ہٹلر ڈرا ہوا تھا۔۔۔

شائستہ انجم  اتوار 26 جون 2022
اپنی آواز سے لرزہ طاری کرنے والا ہٹلر خود کس خوف میں مبتلا تھا؟ ۔ فوٹو : فائل

اپنی آواز سے لرزہ طاری کرنے والا ہٹلر خود کس خوف میں مبتلا تھا؟ ۔ فوٹو : فائل

واہ کینٹ: حال ہی میں شائع ہونے والے خطوط سے منکشف حقائق کے مطابق اپنے دشمنوں کے لیے خوف کی علامت بننے والا ہٹلر خود بھی ایک خوف میں پوری شدت سے مبتلا تھا۔

ریکارڈ کے مطابق 46سالہ مریض ایڈولف مولر (Adolf Moler) ہونٹوں کے اوپر دو انگلی کے برابر نمایاں مونچھوں کا مالک ’ انسانیت کا بہت بڑا قاتل ‘ درحقیقت ایڈولف ہٹلر (Adolf Hitler) تھا۔ 62 سالہ معالج ڈاکٹر وان ایکن (Von Eicken) کو دنیا کی تاریخ بدل دینے کا موقع میسر تھا مگر اس نے خود کو ایک معالج کی حیثیت سے ہی فرائض انجام دینے کا فیصلہ کیا۔

بہت سی کتابوں میں ہٹلر کی صحت اور نشہ آور ادویات کے استعمال کے بارے میں ذکر موجود ہے مگر حیران کن طور پر اس کی طاقت کے مرکز یعنی اس کی آواز کو نظراندار کردیا گیا۔ اس کی آواز 1935ء سے مسلسل تقاریر کرنے سے بھاری ہونے لگی تھی جس سے وہ عوام کے جم غفیر کو اپنی جانب متوجہ کر لیتا تھا۔

ہٹلر جرمن زبان میں نہایت فصاحت اور بلاغت پر مبنی تقاریر کرنے پر قادر تھا۔ لیکن اندر ہی اندر اسے شدت سے یہ خوف لاحق تھا کہ کہیں وہ گلے کے کینسر میں مبتلا ہوکر اپنی قیمتی آواز نہ کھو دے۔ کارل اوٹو وان ایکن (Carl Otto Von Eicken) وہ شخص تھا جس نے اسے اس کی آواز لوٹا دی۔

ڈاکٹر کارل اوٹو وان ایکن کے پڑ پوتے 21سالہ رابرٹ ڈوپیجن (Robert Doepgen) یونیورسٹی کا طالب علم جس نے سوئزرلینڈ کے شہر باسل (Basel) میں پرورش پائی نے کہا،’’میرے لیے یہ بات نہایت فخر کا باعث ہے کہ میرے خاندان کے کسی شخص نے ہٹلر کا علاج کر کے تاریخ رقم کی۔‘‘ رابرٹ ڈاپجن پر اس بات کا انکشاف اس وقت ہوا جب اس کے گرامر کے استاد نے ہٹلر کے ذاتی معالج تھوڈور مورل (Theodor Morell) کا ذکر کیا۔

اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے خاندان کے بارے میں تحقیق کرے گا اور کھوج لگائے گا کہ اس کا پڑدادا ڈاکٹر کارل اوٹو وان ایکن جو ہٹلر کے ذاتی معالجین میں سے ایک تھا ہٹلر کے ظلم، بربریت اور جابرانہ شخصیت کے بارے میں کیا کچھ جانتا تھا۔ اس کے ذہن میں یہ سوال ابھرا کہ کیا ڈاکٹروان ایکن کو اپنے پیشہ ورانہ فرائض سے ہٹ کر کچھ کرنا چاہیے تھا؟ بالآخر ہم صرف اس بات کے لیے جواب دہ نہیں ہیں جو فعل ہم انجام دیتے ہیں بلکہ اس بات کے لیے بھی جواب دہ ہیں جو ہم نہیں کر سکے۔

وان ایکن کے پڑپوتے نے اپنی ماں کی مدد سے پچھلے تمام غیرمطبوعہ خطوط اکٹھے کیے جن میں ڈاکٹر نے نہایت فخر سے ہٹلر کے ساتھ تواتر سے ہونے والی ملاقاتوں کا ذکر کیا۔ ڈاکٹر وان ایکن نے دوسرے تمام لوگوں کی نسبت ہٹلر سے دیرینہ اور قریبی مراسم استوار کرلیے۔

اس مقصد کے لیے اس نے اپنے پیشہ وارانہ مستقبل کو بھی دائو پر لگا دیا۔ وہ جھک کر اس کے گلے کا معائنہ کرتا مگر نسلی امتیاز اور تفاخر کے اس بت سے آنکھیں چرا لیتا۔ وان ایکن کا تعلق ایک متوسط خاندان سے تھا۔ اس نے جرمنی کے شہر کیل (Keil) سے کان، ناک اور گلے کے علاج کی تعلیم اور تربیت حاصل کی۔ رابرٹ ڈاپجن کے مطابق ڈاکٹر وان ایکن نے جرمنی کے چار سیاسی ادوار دیکھے اور چاروں مقتدر طبقے سے تعلقات استوار رکھے۔

خطوط میں رابرٹ ڈوپجن نے آپریشن کے نسخہ جات کا خلاصہ اور اپنے خاندان کے بارے میں مکمل اظہارخیال بھی تلاش کر لیا لیکن اسے ڈاکٹر وان ایکن کے بین الاقوامی حالات کے بارے میں لکھا ایک لفظ بھی نہ ملا جو لوگوں کی محرومیوں اور دکھوں کے بارے میںہونا چاہیے تھا، وہ ایک غیرسیاسی شخص تھا۔

رابرٹ ڈاپجن نے اس بارے میں اظہارخیال کرتے ہوئے کہا کہ یوں دکھائی دیتا ہے کہ ڈاکٹر وان ایکن کے ارد گرد جو حالات تھے اس کے بارے میں اس نے اپنی آنکھیں مکمل طور پر بند کر رکھی تھیں۔ شاید وہ یہی کر سکتا تھا۔ بحیثیت ایک آرین (Aryan) وہ بہت خوش قسمت تھا۔ کاغذات میں بھی اس کی شناخت یہی تھی۔ وہ ہر جانب سے فاتحین میں شامل تھا۔

ڈاکٹر کارل وون ایکن 1922ء میں برلن شیرٹ (Berlin Charite) کے مشہور یونیورسٹی ہاسپٹل میں تعینات ہوا۔ وہ اپنی بیوی اور 9 بچوں کے ساتھ کوفرسٹنڈم Kurfurstendamm کے مہنگے اپارٹمنٹ میں رہائش پذیر رہا۔ اس کے بعد ڈیہلم Dahlemکے نزدیک بڑے بنگلے میں منتقل ہوگیا اور وقت کے ساتھ ساتھ وہ بین الاقوامی طور پر ایک روشن شخصیت کے طور پر جانا جانے لگا۔1928ء میں اس نے افغانستان کے حکم راں امان اللہ کے گلے کے بڑھے ہوئے غدود کا علاج بھی کیا۔

ہٹلر کے اقتدار سنبھالتے ہی اس کی جرمن نسلی برتری کا نظریہ اسپتالوں میں بھی گردش کرنے لگا۔

اس نے 1939ء میں ناقابل علاج، جسمانی اور ذہنی معذور، نفسیاتی بیمار اور معمر ترین لوگ جو ریاست کے خزانے پر بوجھ سمجھے جاتے تھے ان پر Euthanasia T4 پروگرام کے تحت Parasites of the German People کا لیبل لگا کر ختم کرنے کا پروگرام شروع کیا۔ اس پروگرام کے تحت 25000 کے لگ بھگ خفیہ طور پر انسانوں کا قتل عام کیا۔ اس کے علاوہ 1945ء میں نازی فوج کی شکست تک لاکھوں کی تعداد میں یہودی نسل کشی کی گئی۔

جرمن میڈیکل ایسوسی ایشن کے سابق صدر جارج ڈیٹرک ہوپ (Jorg Dietrich Hoppe ) نے ڈاکٹروں کی T4 پروگرام میں شمولیت کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ جرمن ڈاکٹروں کی رضامندی کے بغیر اتنی بڑی تعداد میں قتل عام ممکن ہی نہیں تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر بزدل اور موقع پرست تھے اور ان کی ایک کثیر تعداد ظلم کے سامنے خاموشی اور متفق رہنے کی مجرم تھی اور وہ حقیقی معنوں میں سزا کے مستحق تھے۔

رابرٹ ڈاپجن اور اس کی ماں کے مطابق ڈاکٹر وان ایکن نے بہت تاخیر سے یعنی 20فروری 1942ء میں نازی میڈیکل ایسوسی ایشن میں شمولیت اختیار کی، اس لیے اس کے بارے میں یہ یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ وہ نسل پرست ہٹلر کا ہم نوا تھا۔ مگر کاغذات میں اس کا نام NSDAP قومی اشتراکی جرمن مزدور پارٹی (National Socialist German Workers’ Party) کے رکن کی حیثیت سے درج تھا۔ جارج ڈیٹرک ہوپ نے اپنے کئی یہودی ساتھی طبی ماہرین کے معطل کردیے جانے یا اچانک غائب ہوجانے کا بھی ذکر کیا اور بتایا کہ کیسے ڈارون نظریہ کے تحت اصلاح شدہ مطلوبہ نسل کا حصول ڈاکٹروں کے اٹھائے گئے حلف پر غالب آگیا جو انہوں نے تعصب سے پاک انسانیت کی خدمت کے لیے اٹھایا تھا۔ ڈاکٹر وان ایکن نے انسانیت کی نہیں بلکہ ’’فیوہرر‘‘ کی خدمت کی تھی مگر کیا اس کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ تھا؟

ہٹلر کے اسسٹنٹ اور وفادار ساتھیوں نے ڈاکٹروان ایکن کی سیاسی وابستگی کو خوب جانچنے کے بعد اسے اپنے طبی آلات شارپ بلیڈ کے ساتھ فیوہرر ہٹلر کے گلے کا سامنا کر نے کی اجازت دی۔ ڈاکٹر وان ایکن نے اپنے کزن کو لکھے ذاتی خطوط میں کہا کہ ہٹلر کے آواز کے غدود کا معائنہ پہلی بار 15مئی 1935ء کو ہوا جب اس نے حلق میں کانٹا نگلتے ہوئے محسوس کیا۔ اس وقت فیوہرر کو یہ یقین ہو گیا تھا کہ وہ شدید بیمار ہے۔ اس نے ڈاکٹر سے کہا ’’اگر کچھ غلط یا برا ہے تو اسے اپنے بارے میں جاننے کی ضرورت ہے۔‘‘

ڈاکٹر وان ایکن نے اپنے اور ہٹلر کے درمیان ہونے والے مکالمے تحریر کیے جو ظاہر کرتے ہیں کہ ہٹلر نے کیسے اس کے طبی مشوروں کے سامنے سر جھکا دیا اور یوں ڈاکٹر بعد میں آنے والے دس سال تک اس کے ساتھ وابستہ رہا۔

ہٹلر: ’’تم کب سے علاج شروع کر سکتے ہو؟‘‘
ایکن: ’’جیسے ہی آپ کا حکم ہو، فوراً‘‘

ہٹلر :’’مجھے ایک بڑی تقریر کرنا ہے۔ میں اسے کچھ دن کے لیے مؤخر کر دوں گا۔ ‘‘
ڈاکٹر ایکن: ’’ان حالات میں علاج کے بعد آپ کو ہر صورت اپنی آواز کی ہڈیوں (Vocal Cords) کو کچھ دن کے لیے مکمل آرام دینا ہوگا۔‘‘

ہٹلر: ’’تو پھر تم میرے خطاب کے بعد ہی علاج کر سکتے ہو۔‘‘
یہ ممکن ہے کہ محض اپنے کزن کو متاثر کرنے کے لیے ڈاکٹر نے اپنے اور ہٹلر کے درمیان ہونے والے مکالموں کو تحریر کرنے میں مبالغہ آرائی سے کام لیا ہو۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہٹلر ڈاکٹر وان ایکن کے علاج سے نہایت مطمئن تھا۔ ہٹلر کی آواز کی ہڈی کے کام یاب آپریشن کے بعد فیوہرر بہت خوش تھا۔ اس نے ڈاکٹر کی ران پر خوشی سے تھپکی دی۔ ڈاکٹر وان ایکن نے اپنے کزن کو تحریر کیا کہ اس نے جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد ہٹلر کی موت تک اس کا علاج کیا۔

جنگ کے خاتمے کے بعد امریکا کی خفیہ ایجنسی نے ڈاکٹر ایکن سے سوال کیا کہ قومی اشتراکیت (National Socialism) کے بارے میں اس کی کیا رائے ہے تو اس نے جواب دیا: ’’میںنے یہودیوں پر بہت ہیبت ناک حملے ہوتے دیکھے۔‘‘

ہٹلر اپنی آواز کی طاقت سے بخوبی آگاہ تھا جو اس نے اپنے سیاسی سفر کی ابتدا میں عوام کو مجتمع کر نے میں استعمال کی۔ وہ اپنی اسی آواز کی بدولت عظمت کی بلندیوں پر جا پہنچا تھا۔ ابرڈین (Aberdeen) کے تاریخ کے پروفیسر تھامس ویبر (Thomas Weber) نے ہٹلر کا نوجوانی سے تیزی سے طاقت حاصل کرنے کا مشاہدہ کیا تھا۔ تھامس ویبر کا کہنا تھا کہ ہٹلر ایک اداکار تھا۔ اگرچہ وہ اندر سے عدم تحفظ کے احساس میں مبتلا تھا مگر اسٹیج سجا کر اپنی آواز سے خود اعتمادی برقرار رکھتے ہوئے لوگوں کو اپنے ارد گرد اکٹھا کر لیتا تھا۔ لوگ دور دور سے اس کا خطاب سننے کے لیے آیا کرتے تھے۔

سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے عوام سے براہ راست خطاب کرنا اعلیٰ تحریریں لکھنے سے زیادہ عمدہ اور نتیجہ خیز عمل ہے۔ ہٹلر نے بذات خود اپنی اشتعال انگیز کتاب Mein Kampf (میری جدوجہد) میں لکھا،’’میں سمجھتا ہوں کہ دنیا کی ہر بڑی تحریک اچھا لکھنے والوں کے برعکس عظیم بولنے والے کی مقروض و ممنون ہوتی ہے۔‘‘

ڈاکٹر اینجا بز (Anja busse) کا کہنا ہے کہ آواز شخصیت کا عکس ہوتی ہے۔ اس کے مطابق ہٹلر کی آواز چھید کر دینے اور خبردار کر دینے والی تھی۔ عوامی اجتماع کے سامنے وہ اپنے جسم کے مرکز کے بجائے گلے سے چلاتا تھا۔

یہ حیرت کی بات نہیں کہ اس کی بھرّائی ہوئی آواز عوام کو اپنے سحر میں جکڑ لیتی تھی۔ وہ اپنی آواز کے اتار چڑھائو سے اپنے مختصر جملے کے آخری حصے میں عوام کو اپنے پیغام کا اشارہ دے دیتا۔ اس کے دل دہلا دینے والے الفاظ کی شدت تمام لوگ محسوس کرتے تھے اور اس کی چنگھاڑ مستند ہوتی۔ وہ عوام پر ایک خاص جذبہ طاری کرنے میں کام یاب ہو جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی آواز کبھی کھونا نہیں چاہتا تھا۔ وہ ہمیشہ ڈاکٹر وان ایکن کو اپنے ساتھ رکھتا۔ 20جولائی 1944ء کو جب ہٹلر پر ایک بم کے ذریعے قاتلانہ حملہ ہوا تو دھماکے کی آواز سے اس کے کان کے پردے پھٹ گئے۔ اس موقع پر بھی ڈاکٹر وان ایکن کو ہی اس کے علاج کے لیے بلایا گیا۔ اس نے 5 جنوری 1945ء کو اپنے کزن کو خط میں لکھا کہ اس نے ہٹلر کی جسمانی اور ذہنی امراض کا علاج کیا تھا۔

ہٹلر قبل ازوقت مر جانے کے شدید خوف میں مبتلا تھا، چناںچہ وہ ہر وقت بہت سے طبّی ماہرین میں گھرا رہتا تھا۔ ہٹلر نے برملا اس بات کا اعتراف کیا کہ اسے اپنے ENT ڈاکٹروان ایکن پر مکمل بھروسا ہے کہ صرف وہی اسے بچا سکتا ہے۔

22 نومبر 1944ء ک اس کی مخر کی ہڈی (Vocal Cord) کو نکال دیا گیا۔ ایک ماہ بعد ڈاکٹر وان ایکن ہٹلر سے ملاقات کے لیے اس کے ہیڈ کواٹر ’’Eagle’s Nest‘‘ پہنچا۔ اسے یہ دیکھ کر خوش گوار حیرت ہوئی کہ وہ جسمانی طور پر کتنا بہتر تھا۔ وان ایکن نے خط میں تفصیل سے بتایا کہ ہٹلر تازہ ہوا میں چہل قدمی کرتا ہے اور اب اس کی نیند بھی بہتر ہو گئی ہے۔ وہ ہٹلر کے بارے میں ایسے پُرشفقت انداز میں بات کرتا جیسے وہ کسی بچے کا ذکر کر رہا ہو۔ خط کے آخر میں اس نے اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ وہ اب مکمل صحت یاب ہے۔

30 اپریل1945ء کو ہٹلر نے خودکشی کر لی اور جب اس کی لاش کا جلا ہوا ڈھانچا اس کی موت کی تصدیق کے لئے قبضے میں لیا گیا تو اس کے دانت اس کے ENT ڈاکٹر وان ایکن کو ہی پیش کیے گئے کہ وہ تصدیق کرے کیا وہ دانت واقعی ہٹلر ہی کے تھے۔ مگر اس نے یہ معاملہ ہٹلر کے پرانے ذاتی دانتوں کے معالج کو سونپنے کا مشورہ دیا۔ یوں وان ایکن کے ہٹلر سے برسوں پرانے تعلقات کا اختتام ہوگیا۔

دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد امریکی اور روسی تفتیش کاروں نے ڈاکٹروان ایکن سے پوچھا کہ اس کے پاس موقع تھا کہ وہ ہٹلر کو ختم کر دیتا مگر اس نے ایسا کیوں نہ کیا؟ اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر وان ایکن نے کہا،’’میں اس کا معالج تھا قاتل نہیں۔‘‘ اس کے بعد بھی جب کبھی ہٹلر کے موضوع پر بات ہوتی تو اس کا جواب ہمیشہ یہی ہوتا۔

وان ایکن کے پڑپوتے رابٹ ڈوپجن (Robert Doepgen ) نے اپنے آبائو اجداد کی زندگی کا خلاصہ تیار کیا۔ اس نے بارہا خود سے ایک ہی سوال کیا،’’اگر ڈاکٹر وان ایکن ہٹلر کے پولپس غدود (Gland Polyp ) نہ نکالتا اور اپنے جراحی کے بلیڈ سے پوری غذائی نالی کاٹ دیتا تو کیا ہوتا؟ بالآخر چند لوگ ہی ہوتے ہیں جو دنیا کی تاریخ بدل دیتے ہیں۔‘‘ مگر یہ اتنا آسان نہ تھا۔

رابرٹ ڈوپجن نے اپنی ایک خاندانی تقریب میں اکٹھے ہونے والے رشتہ داروں سے یہی سوال کیا مگر جواباً سب خاموش رہے۔ وہ پرانی جنگ کی کہانیوں کا ذکر بھی نہیں کرنا چاہتے تھے کہ کہیں تقریب کا مزا کرکرا نہ ہوجائے۔ ڈاکٹروں کے اس عملے نے بھی اس سوال کے جواب میں خاموشی اختیار کی جس کی بدولت ہٹلر دوبارہ چنگھاڑنے کے قابل ہوا تھا۔

برطانیوی مورخ رچرڈ ایون (Richard Evan) نے بھی ڈاکٹر وان ایون کے خطوط کے اصل ہونے کی تصدیق کی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ حقائق جانے پہچانے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ زیادہ محنت کی وجہ سے ہٹلر کی آواز کی ہڈی کے دو آپریشن ہوچکے تھے۔ یہ خطوط اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ہٹلر گلے کے کینسر کے خوف میں بری طرح مبتلا تھا۔ اس سے پہلے جرمن قیصر فیڈرک سوئم (Friedrich III) 1888ء کو گلے کے کینسر سے وفات پا چکا تھا۔

ہٹلر کے دماغ کے کسی گوشے میں یہ بات بیٹھ چکی تھی۔ 1935ء میں اس کے گلے کے پہلے آپریشن کے بعد جب اسے یہ معلوم ہوگیا کہ وہ کینسر میں مبتلا نہیں ہے تو اس نے سکھ کا سانس لیا۔ ڈاکٹر وان ایکن نے نہ جانے کیوں جانتے ہوئے بھی اپنے خطوط میں ہٹلر کے بائیں ہاتھ میں رعشے کا تذکرہ نہیں کیا۔ 1944ء کے بعد وہ عوام کے سامنے کم ہی بول پایا۔ آخری دور میں اس کی آواز اس کے اقتدار کو سہارا دینے میں بہ مشکل ہی کام یاب ہو سکی۔ وہ عموماً اپنی تقریر کا آغاز خاموشی سے کرتا اور بتدریج اپنی آواز میں جذبات کی شدت میں اضافہ کرتا چلا جاتا۔ 1934ء میں پارٹی کانگرس میں کی گئی اس کی مشہور تقاریر میں وہ فقط غراتا اور چلاتا رہا۔

ہٹلر اپنے سامعین پر بھاری جذباتی اثرات مرتب کر دیتا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب ریڈیو کی بہت اہمیت تھی۔ لیکن عوام کے سامنے دوبدو خطاب کرنا زیادہ اہم اور پرتاثیر تھا۔ اس زمانے میں ہٹلر روزانہ چالیس ہزار سے زیادہ حاضرین سے خطاب کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ 1932ء کے جون اور جولائی کے مہینے میں تو اس نے ایک دن میں دو سے تین مرتبہ بھی خطاب کیے۔

یہ بات بھی دل چسپی سے خالی نہیں کہ 1930ء کے بعد اس نے دنیا پر غلبہ پانے کے ارادے کا کا کھل کر اظہار کرنا شروع کردیا۔ سوئس مورخ جارج فش (Jorg Fisch) کہتا ہے کہ ہٹلر اپنی تقاریر کے ذریعے نسلی برتری کے احساس کے تحت تمام دنیا پر حکم رانی کرنا چاہتا تھا۔ جنوری 1933ء کے بعد وہ انہی خیالات کا تسلسل سے اظہار کرتا رہا۔ وہ جانتا تھا کہ اس کی تقاریر جرمنی سے باہر بھی دل چسپی سے سنی جاتی ہیں۔

آج سے سو سال قبل دنیا ہٹلر کے فن تقریر کی معترف تھی۔ اس کا انداز دوسروں سے قطعی مختلف تھا۔ نازی پارٹی کے اعلیٰ عہدے داران مثلاً جولس اسٹریچر (Julius Streicher) صرف چِلاّتا تھا، جب کہ ہٹلر جانتا تھا کہ تقریر کے دوران اپنی آواز کو کب بلند و پست اور کب توقف اور تیزی اختیار کرنا ہے۔

ڈاکٹر وان ایکن کوئی سیاسی شخصیت نہیں تھا۔ وہ محض ایک تعلیم یافتہ شخص تھا، جب کہ ہٹلر ایک منتخب جمہوری حکومت کا مرکزی ستارہ اور مکمل اقتدار کا مالک تھا۔ جرمنی کے گلی محلوں میں لوگ ’ہیل ہٹلر‘ Heil Hitler کہہ کر ایک دوسرے کا خیرمقدم کرتے تھے۔ ہٹلر تمام لوگوں سے مقدم تھا۔ لوگ اس پر اپنی جان دینے کے لیے تیار رہتے تھے۔ ڈاکٹر وان ایکن بھی اس کا نہایت احترام کرتا تھا۔

یہ اس کے لیے باعث فخر تھا کہ اس کو ہٹلر کے علاج کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔ کیسی عجیب بات تھی کہ ایک شخص جو ہٹلر کے آواز کے بارے میں نہایت متفکر تھا مگر اس کے کان کبھی یہ سن نہ سکے کہ دنیا اسے قصاب پکارتی تھی۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ زیادہ تر طبی ماہرین اور معالجین پر جوش نیشنل سوشلسٹ تھے۔ جرمنی کے ہر مکتبۂ فکر اور شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والوں میں سے کچھ لوگ یہودیوں کے بدترین دشمن تھے۔ ڈاکٹر وان ایکن بھی ان میں سے ایک تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔