لڑکھڑاتی ہاکی کو مضبوط سہاروں کی تلاش

زبیر نذیر خان  اتوار 3 جولائی 2022
ہاکی سے گہرا تعلق رکھنے والے اس زبوں حالی پر دل گرفتہ ہیں (فوٹو: ایشین ہاکی فیڈریشن)

ہاکی سے گہرا تعلق رکھنے والے اس زبوں حالی پر دل گرفتہ ہیں (فوٹو: ایشین ہاکی فیڈریشن)

ایک دور میں پاکستان کا ہاکی کی دنیا پر راج تھا، ملک نے کئی عظیم کھلاڑی پیدا کیے، پھر وہ دور آیا کہ مسلسل شکستوں اور ناکامیوں نے زوال کی داستاں رقم کردی۔

آج یہ صورتحال ہے کہ قومی کھیل اپنی تاریخ کے بد ترین دور سے گزر رہا ہے، ہاکی سے گہرا تعلق رکھنے والے اس زبوں حالی پر دل گرفتہ ہیں،پاکستان ہاکی فیڈریشن اپنی کوششوں کے باوجود ہاکی میں کھویا ہوا مقام واپس حاصل کرنے ناکام نظر آرہی ہے،وسائل کی کمی بھی آڑے آتی ہے، مسلسل غلطیوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے بھی کھیل کو بری طرح نقصان پہنچ رہا ہے، کھلاڑیوں میں محنت اور لگن کا جذبہ ماند پڑتا جارہا ہے۔

پاکستان ہاکی فیڈریشن کی کاوشوں کو سراہا جانا چاہیے لیکن اصلاحی پہلوؤں کو اجاگر کرنا بھی ضروری ہے،آج بھی لڑکھڑاتی ہاکی کو کسی مضبوط سہارے کی تلاش نظر آتی ہے، پی ایچ ایف نے کھلاڑیوں میں تجربے کے اضافہ کے لیے غیرملکی دوروں کا اہتمام کیا۔

انڈونیشیا کے شہر جکارتہ میں ہونے والے گیارہویں ایشیا کپ ٹورنامنٹ میں پاکستان کی کارکردگی تسلی بخش رہی، گرین شرٹس نے ایونٹ میں بھارت سے میچ برابر کھیلا، انڈونیشیا کو 13 گولز سے قابو کیا،تاہم جاپان سے 3-2 سے ہار گئے،پھر بھارت نے انڈونیشیا کو ہرا کر پاکستان کو ایشیا کپ اور عالمی کپ سے باہر کر دیا، پاکستان نے بنگلا دیش کو ہرا کر ایشیا کپ میں 5 ویں پوزیشن حاصل کی۔

دورہ ہالینڈ میں کلب کی سطح پر ہونے والے میچز کو انٹرنیشنل مقابلے قرار دے کر فیڈریشن نے دنیا بھر میں اپنی سبکی کرائی،اگر جھوٹ کا سہارا لینے کے بجائے سچائی اختیار کی جاتی تو بہتر ہوتا،ایف آئی ایچ کے تحت فائیو اے سائیڈ ہاکی ٹورنامنٹ میں شرکت بھی پاکستان کے لیے موزوں اور سود مند رہی، پاکستان نے بھارت سے مقابلہ 2-2 سے مقابلہ برابر کیا، پی ایچ ایف کی اچھائیوں پر ایک برائی پانی پھیر دیتی ہے۔

ایشیا کپ میچ میں 12کھلاڑیوں کو شامل کرنا پاکستان کی بدنامی کا باعث بنا، پی ایچ ایف کے سیکرٹری اولمپئین آصف باجوہ اسے انسانی غلطی قرار دیتے ہیں، قومی ٹیم کے منیجر خواجہ جنید نے فیڈریشن کی تحقیقاتی کمیٹی کے روبرو پیش ہونے سے قبل ہی ذمہ داری سے استعفی دے دیا،اس سنگین معاملے کے ذمہ داران کا تعین کر کے احتساب ضروری ہے۔

دوسری جانب ہالینڈ سے تعلق رکھنے والے ہیڈکوچ ایکمن کی پاکستان آمد تا دم تحریر معمہ بنی ہوئی ہے،28 جولائی سے انگلینڈ کے شہر برمنگھم میں ہونے والے کامن ویلتھ گیمز کے لیے قومی تربیتی کیمپ میں ہیڈکوچ کا نہ ہونا افسوسناک امر ہے، کھلاڑی معاشی مشکلات کے سبب کھیل پر توجہ نہیں دے پا رہے، پاکستان ٹیم کے نائب کپتان علی شان کا بے روزگار ہونے کی وجہ سے سخت ذہنی دباؤ کے بعد قومی تربیتی کیمپ میں شرکت سے معذوری ظاہر کرنا کسی المیہ سے کم نہیں۔

دوسری جانب چیف آف دی آرمی اسٹاف انٹر کلب ہاکی چیمپئن شپ کا انعقاد قابل تحسین عمل قرار دیا جا سکتا ہے، ضلعی، ڈویڑنل اورصوبائی کے بعد قومی سطح ایونٹ کا انعقاد اچھی کاوش ہے، یہ عمل گراس روٹ سطح پر نئے ٹیلنٹ کو سامنے لانے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے، ملک بھر سے 728 کلبز کی شرکت قومی ہاکی کے زندہ ہونے کی دلیل ہے، عالمی کپ سے قبل سٹی فرنچائز فلیگ شپ ہاکی لیگ کا انعقاد بہت اہمیت کا حامل ہے۔

کراچی، لاہور، اسلام آباد، کوئٹہ، پشاور اور اسلام آباد سے منسوب ان ٹیموں میں مقامی کھلاڑیوں کو کو بین الاقوامی کھلاڑیوں کے ساتھ شرکت کا موقع ملے گا، تاہم یہ امر قابل افسوس ہے کہ پاکستان ہاکی فیڈریشن نے اس اہم ترین لیگ میں عظیم کھلاڑیوں کو مکمل طور ہر نظر انداز کر دیا ہے، کرکٹ کی طرح لیجنڈ پلیئرز کو مینٹور بنایا جانا بہت ضروری ہے لیکن لگتا ہے کہ پی ایچ ایف کی نظر میں اولمپئنز سمیع اللہ خان، حنیف خان، اصلاح الدین جیسے کھلاڑیوں کی کوئی حیثیت نہیں، اگر یہی سلوک جاری رہا تو تو ہاکی کے فروغ کی کاوشوں کو شدید دھچکا لگے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔