’’توہین کا ہتھیار‘‘ آر ایس ایس کی نئی چال؟

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  جمعـء 24 جون 2022
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

یوں تو قیام پاکستان کے بعد سے آج تک بھارت میں مسلم کش فسادات وقفے وقفے سے جاری ہیں اور وہاں کے مسلمانوں کے خلاف انتہا پسند ہندو تنظیموں کی کارروائیاں بھی جاری ہیں اور ان میں وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ اضافہ ہی ہو رہا ہے مگر حال ہی میں انتہا پسند ہندوؤں کی جانب سے ’’ توہین کا ہتھیار‘‘ استعمال کیا گیا ہے اور یہ توہین باقاعدہ حکمران جماعت کی مرضی سے کی گئی۔

سوال یہ ہے کہ جب پوری دنیا یہ حقیقت جانتی ہے کہ مسلمان کسی صورت اپنے نبی ﷺ کی شان میں گستاخی قبول نہیں کرتے اور اس مسئلہ پر تمام دنیا کے مسلمان ہی نہیں ، حکمران بھی سراپا احتجاج بن جاتے ہیں تو پھرکیوں بھارت میں نہ صرف توہین کی گئی بلکہ سرکاری سطح پر اس کی مذمت نہیں کی گئی ( البتہ توہین کے کلمات ادا کرنیوالے ممبر اسمبلی کی جانب سے توہین آمیز متنازع بیان کو غیر مشروط طور پر واپس لینے کی اطلاعات ضرور آئی ہیں) جب کہ بھارت کی حکومت بھی یہ بات اچھی طرح جانتی ہے کہ اس کے مفادات عرب ممالک سے کس قدر جڑے ہوئے ہیں۔

کتنی بڑی تعداد میں بھارتی شہری ان عرب ممالک میں ملازمت وکاروبار کر رہے اور توہین کے معاملے پر اگر عرب ممالک میں کوئی بڑا رد عمل سامنے آیا تو بھارت کو کس قدر نقصان دہ صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا اور اس کی معیشت پر کس قدر نقصان دہ اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ یہاں پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بھارتی حکمران اتنے ناسمجھ ہیں؟ یا کہ توہین کے اس واقعے سے کچھ اور فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں؟ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کچھ اور فائدہ کیا ہو سکتا ہے؟ بات یہ ہے کہ بھارت میں جس طرح منظم طریقے سے مسلمانوں پر باقاعدہ منصوبہ بندی سے مظالم کیے جا رہے ہیں اور انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزیاں کی جارہی ہیں۔

اس عمل سے عالمی سطح پر بھارت کے خلاف رائے عامہ ہموار ہورہی ہے اور خاص کر لبرل نظریات رکھنے والے لوگ اور مغرب کے نظریہ ’’ آزادی‘‘ پر یقین رکھنے والے لوگ اور انسانی حقوق سے تعلق رکھنے والی فلاحی تنظیموں نے یقیناً پہلی مرتبہ بھارت میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کا نوٹس لینا شروع کیا ہے جس سے بھارت کے خلاف نہ صرف عالمی رائے عامہ ہموار ہو رہی ہے بلکہ بھارت کا یہ پروپیگنڈا بھی بے نقاب ہو رہا ہے کہ وہ ایک سیکولر ریاست ہے۔ بھارت میں جس طرح مسلمانوں کے ہی نہیں سکھوں اور مزدوروں کے خلاف حکومتی اور عدالتی فیصلے آئے اور پھر ان تمام طبقات کو سختی کے ساتھ کچلنے کی سرکاری سطح پرکوشش کی گئی۔

اس عمل نے عالمی برادری پر ظاہر کر دیا کہ بھارت کا سیکولر ریاست ہونے کا نعرہ محض دھوکا ہے۔ کسانوں کی تحریک نے اور پھر اس تحریک کو کچلنے کے حکومتی اقدامات نے بھی عالمی برادری کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ بھارت حقیقت میں سیکولر ریاست نہیں ہے۔

مسلمانوں پر جو مظالم کی نئی لہر اٹھی ہے ، اس کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس میں حکومت اور عدلیہ سمیت قانون نافذ کرنیوالے اداروں نے یک طرفہ طور پر مسلمانوں پر مظالم جاری رکھنے میں مدد دی حالانکہ انھیں غیر جانبدارانہ کردار ادا کرنا چاہیے تھا۔ حد تو یہ ہے کہ با قاعدہ انتظامیہ کی طرف سے لوگوں کے گھروں کو مسمار کیا جانے لگا اور اس عمل کو قانونی تحفظ بھی دیا گیا ، گویا بنیادی انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی۔ ظاہر ہے کہ کسی ریاست میں انسانی حقوق کی اس طرح کی کھلی خلاف ورزی پر عالمی رائے عامہ خاموش کیسے رہ سکتی ہے؟

خاص کر انسانی حقوق کی تنظیمیں اور لبرل نظریات کا پرچار کرنیوالے۔ یہ وہ صورتحال ہے کہ جس کے نتیجے میں پہلی مرتبہ بھارت کے خلاف عالمی رائے عامہ بھی ہموار ہونے لگی چنانچہ ایسے میں بھارت کی جانب سے ’’ توہین کا ہتھیار‘‘ استعمال کیا گیا کیونکہ بھارت اس ہتھیار کو استعمال کر کے مغرب اور خاص کر لبرل نظریات رکھنے والی رائے عامہ کو یہ باور کرانا چاہتا تھا کہ جس طرح تم لوگ فرانس جیسے ملک میں ’’آزادی کے نظریہ‘‘ کو اپناتے ہو ویسے ہی ہمارے ملک میں بھی ’’ آزادی‘‘ ہے اور ہم آپ ہی کے نظریہ کے علم بردار ہیں۔ (حالانکہ بھارت میں مسلمانوں کی دل آزادی کرنیوالے ہندو مذہب کے پیروکار ہیں جن کے نزدیک مغرب کا توہین مذہب والا آزادی کا نظریہ درست نہیں۔)

درحقیقت توہین کا یہ معاملہ بھارت میں مسلمانوں کو مزید ڈرانے، دھمکانے کا معاملہ تو ہے مگر اس چال سے بھارت اپنے اوپر لگے انتہا پسندی کے داغ کو مٹانا چاہتا ہے اور اس حقیقت کو چھپانا چاہتا ہے جس میں وہ مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتوں پر نہ صرف مظالم کر رہا ہے بلکہ کھل کر انسانی حقوق کے خلاف ورزیاں بھی کر رہا ہے، اگر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ایشو نمایاں ہو کر سامنے آتا ہے تو پھر عالمی رائے کا دباؤ بھارت پر بڑھتا ہے جس کی وجہ سے بھارت کی انتہا پسند تنظیمیں اپنا ایجنڈا جاری نہیں رکھ سکتیں۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ آخر یہ ایجنڈا کیا ہے اور اس کے پیچھے کون ہے؟

کانگریس جیسی جماعت، آزادی کے پہلے دن سے اقتدار میں ہونے کے باوجود ہندو انتہا پسندوں کا نیٹ ورک اس قدر مضبوط کیونکر ہوا؟ اس ضمن میں ایک رائے یہ ہے کہ برصغیر پاک وہند کی تاریخ میں مسلمانوں کی بہت سی تحریکیں ہی ان علاقوں میں نہ صرف جاری رہی بلکہ عوامی سطح پر مسلمانوں کی بڑی تعداد نے ان میں شرکت بھی کی۔

تحریک ریشمی رومال ہو، ہندوستانی مسلمانوں کا افغانستان کی طرف ہجرت کرنا ہو یا تحریک خلافت وغیرہ۔ مسلم مخالف قوتیں سمجھتی ہیں کہ یہ پورا علاقہ افغانستان تک ، ایک ایسا علاقہ ہے جو دین اسلام کے لیے جان و مال اور ہجرت کی قربانیوں سے بھی دریغ نہیں کرتا اور تاریخ بھی اس کی گواہ ہے، لہٰذا انتہا پسند ہندوؤں کے ذریعے مسلمانوں کو الجھا کے رکھا جائے اور یہ موقع ہی فراہم نہ کیا جائے کہ مستقبل قریب میں مسلمان کوئی مہم کرنے کے قابل ہو سکیں۔  یہ رائے بھی ہے کہ اس مسلم مخالف سوچ اور نیٹ ورک کے پس پردہ اسرائیل کا ہاتھ ہے۔

بہرکیف بھارت میں جاری مظالم کے حوالے سے لکھی گئی، اس تحریر کا مقصد اس طرف توجہ دلانا ہے کہ بھارت میں انتہا پسند ہندوؤں کے مقابلے کے لیے بہترین حکمت عملی یہ ہے کہ انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں کو عالمی سطح پر اجاگر کیا جائے اور توہین کے معاملے کو اسلامی ممالک خصوصا عرب ممالک میں پیش کرکے بھارت پر دباؤ ڈالا جائے۔ ہندوستان کے بعض مذہبی، علمی اور سیاسی شخصیات کی جانب سے مسلمانوں سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ مذکورہ اسمبلی ممبر کی جانب سے توہین کے کلمات غیر مشروط طور پر واپس لینے کے بعد اپنا احتجاج ختم کر دیں۔

بعض لوگوں نے اس اپیل پر اعتراض بھی کیا ہے، تاہم سوال یہ ہے ہم یہاں بیٹھ کر اپنے بھارتی مسلمانوں کے لیے کیا کرسکتے ہیں؟ اس کا جواب یہی ہے کہ میڈیا کا استعمال زیادہ سے زیادہ کریں توہین پر مسلمان ممالک کا ضمیر جگائیں اور مظالم پر انسانی حقوق کے حوالے سے دنیا بھر میں آواز بلند کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔