نواب بہادر یار جنگ

ڈاکٹر یاسمین سلطانہ فاروقی  جمعـء 24 جون 2022

مسلمانان برصغیر کی تاریخ میں تین اعلیٰ پائے کے خطیب پیدا ہوئے ہیں۔ عطاء اللہ شاہ بخاری ، ابوالکلام آزاد اور بہادر یار جنگ۔ تینوں ہی نابغہ عصر اور عدیم المثل۔

بہادر یار جنگ فقط ایک مقرر ہی نہیں بلکہ ایک دانشور اور اپنے وقت سے آگے دیکھ سکنے والے ایسے مفکر تھے جو وقت کے دھارے کو پلٹ دینے کی صلاحیت سے مالا مال تھے۔ اقبال کی زندگی ہی میں درس کلام اقبال کی مستقل مجلس اپنی مسجد میں انھوں نے اس وقت شروع کی جب یہ طریقہ بہت سوں کی سمجھ سے ابھی دور تھا۔

ایک مبلغ کی حیثیت سے انھوں نے بعض روایات کے مطابق تقریباً ایک لاکھ غیر مسلموں کو رحمت الہی کے سایہ ابدی میں جگہ دلوانے کا کردار ادا کیا۔ خود تبلیغ کے میدان میں بھی ان کا اپنا مخصوص انداز تھا۔ ہندوستان کے خصوصی حالات کے زیر اثر ان کا دوسرے مبلغین کو بھی یہی مشورہ تھا کہ بجائے افراد کے، کوشش کی جائے کہ پورے پورے خاندان مشرف بہ اسلام ہوں تاکہ ان نو مسلموں کے لیے بعد میں زیادہ سماجی مسائل کھڑے نہ ہوں اور دین پر قائم رہنا ان کے لیے آسان ہو۔

بہادر یار جنگ تحریک پاکستان کے ہر اول رہنما ہی نہیں بلکہ ان چند مخصوص اکابرین میں سے تھے جو قائد اعظم کے معتمد ترین ساتھی شمار ہوتے تھے۔ تمام معروف رہنماؤں میں غالباً سب سے کم عمری میں ان کا انتقال ہوا اور شاید یہی وجہ بھی تھی کہ سب سے زیادہ تیزی سے قربانیاں دینے والوں میں بھی وہی سرفہرست رہے۔

اپنی مرضی و اختیار سے خطاب نوابی پر لات ماری ، گھریلو ٹھاٹ باٹ چھوڑ کر کوچہ گردی کو گلے لگایا اور بالآخر موت بھی ایسی پائی کہ ایک درجہ میں شہادت کی موت شمار ہو، کیونکہ آج بھی ان کے شخصیت نگار یہی کہتے ہیں کہ حکومت وقت کی جانب سے انھیں زہر دلوایا گیا تھا۔

قائد اعظم نے دیسی ریاستوں میں مسلم لیگ کے پیغام اور تحریک پاکستان کو پھیلانے کے لیے آل انڈیا اسٹیٹس مسلم لیگ قائم کروائی تھی ، جس کے صدر بہادر یار جنگ تھے۔ اسی وجہ سے مسلم لیگ کے رسمی سالانہ اجلاسوں میں وہ ہمیشہ خصوصی مقرر کی حیثیت سے تمام کارروائی ختم ہونے کے بعد آخر میں اور طویل خطاب کرتے تھے۔

ان کی ایسی طویل تقریروں میں کل ہند مسلم لیگ کے آخری سالانہ اجلاس 1943 کی تقریر یقیناً اس لائق ہے کہ اسے بطور خاص نئی نسل کے سامنے لایا جائے تاکہ اس کے ذہن سے موجودہ غیر ذمے دار ذرایع ابلاغ کی جانب سے پھیلایا جانے والا فکری انتشار اور دو قومی نظریے کے بارے میں ذہنی گنجلک دور ہوسکے اور ان جعلی دانشوروں کی ہرزہ سرائی کا توڑ ہو جو پاکستان کو ایک محدود علاقے کے مسلم عوام کے معاشی استحکام کی ضرورت کا مظہر ثابت کرتے نہیں تھکتے۔

یہ بھی قدرت کا ایک عجیب فیصلہ ہی تھا کہ دسمبر 43 میں ہونے والا یہ اجلاس ایک طرف تو آل انڈیا مسلم لیگ کی تاریخ کا آخری سالانہ اجلاس ثابت ہوا اور پھر طرفہ یہ کہ ہوا بھی اس شہر ، باب السلام میں تھا جسے کچھ ہی عرصے بعد نئے ملک کا دارالحکومت بننا تھا۔ یہی نہیں بلکہ خود جواں سال مقرر کو بھی شاید وضاحت سے معلوم تھا کہ محض چھ ماہ بعد ہی، جون 44 میں صرف 39 سال کی عمر ہی میں اسے اس جہان فانی سے سفر آخرت کے لیے روانہ ہوجانا ہے اور اس بات کو اس نے بغیر کسی لاگ لپیٹ کے اپنے سامعین سے اسی تقریر کے آخر میں کہہ بھی دیا تھا کہ ’’ہوسکتا ہے کہ آیندہ میں آپ کے درمیان نہ رہوں۔

اسی لیے میں نے آپ کا بہت سا وقت لیا ہے۔‘‘ یہ وہ تقریر ہے جس کے متعلق ممتاز دانشور مختار مسعود نے کہا ہے کہ ’’خرد اور جنوں کا جو امتزاج اس تقریر میں ملتا ہے اس کی مثال اردو ادب میں جو چند تقریریں محفوظ ہیں ان میں نہیں ملتی۔‘‘ اپنے اس تاریخی خطاب میں بہادر یار جنگ نے قائد اعظم کی موجودگی میں برملا کہا تھا کہ ہمارے پنڈال سے وہ لوگ اٹھ جائیں جو خدا کے انکار پر اپنے معاشی نظام کی بنیاد رکھتے ہیں۔

قرآن کے واضح اور اٹل احکامات میں تحریف و اضافہ کرکے مسلمانوں کو گمراہ کرنا چاہتے ہیں اور جو روٹی اور کپڑے کے بدلے مسلمان کا ضمیر اور اس کا ایمان خریدنا چاہتے ہیں۔

مجھے یقین ہے کہ ہماری پلاننگ (کمیٹی) جب پاکستان کے لیے معاشی نظام مرتب کرے گی تو اس کی بنیاد قرآنی و اسلامی نظام معاشی پر ہوگی۔ قائد اعظم میں نے پاکستان کو اسی طرح سمجھا ہے اور اگر آپ کا پاکستان یہ نہیں تو ہم ایسا پاکستان نہیں چاہتے۔ قائد اعظم نے اس پر مسکراتے ہوئے کہا تھا کہ ’’آپ مجھے قبل از وقت چیلنج کیوں دے رہے ہیں؟‘‘ قائد اعظم کی موجودگی میں ایسی جرات رندانہ کہ پھر ہم ایسا پاکستان نہیں چاہتے صرف ایک ایسا شخص ہی کر سکتا ہے جسے یقینی طور پر معلوم ہو کہ پاکستان کا اصل میں مقصد ہے کیا؟ اور جس نے اپنی جان و مال سے اس ملک کی بنیادوں کو سیراب کیا ہو۔ پچیس جون کو قائد ملت بہادر یار جنگ کی یوم وفات ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔