علم کی موت

ڈاکٹر توصیف احمد خان  بدھ 29 جون 2022
tauceeph@gmail.com

[email protected]

ملک کے اقتصادی بحران نے زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کیا ہے ، مگر علم و آگہی کے ادارے اس بحران کی زد میں زیادہ آگئے ہیں۔ حالیہ بجٹ اور دیگر حکومتی اقدامات سے کتابوں کی اشاعت مشکل ہوگئی ہے۔

کتابوں کے ناشرین کی تنظیم آل پاکستان پیپرز مرچنٹ ایسوسی ایشن ، پاکستان پبلشرز اینڈ بک سیلرز ایسوسی ایشن کے عہدیداران نے انتباہ کیا ہے کہ چھ ماہ میں دو بار کاغذ کی قیمت میں اضافے کی بناء پر یکم اگست سے بازار میں کتب ناپید ہونے کا خطرہ ہے۔ لاہور میں درسی کتابوں کے ناشرین نے یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ ان کے لیے پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی درسی کتب شایع کرنا ممکن نہیں رہا۔

اسی تناظر میں درسی کتابوں کی اشاعت رک رہی ہے اور دیگر موضوعات پر شایع ہونے والے کتابوں پر اتنی لاگت آرہی ہے کہ متوسط طبقے کے لیے کتاب خرید کر پڑھنا نا ممکن ہوجائے گا۔ ان تنظیموں کے عہدیداروں نے صحافیوں کو بتایا کہ چھ ماہ میں دو بار کاغذ کی قیمت بڑھائی گئی ہے ، جس سبب ہم کتابوں کی قیمتوں کا تعین نہیں کر پا رہے ہیں۔ حکومت ہر سال کاغذ کی درآمد پر ڈیوٹی بڑھا رہی ہے۔ اس بناء پر معیاری کاغذ کی کتابیں نہیں چھاپ پا رہے ہیں۔ 200 روپے کی کتاب اب 500 روپے ہونے جا رہی ہے۔ ان کا بیانیہ ہے کہ ملک میں تیار ہونے والا کاغذ غیر معیاری ہوتا ہے۔

اس صورتحال کی بناء پر درسی کتابیں ملک کے معروف اردو بازار میں دستیاب نہیں ہیں۔ نئے تعلیمی سال کے آغاز پر طلبہ کو ان کے نصاب کی کتابیں دستیاب نہیں ہوںگی۔ پیپرز مرچنٹ ایسوسی ایشن کے ایک رہنما نے بتایا کہ کاغذ کی درآمد پر 30فیصد ڈیوٹی نافذ کی گئی ہے اور اینٹی ڈمپنگ ڈیوٹی بڑھا کر 29 فیصد کردی گئی ہے۔ عالمی منڈی میں پٹرول مہنگا ہونے کی وجہ بحری تجارتی جہازوں کے کرائے بڑھ گئے ہیں جس کی بناء پر غیر ملکی کاغذ کی قیمت آسمان سے باتیں کر رہی ہے، ملک میں کاغذ بنانے والے کارخانوں کے لیے خام مال دستیاب نہیں ہے اور نہ ایسے درخت اگائے جاتے ہیں جن سے کاغذ تیار ہوسکے۔

کوڑا اٹھانے والے افغانی بچے کوڑے سے جو کاغذ تلاش کرتے ہیں وہ کارخانوں کے لیے خام مال کا کام دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس وقت ملک میں تیار کردہ کاغذ 90فیصد استعمال ہوتا ہے اور درآمد کیے جانے والے کاغذ کا استعمال 5 فیصد ہے۔ انھوں نے بھارت اور پاکستان کا موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ بھارت میں فوٹو اسٹیٹ کاغذ 500 روپے فی رم اور پاکستان میں 900 روپے میں دستیاب ہے۔

یہ صورتحال تو درسی کتابوں کی ہے۔ دیگر موضوعات پر شایع ہونے والی کتابوں کی صورتحال تو اور زیادہ خراب ہے۔ پیپر مرچنٹ ایسوسی ایشن کا مطالبہ ہے کہ حکومت فوری طور پر درآمدی کاغذ پر ڈیوٹی صفر کرے۔ درسی کتب پر شایع ہونے والی کتابوں پر مختلف نوعیت کی تین تین ڈیوٹیاں عائد کی گئیں۔ اب کتاب کی لاگت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ سنگاپور سے شایع ہونے والی کتاب کی قیمت ملک میں شایع ہونے والی کتاب سے کم ہے۔ حکومت ہر روز بجلی، گیس اور پٹرول کے نرخ بڑھا رہی ہے، ڈالر کی قیمت بڑھنے سے تمام اشیاء کی قیمتیں بڑھی ہیں۔

سینئر استاد اور متعدد کتابوں کے مصنف اور سیکڑوں کتابوں کے مدیر ڈاکٹر جعفر احمد کا کہنا ہے کہ  کتب شایع کرنے والوں نے انھیں بتادیا ہے کہ ڈالر کی قیمت بڑھنے اور کتابوں پر مختلف ٹیکس عائد ہونے کی بناء پر اگلے چھ ماہ کے دوران کسی نئی کتاب کی اشاعت ممکن نہیں ہے۔ ڈاکٹر جعفر اس صورتحال کو برسر اقتدار حکومتوں کی صنعتی اور تجارتی پالیسی سے منسلک کرتے ہیں۔

وہ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ آخر پاکستان کیوں 75 سال بعد بھی کاغذ درآمد کرنے پر مجبور ہے؟ وہ کہتے ہیں کہ متحدہ پاکستان میں سابقہ مشرقی پاکستان میں کرنا فلی پیپر ملز میں کاغذ تیار ہوتا تھا مگر ایک مضبوط لابی نے جو امپورٹرز کے مفادات کی نگہداشت کرتی ہے، اس ملک میں صنعتی ترقی کو روکنے کے لیے پالیسیاں تیار کرائیں۔ یہ درآمد کنندگان بیرونی مال کو درآمد کرکے مارکیٹ بھر دیتے تھے اور آج بھی یہی صورتحال ہے۔ ڈاکٹر جعفر کا کہنا ہے کہ برسر اقتدار حکومتوں نے چین سے درآمدی سامان پر ٹیکس ختم کیے گئے یا معمولی ٹیکس لگائے گئے، یوں چینی مصنوعات کی درآمد میں غیرمعمولی اضافہ ہوا۔ ادھر پاکستان ڈبلیو ٹی او کا رکن ملک ہے، اس وجہ سے بھی درآمدات زیادہ ہونے لگیں،یوں ہمارا سارا انحصار ہر قسم کے درآمدی سامان پر ہوگیا۔

صحافت کے استاد انجنیئر پروفیسر سعید عثمانی کہتے ہیں کہ ملک کی معیشت کبھی اپنے پیروں پر کھڑی نہیں ہوئی۔ پاکستان کے قیام کے بعد سے معیشت کا انحصار بیرونی امداد پر رہا ہے۔ پہلے پیرس میں قائم عالمی مالیاتی اداروں کے کنورسیشم کی امداد سے چلتی رہی، پھر ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی امداد سے معیشت کو استحکام دیا گیا۔ جب بھی ڈالر کی قیمت بڑھی معیشت بحران کا شکار ہوئی جس کا نقصان عام آدمی کو ہوا۔

محققین کہتے ہیں کہ اس ملک کے آغاز ہی سے علم دشمنی شروع ہوئی۔ ملک کے پہلے بجٹ میں جو بانی پاکستان کی حکومت میں پیش کیا گیا تھا، تعلیم کے لیے اس وقت بھی کل بجٹ کا اعشاریہ 2فیصد سے کم رقم مختص ہوئی تھی۔ پھر جو حکومت بھی برسر اقتدار آئی، کسی نے خواندگی میں اضافے اور عام آدمی کو کتاب بینی کی طرف متوجہ کرنے کے لیے کوئی پالیسی نہیں بنائی۔ ہر حکومت نے کتابوں، رسائل اور اخبارات پر مختلف نوعیت کے ٹیکس عائد کیے۔

پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی نئی تعلیمی پالیسی کے مطابق نیشنل بک فاؤنڈیشن قائم کی گئی مگر جنرل ضیاء الحق نے اس فاؤنڈیشن کو بھی محدود کردیا۔ گیلپ پول کے سروے کے مطابق صرف 9فیصد پاکستانی کتابیں پڑھتے ہیں اور ہر 4 میں سے 3 طالب علموں نے نصاب سے ہٹ کر کوئی کتاب نہیں پڑھی۔ بھارت میں یہ تناسب 70فیصد سے زیادہ بتایا جاتا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ بھارت میں کتب بینی کا تناسب برطانیہ کے برابر ہوگیا ہے۔ بھارت میں کیے جانے والے ایک سروے کے مطابق کتب بینی کا شوق اتنا بڑھا ہے کہ 90 فیصد بچے محض شوق (Fun) کے لیے کتابیں پڑھ رہے ہیں۔ یہی رجحان باقی عمر کے لوگوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ بھارت میں اوسطاً ایک نوجوان 300سے 400صفحات پر مشتمل کتاب ایک ہفتہ میں پڑھتا ہے۔ پھر ریڈنگ کلچر کو مستحکم کرنے کے لیے ملک میں بین الاقوامی فیسٹیول ہوتے ہیں جن میں دنیا بھر کے ممالک شرکت کرتے ہیں۔

ایک رپورٹ میں تحریر کیا گیا ہے کہ پاکستان میں 80ء کی دہائی تک کتب بینی کا شوق تھا مگر مذہبی انتہا پسندی بڑھنے اور گھریلو تشدد کی بناء پر یہ شوق تنزلی کا شکار ہوا۔ حکومت نے علم کی اہمیت کو محسوس نہ کیا تو ایک طرف اس صنعت سے وابستہ ہزاروں افراد اپنے روزگار سے محروم ہوںگے تو دوسری طرف معاشرہ میں جہالت کو فروغ ملے گا۔ جہالت کی بناء پر معاشرہ میں مذہبی انتہا پسندی کو تقویت ملتی ہے اور تشدد کے رجحانات بڑھتے ہیں۔

کچھ دانا افراد کو امید ہے کہ موجودہ حکومت عمران خان کی حکومت کی پالیسی کو ترک کرے گی اور ملک میں کاغذ کے کارخانوں کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔ تعلیمی شعبہ کے علاوہ زندگی کے تمام شعبوں میں کتب بینی کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے ایک مؤثر پالیسی ترتیب دی جائے گی۔ حکومت کی اس پالیسی کا مطلب کتب بینی کا خاتمہ اور کتب بینی کے خاتمہ کا مطلب علم کی موت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔