’’ہندوستان جا کر پاکستانی سماج کے بارے میں زیادہ سمجھ سکی!‘‘ ملیحہ خان

رضوان طاہر مبین  اتوار 3 جولائی 2022
 کبھی نہیں سوچا تھا کہ مستقلاً ہندوستان میں ہی ٹھیر جاؤں گی ۔ فوٹو : فائل

کبھی نہیں سوچا تھا کہ مستقلاً ہندوستان میں ہی ٹھیر جاؤں گی ۔ فوٹو : فائل

اس ’قصّے‘ کو اگر ہم بہت سارے ’افسانوی اتفاقات‘ سے مزیّن حقیقت قرار دیں، تو قطعی بے جا نہ ہوگا کہ کیسے پاکستان سے تعلق رکھنے والی ایک طالبہ اپنے پُرکھوں کی نگری ہندوستان پڑھنے جاتی ہے، اور پھر کچھ مزید ’اتفاقات‘ کے نتیجے میں وہیں کی ہو رہ جاتی ہے۔۔۔۔ دل چسپ بات یہ بھی ہے کہ یہ سارے ’اتفاقات‘ ایسے دو ممالک (پاکستان اور ہندوستان) میں سفر کرتے ہیں، جو زیادہ تر اپنے ’اختلافات‘ ہی کی وجہ سے جانے جاتے ہیں!

بات ہندوستان اور پاکستان کی ہو اور ہمارے کان کھڑے نہ ہوں، ایسے تو حالات نہیں! سو ہم چوکنّا ہوئے، اطلاع بس یہی تھی کہ ہندوستان سے ’کوئی‘ محقق طالبہ کراچی تشریف فرما ہیں۔۔۔ اس ’خبر‘ کا ذریعہ کراچی کی ایک فُسوں خیز سے کتب خانے ’بیدل لائبیری‘ (شرف آباد، کراچی) کے خوش مزاج اور ملن سار ’لائبریرین‘ محمد زبیر بھائی بنے اور اس انٹرویو کے لیے پُل کا کردار بھی انھوں نے ہی ادا کیا۔ یوں پھر ملیحہ خان کی اس منفرد اور دل چسپ ’کہانی‘ کے سارے ’اتفاقات‘ تہ در تہ ہمارے سامنے کھلتے چلے گئے۔

یہ ماجرا 2015ء 2016ء میں سماجی رابطوں کی معروف ویب سائٹ ’فیس بک‘ کی ایک پوسٹ سے شروع ہوتا ہے، جو ’اشوکا یونیورسٹی‘ سونی پت (ہریانہ) کے تعلیمی وظائف کے پروگرام ’’ینگ انڈیا فیلو شپ‘‘ سے متعلق تھی۔ یہ ’پوسٹ‘ ملیحہ خان کے ایک دوست نے چسپاں کی تھی۔ انھیں ’’لبرل آرٹس اینڈ ہیومنٹیز‘‘ کے ایک سال کا یہ ڈپلوما کافی پرکشش معلوم ہوا۔ وہ کہتی ہیں کہ اس میں بعضے کورس تو بہت دل چسپ اور کافی منفرد تھے، جیسے شیکسپیئر اِن دی ورلڈ، اور ’میکنگ سینس آف انڈین الیکشن‘ وغیرہ۔ ظاہر ہے، ایسے کورس ابھی تک یہاں کسی جامعہ میں موجود نہیں تھے۔

ملیحہ خان کہتی ہیں کہ اس میں یہ واضح نہیں تھا کہ یہ پیش کش صرف ہندوستان کے لیے ہے، یا آیا اس میں پاکستان سے بھی کوئی جا سکتا ہے؟ انھوں نے اس کی تفصیل جانے بغیر ہی اس کے لیے درخواست جمع کرا دی، کچھ وقت بعد وہاں سے جواب آگیا کہ آپ کا انٹرویو ہوگا۔ ہندوستان کے طلبہ کے لیے اس اسکالر شپ کا دوسرا انٹرویو روبرو ہوتا ہے، لیکن ان کا دوسرا انٹرویو بھی بہ ذریعہ ٹیلی فون لیا گیا۔

ان کا پہلا انٹرویو اشوکا یونیورسٹی کے ایک ’المنائی‘ (سابق طالب علم) نے لیا، اور مضمون نویسی وغیرہ کے کچھ ٹیسٹ لیے۔ اگلا انٹرویو بھی بہ ذریعہ فون اس پروگرام کے بانی کنور راج سنہا نے لیا، جو کسی بھی طرح کے دباؤ اور جھجھک سے بہت پرے رہا، انھوں نے پاکستان میں ان کی زندگی، مصروفیات اور اس پروگرام سے واقفیت وغیرہ کے حوالے سے گفتگو کی۔ ملیحہ کو یہ ہندوستان جانے کے بعد پتا چلا کہ ’فیس بک‘ پر جن صاحب کی وہ پوسٹ تھی، انھیں روس میں ایک کانفرنس میں یہاں کے ایک سابق طالب علم کے توسط سے اس پروگرام کا علم ہوا تھا۔

ملیحہ خان اس حوالے سے بتاتی ہیں کہ ’انھوں نے مجھے 100 فی صد اسکالر شپ دی، جب کہ اس پروگرام میں وہ ہاسٹل وغیرہ فراہم کرتے ہیں، کھانے کی کوئی رعایت نہیں ملتی، وہ وہاں ویسے ہی مہنگا ہوتا ہے، سو میں نے بتایا کہ میری ساری بچت تو اخراجات کی نذر ہو جائے گی، اس لیے کھانے کے حوالے سے کچھ رعایت دیجیے، تو انھوں نے مجھے مکمل فوڈ اسکالر شپ دے دی کہ آپ اور کسی چیز کے لیے پریشان نہ ہوئیے کہ آپ پہلی پاکستانی ہیں، جس نے اس پروگرام کے لیے درخواست دی ہے، تو بس اب آپ آجائیے۔‘

اس کے بعد ملیحہ خان نے ہندوستانی ویزے کی درخواست دی، لوگوں نے کافی حوصلہ شکنی کی کہ ہندوستان کا ویزا تو ملتا نہیں۔ دو تین مہینے تک انتظار کرتی رہی۔ کوئی ایسی سیڑھی یا شخصیت نہیں تھی کہ جن کے اثرورسوخ سے ہندوستان کا ویزا مل جائے۔ ’آئی بی اے‘ کے ’ڈین‘ ڈاکٹر عشرت حسین کو اسکالر شپ کا بتایا اور کہا کہ ’انڈین ہائی کمیشن‘ میں اگر کوئی رابطہ ہے، تو انھیں میرے لیے ضرور کہہ دیجیے، شاید بعد میں اس سے کوئی راستہ نکلا، لیکن ہندوستان روانگی سے ایک ہفتے پہلے تک ویزے کا کچھ پتا نہیں تھا۔

ملیحہ کہتی ہیں کہ ہندوستان کے ’اسٹوڈنٹ ویزے‘ کے لیے ہندوستانی ہائی کمیشن کی ویب سائٹ پر ’اپلائی‘ کر کے، پھر کوریئر کرتے ہیں۔ میں روز ہائی کمیشن فون کرتی، ان کا نمبر ہی نہیں ملتا تھا، بس ایک ہفتے پہلے کسی طرح فون لگ گیا۔

انھیں بتایا کہ ایسا سلسلہ ہے، تو پتا چلا کہ ہندوستان کی ’وزارت داخلہ‘ میں معاملہ اٹکا ہوا ہے، اگر وہ اپنی یونیورسٹی سے کہہ دیں کہ وہ وہاں بتا دیں کہ انھیں ہم نے بلایا ہے، تو کام ہو جائے گا۔ یونیورسٹی بھی اس سے بے خبر تھی، کیوں کہ اس سے پہلے وہاں کوئی پاکستانی پڑھنے نہیں گیا تھا۔ موقع پر ویزا نہیں ملا تو فلائٹ منسوخ کرا دی۔ تب کراچی سے براہ راست دلّی اور کراچی سے براستہ لاہور دلی تک کی پروازیں چلتی تھی۔ میری لاہور والی پرواز تھی، جو ہر پیر کے پیر چلتی تھی، جب کہ اگلی پیر ہی سے کلاسیں شروع ہونی تھیں، پھر جب ویزا مل گیا، تو کراچی سے براستہ شارجہ دلّی پہنچی اور یوں ’اشوکا یونیورسٹی‘ میں تعلیم کا سلسلہ شروع ہوا، جو میری زندگی بدل دینے والا سال تھا۔‘

ملیحہ بتاتی ہیں کہ یہ ایک سال کا ’ہوم ریزڈینشل‘ پروگرام تھا، جہاں دلی جیسے نزدیکی شہر کے طلبہ کو بھی رہائش کی سہولت دی جاتی تھی۔ انھیں ڈیڑھ سال کا ویزا ملا، یوں اس پروگرام کے بعد بھی ان کے پاس ویزے کے چھے ماہ باقی تھے۔ اس دوران ان کا ’یو کے‘ کی ایک جامعہ میں داخلہ ہوا، لیکن ’اسکالر شپ‘ نہ ملنے کے باعث انھوں نے وہاں کا ارادہ ترک کر دیا۔ پھر ہریانہ کی اِسی اشوکا یونیورسٹی میں اسسٹنٹ ٹیچر ہوگئیں۔ عید قریب تھی، دو ہفتے کے لیے کراچی آگئیں، یہاں ان کی اپنے شوہر ارمان دہلوی سے پہلی ملاقات ہوئی۔جو کہ گائیک اور موسیقار ہیں۔

’یہ تو بالکل افسانوں اور فلموں کی سی کہانی ہے!‘ ہم یہ کہے بنا رہ نہ سکے۔

بات یہیں پر بس نہ تھی، ملیحہ بتاتی ہیں کہ ’ارمان دہلوی معروف ہندوستانی لیکھک سعدیہ دہلوی کے صاحب زادے ہیں، (جو کہ یوسف دہلوی کی پوتی تھیں، جنھوں نے دلی سے مشہور زمانہ رسالہ ’شمع‘ جاری کیا تھا) جب کہ ارمان دہلوی کے والد یوپی سے تعلق رکھنے والے ایک پاکستانی خاندان سے تعلق رکھتے تھے، وہ بھی عید پر اپنے دو بڑے بھائیوں سے ملنے کراچی آئے ہوئے تھے۔ یہ ملاقات 2017ء میں ہوئی، جس کے بعد وہ واپس دلی چلی گئیں، اس کے بعد دونوں کے گھر والوں کی ملاقاتیں ہوئیں اور یوں 15مارچ 2018 ء کو کراچی میں ان کی شادی ہونا قرار پائی۔

اپنے سسرال کے حوالے سے ملیحہ بتاتی ہیں کہ ’’ان کی ساس سعدیہ دہلوی کی دلی اور کراچی دونوں جگہ رہائش رہتی تھی، وہ دلی نہیں چھوڑنا چاہتی تھیں، جب کہ ان کے پاکستانی شوہر کو وہاں کی شہریت نہیں مل سکتی تھی، کیوں کہ قوانین کچھ ایسے ہیں کہ غیر ہندوستانی لڑکی اگر بیاہ کر آئے، تو اسے شہریت مل جائے گی، لیکن اگر لڑکی کسی غیر ہندوستانی لڑکے سے شادی کرے، تو اسے شہریت نہیں ملتی۔ جیسے ہمارے سماج میں لڑکی شادی کے بعد لڑکے کے گھر جاتی ہے، بالکل ویسے ہی ہے۔ پاکستان کا مجھے اتنا زیادہ نہیں پتا، لیکن شاید یہاں بھی یہی قانون ہے۔‘‘

ملیحہ نے نئی دلی کی ’ساؤتھ ایشین یونیورسٹی‘ (ایس اے یو) میں ’عمرانیات‘ (Sociology) میں ماسٹرز میں داخلے کے لیے درخواست جمع کرائی، جو دراصل ایک بین الاقوامی یونی ورسٹی ہے، جہاں ’سارک‘ (SAARC) ممالک (پاکستان، بنگلا دیش، افغانستان، نیپال، بھوٹان، سری لنکا اور مالدیپ) کے طلبہ پڑھنے آتے ہیں۔ ان کا وہاں داخلہ بھی ہوگیا اور ان کی دلّی کے مستقل رہائشی ارمان دہلوی سے شادی بھی ہوگئی، لیکن ملیحہ نے ’حکمت‘ سے کام لیتے ہوئے ’سارک‘ ممالک کی ’ایس اے یو یونیورسٹی‘ کی طالبہ ہونے کی بنیاد پر ’اسٹوڈنٹ ویزا‘ کی درخواست ڈالی، جب کہ وہ ایک ہندوستانی شہری سے شادی کرنے کی بنیاد پر بھی ویزے کی خواست گار ہو سکتی تھیں۔

دراصل بطور پاکستانی ان کے لیے یہ ’سارک‘ ویزا زیادہ باسہولت تھا، کیوں کہ یہ کسی شہر تک محدود ہونے کے بہ جائے ہندوستان بھر تک وسیع تھا۔ وہاں کی سرکار کو ’ایس اے یونیورسٹی‘ میں تو تمام ’سارک‘ ممالک کے طلبہ کے لیے ویزے دینا ہوتا ہے، یہ ایک بین الاقوامی یونیورسٹی ہے، اس لیے وہ یہاں پاکستان سے تعلق رکھنے والے طلبہ کے لیے کوئی الگ سے پابندی نہیں لگا سکتے تھے۔ 2020ء میں ماسٹرز پورا ہوا۔ اس دوران ہندوستان کے مختلف شہروں میں جانا ہوا، لیکن بزرگوں کے وطن ’بہار‘ نہ جا سکیں کہ پھر ان کی ساس سعدیہ دہلوی علیل تھیں۔

ملیحہ خان سے جب وہاں اور یہاں کے ماحول وغیرہ کے مختلف ہونے کا ذکر چھِڑا، تو انھوں نے بتایا کہ بہت سے پاکستانی وہاں جاتے ہیں، تو کسی نہ کسی سبب فوراً پہچانے جاتے ہیں، لیکن میرے ساتھ کبھی ایسا نہیں ہوا۔ میں شاید وہاں کے ماحول میں ڈھل گئی۔

ہم نے کہا ’شاید آپ پر اپنے آبائی تعلق کا اثر ہو؟‘ تو انھوں نے کہا نہ جانے کیا وجہ ہے، لیکن جب وہاں یہ بتایا جائے کہ میں کراچی سے آئی ہوں، تب وہ کہتے ہیں کہ اچھا تبھی آپ بولتے ہوئے فلاں لفظ زیادہ استعمال کرتی ہیں اور تبھی آپ کی اردو اتنی اچھی ہے۔ وہاں اور یہاں کا موازنہ کرتے ہوئے ملیحہ خان کہتی ہیں کہ جب دلی ائیرپورٹ سے باہر نکلی تو مجھے لگا کہ واپس پاکستان ہی آگئی ہوں، دیکھنے میں بالکل وہیں جیسا لگا۔

’’وہاں کیا دیکھ کر لگتا ہے کہ آپ پاکستان میں نہیں؟‘‘ ہم نے براہ راست دونوں دیسوں کے درمیان فرق کی کھوج کرنا چاہی، تو ملیحہ خان نے بتایا کہ ’کافی چیزیں تو ایک جیسی ہی ہیں۔ واضح طور پر جو فرق نظر آتا ہے، وہ وہاں ’ہندی‘ اور یہاں اردو لکھا ہوا ہونا ہے، اور وہاں عورتیں عوامی مقامات پر زیادہ دکھائی دیں گی، پولیس، ٹریفک پولیس وغیرہ اور دیگر محکموں میں بھی، وہ بھی اسی ’مردانہ‘ وردی میں ملبوس۔‘

’دلی و لاہور‘ اور ’بمبئی وکراچی‘ میں مماثلت کی باتوں سے اتفاق کرتے ہوئے ملیحہ کہتی ہیں کہ انھوں نے بھی یہی محسوس کیا، اگرچہ بمبئی کراچی کی بہتر شکل ہے، لیکن دلی میں بھی کبھی گاڑی میں گزرتے ہوئے اچانک سے کسی منظر سے ایک دم کراچی کا احساس ہوتا ہے۔ کوئی موڑ، کوئی پُل وغیرہ ایسا ہوتا ہے، کیوں کہ تعمیرات تو دونوں جگہ ایک جیسی ہی ہیں، جب کہ امریکا یا کسی اور ملک جائیے، تو وہاں سب چیزیں یک سر مختلف ملتی ہیں، لیکن ہندوستان پاکستان میں ایسا بالکل نہیں۔

ہندوستان میں تعلیمی تجربہ ساجھا کرتے ہوئے ملیحہ خان نے کہا کہ ’’وہاں جاکر بہت کچھ جانا اور پاکستان کے بارے میں زیادہ سیکھنے کو ملا، کیوں کہ جب آپ باہر سے چیزیں دیکھتے ہیں، تو فاصلے سے وہ ایک الگ ہی طرح سے دکھائی دیتی ہیں۔‘‘

’’جیسے۔۔۔؟‘‘ ہم نے مزید جاننا چاہا تو وہ بولیں:

’اشوکا یونیورسٹی‘ میں ایک کورس ’میکنگ سینس آف انڈین الیکشن‘ میں ہم ذات پات کے بارے میں پڑھ رہے تھے۔ میں نے اس بارے میں اتنا نہیں سوچا تھا، جیسے برتن الگ رکھنا، تو میں نے سوچا کہ میرے گھر میں صفائی والے کا گلاس یا ماسی کے برتن بھی تو الگ ہیں، تو یہاں بھی ایسی چیزیں ہیں جو اُسی طرح ہی ہیں۔

’’وہ ذات کا نہیں طبقاتی فرق ہے؟‘‘ ہم نے گفتگو میں ایک ٹکڑا لگایا، تو انھوں نے کہا، لیکن یہ دراصل آیا ’ذات‘ ہی سے ہے، جیسے ’برہمن‘ نچلی ذات والوں کا برتن استعمال نہیں کرتے۔ پاکستان میں اس چیز کو مانتے نہیں، لیکن یہاں بھی لوگوں میں وہ تقسیم موجود ہے، پھر ’سید‘ کا تصور اور اپنی ذات سے باہر شادی نہ ہونے کا معاملہ بھی موجود ہے، جب کہ سب مسلمان ہی ہیں اور بھی ہمارے مختلف تہواروں میں بہت سی چیزیں انھی کی جیسی ہیں۔

’’کیا یہ سوچا تھا وہیں کی ہوجائیں گی؟‘‘ ہمارے اس سوال کا جواب نفی میں دیتے ہوئے ملیحہ نے کہا ’’نہیں۔۔۔ میں تو صرف ایک سال کے لیے گئی تھی، لیکن اس ایک سال میں میری زندگی بالکل بدل گئی، کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ میں ہندوستان میں رہوں گی، جو بھی سنتا ہے حیران ہوتا تھا کہ میں انڈیا میں کیسے رہ رہی ہوں۔

’’آپ والی اسکالرشپ پر کوئی اور پاکستانی وہاں آیا۔۔۔؟‘‘ ہم نے اشوکا یونیورسٹی کے ’’ینگ انڈیا فیلو شپ‘‘ پروگرام کے حوالے سے دریافت کرنا چاہا، تو وہ بولیں کہ ’’میں نے بہت کوشش کی، ابھی تک تو ایسا نہیں ہو سکا ہے، بس اس سال پاکستان سے بہت سے طلبہ نے فارم جمع کرایا ہے، دیکھیے ہوتا ہے یا نہیں۔‘‘

بچپن سے مصنف بننے کا شوق تھا
ملیحہ خان کا تعلق کراچی کے ایک مہاجر گھرانے سے ہے، جب کہ آبائی تعلق ہندوستانی صوبے بہار سے ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ ان کے والد یہاں ’سول سرونٹ ‘ رہے۔ اہل خانہ اب بھی کراچی ہی میں رہتے ہیں۔ وہ پہلے سینٹ پیٹرکس اسکول میں زیر تعلیم رہیں اور پھر شاہ ولایت اسکول (گلبرگ) سے ’او لیول‘ مکمل کیا۔ اس کے بعد ایک سال ’یوتھ ایکسچینج اسٹڈی‘ ’یس (YES) پروگرام‘ کے تحت امریکا چلی گئیں، وہاں امریکن ہائی اسکول میں ایک سال زیر تعلیم رہیںِ۔ پھر کراچی واپس آکر سینٹ پیٹرکس سے ’اے لیول‘ کیا اور پھر ’بی بی اے‘ کے مراحل ’آئی بی اے‘ سے طے کیے۔ وہ کہتی ہیں کہ انھوں نے ایک سال پروڈکشن ہائوس میں مارکیٹنگ کے حوالے سے کام کیا، لیکن دل چسپی ہمیشہ سے سماجی علوم (سوشل سائنسز) میں تھی۔ لمز (LUMS) میں بھی داخلہ مل گیا، لیکن یہ معاشی استطاعت سے کافی پَرے تھا، اس لیے وہاں نہیں گئیں، پھر تعلیمی وظیفے پر ’اشوکا یونیورسٹی‘ آگئیں۔

ملیحہ خان کہتی ہیں کہ انھوں نے باقاعدہ صحافت تو نہیں پڑھی، لیکن وہ بچپن سے لکھتی آرہی ہیں، ان کی کہانیاں انگریزی اخبار ’ڈان‘ کے میگزین ’ینگ ورلڈ‘ میں شایع ہوتی تھیں۔ انھیں مصنف بننے اور لکھنے کا بہت شوق تھا۔ پھر ہندوستان جانے کے بعد ان کی مصروفیات آڑھے آئیں، تو کافی عرصے کچھ نہیں لکھ سکیں۔ ماسٹرز کے بعد دوبارہ لکھنے کی طرف متوجہ ہوئیں۔ کہتی ہیں کہ عمرانیات (Sociology) کا مضمون بھی اسی لیے چُنا تھا کہ زیادہ بہتر طریقے سے اپنے سماجی اور ثقافتی موضوعات پر لکھ سکوں۔

معاملہ ہندوستانی شہریت کا
ہندوستان اور پاکستان کے درمیان آمدورفت کا ذکر ہو تو لامحالہ ’ویزے‘ کی سہولتوں کی بات کی جاتی ہے اور جب یہاں سے کوئی وہاں مستقل رہائش اختیار کرلے، تو لازمی طور پر وہاں کی ’شہریت‘ کا سوال بھی سامنے آتا ہے۔ ہم نے بھی ملیحہ خان سے اس حوالے سے استفسار کیا۔ انھوں نے بتایا کہ پاکستان کے اقلیتی مذہب کے لوگ وہاں شہریت کے لیے امیدوار ہو سکتے ہیں، کوئی بھی مسلمان مرد ایسا نہیں کر سکتا، لیکن وہ پاکستانی مسلمان عورت، جس کی کسی ہندوستانی شہری سے شادی ہو، وہ ہندوستانی شہریت حاصل کر سکتی ہے، لیکن اس کا پورا ایک طریقہ کار ہے۔ اگر ایسی ہندوستانی خاتون، جو پاکستانی مرد سے شادی کرے، ہندوستانی شہریت ترک کر دے اور بعد میں شوہر کی وفات، علاحدگی یا طلاق وغیرہ کی صورت میں واپس اہل خانہ کے پاس ہندوستان آنا چاہے، تو وہ دوبارہ وہاں شہریت لے سکتی ہے۔ اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں، بس اسٹوڈنٹ ویزے پر جا سکتے ہیں۔

کراچی کے کھانوں اور ہندوستانی ذائقوں کا موازنہ
ملیحہ خان نے یہ انکشاف کر کے ہمیں اچھا خاصا حیران کر دیا کہ انھیں دلی میں رہتے ہوئے کراچی کے کھانوں کی کمی بہت محسوس ہو رہی تھی۔ ہم نے کہا ’’کراچی میں رائج بیش تر پکوان اصلاً ہندوستانی ہی تو ہیں؟‘‘ جس پر ملیحہ کا کہنا تھا کہ ’’یہاں جو ذائقہ اور بنانے کا انداز ہے، وہ مختلف ہے۔ کھانوں کے نام ضرور ایک ہوں گے، لیکن مزہ مختلف ہے۔ بریانی یہاں بھی ہے اور وہاں بھی، لیکن مجھے دلّی میں ابھی تک اچھی بریانی نہیں ملی ہے۔ اسی طرح نہاری وہاں کی زیادہ اچھی ہے۔ مماثلت کے ساتھ جو فرق ہے، وہ وہی سمجھ سکتا ہے، جو دونوں جانب ہو۔ ہم نے کہا ’’یہ پکوان آئے تو سب وہیں سے ہیں؟‘‘ تو انھوں نے کہا کہ یہاں آکر بھی تو ان میں جدت ہوئی ہے۔

ملیحہ نے بتایا کہ ’میری ساس سعدیہ دہلوی کا تعلق ’پنجابی سوداگرانِ دہلی‘ سے تھا، ان کی ایک انگریزی کتاب ’’میموریز اینڈ ریسیپز آف مائی دہلی‘ وہاں کے کھانوں کے حوالے سے ہے۔ اس کتاب میں وہاں کے پکوانوں کی ترکیبیں اور اس سے متعلق یادیں اور باتیں شامل کی گئی ہیں۔ میں نے بھی کراچی کے کھانوں کے بارے میں ایک کتاب لکھنے کا سوچا کہ کراچی کے مختلف کھانوں کے حوالے سے اپنی یادداشتیں اور پھر اس کا یہاں سے موازنے کروں۔ ’سائوتھ ایشیا اسپیک‘ پروگرام میں اس کتاب کے حوالے سے میرے کام کی منظوری ہوگئی ہے۔ اب اس پر کام کر رہی ہوں۔‘

ہم نے اس کتاب کی کراچی میں اشاعت کے حوالے سے پوچھا، تو انھوں نے کہا کہ کوشش ہوگی کہ یہاں بھی کوئی ناشر مل جائے۔

اگرچہ وہ اہل خانے سے ملنے گاہے گاہے کراچی آتی جاتی رہتی ہیں، لیکن اس بار ’کورونا‘ کی بندشوں کے بعد دو سال بعد کراچی آنے کا اتفاق ہوا۔ چوں کہ موضوع کراچی کے کھانے ہیں، تو اس حوالے سے تین ماہ یہاں اسی میں مصروف رہیں۔ کراچی کے مشہور ومعروف بریانی اور نہاری بنانے والوں کے پاس بھی ہو آئیں۔ برنس روڈ کا چکر بھی لگا لیا، حسین آباد کی ’فوڈ اسٹریٹ‘ کا پھیرا بھی لگ گیا اور ایک مسالے بنانے والے مشہور ادارے سے بھی بات کر چکی ہیں۔

اپنے ہی ملک آنے کے لیے ’ویزا‘ لینا پڑتا ہے
ملیحہ خان کو ابھی ہندوستان کی شہریت نہیں ملی، چوں کہ انھوں نے شادی کے بعد بھی وہاں رہنے کے لیے تعلیمی ویزے کو ترجیح دی تھی، تاکہ کسی ایک شہر تک محدود رہنے کی پابندی سے آزاد رہیں، لیکن انھیں اس کا خمیازہ یوں بھگتنا پڑا کہ ان کی ہندوستانی شہریت کے لیے ’اہلیت‘ کے حوالے سے ان کے اُس ویزے پر ہندوستان میں قیام کو شمار نہیں کیا جائے گا۔ چناں چہ 2020ء میں جب ان کا ماسٹرز مکمل ہوا تو تب انھوں نے ’اسپائوز ویزا‘ حاصل کیا تھا۔ یہ طویل ویزا ایسی خواتین کو دیا جاتا ہے، جو کسی ہندوستانی شہری سے شادی کریں، یہ صرف اُس ایک شہر تک کے لیے مخصوص ہوتا ہے، جہاں شوہر کی رہائش ہو۔ اس شہر سے باہر جانا ہو تو اس کے لیے اجازت لینے کا ایک طویل مرحلہ درپیش ہوتا ہے، جس میں کم از کم مہینا بھر لگ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ موجودہ ویزے میں صرف سال میں ایک بار ہی پاکستان آیا جا سکتا ہے۔

یہ امر ہمارے لیے بھی حیرت کا باعث تھا کہ ملیحہ خان کو ہندوستان کی شہریت نہ ملنے کے باوجود ’اپنے ملک‘ آنے کے لیے ویزا حاصل کرنا پڑتا ہے۔ ملیحہ خان نے بتایا کہ یہ ’نوری ویزا‘ (NORI) ’نو آبجیکشن ٹو ریٹرن انڈیا‘ کہلاتا ہے، میں اس کے بنا وہاں سے نکل ہی نہیں سکتی، یا پھر میرے پاس مستقل ہندوستان چھوڑنے کا ’اجازت نامہ‘ ہو، تب ہی ممکن ہے۔

رہی شہریت کی بات، تو ملیحہ خان نے اِس حوالے سے ہمیں بتایا کہ اس کے لیے ہندوستانی قوانین کے تحت انھیں ’اسپائوز ویزے‘ پر سات برس ہندوستان میں رہنا ہوگا، اگرچہ ان کی شادی 2018ء میں ہوگئی اور وہ اس سے بھی پہلے سے ہندوستان میں رہ رہی ہیں، لیکن ان کے قیام کا شمار 2020ء سے کیا جائے گا، کیوں کہ اس سے پہلے وہ ’اسٹوڈنٹ ویزے‘ پر قیام پذیر تھیں۔ اس لیے وہ 2027ء میں سات برس پورے ہونے کے بعد ہی ہندوستانی شہریت کی اہل قرار پائیںگی، اور اس کے آخری ساتویں برس پورے 365 دن مسلسل وہیں رہنا ہوتا ہے، اس کے بعد ہندوستانی شہریت کے حصول کے لیے درخواست قبول کی جاتی ہے۔ جس کے بعد پھر حکام کی صوابدید ہوتی ہے کہ وہ کب شہریت دیں!

ملیحہ خان بتاتی ہیں کہ وہ ہندوستان میں بیاہی گئی بہت سی پاکستانی خواتین سے ملی ہیں، جنھیں 12، 12 سال بعد بھی ہندوستانی شہریت نہیں مل سکی، جب کہ انھیں حالیہ دنوں میں وہاں بیاہی گئی کسی بھی پاکستانی خاتون سے ملاقات کا اتفاق نہیں ہوا۔ وہ کہتی ہیں کہ میں پہلے اسی مسئلے پر ’پی ایچ ڈی‘ کرنا چاہ رہی تھی؟ لیکن اس کام میں کافی دشواریاں ہیں، اس لیے یہ موضوع ترک کر دیا۔

پاکستان ہجرت کرنے والے ’بہاری‘ تحقیق کا موضوع ہیں
ملیحہ خان نے ہندوستان میں اپنے ماسٹرز میں ایک تحقیق بھی کی، ان کے تحقیقی مقالے کا عنوان Biharis and the sense of belonging to pakistan تھا، اس تحقیق میں وہ ’اورنگی ٹائون‘ کراچی کے بہاریوں پر زیادہ مرکوز رہیں، کیوں کہ وہاں ان کے کچھ رشتے دار بھی رہتے تھے۔ اس تحقیق کے ’عملی کام‘ کے سلسلے میں بھی وہ پاکستان آئیں۔ یہ کام ان کے تحقیقی نگراں کو بھی پسند آیا، تو انھوں نے اپریل 2022ء میں شایع ہونے والی اپنی کتاب Neighbourhoods and Neighbourliness in Urban South Asia میں ایک باب کے طور پر اس مقالے کے کچھ حصوں کو شامل کیا ہے۔ ملیحہ خان ماسٹرز کی طرح اپنی ’پی ایچ ڈی‘ کا تحقیقی کام بھی ہجرت کرنے والے بہاریوں پر کرنا چاہتی ہیں، جس میں ان کی خواہش ہے کہ وہ 50 برس سے بنگلا دیش میں کیمپوں میں مقیم ’محصورین مشرقی پاکستان‘ کو بھی شامل کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔