امریکا میں پاکستانی سفیر کی خودنوشت (دوسری قسط)

ذوالفقار احمد چیمہ  بدھ 29 جون 2022
zulfiqarcheema55@gmail.com

[email protected]

جنرل مشرف کے کارگل آپریشن کے وقت بھی اعزاز چوہدری صاحب امریکا میں تعینات تھے، جہاں اُس وقت ریاض کھوکھر صاحب پاکستان کے سفیر تھے۔

اعزاز صاحب لکھتے ہیں کہ مئی 1999میں کارگل سیکٹر میں پاکستان اور بھارت کے درمیان تصادم کی خبریں آنا شروع ہوگئیں، جون میں سیکٹر زیادہ گرم ہوگیا تو اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے سفیرِ پاکستان کو بلاکر کہا کہ ’’پاکستان لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کر رہا ہے‘‘ مصنف کے بقول ایک بار جب ریاض کھوکھر صاحب انڈر سیکریٹری آف اسٹیٹ کارل اِنڈر فرتھ سے ملنے گئے تو میں ان کے ہمراہ تھا۔ سفیرِ پاکستان نے پاکستانی پوزیشن کی وضاحت کرنا چاہی تو انڈر فرتھ نے کہا ’’ریاض! ہم جانتے ہیں کہ کارگل پر تمہارے لڑکے ہیں۔

اگر تم لوگ انھیں واپس نہیں بلاتے تو پھر نتائج کے لیے تیار ہو جاؤ‘‘ سابق وزیرِ خارجہ سرتاج عزیز صاحب نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ’’ جنرل مشرف نے اپنے جوانوں کو کارگل کی چوٹیوں پر پہنچاتو دیا مگر ان کے راشن اور ایمونیشن کی سپلائی کا کوئی بندوبست نہ کیا اور نہ ہی Air Cover  فراہم کیا۔دراصل مشرف کو بھارت کی جانب سے اتنے سخت ردعمل کی توقع نہیں تھی، مگر بھارت نے بھاری توپخانے اور بمبار طیاروں کی مدد سے کھوئی ہوئی چوٹیاں اور پوسٹیں واپس لے لیں اور ہمیںبھاری جانی نقصان پہنچایا‘‘ مصنف کے بقول جب جنرل مشرف کو اپنے آپریشن کی ناکامی کا احساس ہوا تو اسے جنگ بندی کے لیےmediators  کی ضرورت پڑی۔ چنانچہ اس نے وزیراعظم نوازشریف سے درخواست کی۔

نوازشریف نے اس آپریشن کے بارے میں اپنے تمام تر تحفظات کے باوجود 2جولائی کو صدر کلنٹن کو فون کیا اور فوراً ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ چنانچہ 4جولائی کو وزیراعظم نوازشریف اور کلنٹن کے درمیان غیرمعمولی ملاقات ہوئی، بہرحال وزیراعظم کی امریکی صدر سے ملاقات کے بعد کسی بڑی جنگ کا خطرہ ٹل گیا، جس پرجنرل مشرف اور اس کے ساتھیوں نے اطمینان کا سانس لیا۔

مصنف نے لکھا ہے کہ جنرل مشرف نے اپنی کتاب میں دعویٰ کیا ہے کہ ’’جب 5فروری 1999 کو وزیراعظم نوازشریف نے نیلم وادی کے کیل سیکٹر کا دورہ کیا تھا تو میں نے انھیں کارگل کے بارے میں بریفنگ دی تھی‘‘ سرتاج عزیز صاحب نے جو اس بریفنگ میں موجود تھے، اپنی کتاب میں اس دعوے کو غلط قرار دیا ہے۔‘‘ اعزاز چوہدری صاحب کارگل آپریشن سے ہونے والے نقصانات کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’اس سے ہمیں ناقابلِ تلافی نقصان ہوا، بھارت نے عالمی برادری کے سامنے پاکستان کو ایک غیرذمے دار ریاست کے طور پر پیش کرنے کے لیے بے تحاشہ پراپیگنڈا کیا، جس سے پاکستان کا امیج بری طرح مسخ ہوا۔

پاکستان پہلی بار عالمی تنہائی (isolation) کا شکار ہوگیا، اس سے پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری بیک چینل مذاکرات اور لاہور پِیس پروسس کا خاتمہ ہوگیا، اس سے Nuclear Deterrance  میں کمی واقع ہوئی اور conventional war کے خطرات میں اضافہ ہوا، یہی وجہ ہے کہ اس کے بعد بھارت نے پاکستان کے خلاف سرجیکل اسٹرائیکس اور کولڈ اسٹارٹ وغیرہ جیسی جنگی حکمتِ عملی ایجاد کرلیں۔‘‘

راقم کو بہت سے ملکوں میں پاکستانی سفارتکاروں اور سفیر صاحبان سے ملنے کا اتفاق ہوا ہے، سب یہی بتاتے ہیں کہ اب ہر جگہ ہمارے سفارتخانے پاکستانی آموں اور کنوؤں کی نمائش لگاتے ہیں اور باسمتی چاول کے پیکٹ تحفے کے طور پر تقسیم کرتے ہیں، اعزاز صاحب بھی ایسا کرتے رہے ہیں۔

انھوں نے میزبان ملک کی اہم شخصیات اورOpinion makers سے بھی رابطے استوا ر کیے اور وہاں رہنے والے پاکستانی باشندوں (Diaspora)کو بھی متحرک کیا جو قابلِ تحسین ہے۔ مگر کسی سفیر کی کامیابی کا اصل پیمانہ یہ ہے کہ اُس نے پاکستان کی برآمدات میں کتنا اضافہ کیا، میزبان ملک سے وہ کتنی investment  لانے میں کامیاب ہوا۔ اُس کے قائل کرنے سے میزبان ملک سے کتنے سیاحتی گروپ پاکستان آئے اور وہاں کے فیصلہ ساز اداروں میں اُس نے کس حد تک رسائی حاصل کی۔

اگر آج بھی ہم عرب ممالک میں روانی سے عربی بولنے والا، ایران میں فارسی، چین میں چینی اور روس میں روسی بولنے والا سفیر نہیں بھیجتے تو یہ ہماری وزارتِ خارجہ اور فارن آفس کی بہت بڑی ناکامی ہے۔ یاد رہے کہ چند سال پیشتربھارت نے ایک عربی زبان پر مکمل دسترس رکھنے والا سفیر سعودی عرب میں تعینات کیا تھاجس کی وجہ سے اسے پورے شاہی خاندان اور بااثر افراد تک رسائی حاصل ہوگئی اور اپنے تعلقات کے زور پر وہ سعودی عرب سے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری بھارت لے جانے کامیاب ہوگیا۔ کتاب میں کچھ ایسی باتیں بھی (شاید سہواً) درج ہوگئی ہیں جو حقائق کے منافی ہیں۔

ایک جگہ درج ہے کہ بے نظیر بھٹو کی ہلاکت کے بعد الیکشن مئی2008میں ہوئے جب کہ یہ الیکشن فروری میں ہوئے تھے۔ ایک جگہ لکھا ہے کہ جنرل مشرف نے چیف جسٹس افتخار چوہدری کو معطل کردیا مگر دباؤ اتنا بڑھا کہ مشّرف نے چیف جسٹس کو بحال کر دیا۔

حقیقت یہ ہے کہ چیف جسٹس کے خلاف دائر کیا جانے والا ریفرنس وکلاء کے دباؤ پر سپریم جوڈیشنل کونسل کے بجائے سپریم کورٹ کے فل بینچ نے سنا اور سپریم کورٹ نے ہی 20جولائی 2007 کو افتخار محمد چوہدری کو بطور چیف جسٹس بحال کردیا، یہ بحالی جنرل مشرف کے ہاتھوں نہیں ہوئی تھی۔ پھر ایک جگہ لکھا ہے کہ وزیراعظم راجہ پرویزاشرف کو سپریم کورٹ نے ڈسمس کردیا، حقیقت یہ ہے کہ راجہ پرویز اشرف ڈسمس نہیں ہوئے تھے بلکہ انھوں نے اپنی مدت پوری کی اور ان کے بعد نگران وزیراعظم مقرر ہوگئے۔

امید ہے کہ اگلے ایڈیشن میں یہ غلطیاں دور کردی جائیں گی۔ اب آتے ہیں کتاب کے ان مندرجات کی طرف جن پر میرے تحفظات ہیں۔ چودہواں باب کشمیر کے بارے میں ہے۔ کشمیر کے ساتھ پاکستان کے تعلق کو اجاگر کرتے ہوئے اعزاز صاحب لکھتے ہیں ’’کشمیر اور کشمیریوں کے ساتھ ہمارے تاریخی، نسلی، اقتصادی، ثقافتی اور عقیدے کے رشتے ہیں‘‘ پہلے چار رشتے وہ ہیں جو ہمارے بھارت میں رہنے والے تمام باشندوں کے ساتھ ہیں، نہ جانے کیوں مصنف نے سب سے بڑے اور اصل رشتے کا ذکرسب سے آخر میں کیا ہے۔

رشتے کا سوال خود کشمیریوں سے پوچھیں تو وادیٔ کشمیر کی ہر پہاڑی، ہر قریے اور ہر بستی سے ایک ہی جواب آتا ہے ’ پاکستان سے رشتہ کیا لاالٰہَ ا لَاللہ۔ کشمیر کا ذکر ہوگا تو بھارتی استبداد سے آزادی کے لیے ان کی عظیم جدوجہد کا ذکر بھی ہوگا اور کشمیریوں کی بے مثال جدوجہد کا کوئی ذکر اس بوڑھے شیر کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا جو تین دہائیوں تک مقتل میں پوری استقامت کے ساتھ کھڑا رہا، کوئی پاکستانی سفارتکار کشمیر کا ذکر کرے اور سید علی گیلانی کی جرأت، استقامت اور پاکستان کے ساتھ لازوال وابستگی کو فراموش کردے تو یہ میرے لیے دکھ کی بات ہے۔

کئی سابق سفیروں اور سفارتکار دوستوں کا کہنا ہے کہ’’ہمارے سفارتکار کتابیں پاکستانی قارئین کے لیے نہیں، امریکا اور یورپ کے حکام اور وہاں کے تھنک ٹینکس وغیرہ کے لیے لکھتے ہیں۔ مسلم ورلڈ کے باب میں صفحہ نمبر 341 پر اعزاز صاحب لکھتے ہیں کہ ’’ 2011 کی عرب بہار کے بعد سے مصر سیاسی عدمِ اِستحکام کا شکار رہا ۔

جولائی 2013 میں جنرل سیسی نے صدر مرسی کا تختہ الٹ دیا تو وزیراعظم نوازشریف کی حکومت نے اسے منتخب صدر کے خلاف ایک فوجی بغاوت قرار دے کر اس کی مذمت کی اور صدر مرسی کی رہائی کا مطالبہ کیا’’ اعزاز صاحب کے بقول مسلم لیگ کی حکومت کو سیسی کی فوجی بغاوت میں جنرل مشرف کے فوجی اقدام سے مشابہت نظر آئی، اس لیے انھوں نے اس پر سخت موقف اختیار کیا۔ پاکستان عموماً کسی عرب ملک کے اندرونی معاملات میں دخل نہیں دیتا، لیکن یہ پہلا موقع تھا کہ وزیراعظم، اورکابینہ نے مصر میں فوجی بغاوت کی مذمت کی۔

اعزاز صاحب یہ بتانا بھول گئے کہ مصر کے حکمران کئی دہائیوں سے پاکستان کے بارے میں معاندانہ رویہ رکھتے تھے جب کہ نصف صدی میں صدر مرسی، مصر کے پہلے صدر تھے جنھوں نے پاکستان کا دورہ کیا تھا اور وہ پاکستان کے بارے میں بے پناہ محبت اور بھائی چارے کے جذبات رکھتے تھے۔

مصنف نے لکھا ہے کہ میں ان دنوں دفترِ خارجہ کا اسپوکس پرسن (spokes person)  تھا۔ میں نے وزیراعظم کے معاونِ خصوصی طارق فاطمی اور سیکریٹری خارجہ جلیل عباس کو اعتماد میں لے کر وزیراعظم کے لیے ایک سمری تیارکی جس میں لکھا کہ ’’مصر میں جمہوریت اور آمریت کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ اخوان المسلمین اور سیکولر عناصر کا جھگڑا ہے، اس لیے پاکستان کو اس سے الگ رہنا چاہیے‘‘ ۔   (جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔