نئے اور پرانے حکم راں مل کر ہمیں ’بے وقوف‘ بنا رہے ہیں!

رضوان طاہر مبین  اتوار 26 جون 2022
سب اپنی ناکامیوں کا ملبہ پچھلی حکومت پر ڈالتے ہیں، فوٹو: فائل

سب اپنی ناکامیوں کا ملبہ پچھلی حکومت پر ڈالتے ہیں، فوٹو: فائل

 کراچی: ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ حالیہ تاریخ میں جنرل پرویز مشرف کے بعد آنے والی ہر حکومت نے نہایت زور شور سے مہنگائی کی اور پھر اس کا سارا ملبہ پچھلے حکم رانوں پر ڈالا۔ پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور پھر پاکستان تحریک انصاف کے بعد سال سوا سال کی مدت لیے آنے والی درجن بھر جماعتوں کی حالیہ ”پی ڈی ایم“ سرکار۔۔۔!

ملک کی تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کے راہ نما جب حکومت میں نہیں ہوتے، تو کیسے بلند و بانگ دعوے کرتے ہیں اور جب حکومت میں آتے ہیں، تو معذرت خواہانہ انداز میں ’مجبوریوں‘ کا رونا رونے لگتے ہیں، بلکہ اب تو باقاعدہ ہنستے ہوئے ایندھن کے مزید مہنگا ہونے کا مزدہ سناتے ہیں، گویا عوام کو ’جگاتے‘ ہوں کہ اب بہت ہوا، جاگ جاﺅ۔۔۔!

اسے آپ المیہ ہی کہہ سکتے ہیں کہ نام نہاد جمہوریت اور ”عوامی حاکمیت“ کی حامل مسلسل تیسری اسمبلی کی ’چیرہ دستیوں‘ کے باب میں ہمیں ایک ”سزا یافتہ آمر“ کی مثال دینی پڑ رہی ہے۔۔۔ یہ سوال ملک کے ان نام نہاد جمہوری حکمرانوں سے کرنا چاہیے کہ وہ کس طرح عوامی حاکمیت کے نام پر اس ملک کے عوام کو بار بار دھوکا دے رہے ہیں۔۔۔ اور جب دو جماعتوں کی باریوں سے تنگ آئے ہوئے عوام نے جب تیسری سیاسی جماعت سے امید لگائی، تو اس نے بھی برسراقتدار آکر وہ ہاہاکار مچائی کہ الامان الحفیظ۔۔۔ اور جواز یہی دیا کہ دراصل یہ تو سارا گذشتہ 70 سال کا گند ہے، تین چار سال میں کیسے صاف کریں۔۔۔؟

رہے عوام، تو وہ بدترین تماش بینوں کی طرح ”گند“ صاف ہونے کا سارا ناٹک دیکھتے رہے۔۔۔ لیجیے، پھر کوئی اشارہ ہوا، میوزیکل چیئر کا دنگل لگا اور 2018ءمیں سامنے آنے والی ”تبدیلی“ سرکار بھی ’تبدیل‘ کر دی گئی۔۔۔ اب نئے حکم راں یہ ارشاد فرماتے ہیں کہ عمران خان بہت بگاڑ پیدا کر گیا ہے، یہ تو اب قوم کے میسحا بن کر اسے ”ٹھیک“ کر رہے ہیں، تبھی مہنگائی ہو رہی ہے۔۔۔!

یہ کیا تماشا ہے بھئی۔۔۔؟؟؟

اس ملک کے عوام ہیں یا کسی چراہ گاہ میں چَرنے والے بھیڑ بکریوں کا کوئی ریوڑ۔۔۔؟ کس کو بے وقوف بنایا جا رہا ہے اور کب تک بنایا جاتا رہے گا۔۔۔؟ یہاں 75 برسوں میں ہر عوامی تحریک ایک ’سراب‘ نکلی ہے۔۔۔ ہر بار نجات اور انقلاب کے پیچھے اس ملک کے لوگوں کو رسوا کیا گیا۔۔۔ آخری بار عوام نے عدلیہ کی آزادی کے نام پر ایک فوجی حاکم جنرل پرویز مشرف کو اقتدار سے نکال باہر کیا، لیکن کیا آج کے انھی حالات کو دیکھنے کے لیے۔۔۔؟ کیا یہی ”جمہوریت“ ہے۔۔۔؟

ہمیں تو یہی لگتا ہے کہ ہمارے اکثر سیاسی راہ بروں کو جمہوریت صرف اس لیے مرغوب ہے کہ اس میں انھیں اپنے لےی ’مواقع‘ زیادہ ملتے ہیں، باقی ان کی سوچ اور فکر کیا ہے، وہ سب عیاں ہے۔۔۔ یہی الزام تراشی کہ آصف زرداری آئے، تو کہا پھچلی حکومت معیشت میں بڑی خرابیاں کر گئی، پھر نواز شریف آئے تو انھوں نے بھی پچھلی حکومت پر سارا نزلہ گرایا، اس عرصے میں عمران خان دونوں روایتی حکم راں جماعتوں کی نہ جانے کتنے کروڑوں روپے کی یومیہ کرپشن اور ہیرا پھیری ختم کرنے کے دعوے لیے خوب بلند آہنگ آواز میں بولتے رہے، پھر 2018ءمیں وہ جیسے تیسے وزارت عظمیٰ پر تشریف لے آئے، قوم کو ایک بار پھر لگا کہ شاید اب کی بار تو کچھ نہ کچھ بہتری ہو ہی جائے گی۔۔۔!

”مرجاﺅں گا قرض نہیں لوں گا۔۔۔!“ اور ”عوام کے لیے گورنر ہاﺅس کی دیواریں گرا دوں گا۔۔۔ وزیراعظم ہاﺅس یونیورسٹی بنے گا۔۔۔ عوام یوں ہوں گے، ایسے روپیا بچاﺅں گا، سادگی اور بچت کی فلانی مثالیں قائم کر دوں گا۔۔۔“ وغیرہ وغیرہ۔ سب کچھ ان کی حکومت کے پہلے ہی مہینے جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔۔۔

عمران خان نے قوم سے پہلے خطاب میں ”آپ کو گھبرانا نہیں ہے!“ کی چوسنی دی اور پہلے 100 دن کا نام نہاد منصوبہ وعدہ خلافیوں کے لبریز کوڑے دان میں دفن ہو کر رہ گیا۔۔۔ وہی غیر ملکی قرضے، وہی مہنگائی اور معاشی عدم استحکام، اس کے ساتھ حریف سیاست دانوں کے خلاف آتشیں بیانات۔۔۔ پھر یوں ہوا کہ پہلی بار ”تحریک عدم اعتماد“ کے سہارے کسی بھی وزیراعظم کو پروانہ ¿ رخصت تھمایا گیا، لیکن، عوام کا سوال اپنی جگہ پر موجود ہے کہ ملک کے حالات میں کیا فرق پڑا۔۔۔؟ بجلی تو بجلی، جون کی قیامت خیز گرمی میں بھی کراچی میں گھروں میں سوئی گیس کی آنکھ مچولی جاری ہے۔

26 مئی 2022ءکے بعد محض 20 دنوں میں پیٹرول پر 84 روپے بڑھائے جا چکے، اب پیٹرول 233.89 روپے فی لیٹر ہے، جس سے اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں ہوش رُبا اضافہ ہو چکا ہے، بسوں کے عام کرائے دگنے ہو چکے ہیں! پرچون کی دکان سے لے کر بس کے کنڈیکٹروں تک سے یہی جواب ملتا ہے کہ ہم کہاں سے پورا کریں۔۔۔؟ لیکن وہ جس کی جیب سے اپنا خسارہ پورا کر رہے ہیں، وہ تنخواہ دار طبقہ تو دو، دو ملازمتیں کر کے اپنا گزارا نہیں کر پا رہا، کوئی اس کو بھی جواب دے کہ آخر اب وہ کہاں سے پورا کرے۔۔۔؟؟؟ کیا اس دو ہزار روپیے سے، جو وزیراعظم شہباز شریف کی وفاقی حکومت کی جانب سے ایک سنگین مذاق کی صورت میں شروع کیا گیا ہے کہ 40 ہزار روپے سے کم آمدن والوں کو دیا جائے گا۔۔۔؟ اس سے تو بہ مشکل 20 کلو آٹا ہی میسر آسکتا ہے۔۔۔!

سوال اب یہ ہے کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے جواز میں آخر کب تک یہ الزام تراشیوں کا کھیل جاری رہے گا؟ آخر کون ہے، جو اس سارے عرصے میں ملک پر حکم راں رہا ہے، یہی سب لوگ ہیں۔۔۔! پھر یقیناً انھی میں سے کوئی تو اس معاشی بدحالی کا مجرم بھی ہے، کوئی کم ہے تو کوئی زیادہ۔۔۔! لیکن یہاں نہ کم والا اپنی ذمہ قبول کرنے کے لیے تیار ہے اور نہ زیادہ والا اپناجرم۔۔۔! ہم بہ حیثیت ایک عام شہری کے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ایک کھلی عدالت میں تینوں سیاسی حکم رانوں کو کٹہرے میں لایا جائے، تاکہ ملک کے خراب حالات کے ذمہ داروں کا تعین کیا جاسکے۔

اس کے ساتھ اگر ریاست کے مزید فریقین کو بھی جواب دہ کرنا ہو، تو اس سے بھی بالکل گریز نہ کیا جائے، لیکن اب یہ تماشا بند ہونا چاہیے کہ ہر آنے والی حکومت یہ راگ الاپتی رہے کہ وہ تو اچھی ہے، ساری خرابیاں تو دراصل پِچھلوں کی کری دھری ہیں۔۔۔! عوام اب یہ دنگل دیکھ دیکھ کر تنگ آچکے۔۔۔ انگریزوں سے آزادی کو 75 سال بیت گئے، لیکن اس ملک کا نازک دور ہے، کہ ختم ہونے میں نہیں آرہا۔ اقتدار اور عہدوں پر رہنے والوں کے دن پھِر جاتے ہیں، بار بار وہی وڈیرے اور جاگیردار خاندان حکومتوں کا حصہ بنتے ہیں اور ہمیں بتاتے ہیں کہ پچھلی حکومت نے بڑی خرابیاں پیدا کی ہیں، پھر اگلی حکومت آکر یہی ناٹک کرتی ہے کہ ہم نہیں دراصل ہم سے پہلے والوں نے بہت بربادی کی ہے۔۔۔!

بس اب یہ تماشا ختم ہونا چاہیے، جمہوریت کا مطلب ’سیاست دانوں کی لوٹا ماری‘ یا ’سیاسی آمریت‘ نہیں ہونا چاہیے، عام اور متوسط طبقے کے باشعور افراد اسمبلیوں اور حکومتوں میں ہونے چاہئیں، جو اگر بیمار پڑیں، تو اسی ملک میں علاج کراتے ہوں، جن کے اہل خانہ اور سارے اثاثے اسی ملک میں ہو، جن کا جینا مرنا اس ملک کے ساتھ ہو، اس ملک کے عوام کے درمیان ہو۔۔۔! وہ اپنے جرائم معاف کرانے، مزید سرکاری ٹھیکے کھانے، اپنی صنعتوں اور کارخانوں کے لیے مراعات اور چھوٹ لینے، ٹیکس چوری اور قرضے معاف کرنے اقتدار میں نہ آتے ہوں۔ سب سے بڑھ کر مختلف سیاسی جماعتوں کے نام پر جذباتی ہونے والے عوام کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے اپنے راہ نماﺅں کا تھوڑا سا تو احتساب کریں، ان کے کھوکھلے نعروں اور موروثی و خاندانی مفادات کے لیے خود کو ایندھن نہ بناتے رہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔