- پنجاب اسمبلی سے چھلانگ لگاکر ملازم کی خودکشی کی کوشش
- 9 مئی کے ذمے دار آج ملکی مفاد پر حملہ کر رہے ہیں، وزیراطلاعات
- کراچی میں تیز بارش کا امکان ختم، سسٹم پنجاب اور کےپی کیطرف منتقل
- ’’کرکٹرز پر کوئی سختی نہیں کی! ڈریسنگ روم میں سونے سے روکا‘‘
- وزیرداخلہ کا غیرموثر، زائد المیعاد شناختی کارڈز پر جاری سمزبند کرنے کا حکم
- راولپنڈی اسلام آباد میں روٹی کی سرکاری قیمت پر نان بائیوں کی مکمل ہڑتال
- اخلاقی زوال
- کراچی میں گھر کے زیر زمین پانی کے ٹینک سے خاتون کی لاش ملی
- سندھ میں گیس کا ایک اور ذخیرہ دریافت
- لنکن ویمنز ٹیم نے ون ڈے کرکٹ میں تاریخ رقم کردی
- ٹیم ڈائریکٹر کے عہدے سے کیوں ہٹایا گیا؟ حفیظ نے لب کشائی کردی
- بشریٰ بی بی کی بنی گالہ سب جیل سے اڈیالہ جیل منتقلی کی درخواست بحال
- کمر درد کے اسباب اور احتیاطی تدابیر
- پھل، قدرت کا فرحت بخش تحفہ
- بابراعظم کی دوبارہ کپتانی؛ حفیظ کو ٹیم میں گروپنگ کا خدشہ ستانے لگا
- پاک نیوزی لینڈ سیریز؛ ٹرافی کی رونمائی کردی گئی
- اپنے دفاع کیلیے جو ضروری ہوا کریں گے ، اسرائیل
- ہر 5 میں سے 1 فرد جگر کی چربی سے متعلقہ بیماری میں مبتلا ہے، تحقیق
- واٹس ایپ نے چیٹ فلٹر نامی نیا فیچر متعارف کرادیا
- خاتون کا 40 دن تک صرف اورنج جوس پر گزارا کرنے کا تجربہ
افغانستان کیساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کیلیے فعال ہیں، روس
دوشنبے: روس کے صدر ولادیمیر پوٹن نے کہا ہے کہ افغانستان میں حالات معمول پر لانے اور نئی حکومت سے وابستہ سیاسی قوتوں کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق روس کے صدر ولادیمیر پوٹن نے تاجکستان کے صدر امام علی رحمان کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ افغانستان میں حالات کو معمول لانے کے لیے فعال طور پر کام کر رہے ہیں۔
صدر پوٹن نے مزید کہا کہ ہم اُن سیاسی قوتوں کے ساتھ بھی تعلقات استوار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو نئی حکومت کے انتہائی قریب ہیں تاہم طالبان حکومت کو افغانستان کے تمام نسلی گروہوں اور طبقات کو کابینہ میں شامل کرنا چاہیئے۔
اس موقع پر تاجکستان کے صدر امام علی رحمان نے کہا کہ امن اور استحکام کے لیے ضروری ہے کہ خطے میں کسی کو کسی سے خطرہ نہ ہو جس کے لیے افغانستان میں حالات معمول پر لانا ضروری ہے۔
خیال رہے کہ 24 مئی کو یوکرین پر حملے کے بعد روسی صدر پوٹن کا یہ پہلا بیرون ملک دورہ ہے۔ افغانستان کے ساتھ 1200 کلومیٹر لمبی سرحد رکھنے والے تاجکستان میں روس کا ایک بڑا فوجی اڈہ بھی ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔