہ ایک خوش خبری تھی۔ لیکن میں اپنا قرض اتار رہی ہوں کہ زندگی میں اس کی دوستی کا حق تو ادا نہ کر سکی۔ اس نے خاموش رہنے کو ترجیح دی۔ میرے ہزار کہنے کے باوجود اس نے خاندان میں کسی کو بھی حقیقت سے آگاہ نہ کیا۔ بس ایک بار اس نے کہا تھا کہ میرے ساتھ چلو میرا جی گھبرا رہا ہے۔ میں کسی بھی طرح بیٹے کو دیکھنا چاہتی ہوں۔ چاہے اس کی بیوی اندر بھی نہ آنے دے۔ لیکن ایک بار چلو۔ لیکن میں نے اس کی اس خواہش کو اس لیے ٹال دیا کہ ان کے شوہر ایسا نہیں چاہتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ جن سرد اور صبر آزما تکلیف دہ لمحوں کو وہ اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتی ہیں اس کے بعد شاید وہ واپس ہی نہ آ سکیں۔ ان کی بات اپنی جگہ درست تھی۔ وہ اپنی وفا شعار اور خدمت گزار بیوی کو جذباتی صدموں سے بچانا چاہتے تھے۔ وہ کہتی تھی کہ اس کے مرنے کے بعد ہو سکے تو بیٹے سے اس خواہش کا اظہار کر دینا کہ اکیلے کمرے میں بیٹھ کر یہ گیت ضرور ایک بار سن لے جس کے بول ہیں:

رہیں نہ رہیں ہم، مہکا کریں گے
بن کے کلی، بن کے صبا، باغ وفا میں
کسی کو تو اس ماں کا دکھ سامنے لانا چاہیے تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔