حقوق نسواں اور اسلامی معاشرہ…

روبینہ عامر  اتوار 9 مارچ 2014

ڈیڑھ سو سال سے پہلے آج کے دن ایک ایسا انہونا واقعہ ہوا جس نے یورپی خواتین کی زندگی اور انگریزی سماج میں ان کی حیثیت کے لیے ایک نہ ختم ہونے والی جدوجہد کی بنیاد رکھی۔ 8 مارچ 1857 کی بات ہے جب نیویارک کی ایک گارمنٹس فیکٹری میں کام کرنے والی مزدور خواتین کے ضبط کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ عورت ہونے کی وجہ سے فیکٹری میں جاری استحصال کا شکار یہ خواتین نیویارک کی سڑکوں پر نکل آئیں۔ ان کا مطالبہ تھا کہ کام کرنے والی خواتین کو مساوی حقوق دیے جائیں اور فیکٹریوں میں ان کے کام کے لیے بہتر ماحول فراہم کیا جائے۔ مطالبہ ناجائز نہیں تھا۔ ایک جیسی ذمے داریاں ادا کرنے کے باوجود اجرت انتہائی کم ملتی تھی جب کہ مردوں کی نسبت ان سے دس گھنٹے کام لیا جاتا تھا۔ نیویارک کی سڑکوں پر جاری اس احتجاج کو ریاست نے بری طرح کچل ڈالا۔

51 سال بعد 1908 میں نیویارک میں پھر ایک بار مزدور خواتین اٹھ کھڑی ہوئیں اور صدائے احتجاج بلند کی، لیکن ان کا بھی وہی حشر ہوا جو ان سے پہلے والیوں کا ہوا تھا۔ امریکا کے کارخانوں اور دیگر جگہوں پر کام کرنے والی خواتین کی جدوجہد کا سفر طویل ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ 1910 میں امریکی کانگریسی لیڈر calara zetkia نے مزدور خواتین کی سرپرستی کی اور ان کے حقوق اور مطالبات کی حمایت کرتے ہوئے اقوام متحدہ سے اپیل کی کہ 8 مارچ کو خواتین کے حقوق کا عالمی دن قرار دیا جائے۔ ابتدا میں یہ دن صرف ورکنگ وومن کے لیے مخصوص تھا لیکن وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ اس دن کے معنی اور اس کی اہمیت کا دائرہ وسیع ہوتا گیا۔

امریکی خواتین کے برعکس پاکستانی خواتین پر نظر دوڑائیں تو صورت حال مختلف ہے۔ یہاں کی خواتین کو بیک وقت کئی قسم کے استحصال کا سامنا ہے۔ ان میں سرفہرست جذباتی استحصال، جسمانی استحصال اور معاشرتی استحصال ہیں۔

عموماً فرسودہ سوچ رکھنے والے گھرانوں میں پیدا ہونے کے ساتھ ہی بچیوں کو جذباتی استحصال کا سامنا کرنا پڑتا ہے، بیٹوں کو ان پر فوقیت دی جاتی ہے۔ مڈل کلاس ہو یا لوئر کلاس اچھی تعلیم کے لیے لڑکوں کو ترجیح دی جاتی ہے اور دیہی علاقوں میں تو عموماً لڑکیوں کی تعلیم کو سرے سے فضول سمجھا جاتا ہے، اس پر طرہ یہ کہ ریاستی تعلیمی اداروں کی کمی معاملے کو مزید گمبھیر کر رہی ہے۔

عورت کے کاندھوں پر پورے خاندان کی تربیت اور ان کے صحت کی ذمے داری ہوتی ہے۔ لیکن بیشتر گھرانوں میں بے چاری عورت کو بچپن سے ہی غذائی کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ گھر میں کچھ اچھا پکا ہو اور اگر کم ہے تو گھر کے مردوں کو ملے گا۔ جس کے سر پر سب کو فٹ رکھنے کی ذمے داری ہے وہ ہی ان فٹ۔ پاکستان کے اکثر گھرانوں میں دیکھا گیا ہے کہ چہار دیواری کے اندر ہل کے پانی بھی پی لینا مردانگی کی شان کے خلاف سمجھا جاتا ہے اور پھر یہ معاملہ اگر بہو کا ہو تو زندگی بھر رلتی آئی عورت ساس کے روپ میں ہی ناگن بن جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آئے روز خواتین پر گھریلو تشدد کے واقعات سامنے آتے ہیں اور ہر سال رپورٹیڈ کیسز کی تعداد ہزاروں میں ہے۔

معاشرتی استحصال کا شکار ہونے والی خواتین کی فہرست میں پاکستان کسی سے پیچھے نہیں۔ خصوصاً دیہی علاقوں میں رہنے والی خواتین کے ساتھ معاشرتی سلوک انتہائی نامناسب ہے۔ صحت کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں تو جہالت کی وجہ سے آج بھی ہر سال سیکڑوں مائیں دوران زچگی موت کا شکار ہو رہی ہیں۔ شہری خواتین کے لیے ریاستی سہولیات ناکافی ہیں۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں سے قابلیت کی ڈگری لے کر نکلنے والی عورتوں کے لیے بہتر روزگار کا حصول ایک تکلیف دہ عمل۔ ورکنگ پلیسز پر عورتوں کو ہراساں کیے جانے کے واقعات عام ہیں۔ اسی طرح کے مسائل کے حل کے لیے دنیا کے دوسرے ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی ہر سال 8 مارچ کو حقوق نسواں کا دن منایا گیا، جس پر مختلف سیمینارز اور ورکشاپس کا انعقاد کیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ آگہی واک، سیمینارز، ورکشاپس منعقد کرکے کیا خواتین کو معاشرے میں عملی طور پر باعزت مقام دلایا جاسکا ہے؟ کیا پاکستان کی یہ تقریباً نصف آبادی فعال ہوپائی؟ ہرگز نہیں۔

ڈیڑھ صدی پہلے یورپ میں خواتین کا نشاۃ ثانیہ ہوا، لیکن اسلام نے 14 سو سال پہلے عورت کو مرد کے برابر حقوق دلا کر مردوں کے دلوں میں ان کی وقعت بڑھا دی۔ نبی آخر الزماں ﷺ نے فرمایا ’’علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے‘‘۔ مرد اور عورت کی تشخیص کے بغیر۔عورت اور مرد کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیا۔ نیکی اور گناہوں میں ثواب اور پکڑ کے لیے بھی کوئی فرق نہیں رکھا۔ جائیداد میں عورت کے لیے حصہ مقرر کیا۔ شریک زندگی کے انتخاب کے لیے عورت اور مرد کو یکساں حقوق دیے۔ والدین کو زبردستی سے منع کیا گیا۔ ازدواجی حقوق میں بھی فرق نہیں رکھا۔ عورت ماں کی حیثیت میں ہو،بہن کی، بیوی کی یا پھر ساس کی حیثیت میں، ہر لحاظ سے ان کے حقوق کے تحفظ کی تشریح کردی گئی۔ قرآنی آیات، احادیث، سنت اور صحابہ کرام کی حیات میں عورت کے حقوق اور ان کے مقام کی جیسی مثالیں ملتی ہیں، دنیا کے کسی مذہب میں نہیں۔

لیکن  آج مسئلہ نام نہاد ثقافت کا ہے۔ علم اور شعور کی کمی نے اچھے اور برے کی تمیز تو بھلا ہی دی ہے، اسلامی معاشرے کے افراد اسلام کی حقیقی تعلیمات سے بھی دور ہوتے جا رہے ہیں۔ مسلم معاشرے کی خواتین کے حقوق ہیں لیکن کسی نہ کسی بہانے ان کے حقوق چھینے جارہے ہیں۔ اس ضمن میں صرف خواتین ہی ہیں جو چھینے گئے حقوق کو بازیاب کروا سکتی ہیں۔ انھیںاٹھنا ہوگا۔ مسلم خواتین کے لیے مقرر کردہ حدوں میں رہتے ہوئے آواز اٹھانا ہوگی۔ وہ مغربی معاشرے جنھوں نے حقوق نہیں دیے پر خواتین نے اپنا آپ، ہمت اور بہادری سے منوا لیا تو مسلم معاشرے کی خواتین کیوں نہیں کرسکتیں۔ وہ حقوق جو قرآن اور سنت نے انھیں دیے، اسے حاصل کرنے کے لیے شعور بہت ضروری ہے۔ یہ بات بعید از قیاس نہیں کہ پاکستان کی تقریباً نصف آبادی پر مشتمل یہ خواتین ملک کی تاریخ بدل سکتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔