معاشی بہتری کے لیے ہنگامی اقدامات کی ضرورت

ڈاکٹر منصور نورانی  پير 4 جولائی 2022
mnoorani08@hotmail.com

[email protected]

موجودہ حکومت کو برسر اقتدار آئے ہوئے تقریباً تین ماہ ہونے کو آئے ہیں اور وہ پہلے دن سے معاشی بحران سے نکلنے کے لیے ہاتھ پاؤں بھی مار رہی ہے۔ اس مقصد سے اس نے اپنی سیاسی ساکھ کی قربانی دیتے ہوئے سخت معاشی فیصلے بھی کیے ہیں لیکن دیکھا جا رہا ہے کہ وہ ابھی تک اس بحران سے نکلنے میں کامیاب نہیں ہو پائی ہے۔

آئی ایم ایف کی شرائط پر من و عن عمل کرنے کے باوجود وہ اس معاہدہ کو عملی شکل دیکر فوری طور پر ایک ارب ڈالر بھی حاصل نہیں کر پائی ہے۔ آئی ایم ایف مسلسل اپنی شرائط بڑھاتا جا رہا ہے اور وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کے مطابق وہ محض ایک ارب ڈالرز کے لیے ہمیں تگنی کا ناچ بھی نچا رہا ہے۔ ایسی صورتحال میں ہمیں کیا کرنا چاہیے یہ ہمارے حکمرانوں کو شاید سمجھ نہیں آرہا ہے۔

فرض کیا جائے کہ IMF تمام شرائط منوا کے بھی اگر ہمیں قرضہ نہیں دیتا تو پھر ہم کیا کریں گے، لہٰذا یہ سوچ کر جوکیا جانا ہے وہ ابھی سے کیوں نہ کر لیا جائے۔ ہم نے اس کے کہنے پر پٹرولیم مصنوعات، گیس اور بجلی کے نرخ بھی بڑھا دیے ہیں ، اپنے عوام پر انکم ٹیکس بھی اس کی مرضی کے مطابق نافذ کر دیا ہے اورکئی صنعتوں پر سپر ٹیکس بھی لگا دیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اس کے حکم پر عمل کرتے ہوئے اب بجٹ بھی پارلیمنٹ سے منظور کروا لیا ہے۔ اس کے باوجود وہ ٹس سے مس نہیں ہو رہا۔ سوال یہ ہے کہ وہ اگر اب بھی معاہدے پر دستخط کے لیے راضی نہیں ہوتا ہے تو پھر ہم کیا کریں گے ۔

ہمیں یہ کام بہت پہلے کردینا چاہیے تھا۔ حالیہ معاشی بحران ہماری تاریخ کا سخت ترین بحران ہے۔ دیوالیہ اور ڈیفالٹ کر جانے کی تلوار ہمارے سروں پر ابھی لٹک رہی ہے۔ تیل اور دیگر مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کے باوجود ہم اس بحران سے نکل نہیں پائے ہیں۔ ایسی خطرناک صورتحال میں اگر ہمیں پھر بھی IMF قرضہ دینے سے انکار کردے تو ہم کہاں کھڑے ہونگے۔ عوام میں تو اس سے زیادہ سختیاں برداشت کرنے کی سکت اب باقی نہیں رہی ہے۔

کیا معاشی ایمرجنسی لگانے کا وقت ابھی نہیں آیا ہے۔ وہ کون سے لمحات ہونگے جب ہم معیشت سدھارنے کے لیے آخری اور انتہائی اقدامات پر مجبور ہونگے۔ ہم زمانے سے سنتے آئے ہیں کہ بلوچستان میں سونا ، چاندی ، تانبے اور لوہے کے بے تحاشہ ذخائر موجود ہیں۔ ریکوڈک کے خزانوں کی بازگشت دو دہائیوں سے سن رہے ہیں۔ بجلی بنانے کے لیے ہم آج بھی بیرونی منڈیوں پر انحصار کررہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے سائنس داں اور سیاست داں اس بارے میں ہمیں اب تک کیوں غلط فہمیوں میں مبتلا کرتے رہے ہیں۔

ہمیں کبھی کہا جاتا ہے کہ زیتون کی کاشت کے کامیاب تجربے کے بعد ہم بہت جلد اپنی ضرورت کی پیداوار حاصل کرسکتے ہیں، کبھی کہا جاتا ہے کہ بھنگ کی کاشت سے بھی ہم بے تحاشہ زر مبادلہ حاصل کرسکتے ہیں۔ اسی طرح ہمیں بلوچستان کے معدنی ذخائر کے بارے میں بھی بہت سی خوش خبریاں سنائی جاتی رہی ہیں ، لیکن اب جب مالی بحران سے نمٹنے کے لیے اِن ذخائر سے استفادہ کرنے کا وقت آتا ہے تو ہمیں اس کے نقصانات گنوائے جانے لگتے ہیں۔

روس سے تیل درآمد کرنے کے بارے میں بھی ہم ابھی تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں کر پائے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ اس کی ترسیل مہنگی پڑے گی اور کوئی کہتا ہے کہ ہماری ریفائنری میں اس تیل کی صفائی ممکن نہیں ہے ، جب کہ بھارت کو نہ ترسیل مہنگی پڑ رہی ہے اور نہ اس کی صفائی سے متعلق ایسے خدشات لاحق ہیں۔ ہماری یہی نالائقی اور نا اہلی نے ہمیں یہ دن دکھائے ہیں۔

ہمارے پالیسی ساز صحیح وقت پر درست فیصلے کر ہی نہیں پاتے۔ جن زرعی اجناس میں ہم اب سے کچھ سال پہلے تک خود کفیل تھے ، ہماری غلط حکمت عملیوں کی وجہ سے آج وہ بھی مہنگے دام درآمد کررہے ہیں۔ گندم اور چینی سستے دام ایکسپورٹ کرکے اب مہنگے دام امپورٹ کرنا کون سی دانشوری ہے۔

موجودہ حکومت سے ہماری التجا اورگزارش ہے کہ سارے ملک میں فوری طور پر معاشی ایمرجنسی نافذ کی جائے۔ جس جس طریقوں سے فارن ایکسچینج بچایا جاسکتا ہے بچایا جائے ، تمام عیاشیوں پر قدغنیں لگادی جائیں۔ سارے پروٹوکول ختم کیے جائیں۔ زرعی اور صنعتی پیداوار میں اضافہ کیا جائے۔ ہم ویسے بھی ایک زرعی ملک تصورکیے جاتے ہیں۔ کسانوں کو گندم اور دیگر زرعی اجناس پیدا کرنے کے لیے تمام مراعات دی جائیں۔جتنی زرخیز زمین بیکار پڑی ہوئی ہے وہ کسانوں میں کئی سالوں کے لیے مفت تقسیم کردی جائے ۔ انھیں کھاد اور ٹریکٹر کی فراہمی ممکن بنائی جائے۔

زیتون اور بھنگ سمیت تمام منافع بخش فصلوں کی فوری کاشت کی جائے۔ بلوچستان کے معدنی ذخائر نکالنے کا بندوبست کیا جائے ۔ ایران سے ملحقہ سرحد پر زعفران کی کاشت کے امکانات سے فائدہ حاصل کیا جائے۔ ساتھ ہی ساتھ ملک کے اندر انڈسٹریز کا جال بچھایا جائے۔ موبائل فونزکی در آمد بند کرکے ملک میں بنائے گئے فونزکو فروغ دیا جائے۔

اسی طرح لگژری کاروں کی درآمد پر مکمل پابندی لگائی جائے۔ نقصان دہ اور خسارے میں چلنے والی صنعتوں کو بند کیا جائے یا انھیں پرایؤیٹائز کردیا جائے۔ ایک حکومت کے ختم ہونے کے بعد اس کے اچھے فیصلوں کو سیاسی مخاصمت کا نشانہ نہ بنایا جائے۔ میثاق معیشت کی ضرورت کو سمجھا جائے اور  سارے اسٹیک ہولڈرز یہ مل کر طے کرلیں کہ حکومت تبدیل ہونے کی صورت میں سابقہ حکومت کے اچھے اور بڑے پروجیکٹ بند نہیں کیے جائیںگے۔

عدالتوں کو بھی اس بارے میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا ، جس طرح سابقہ دور میں نارو وال کے اسپورٹس کمپلیکس اور لاہور کے Spay کو بلا وجہ سیاسی تعصب کا نشانہ بنا کر  بند کر دیا گیا ، اس سے قومی دولت کے نقصانات کا بر وقت اندازہ کر لیا جاتا تو شاید قوم ایک بڑے نقصان سے بچ جاتی۔ ہمیں اپنے رویوں کو بدلنا ہوگا۔ ملک کی  معاشی صورتحال کی بہتری کے لیے سب کو مل بیٹھ کر فیصلہ کرنا ہوگا۔

سیاسی وابستگی سے قطع نظر ملکی اور قومی مفاد کے فیصلے کرنا ہونگے۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے بجائے ، ملک کی معاشی استحکام کے لیے اقدامات اُٹھانے ہونگے۔ ملک کے اندر سیاسی استحکام پیدا کرنا ہوگا۔ معاشی پالیسیوں کا تسلسل ہی معاشی استحکام کا ضامن ہوا کرتا ہے۔ یہ قبل از وقت اکھاڑ پچھاڑ سے سرمایہ دار کبھی بھی یہاں اپنا سرمایہ نہیں لگائے گا۔

ہمارے بعد میں معرض وجود میں آنے والے جن ملکوں کے معاشی استحکام کی باتیں ہم اکثر کرتے رہتے ہیں ، وہاں سیاسی استحکام کی بدولت ہی یہ کامیابی نصیب ہو پائی ہے۔ نجانے ہم کب یہ معمولی سی بات سمجھ پائیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔