ٹی ٹی پی سے مذاکرات

مزمل سہروردی  جمعـء 24 جون 2022
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

ملک میں ایک ایسا ماحول بنایا جا رہا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ افغانستان میں مذاکرات حتمی مراحل میں داخل ہو گئے ہیں۔ ایسی خبریں بھی سامنے آرہی ہیں کہ مذاکرات کی کامیابی کے بعد ٹی ٹی پی اور حکومت پاکستان کے درمیان ایک معاہدہ ہوگا اور افغان طالبان اس معاہدہ کے ضامن ہونگے۔

پیپلزپارٹی نے ان مذاکرات کے حوالے سے سب سے پہلے تحفظات کا اظہار کیا اور مطالبہ کیا کہ ان مذاکرات کی تفصیلات پارلیمان میں پیش کی جائیں۔ جب پیپلزپارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو نے یہ مطالبہ کیا تو مجھے حیرانی ہوئی کہ کیا بلاول بھٹو وزیر خارجہ ہیں اور انھیں بھی ان مذاکرات میں ہونے والی پیش رفت کے بارے میں علم نہیں ہے۔ وہ ملک کے وزیر خارجہ ہیں اور ایک دوسرے ملک میں یہ مذاکرات ہو رہے ہیں، انھیں تو علم ہونا چاہیے ۔ بہر حال پیپلزپارٹی نے ظاہر تو یہی کیا ہے کہ انھیں بھی علم نہیں ہے۔

پیپلزپارٹی کے برملا اظہار تشویش کے بعد وزیراعظم شہبازشریف کی زیرصدارت بدھ کو وزیراعظم ہاؤس میں قومی سلامتی سے متعلق اہم اجلاس منعقد ہوا جس میں قومی، پارلیمانی و سیاسی قیادت، ارکان قومی اسمبلی وسینیٹ اور عسکری قیادت نے شرکت کی۔ اجلاس میں شرکاء کو ٹی ٹی پی سے ہونے والی بات چیت کے بارے میں بریفنگ دی گئی۔ اجلاس کے اعلامیہ کے مطابق اجلاس کو پاکستان افغانستان سرحد پر انتظامی امور کے بارے میں آگاہ کیا گیا۔

اجلاس کو آگاہ کیا گیا کہ پاکستان نے افغانستان میں امن واستحکام کے لیے نہایت ذمے دارانہ اور مثبت کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان افغانستان میں امن اور استحکام کے لیے اپنا تعمیری کردار جاری رکھے گا۔ افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی کاوشوں اور قربانیوں کو دنیا نے تسلیم کیا۔

آج پاکستان کے کسی حصے میں بھی منظم دہشت گردی کا کوئی ڈھانچہ باقی نہیں رہا۔ اجلاس کے شرکاء کو ٹی ٹی پی کے ساتھ بات چیت کے بارے میں تفصیلات سے بھی آگاہ کیا گیا۔ اجلاس کو اس تمام پس منظر سے باخبر کیا گیا جس میں بات چیت کا یہ سلسلہ شروع ہوا اور اس دوران ہونے والے ادوار پر بریفنگ دی گئی۔

اجلا س کو بتایا گیا کہ افغانستان کی حکومت کی سہولت کاری سے ٹی ٹی پی کے ساتھ بات چیت کا عمل جاری ہے جس میں حکومتی قیادت میں سول اور فوجی نمایندوں پر مشتمل کمیٹی نمایندگی کرتے ہوئے آئین پاکستان کے دائرے میں بات چیت کر رہی ہے جس پر حتمی فیصلہ آئین پاکستان کی روشنی میں پارلیمنٹ کی منظوری، مستقبل کے لیے فراہم کردہ رہنمائی اور اتفاق رائے سے کیاجائے گا۔

اس اعلامیہ کے مطابق ٹی ٹی پی سے جو بھی بات چیت ہو رہی ہے وہ ایک طرف لیکن آئین پاکستان کے اندر رہتے ہوئے معاہدہ کیا جائے گا۔ بعدازاں یہ معاہدہ پارلیمان میں منظوری کے لیے بھی پیش کیا جائے گا۔ پارلیمان کی منظوری کے بعد ہی اس معاہدے پر دستخط کیے جائیں گے۔

میں سمجھتا ہوں یہ کوئی درست حکمت عملی نہیں ہے۔ ٹی ٹی پی نہ تو کوئی سیاسی جماعت ہے اور نہ ہی اس کی کوئی قانونی حیثیت ہے کہ اس کے ساتھ ریاست پاکستان کوئی معاہدہ کرے اور اس معاہدہ کو پارلیمان کی منظوری بھی دی جائے۔ وہ ایک دہشت گرد تنظیم ہے اور ایسی تنظیموں کے ساتھ معاہدے پارلیمان میں توثیق کے لیے نہیں پیش کیے جاتے۔

کیا ہم ٹی ٹی پی کو وہی حیثیت دے رہے ہیں جو امریکا نے افغان طالبان کو دی تھی؟ پاکستان ہماری زمین ہے۔ پاکستان کی فوج نے افغانستان یا کسی اور ملک کے علاقے پر قبضہ نہیں کیا ہوا ہے، لہٰذا ٹی ٹی پی کی پاکستان میں کی جانے والی کارروائیوں کو افغان طالبان کی افغانستان میں امریکیوں کے خلاف کی گئی کارروائیوں کے تناظر میں نہیں دیکھا جا سکتا۔ پاک افواج پاکستان چھوڑ کر کہیں نہیں جا رہی ہیں۔

انھیں کوئی محفوظ راستہ نہیں چاہیے۔ پاکستان پر ٹی ٹی پی کا کبھی کوئی قبضہ نہیں رہا ہے۔ اس لیے دونوں میں کوئی مماثلت نہیں۔ پھر ٹی ٹی پی سے کیسے معاہدہ ہو سکتا ہے اور کیسے اس معاہدے کی توثیق پارلیمان سے ہو سکتی ہیَ کیسے کوئی عام معافی دی جا سکتی ہے؟کیسے ان کی کوئی بھی شرائط مانی جا سکتی ہیں۔ ہم افغان طالبان سے ٹی ٹی پی کی قیادت کی حوالگی سے کم پر کیسے مان گئے؟ ہمارا پہلا اور آخری مطالبہ ہونا چاہیے کہ یہ ہمارے مجرم ہیں، انھیں ہمارے حوالے کیا جائے ۔ ہم اپنے ملک میں قانون کے مطابق ان سے نبٹیں گے۔ کابل میں بیٹھ کر برابری کی سطح پر مذاکرات کرنے دانشمندی نہیں ہے۔

اگر ایسے کوئی مذاکرات ہونے بھی تھے تو پاک سرزمین پر ہی ہوسکتے تھے۔ اس قسم کے مذاکرات جاری آپریشن کے دوران ہوتے ہیں جہاں عسکری قیادت اپنی آپریشن ضروریات کے تحت بات کرتی ہے لیکن اول اور آخری مشن امن قائم کرنا ہوتا ہے۔

تمام دہشت گردوں کی گرفتاری اور ان کو سزائیں دینا ہے۔ عام معافی کا سوال کہاں سے آگیا۔ یہ تو ممکن ہے کہ ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو سزائین دینے کے لیے پارلیمان کوئی خصوصی قانون سازی کرے۔ جیسے پہلے ملٹری کورٹس بنائی گئی تھیں، ویسے ملٹری کورٹس دوبارہ بنا دی جائیں۔ لیکن عام معافی دینا پاکستان کے مفاد میں نہیں۔ یہ ایک غلط روایت ہوگی، کل کو کوئی بھی دہشت گرد گروپ اسی طرح عام معافی اور معاہدوں کی شرط رکھ دے گا اور یہ مطالبہ بھی کرے گا کہ اس کے معاہدوں کو پارلیمان سے منظور بھی کرایا جائے۔ اس لیے مجھے اس پر شدید تحفظات ہیں۔

میں اس دلیل کو بھی نہیں مانتاکہ امن کے لیے ہمیں یہ کڑوا گھونٹ پینا پڑے گا۔ میرا خیال ہے کہ اس سے امن نہیں آئے گا بلکہ اتنے برسوں میں ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جو کامیابیاں حاصل کی ہیں، وہ سب ضایع ہو جائیں گی۔ ان گروپوں کو دوبارہ اپنی طاقت اکھٹی کرنے اور منظم ہونے کا موقع مل جائے گا۔ انھوں نے ماضی میں بھی ایسا ہی کیا ہے۔ دہشت گرد تنظیمیں ایسے ہی کرتی ہیں۔ جب تک یہ غیر مشروط ہتھیار نہیں ڈالتے، ان سے بات نہیں ہو سکتی۔ مجھے تو یہ منطق بھی نہیں سمجھ آرہی کہ انھیں قومی دھارے میں شامل کیا جائے گا۔

یہ دہشت گردوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے کا ٹھیکہ ہم نے کب سے لیا ہے۔ ان کے لیے پارلیمان کے راستے کیوں کھولے جا رہے ہیں؟ کیا عام معافی کے بعد انھیں پارلیمان میں لانے کا بھی معاہدہ کیا جا رہا ہے؟ ان کو تاحیات نااہل نہیں کیا جائے گا؟ ان کو میڈل دینے کے بجائے نشان عبرت کیوں نہیں بنایا جا رہا ہے؟کیا ہم جنگ ہار رہے ہیں کہ وہ جنگ ہار رہے ہیں۔ معاہدہ کے جو خدو خال سامنے آرہے ہیں، اس سے تو ظاہر ہو رہا ہے کہ ہم ہار رہے ہیں اور وہ جیت رہے ہیں۔ کیا میدان میں جیتی ہوئی جنگ ، ہم میز پر تو نہیں ہار رہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔