قانون و انصاف تک خواتین کی رسائی یقینی بنانے کیلئے انقلابی اقدامات کرنا ہونگے!

اجمل ستار ملک / احسن کامرے  پير 27 جون 2022
، مقامی حکومتوں کا نظام بنا کر خواتین کو نمائندگی دینے سے نچلی سطح پر مسائل حل ہوسکتے ہیں، خواتین کو سرکاری طور پر مفت قانونی معاونت فراہم کرنا ہوگی: ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں شرکاء کا اظہار خیال ۔  فوٹو : فائل

، مقامی حکومتوں کا نظام بنا کر خواتین کو نمائندگی دینے سے نچلی سطح پر مسائل حل ہوسکتے ہیں، خواتین کو سرکاری طور پر مفت قانونی معاونت فراہم کرنا ہوگی: ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں شرکاء کا اظہار خیال ۔ فوٹو : فائل

ملک کی نصف سے زائد آبادی خواتین پر مشتمل ہے جو ہر شعبے میں اپنے قابلیت کا لوہا منوا رہی ہیں اور ترقی کی منازل طے کر رہی ہیں۔

خواتین کے لیے یہ سفر آسان نہیں ہے بلکہ انہیں اس میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ان کے بنیادی انسانی حقوق پامال ہوتے ہیں اور انہیں امتیازی رویوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس ماحول میں خواتین کیلئے سب سے اہم نظام قانون و انصاف ہوتا ہے جو ان کے حقوق و تحفظ یقینی بناتا ہے۔خواتین اپنے حقوق و تحفظ کیلئے آواز بھی اٹھاتی ہیں اور ایک مسلسل جدوجہد کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہیں۔

اس منظر نامے کو دیکھتے ہوئے ’’انصاف کی فراہمی کو بہتر بنانے میں خواتین کا کردار‘‘ کے موضوع پر ’’ایکسپریس فورم‘‘ میںایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے شرکت کی۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

منیزہ ہاشمی

(چیئرپرسن لاہور آرٹس کونسل )

قانون کے حوالے سے آگاہی دینے اور مختلف معاشرتی مسائل پر بات کرنے کے لئے میڈیا کا جس طرح استعمال ہونا چاہیے تھا نہیں کیا گیا۔ یہ ایک انتہائی اہم اور موثر ذریعہ ہے جس سے لوگوں کی تربیت اور کردار سازی کی جاسکتی ہے۔

اس سے مسائل کو اجاگر کرکے حل کی جانب بڑھا جاسکتا ہے۔ کسی بھی قانون کی تشہیر کے لیے ڈرامہ بنایا جاسکتا ہے، پروگرامز کیے جاسکتے ہیں اور ایک باقاعدہ مہم کے ذریعے لوگوں کی ذہن سازی کی جاسکتی ہے۔

اس پر کچھ کام ہوا بھی ہے مگر مسائل کو دیکھتے ہوئے ہمیں یہ کام بار بار کرنا ہے ،ہم نے اپنی آنے والی نسلوں کو بھی تیار کرنا ہے تاکہ مسائل کا دیرپا حل کیا جائے اور معاشرے میں خرابیوں کو پیدا ہونے سے روکا جاسکے۔ انصاف کی بات کریں تو انصاف دینے اور لینے والے دونوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ کیا کر رہے ہیں، ان کی کیا ذمہ داری ہے، کیا حقوق ہیں اور انہیں کس طرح تحفظ دینا اور حاصل کرنا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ معاشرے میں بھی آگاہی ہونی چاہیے تاکہ لوگ ایک دوسرے کے سہولت کار بنیں اور قانون کی حکمرانی اور انصاف کا بول بالا کرنے میں اپنا موثر اور مثبت کردار ادا کریں۔

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہم اپنے حق کے لیے آواز اٹھاتے ہوئے گھبرا تے ہیں۔ ہم ایف آئی آر درج کروانے سے بچنے کیلئے صلح یا خاموشی کو زیادہ بہتر سمجھتے ہیں۔ عام آدمی یا عورت تو دور خود مجھے بھی معلوم نہیں کہ قوانین کیا ہیں، میں خود بھی ایف آئی آر، تھانے، کچہری جیسے معاملات سے گھبراتی ہوں۔ ہمارا المیہ ہے کہ بیشتر خواتین کو تو اپنے حوالے سے قوانین کے بارے میں درست علم نہیں ہے اور نہ ہی انہیں اپنے حقوق کا پتہ ہے۔ یہ مسائل میں اضافے کی ایک بڑی وجہ ہے۔

اگر خواتین کو آگاہی ہو، نظام قانون و انصاف میں رکاوٹیں دور کی جائیں تو بیشتر مسائل خود بخود ہی حل ہوجائیں گے۔ خواتین کو خو د کو مضبوط کرنا ہے، اپنے حقوق اور قانون سازی کے بارے میں سمجھنا ہے ، ہمیں اپنے حق کیلئے آواز اٹھانی ہے اور قانون و انصاف کے حصول میں بالکل بھی گھبرانہ نہیں ہے۔ ہمیں پراعتماد ہو کر آگے بڑھنا ہوگا۔ بدقسمتی سے 75 برسوں میں ہم بہتر نظام نہیں بنا سکے، ہمارے تمام ادارے ہر گزرتے دن کے ساتھ خراب ہوتے گئے، ہمیں اداروں کو مضبوط بنانا ہوگا تاکہ جو بھی حکومت آئے وہ عوامی مفاد میں کام کرے، اس حوالے سے تمام سٹیک ہولڈرز کو مل کر کام کرنا ہوگا۔

خاور ممتاز

( سابق سربراہ قومی کمیشن برائے حقوق نسواں)

ملک میں 75 فیصد لیگل فریم ورک موجود ہے مگر عملدرآمد صرف 20 فیصد ہے جو افسوسناک ہے۔ قوانین کے حوالے سے لوگوں کو آگاہی دینی چاہیے۔ میرے نزدیک قانون نافذ اور انصاف فراہم کرنے والے اداروں کو بھی آگاہی دینے کی ضرورت ہے کیونکہ عملدرآمد انہوں نے کرنا ہے اوران کے رویے اس میں کافی اہم ہوتے ہیں۔ ہمارے پورے نظام انصاف میں بہتری کی بہت گنجائش موجود ہے۔ اب لوگوں کو بھی ماضی کی نسبت زیادہ آگاہی ملی ہے، ان کے رویوں میں قدرے تبدیلی آئی ہے۔ اب کیسز کی رپورٹنگ میں اضافہ ہو اہے۔ پہلے لوگ رپورٹ کرتے ہوئے گھبراتے تھے مگر اب زیادتی کے کیسز بھی رپورٹ ہوتے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ انہیں انصاف کیلئے کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔معاشرے میں ایک بڑا مسئلہ سوچ کا ہے۔

مرد سمجھتا ہے کہ وہ طاقتور ہے، مسائل اسی طاقت کی سوچ کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ ہمیں لوگوں کے رویے تبدیل کرنا ہونگے، اس کے لیے ہمیں ،مرد و عورت دونوں کو ہی آگاہی اور تربیت دینے کی ضرورت ہے۔ میرے نزدیک خواتین کے مسائل کے حل اور انصاف کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے مقامی حکومتوں کے نظام کا ہونا لازمی ہے۔ اس میں خواتین کی شمولیت یقینی بنائی جائے، جب اس نظام میں خواتین کی نمائندگی33 فیصد تھی تب حالات بہتر تھے، نظام کے تسلسل سے مسائل خودبخود حل ہوجاتے ہیں مگر ہمارے ہاں نظام روک دیا جاتا ہے جو باعث افسوس ہے۔

ہمیں سیاسی قائدین کو یہ سمجھانا چاہیے کہ ایسے اقدامات جن سے عوام الناس کو فائدہ ہو رہا ہو وہ چلتے رہنے دیں، حکومتیں بدلنے سے ان پر اثر نہیں ہونا چاہیے۔ حکومت کی سوچ تو اپنے لوگوں کی بہتری ہوتی ہے لہٰذا جو عوامی بہتری کے اقدامات ہیں انہیں جاری رکھا جائے۔ یہاں عالم یہ ہے کہ منصوبے روک دیے جاتے ہیں، بجٹ نہیں دیا جاتا، وسائل کی کمی سے لوگوں کی دلچسپی کم ہوجاتی ہے اور ماضی کی ساری محنت پر پانی پھر جاتا ہے۔

2016میں زیادتی کے قانون میں ترامیم کی گئیں، گزشتہ 10 برسوں میں صرف 4 مجرموں کو سزائیں ہوئی ہیں جس سے خوفناک صورتحال کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، مرد و خواتین کیس کرتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ انصاف کے نظام میں خواتین کی تعداد بہت کم ہے، لوئر جوڈیشری میں خواتین کی تعداد15 سے 18 فیصد ہے لہٰذا خواتین کی شمولیت بڑھانے کے حوالے سے جوڈیشل اکیڈمی کو کام کرنا چاہیے۔

غیرت کے نام پر قتل کی روک تھام کیلئے 40 کے قریب ادارے موجود ہیں مگر اسے روکا نہیں جاسکا، آج بھی فیصلے جرگہ میں ہورہے ہیں جو غیر قانونی ہے، ہمیں لوگوں کی ذہن سازی اور سوچ کی تبدیلی پر توجہ دینا ہوگی۔ سال 2020ء میں 26 ہزار 104 کیسز رپورٹ ہوئے جن میں 13 ہزار اغواء، 4 ہزار زیادتی کے کیسز جبکہ دیگر میں قتل، جائیداد کے جھگڑے و دیگر شامل ہیں۔ اغواء کی بے شمار وجوہات ہوسکتی ہیں۔

ان اعداد و شمار کی روشنی میں حالات کی سنگینی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ خواتین کو درپیش مسائل بہت زیادہ اور سنگین ہیں، ان پر اب بات بھی ہورہی ہے اور کچھ کام بھی ہوا ہے مگر کم ہے، بڑے پیمانے پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں جزا و سزا کا نظام یقینی بنانے اور نظام انصاف کو بہتر کرنے کے لیے قانون پر عملدرآمد یقینی بنانا ہوگا، اس کے ساتھ ساتھ لوگوں کو مفت قانونی مدد بھی فراہم کی جائے۔

ہمیں سمجھنا چاہیے کہ یکدم معاملات بہتر نہیں ہوسکتے، قانون کی حکمرانی، عملدرآمد، نظام انصاف میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے اور لوگوں کی ذہن سازی کرنے سے معاملات بہتر ہونگے، جس میں وقت لگے گا، لیکن یہ کام مسلسل کرنا ہے اور درست سمت میں کرنا ہے۔ اگر ہم نے ایسا کر لیا تو خواتین کے مسائل سمیت معاشرے کے دیگر بڑے، چھوٹے چیلنجزکا خاتمہ بھی ہوجائے گا۔

عاصمہ کرن

(نمائندہ سول سوسائٹی )

ہمارا ادارہ گزشتہ 48 بر س سے عالمی سطح پر خواتین کو بااختیار بنانے کیلئے کام کر رہا ہے۔ ہم پاکستان میں صنفی مساوات، انصاف اور خواتین کی سیاسی شمولیت پر خصوصی طور پر کام کر رہے ہیں۔ ہم نے نہ صرف خواتین کو ان کے حقوق کے بارے میں آگاہی دی ہے بلکہ انہیں بطور سیاسی امیدوار بھی تیار کیا تاکہ وہ ملکی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔ قانون کی حکمرانی کے حوالے سے بات کریں تو ہمارے ہاں انصاف تک رسائی میں خواتین کی شمولیت انتہائی کم ہے۔

انہیں انصاف کی رسائی کے میکنزم کے بارے میں آگاہی بھی نہیں ہے۔انہیں نہیں معلوم کہ انصاف کیسے حاصل کرنا ہے، کیس کیسے کرنا ہے، انصاف کے حصول میں آنے والی رکاوٹوں کو کیسے عبور کرنا ہے؟ اس حوالے سے ہمارا ادارہ  انہیں آگاہی فراہم کر رہا ہے۔ ہم نے دیہی علاقوں میںموجودخو اتین کو آگاہی دی کہ قانون و انصاف کا نظام کس طرح کام کرتا ہے، آیف آئی آر کیسے درج کرائی جائے اور اس کا اندراج کیوں ضروری ہے؟ ہم نے یہ بھی بتایا کہ کس طرح تھانے میں جانا ہے اور سارا عمل کیسے مکمل کرنا ہے۔ اس بارے میں آئینی و قانونی حقوق کیا ہیں۔

آگاہی کے اس عمل میں ہمارے ساتھ پولیس اور تفتیشی افسران نے خصوصی تعاون کیا اورلیکچرز دیے۔ اس میں ایک اہم بات یہ ہے کہ ہم نے یہ آگاہی سیشنز صرف خواتین کے ساتھ ہی نہیں کیے بلکہ ان میں مرد حضرات بھی شامل تھے، ہم نے اسے مخلوط بنایا تاکہ دونوں ہی اس بارے میں آگاہ ہوں اور خواتین کو سہولت مل سکے۔ ہم نے اپنے اس آگاہی پروگرام میں معاشرے کے دیگر سٹیک ہولڈرز کو بھی شامل کیاتاکہ مل کر آگے بڑھا جاسکے۔

جس طرح تعلیم اور صحت بنیادی انسانی حقوق ہیں، اسی طرح قانون تک رسائی اور قانونی معاونت بھی بنیادی حق ہے۔ہم نے جن علاقوں میں کام کیا وہاں آگاہی کے ساتھ قانونی معاونت بھی فراہم کی جس کے اچھے نتائج سامنے آئے۔ ہم نے نوٹ کیا کہ ان علاقوں میں ٹریننگ دینے کے بعد واضح فرق نظر آیا، بے شمار خواتین کو خود مردوں نے سپورٹ کیا کہ وہ آگے بڑھیں اور شکایت درج کرائیں۔

ہمارے معاشرے میں عدم مساوات ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ملک میں صنفی برابری پر نہ صرف بات کرنی چاہیے بلکہ اس پر بڑے پیمانے پر کام بھی کرناچاہیے۔ ہمارے نظام انصاف میں بھی صنفی برابری کی ضرورت ہے تاکہ خواتین فیئر ٹرائل، روایتی قانونی نظام سمیت دیگر حوالے سے اپنا کردار ادا کرسکیں اور قانونی نظام بہتر ہو، فیصلے جرگے میں نہ ہو۔ ہمارا ملک بہت بڑا ہے اورآبادی بھی زیادہ ہے۔ خواتین کے مسائل میں بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے جبکہ انصاف کے حصول کیلئے درکار وسائل میں کمی آئی ہے،اس حوالے سے حکومت کو کام کرنا ہے۔ ہم نے عالمی ادارے کے طور پر مختلف مادلز متعارف کروائے ہیں۔

ان کے مطابق نظام بنانا اور پالیسی سازی حکومت کا کام ہے۔ ہم نے ارباب اختیار کو لوگوں کے تجربات بتائے، ان کی روشنی میں آراء دی، ہم نے یہ بھی بتایا کہ قانون سازی میں مردوں کی بات زیادہ ہوتی ہے،اس میں صنفی برابری کو فروغ دیا جائے۔ میرے نزدیک حکومت کو خواتین کے مسائل کے حل اور قانون و انصاف کی فراہمی کیلئے سمت درست کرنا ہوگی لہٰذا تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے جامع حکمت عملی بنا کر آگے بڑھا جائے۔

شاہنواز خان

(نمائندہ سول سوسائٹی )

نظام قانون و انصاف کے حوالے سے بے شمار مسائل ہیں جن میں سے ایک بڑا مسئلہ قانون پر عملدرآمد نہ ہونا ہے۔ خوش قسمتی سے یہاں قوانین بن تو جاتے ہیں مگر افسوس کہ ان سے خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوتا۔ ہمارا المیہ ہے کہ برسوں گزرنے کے بعد بھی درجنوں قوانین کے رولز آف بزنس نہیں بن سکے۔ تحفظ نسواں ایکٹ 2016ء اور وویمن اتھارٹی ایکٹ 2017ء، اچھے قوانین ہیں مگر ان کے رولز نہیں بن سکے۔

جن کی وجہ سے ان قوانین سے فائدہ نہیں اٹھایا جا سکا۔ایک اور افسوسناک بات یہ ہے کہ پنجاب کمیشن آن سٹیٹس آف وویمن کی گزشتہ 4 برس سے کوئی چیئرپرسن نہیں ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے گزشتہ دور حکومت میں ملتان میں انسداد ہراسگی سینٹرز برائے خواتین بنا مگر اب حالت یہ ہے کہ ان کے پاس تنخواہ دینے اور معاملات چلانے کے پیسے نہیں ہیں۔ یہ ادارہ بہترین کام کر رہا تھا۔

اس کمیشن کی ہیلپ لائن 1043 نے خواتین کی رہنمائی کی، انہیں ہر ممکن تعاون فراہم کیا۔ افسوس ہے کہ ملتان کے علاوہ کہیں یہ سینٹر نہیں بن سکا، اب عدالتی حکم پر اس حوالے سے کام کیا جائے گا مگر تاحال ادارے کے پاس بجٹ نہیں ہے۔ اس کی وجہ حکومتوں کے بدلنے سے سیاسی جماعتوں کی ذاتی سیاست ہے۔ ایک اور توجہ طلب بات یہ ہے کہ مفت قانونی معاونت کی فراہمی کے ایکٹ کے رولز آف بزنس بن چکے ، عمارت لے لی گئی، ہر کام مکمل ہوگیا مگر محکمہ قانون نے اس پر اعتراض لگا دیا ، یہ معاملہ تاحال التوا کا شکار ہے جو باعث افسوس ہے۔

2021ء میں خاتون محتسب کو وراثت کے معاملا ت کا اختیار دے دیا، وہ سیاسی بھرتی تھی لہٰذا حکومت بدلتے ہی کام سیاست کی نذر ہوگیا، اسی طرح سیف سٹیز اتھارٹی کی وویمن سیفٹی ایپ بھی بہترین ہے، مگر سیف سٹیز میں بھی سیاست کے مسائل رہے، اب مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہے لہٰذا امید ہے کہ وہ اپنے شروع کردہ منصوبوں پر لازمی کام کرکے گی، ہمیں عوامی فلاح و بہبود کے کاموں کو سیاست سے دور رکھنا چاہیے، اس سے فائدہ ہوگا۔ خواتین کے مسائل سنگین ہیں جنہیں حل کرنے کیلئے حکومت کی ’وِل‘  چاہیے، امید ہے حکومت مسائل کے حل پر توجہ دے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔