پہلے 72 گھنٹے

محمد کریم احمد  جمعرات 23 جون 2022
امریکہ کو 2001 میں افغانستان سے نکل جانا چاہیے تھا، امریکی سفارتخانے کے فوجی آتاشی ڈیوڈاوسمتھ 9/11 کے بعد امریکی سفارتخانے میں ہونے والی سرگرمیوں کا احوال بیان کرتے ہیں ۔ فوٹو : فائل

امریکہ کو 2001 میں افغانستان سے نکل جانا چاہیے تھا، امریکی سفارتخانے کے فوجی آتاشی ڈیوڈاوسمتھ 9/11 کے بعد امریکی سفارتخانے میں ہونے والی سرگرمیوں کا احوال بیان کرتے ہیں ۔ فوٹو : فائل

 تحریر : ڈیوڈ او سمتھ 

اسلام آباد میں قائم امریکی سفارت خانے میں ڈھلتے موسم گرما کا یہ ایک روایتی دن تھا۔ بہت گرم مگر شام میں ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ایک عارضی راحت کا سامان لاتا۔حال ہی میں تعینات ہونے والی سفیر وینڈی چیمبر لین نے ہفتہ وار میٹنگ پول کور” سوا نوبجے مقرر کر رکھی تھی۔ اس گروپ میں ڈپٹی چیف آف مشن، پولیٹیکل قونصلر، سٹیشن چیف، پاکستان کے لیے دفاعی نمائندہ کے دفتر کے چیف، ریجنل سیکورٹی آفیسر اور میں دفاعی اتاشی کے سینئیر نمائندہ کے طور پر موجود تھا۔ میں سفارتخانہ میں آرمی اتاشی تھا۔ ڈیفنس اتاشی ملک سے باہرتھا اور کئی ہفتوں سے ملک سے باہر تھا۔

میٹنگ کے ایجنڈ ے میں دو دن بعد تیرہ ستمبر کو سفارتی اسناد پیش کرنے کی تقریب، یو ایس سینڑل کمانڈ کے کمانڈر کا دورہ، بش انتظامیہ کا دہائیوں سے پاکستان کے نیوکلیئرپروگرام پر عائد پابندی ہٹانے کا منصوبہ جو پاکستان کے نیو کلیئر پروگرام کو روکنے میں ناکام رہا، شامل تھا۔ سفیر نے اس بات پر زور دیاکہ یہ وقت ہے کہ ہم انسداد دہشت گردی جیسے منصوبوں کے حوالے سے آگے بڑھیں۔اس منصو بے میں امریکہ کو پاکستان کی ضرورت بطور حلیف کے تھی، نہ کہ حریف کے۔

گیارہ ستمبر دو ہزار ایک کو باقی وقت سفارت خانے کے روز مرہ معمولات نبھا نے میںگزرا۔ میں ابھی گھر لوٹا ہی تھا کہ ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔

” ابھی خبریں سنو۔۔۔ ” ایک دفتری اہلکار نے چیختے ہوئے کہا اور فون بند کردیا۔

ایک سی این این رپورٹر نیویارک سٹی کی بلند عمارت پر کھڑا تھا اور دور عقب میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی جلتی ہوئی عمارت نظر آ رہی تھی۔ حیران و افسردہ، میں دیکھنے کے لیے بیٹھ گیا، یہ سوچتے ہوئے کہ کیا ہو گیا ہے۔ کچھ ہی لمحوں میں جواب آگیا، جب ایک طیارہ عمارت کے دوسرے ٹاور سے ٹکرا گیا۔ دو گھنٹوں تک میں حیرت اورخوف کے ملے جلے جذبات سے ٹی وی پرآنے والی خبروں کو دیکھتار ہا۔ تیسرا جہاز پینٹا گان سے ٹکرایا اور چوتھا طیارہ ائیر ٹریفک کنڑول کی ہدایات کا جواب نہیں دے رہا تھا اور بعد ازاں وہ پنسلوانیا میں گر گیا۔ میں اور میری بیگم خاموش ہو گئے جب ایک ٹاور گرا اور پھر دوسرا۔ میرے فون کی گھنٹی بجی اور پیغام دیا گیا کہ سفیر تیس منٹ میں ایمبیسی ایمرجنسی ایکشن کمیٹی کی میٹنگ بلا رہی ہیں۔

رہائش گاہ پر، ہم سیڑھیاں چڑھ کر ان کے دفتر میں گئے۔ وہ فون پر بات چیت میں مصروف تھیں تو ہم خاموشی سے اکٹھے ہوئے اور اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھ گئے۔ میرے ذہن میں اس بارے میں کوئی شک نہیں تھا کہ افغانستان میں موجود اسامہ بن لادن اس روز کے واقعات کا ذمہ دار تھا۔ اسامہ بن لادن اور اس کی تنظیم القاعدہ کے بارے میں معلومات اکٹھی کرنا سفارت خانے کی اہم ذمہ داری تھا۔ جلد ہی مجھے معلوم ہو گیا کہ امریکہ اب حالت جنگ والی قوم ہو گا اور ہم اس عمل میں فرنٹ لائن ایمبیسی ہوں گے۔

سفیر نے تھوڑی دیر کے لیے فون پر بات چیت روک دی اور کہا کہ یہ میٹنگ سٹیٹ ڈیپارٹمینٹ کی ہدایت پر منعقد کی جا رہی ہے۔ پاکستان کے وزیر خارجہ نے ابھی فون کیا تھا اور پیش آنے والے واقعے پر ”دکھ اور افسوس ” کا اظہار کیا۔ انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ امریکہ اس کے منصوبہ سازوں کو ڈھونڈے گا اور ان کے خلاف کاروائی کرے گا۔ جلد ہی پاکستان کے صدر پرویز مشرف ٹی وی پر یہی کچھ کہیں گے۔

سفیر نے مزید کہاکہ اسٹیٹ ڈیپارٹمینٹ آپریشن سنٹر نے بیرون ملک قائم سفارتی مشنز پر حملے کا انتباہ دیا ہے۔ اور بہت سے سفارت خانوں نے صورت حال واضح ہو نے تک سفارتخانوں کو بند کرنے کافیصلہ کیا گیا ہے۔

” ہمیں کیا کرنا چاہیے” سفیر نے ہم سے پوچھا۔

میں نے فوری جواب دیا کہ سفارت خانے کو بند کرنے سے غلط پیغام جائے گا۔ اگرہم کہیں چھپ جاتے ہیں یا خفیہ مقام پر جاتے ہیں تو پاکستانی اس کو ہمارے خوف سے تعبیر کریں گے۔ ہمیں سفارت خانے کو معمول کے معمولات کے لیے کھلا رکھ کر اور تمام سماجی تقریبات میں شرکت کر کے طاقت اور اعتماد کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

باقی لوگوں نے اس سے اتفاق کیا۔ میٹنگ میں سیکرٹری آف اسٹیٹ کولن پاول کی کال سے وقفہ ہوا۔ سفیر تھوڑ ی دیر کے لیے رک گئیں، اپنے خیالات کو الفاظ دینے کے لئے لمحہ بھر کو رکیں اور پھر ہماری طرف متوجہ ہوئیں۔ انہوں نے کہا کہ بحران واشنگٹن میں ہے۔ ملک سے باہر نہیں ہے۔ ہمیں متحمل مزاج لوگوں کی ضرورت ہے او ر ہمیں اپنے جذ بات کو اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دینا۔ اگلے روز سفارت خانے روانگی کے لیے میں نے ا پنی ورد ی پہنی ۔

اس روز میری جی ایچ کیو میں ڈائریکٹر جنرل ملٹری اینٹیلیجنس میجر جنرل طارق مجید سے ملاقات طے تھی۔ میجر جنرل طارق مجید انیس سو بیاسی میں پاکستان آرمی کے سٹاف کالج کورس میں میرے کلاس فیلو تھے۔ میں نے ان سے ملاقات کے لیے سوالات اور بات چیت کی طویل فہرست بنائی تھی۔ میں نے میٹنگ کا آغاز پاکستانیوں کی جانب سے اظہار افسوس کے لاتعداد پیغامات سے کیا۔ میں نے ان سے کہا کہ اب جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ تعزیتی پیغامات نہیں ہیں بلکہ حملے کے منصوبہ سازوں کو پکڑنے کے لیے ہمیں پاکستان سے حقیقی تعاون کی ضرورت ہے۔ میں نے ان سے زور دے کر کہا کہ امریکیوں نے خانہ جنگی کے بعد اب اس قسم کی تباہی کو اپنی سر زمین پر دیکھا ہے اور امریکی قوم کے جذبات اسی طرح کے رنجیدہ ہیں، جیسے پرل ہاربر واقعے کے بعد ہوئے تھے۔ پھر میں نے سوالات کی طویل فہرست کو پڑھا اور ان کے جوابات مانگے۔

میجر جنرل طارق مجید نے پہلے ذاتی حیثیت میں اظہار افسوس کیا اور کہا کہ ہر پاکستانی نے ان حملوں کی مذمت کی ہے یہاں تک کہ مغرب مخالف اردو پریس نے بھی اس کی مذمت کی ہے۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ سب سے زیادہ مشکوک شخص بن لادن ہی ہے۔ لیکن انہوں نے تجویز دی کہ تمام پہلووں کو دیکھنا دانشمندی ہے بجائے اس کہ سب سے زیادہ مشکوک شخص پر توجہ دی جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہر حال میں یہ امریکی اینٹلی جنس کی ناکامی ہے کہ ایک گھنٹے میں چار ہائی جیکنگز ہوئیں اور ان میں سے تین نے بیک وقت اپنے ہدف کو نشانہ بنایا۔ یہ انتہائی مہارت کا ثبوت ہے۔

انہوں نے شکایت کی کہ ہمیں بھی افسوس ہوا ہے کہ ہمارے تزویراتی مفادات کو نقصان پہنچا ہے۔ جونہی جنرل طارق نے مہارت سے پاکستان ایک” متاثرہ ملک بیانیہ” کا ذکر کیا جس کو میں سننے کا عادی ہو چکا تھا تو میں نے اندازہ لگا لیا کہ امریکہ – پاکستان تعاون پر ابھی جنرل مشرف نے کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ میں نے ان کے وقت کا شائستگی سے شکریہ ادا کیا اور میٹنگ ختم کردی۔ تیرہ ستمبر کا دن ڈیفنس اتاشی آفس کے سٹاف کے ساتھ اس سوچ بچار میں گزرا کہ بڑھتے ہوئے کام کو کیسے نمٹایا جائے۔ گزشتہ چھتیس گھنٹوں سے اطلاعات کی فوری فراہمی کی درخواستیں آ رہی تھیں۔ زیادہ تر درخواستیں ڈیفنس ہیومن انٹیلی جنس سے آئیں جبکہ باقی ریجنل کمانڈ سے ان کے معاون اداروں کی جانب سے آئیں اور کچھ پینٹا گان کے نیشنل ملٹری جوائنٹ انٹیلی جنس سینٹر سے آئیں۔ ان میں درج ذیل سوالات پوچھے جاتے تھے۔

مشرف حکومت کتنی مضبوط ہے؟کیا پاکستان آرمی کے آفیسرز اورجوان طالبان کے خاتمے کی تائید کریں گے۔؟مقامی ردعمل کیا ہو گا؟ کیا نو کور کمانڈرز، پاکستان آرمی کے موثر آفیسرز، تعاون کے فیصلے کی مکمل حمایت کریں گے۔؟ آرمی کے اندر طالبان کی حمایت کتنی ہے؟کیا مشرف کے خلاف بغاوت کا امکان ہے؟کیا پاکستان کے ایٹمی ہتھیار محفوظ ہیں؟طالبان حقیقت میں ہیں کون؟ان کے اہم لیڈرز کے کیا نام ہیں؟ان میں سے اہم اور غیر اہم کون ہیں؟کیا کسی کے پاس ملا عمر کی تصویر ہے؟ طالبان کتنے مسلح اور ہتھیاروں سے لیس ہیں۔؟طالبان کی شمالی اتحاد کے خلاف مہم کیسے جا رہی ہے؟کیا ہم شمالی اتحاد کے ساتھ کام کر سکتے ہیں؟کس پر اعتبار کیا جا سکتا ہے؟کس پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا ہے؟انڈیا کیا کرے گا؟وسطی ایشیا کے پڑوسی ممالک کیا کریں گے؟ایران،چین اور روس کا ردعمل کیا ہو گا؟کیا ایمیسی کو خطرہ ہے؟

محفوظ ٹیلی فون سے ہر گھنٹے امریکی ایجینسیز اور ہیڈ کوارٹر سے اس طرح کی درجنوں درخواستیں آتیں۔ سوالات کو تو ایک طرف رکھیں صرف فون اٹینڈ کرنا بہت زیادہ وقت مانگتا تھا۔

پاکستانی تعاون کا حصول

میں نے اسناد سفارت پیش کرنے کی رسمی تقریب میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا اور اس میں نیول اتاشی کو بھیج دیا۔ اس روز سہ پہر سفیر نے عجلت میں ایک میٹنگ بلائی اور جنرل مشرف کے ساتھ ہونے والی ون ٹوون میٹنگ کے بارے میں بتایا۔

ایک روز قبل ڈائریکٹر جنرل ملٹری اینٹلی جنس کے ساتھ ہونے والی میری میٹنگ کی طرح یہ میٹنگ بھی مایوس کن ثابت ہوئی۔ سفیر نے خیال ظاہر کیا کہ جنرل مشرف ابھی تک امریکی حکومت کی جانب سے کیے گئے سات مخصوص مطالبات پر غور کر رہے ہیں

سات مطالبات یہ تھے

ایک : القاعدہ کو ڈیورنڈلائن پر روکنا اگر وہ پاکستان میں داخل ہونیکی کوشش کریں اور القاعدہ کے لیے تمام لاجسٹیکل مدد کو ختم کرنا

دو : ضروری فوجی اور اینٹیلی جنس آپریشنز کے لیے فضائی حدود کو استعمال کرنے اور لینڈنگ کی اجازت دی جائے

تین : القاعدہ کے خلاف آپریشن کے لیے امریکہ اور اتحادی ملٹری انٹیلی جنس اور دیگر اہلکاروں کو افغانستان تک جغرافیائی اور زمینی رسائی دی جائے

چار :مطالبے پر انٹیلی جنس معلومات فراہم کی جائیں

پانچ : دہشتگردانہ حملوں کی اعلانیہ مذمت کی جائے

چھ : طالبان حکومت کو ایندھن فراہمی مکمل طور پر بند کی جائے اور پاکستانیوں کو افغانستان جانے اور طالبان کا حصہ بننے سے روکا جائے۔

سات : اگر بن لادن اور القاعدہ کے نائن الیون حملے میں ملوث ہونے کے ثبوت مل گئے اور طالبان نے ان کی حمایت جاری رکھی تو طالبان حکومت کے ساتھ تمام تعلقات فوری طور پر ختم کیے جائیں۔۔۔

جب ” ہمارے ساتھ یا ہمارے مخالف” مطالبہ اٹھایا گیا، تو جنرل مشرف نے امریکہ کی بار بار دھوکہ بازی کا ذکر کر کے یہ بات بدلنے کی کوشش کی۔ جب انیس سو نوے میں پاکستان پر پابندیاں عائد کی گئی تھیں تب سے یہ بات پاکستان کی خارجہ پالیسی کا استعارہ بن چکا تھا۔ سفیر نے اس بات کو ایک طرف کرتے ہوئے کھل کر کہا کہ یہ ماضی کا معاملہ ہے اب پاکستان کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ اسے امریکہ کا اتحادی بننا ہے یا دشمن۔

سفیر نے جنرل مشرف کو یاد دلایا کہ انیس سو اسی میں جب پاکستان نے افغانستان کے معاملے پر فرنٹ لائن ریاست کا کردار ادا کیا تھا۔ تو امریکہ سے کئی مثبت چیزیں پاکستان کو ملی تھیں۔ پابندیوں میں نرمی مل سکتی ہے اگر پاکستان درست فیصلہ کرے۔ اور شاید دوسرے معاملات جیساکہ عالمی معاشی اداروں میں مدد، قرضوں میں ریلیف اور عسکری اور معاشی امداد دوبارہ شروع ہو سکتی ہے۔

مشرف نے شکایت کی کہ منصوبے کی تفصیلات جانے بغیر ملٹری آپریشن میں تعاون مشکل ہے ۔ اور انڈیا پاکستان کو طالبان کے ساتھ ملا رہا ہے کیونکہ پاکستان نے افغانستان کو تسلیم کر لیا تھا۔

جنرل مشرف کو گفتگو میں روکتے ہوئے امریکی سفیر نے کہا کہ نائن الیون نے سب کچھ تبدیل کر دیا ہے اور طالبان کیسا تھ کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے۔ ان کی میٹنگ اس معاملے پر تلخی کے ساتھ ختم ہوئی۔

اگلے دن جمعہ کے روز میں ڈائریکٹر جنرل ملٹری اینٹلی جنس سے دوبارہ ملا جب کہ اینڈی چیمبر لین جنرل مشرف سے ملیں۔ میں نے جنرل طارق سے براہ راست پوچھا کہ کیا چیف ایگزیکٹو نے سات امریکی مطالبات کے حوالے سے کوئی فیصلہ کیا ہے۔ طارق نے بالواسطہ جواب دیا کہ جواب موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے متعلق کوئی ابہا م نہیں ہونا چاہیے۔لیکن اس بات سے بھی آگاہ کیا کہ تعاون کا طریقہ کار طے کرنیکی ضرورت ہے۔ یہ ایک قسم کا تعاون سے انکار والا معاملہ تھا جس کو پینٹا گان ایکشن آفیسرز دہائیوں سے تحقیر آمیز انداز میں ہچکچاہٹ قرار دیتے تھے۔

میرے پاس کوئی وقت نہیں تھا۔ میں نے طارق کو ٹوکا اور ان سے متعلقہ سوالات کے جوابات دینے کا کہا۔

اگر امریکی پابندیاں صرف بن لادن اور القاعدہ پر لگیں جس پر جنرل طارق نے کہا کہ اس پر آفیسرز کو کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔

امریکہ سے تعاون کے لیے عوام اور فوج کو تیار کرنے کے لیے کیا اقدامات کئے گئے ہیں؟۔ اس پر جنرل طارق نے کہا کہ آئی ایس پی آر نے اس حوالے سے پہلے ہی کام شروع کر دیا ہے لیکن امریکہ کو بھی اعلانیہ پاکستان کی حمایت کرنی چاہیے۔

جنرل طارق نے کسی بات کا مکمل جواب نہیں دیا بلکہ پاکستانی حمایت کا اعادہ کیا۔ اور کچھ امور طے کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ کچھ امور طے کرنے کا انہوں نے کئی با ر ذکر کیا۔ اور کہا کہ اس کو لازمی طے کیا جائے۔

جب میں سفارت خانے لوٹا تو چیمبرلین مشرف سے نوے منٹ تک جاری رہنے والی میٹنگ کے بعد لوٹیں تھیں۔

ایک فوری طور پر بلائی گئی ” پول کور” میٹنگ میں انہوں نے تعاون کے حوالے سے چند مخصوص تحفظات کا ذکر کیا جس کی طرف جنرل طارق نے اشارہ کیا تھا۔ سفیر کی جنرل مشرف سے میٹنگ میری جنرل طارق سے ہونے والے میٹنگ سے واضح طور پر خوشگوار تھی۔ صدر مشرف نے بات کا آغاز سات مطالبات کی منظوری سے کیا۔ اور از راہ مذاق کہا کہ ہم ان مطالبات کو مانتے ہیں خواہ ہمیں ان کے حوالے سے مسائل اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔

جنرل مشرف نے کہاکہ کور کمانڈرز اس فیصلے سے پوری طرح متفق ہیں لیکن کچھ چیزوں کی وضاحت ضروری ہے اور کئی پاکستانی تحفظات کا جواب دیا جانا ضروری ہے۔ جنرل مشرف نے تیزی سے سات مطالبات کو ٹک کیا اورکئی تحفظات کا اظہار کیا۔

افغانستان کے ساتھ ڈھائی ہزار کلومیٹر طویل سرحد کو بند کرنا ناممکن تھا۔ کیونکہ راستہ دشوار گزار تھا تاہم انہوں نے کہا کہ پاکستان اپنی بہترین کوشش کرے گا۔

پاکستان کی فضائی حدود سے گزرنا کوئی مسئلہ نہیں تھا اگر پاکستان کے حساس مقامات نیوکلئیر سائٹس کے گرد قائم نو فلائی زون ایریاز کی خلاف ورزی نہیں کی جاتی۔

پاکستانی بندرگا ہوں کا استعمال ٹھیک ہے مگر کراچی پورٹ کو استعمال نہ کیا جائے اس کی وجہ ایک تو یہ بہت عوامی مقام ہے اور دوسرا شہر مکمل طور پر محفوظ نہیں ہے۔

اسی طرح بڑے ائیر بیسز کو استعمال کرنے سے گریز کیا جائے جبکہ اس کی بجائے بلوچستان کے دور دراز مقامات پر واقع ان بیسزکو استعمال کیا جائے جو بہت کم استعمال ہوتے ہیں۔

انٹیلی جنس معلومات کا تبادلہ کیا جا سکتا ہے اگر پاکستان کی طرف سے فراہم کردہ معلومات کو انڈیا اور اسرائیل کے ساتھ شیئر نہ کیا جائے اور کشمیر کو کسی بھی معاملے میں شامل نہ کیا جائے۔ کشمیر کو ہم (پاکستانی) دیکھ لیں گے

پاکستان دہشت گردی کی مذمت پر تیا ر تھا اگر اس کی تعریف میں کشمیر کو شامل نہ کیاجائے۔

طالبان کو ایندھن کی فراہمی روکنے سے متعلق پاکستان نے کہا کہ پاکستان صرف کیروسین آئل افغان حکومت کو فراہم کرتا ہے جس کو روک دیاجائے گا۔ طالبان کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کرنے کا آغاز ہو چکا تھا اور پاکستان نے کابل سے اپنے سفیر کو واپس بلا لیا تھا۔

جنرل مشرف نے اس بات پر زور دیا کہ جتنا طویل ملٹری ایکشن ہوگا اتنے ہی زیادہ اس کے منفی اثرات ہوں گے۔

سرعت کے ساتھ کیا گیا ایک ایکشن اور امریکی دستوں کی واپسی دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے۔ یہ بھی بہتر ہو گا کہ یو این سیکیورٹی کونسل کی قرارداد کے ذریعے اس آپریشن کی منظوری لی جائے۔ آو آئی سی، ترکی اور سعودی عرب کی سفارتی حمایت بھی حاصل کی جائے۔ جب سفیر نے جنرل مشرف کی بات میں مداخلت کی اورکہا کہ کیا وہ پاکستانی تعاون کے لیے شرائط طے کر رہے ہیں ، تو انہوں نے سفیر کو یقین دلایا کہ تمام سات مطالبات کو غیر مشروط طور پر مانا گیا ہے مگر ان (صدر مشرف) کی خواہش ہے کہ وہ کچھ نکات کو واضح کر دیں۔ کیونکہ پاکستان اور وہ ذاتی طورپر جو خطرات مول لیں گے ان کو صحیح طور پر واشنگٹن میں نہیں سمجھا گیا ہے۔ صدر مشرف نے کہا کہ ” ہم آپ کے لیے بہت سی چیزوں پر سمجھوتہ کررہے ہیں۔ یہ میرے ذاتی سماجی مرتبے کو بھی کم کرے گا‘‘ ۔

جہاں تک انڈیا کا تعلق ہے اس پر جنرل مشرف نے کہا کہ نیو دہلی کو واضح پیغام دیا جائے کہ وہ اس معاملے سے دور رہے۔ جنرل مشرف اور امریکی سفیر کی بات چیت جنرل مشرف کی جانب سے تیسری مرتبہ تمام امریکی مطالبات کی منظوری کے اعادے سے ختم ہوئی۔ اور انہوں نے سفیر سے کہا کہ ہم دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرنے کے حوالے سے درپیش معاملات پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔

اس دن میرے شیڈول میں آخری مصروفیت شام کے وقت جوائنٹ سٹاف ہیڈ کوارٹرز میں ایک استقبالیہ میں شرکت تھی۔ جہاں میری ڈائریکٹر جوائنٹ سٹاف، ہیڈکوارٹر میں دوسرے سب سے سینئیر آفیسر سے طویل بات چیت ہوئی۔

لیفٹیننٹ جنرل ایس پی شاہد بہت دوستانہ اور کھلے ڈلے مزاج کے آفیسر تھے۔ ان کے چہرے پر ہر وقت ایک مسکراہٹ ہوتی تھی۔ مذکورہ جنرل امریکی شہر کنساس میں فورٹ لیون ورتھ میں قائم یو ایس آرمی کمانڈ اینڈ سٹاف کالج میں کسی دور میں پڑھ چکے تھے۔ جس سے مجھے بڑی مدد ملی۔

لیفٹیننٹ جنرل ایس پی شاہد امریکی فوج کی اصطلاحات سے آگاہ تھے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے حوالے سے پائے جانے والے منفی احساسات کے حوالے سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ امریکی فوج کے مستقبل کے تعاون کے حوالے سے رابطہ کار ہوں گے اور وہ ایک مرتبہ پھر ایک ساتھ کام کرنے کے حوالے سے پُر امید اور تیار ہیں۔

پاکستان اور طالبان

پاکستان کو امریکہ کے ساتھ تعاون کے لیے آمادہ کرنے پر تین دن لگے۔اور امریکی سفارت خانے کے بہت سے اہلکاروں کو جنرل مشرف اور سینئیر جنرلز کے مکمل اتفاق پر شک تھا۔ اس بات کا اشارہ دس دن بعد جوائنٹ سٹاف کے آفیسرز کی ٹیم ’جس کی قیادت میجر جنرل کیون چلتن کر رہے تھے‘ کے لیے سفارت خانے میں منعقدہ ایک بریفنگ میں بھی کیا گیا تھا۔

اس بریفنگ میں ڈائر یکٹر جنرل آئی ایس آئی محمو د احمد نے امریکن سفیر اور ٹیم سے اپیل کی کہ طالبان پر حملہ نہ کیا جائے، بلکہ پاکستان کو ان کے ساتھ کام کر نے دیاجائے تاکہ وہ بن لادن کو(امریکہ کے) حوالے کر سکیں۔

اس اپیل کو سفیر نے فوری مسترد کر دیا۔ اور اگلے چند روز میں جوائنٹ سٹاف ٹیم نے اپنے پاکستانی ہم منصب کے ہمراہ ”آپریشن اینڈیورنگ فریڈم” کے لیے لاجسٹک مدد کے لیے کام کرنا شروع کر دیا۔ یہ آپریشن سات اکتوبر کو شروع ہوا۔

سفارت خانے کو پاکستان کے دہرے کردار کے حوالے سے خدشات درست ثابت ہونے میں زیادہ دیر نہ لگی۔ پاکستان نے تاریخ میں پہلی مرتبہ ڈیورنڈ لائن پر دستے تعینات کر دیے۔ پاکستان نے تورا بورا کے پہا ڑوں سے بھاگنے والے القاعدہ کے غیر ملکی جنگجووں کو پکڑنے یا انہیں واپس کرنے میں بڑی ذمہ داری دکھائی۔ تاہم پاکستان نے طالبان جنگجووں کو فاٹا میں قبائلیوں کے ہاں پناہ لینے کی اجازت دی اور طالبان کی سینیئر قیادت کو پڑوس میں بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ منتقل کر دیا۔

پاکستان نے ایسا کیوں کیا؟

انیس سو سینتالیس کے بعد کابل کے ساتھ مخاصمانہ تعلقات کی وجہ سے پاکستان کی طالبان کے لیے حمایت تین دہائیاں پرانی تھی۔ کابل میں کسی بھی حکومت نے اٹھارہ سو ترانوے میں برطانوی حکومت کی جانب سے مسلط کردہ ڈیورنڈلائن کو تسلیم نہیں کیا تھا۔ اس کی وجہ پشتون اکثریتی علاقہ افغانستان اور برٹش انڈیا(نام نہاد پختونستان) میں تقسیم ہو گیا تھا۔

افغانستان نے اس کو تسلیم کرنے سے انکا ر کیا اور مطالبہ کیا کہ مشرق کی طرف سرحد کی مزید حد بندی از سرنو کی جائے۔ انیس سو اناسی میں سوویت حملے کے بعد پاکستان کو یہ موقع ملا کہ وہ افغانستان کی دوبارہ تشکیل کرے اور تیس سالہ مخاصمت ختم کرے۔

اس وقت سے ہر پاکستانی حکومت کو مستحکم افغانستان درکار ہے۔ پاکستان کے نزدیک استحکام کا مطلب کابل میں ایسی حکومت ہے جو اعلانیہ پاکستان مخالف نہ ہو اور ایسی حکومت پشتون اکثریتی حکومت ہے۔(تاکہ پشتونوں کی وفاداریاں پاکستان اور افغانستان میں منقسم رہیں) اور یہ بھارتی اثر و رسوخ کو کم ترین سطح پر رکھتا ہے اور یہ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ مستقبل میں بھارت کے ساتھ کوئی بھی جنگ مشرقی سرحد تک محدود رہے گی۔ صرف اور صرف طالبان حکومت ہی اس معیار اور تعریف پر پورا اترتی ہے۔

پاکستان کے اس تزویراتی اثاثے کا خیال نہ رکھنا اور اس کو(اہمیت) نہ سمجھنا امریکہ کی پہلی بڑی غلطی تھی۔

دوسری غلطی، جس کا سفارت خانے میں کئی لوگوں کا خدشہ تھا۔ دسمبر 2001 کا بون ایگریمینٹ تھا۔ امریکہ کے افغانستان میں اعلان کردہ بہت سے فوجی مقاصد کو حاصل کر لینے کے بعد امریکہ کی جانب سے افغانستان میں ایسی حکومت کا قیام تھا جس میں غیر پشتون اکثریت میں تھے۔ اس حکومت نے پاکستانی تحفظات کو نظر انداز کیا۔ اور یقینی طور پر ناکامی اس حکومت کا مقدر تھی۔

امریکہ کو 1975 میں ویت نامی آرمڈ فورسز اور 1984 میں لبنانی آرمی کی غیر متوقع شکست(اچانک انتشار) سے سبق سیکھنا چاہیے تھے۔ اور یہ جان لینا چاہیے تھا کہ سپاہی کبھی بھی بد عنوان اور گروہ بندی کا شکار حکومتوں کے لیے نہ لڑتے ہیں اور نہ ہی مرتے ہیں خواہ انہیں کتنی ہی امریکی تربیت اور ہتھیار ملے ہوں۔

قوم کی تعمیر کے دو دہائیوں پر مشتمل تجربے کی بجائے اگر امریکہ 2001 کے آخر میں افغانستان سے انخلاء کر لیتا تو یو ایس سیکورٹی مفادات کی رو سے معاملات زیادہ بہتر انداز میں رو نما ہوتے ۔

طالبان کی فتح کے بعد امریکہ اور پاکستان

اب کابل میں طالبان کے تسلط کے بعد امریکہ اور پاکستان کہا ں کھڑے ہیں۔ اب فریقین یقینی سماجی اور انسانی تباہی کے حوالے سے ایک دوسرے پر الزام تراشی کر سکتے ہیں۔ پاکستان کو دھکیلنے کی ترغیب ضرور موجود رہے گی۔

امریکہ اس سے پہلے بھی پاکستان سے کنارہ کشی کر چکا ہے۔ انڈیا کے ساتھ دو جنگوں 1965 اور 1971 کی جنگ کے بعد اور 1991 میں جب روس نے افغانستان سے انخلاء کیا، لیکن یہ بہت بڑی غلطیاں تھیں جن کو دہرایا نہیں جانا چاہیے تھا۔ آگے بڑھنے سے پہلے امریکی اہلکاروں کو دو بنیادی باتوں کو سمجھنے کی ضرروت ہے، پہلی یہ کہ پاکستان کے ساتھ باہمی تعلقات کو باہم متفق معاملات تک محدود رہنا چاہیے۔ پاکستان کے ساتھ قریبی عسکری تعلقات کو ’جو کہ 2011 میں واقعات کی ایک کڑی کے نتیجے میں ختم ہو گئے تھے اور جس کی وجہ سے حکومت اور فوج الگ ہو گئے۔

دوبارہ بنانے کی قطعا کوئی ضرورت نہیں ۔ اسپیشل فورسز کا بن لادن کو مارنے کے لیے ایبٹ آباد میں حملہ جو کہ پاکستان کی خود مختاری کی واضح خلاف ورزی تھی۔ وکی لیکس کے انکشافات جس نے آرمی چیف کو شرمسار کیا ، سی آئی اے کے کنٹریکٹر ریمنڈ ڈیوس کی جانب سے دو پاکستانیوں کو مار دیا جانا اور سلالہ بارڈر پوسٹ واقعہ جس میں امریکی فضائی حملے میں اٹھائیس پاکستانی فوجی مارے گئے۔

دوسرا امریکہ کے پاکستان کے ساتھ تین بنیادی مفادات وابستہ ہیں۔

افغانستان میں موجود القاعدہ اور داعش کی جانب سے امریکہ کے خلاف دہشت گرد کاروائیوں کا خطرہ، پاکستان کے نیوکلیئر ہتھیاروں کاتحفظ، اور پاکستان اور انڈیا کے درمیان ممکنہ جنگ کو روکنا جو کہ ایٹمی جنگ میں تبدیل ہو سکتی ہے۔

ان مفادات کو ترجیح دینا امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعلقات کی جہت کا تعین کردے گا، جو کہ اکثر بگڑ جاتے ہیں۔

پھر ایک محدود تعلق کیسا دکھائی دیتا ہے۔ اس کا مطلب امریکہ کی جانب سے فیاضانہ عسکری اور معاشی تعاون کا خاتمہ ہے۔

مسقبل کی مدد صرف معمو لی معاشی مدد، انسانی امداد اور انسداد منشیات کے پروگرامز تک محدود ہونی چاہیے۔ پاکستان اور امریکہ کا مشترکہ مفاد ہے کہ افغانستان میں استحکام ہو اور طالبان کی مستقبل کی توسیع کو روکا جائے۔ پاکستان بے گھر افغانوں تک انسانی امداد پہنچانے کے لیے طالبان پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کر سکتا ہے۔

اینٹلی جنس شئیرنگ ممکن ہے اگر یہ صرف القاعدہ، داعش اور دیگر گروپ مثلا افغانستان میں موجود تحریک طالبان پاکستان جو کہ پاکستانی ریاست پر حملے کرتی ہے تک محدود ہو۔

اور آخر میں بہت مواقع ہیں جن سے پاکستان کی دگرگوں معاشی حالت کو مستحکم کیا جا سکتا ہے کیونکہ اس ریجن میں ایک اور ناکام ریاست کی ضرورت نہیں ہے جس کے پاس کئی سو ایٹمی ہتھیار ہوں۔ اس کے لیے ایک تعمیری منصوبہ (بلیو پرنٹ) گزشتہ سال مڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ نے شائع کیا تھاجس میں بہت سے ایسے اقدامات کاذکرہے جس سے فریقین استفادہ کر سکتے ہیں۔

کسی نے بھی نہیں سو چا ہو گا کہ نائن الیون کے بیس برس بعد کابل میں دوبارہ طالبان کی حکومت ہو گی ۔ اب جس چیز کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ تباہ کن نتائج کے حوالے سے الزام تراشی کی روکتھام ہو اور امریکہ کی طاقت کی حدود اور امریکہ کی اس ریجن اور دنیا کے تنازعات سے متاثرہ دیگر علاقوں میں سماجی، سیاسی اور ثقافتی تغیرات کو نہ سمجھ پانے کے حوالے سے زیادہ احتیاط، عاجزانہ اور سنجیدہ سوچ بچار کی ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔